دفتر پنجم: حکایت: 170
وصفِ ضعیفِ دِل و سستیِ آن صوفی سایہ پروردہ، مجاہدہ ناکردہ، داغِ عشق ناکشیدہ، وبه سجده شدہ و دست و بوسِ عام و بحرمت نظر کردن، و بانگشت نمودن ایشاں، کہ امروز در زمانہ صوفی اوست، مستِ ایں شدہ، و بوہم بیمار شدہ ہمچو آن معلّم کہ کود کان گفتند کہ رنجوری و بآں وہم کہ من مجاہدم، مرا در این راہ پہلوان می دانند با غازیان بغزا رفتہ، کہ بظاہر نیز هنر بنمایم جہاد را، کہ در جہادِ اکبر مستثنیٰ ام جہادِ اصغر چہ محل دارد۔
اس صوفی کے ضعفِ دل اور سُستی کا ذکر جو (آرام کے) سایہ میں پلا اور جس نے مجاہدہ نہیں کیا تھا۔ عشق کا داغ نہیں اٹھایا تھا اور اسے عام لوگوں کے سجدہ (تعظیمی) کرنے اور ہاتھ چومنے اور عزت کے ساتھ دیکھنے اور (اس کی طرف) انگلیوں سے اشارہ کرنے سے یہ غرور ہو گیا تھا کہ آج زمانے بھر میں، میں ہی صوفی ہوں۔ اس بات سے مست ہو گیا اور (محض وہم سے بیمار ہو گیا جس طرح وہ معلّم بیمار ہو گیا تھا) جس کو لڑکوں نے کہا آپ بیمار ہیں اور اس وہم سے کہ میں مجاہد ہوں۔ مجھے اس راستہ میں لوگ پہلوان سمجھتے ہیں غازیوں کے ساتھ جہاد میں چلا گیا کہ میں ظاہری جہاد بھی کروں۔ کیونکہ جہاد اکبر میں ممتاز ہوں۔ جہاد اصغر کیا وقعت رکھتا ہے۔
1
رفت یک صوفی بلشکر در غزاناگهان آمد قطاریقِ و غا
ترجمہ: ایک صوفی فوج کے ساتھ (شامل ہوا) جہاد میں چلا گیا اچانک جنگ کا شور و غل پیش آ گیا۔
2
ماند صوفی بابُنہ و خیمه و ضعاففارسان راندند تا صفّ مصاف
ترجمہ: صوفی اسباب اور خیمہ اور کمزور لوگوں کے ساتھ (پیچھے) رہ گیا (اور) سوار میدانِ جنگ کی صف کی طرف (گھوڑے اڑاتے) چلے گئے۔
3
مثقلانِ خاک برجا ماندندسَابِقُونَ السَّابِقُونَ در راندند
ترجمہ: بوجھل مٹی والے (سست) لوگ وہیں کے وہیں پڑے رہے۔ آگے بڑھنے والے جو پیش قدم تھے دوڑے چلے گئے۔ اقتباس از آیت ﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ اُولٰئِکَ اَلمُقَرَبُونَ﴾(الواقعہ، آیت نمبر 12) "اور آگے بڑھنے والے آگے بڑھنے والے ہیں۔ وہی لوگ مقرب ہیں"۔
4
جنگها کردہ مظفر آمدندباز گشتہ با غنایم سود مند
ترجمہ: وہ لوگ لڑائیاں لڑ کر فتح مند آئے۔ مالِ غنیمت سے فائدہ اٹھا کر واپس آئے۔
5
ارمغان دادند کای صوفی تو نیزاُو برون انداخت نستد هیچ چیز
ترجمہ: ان لوگوں نے (صوفی کو بھی بطور) تحفہ (کچھ حصہ) دیا کہ (لو) پیر جی! آپ بھی (مالِ غنیمت میں حصہ دار بن جائیے مگر) اس نے (وہ عطیہ) باہر پھینک دیا کچھ نہ لیا۔ (پیر جی یا شاہ جی یا شاہ صاحب خاص صوفیوں کے لیے اعزازی لقب مقرر ہے)
6
پس بگفتندش که خشمینی چرا؟گُفت من محروم ماندم از غزا
ترجمہ: تو انہوں نے کہا (حضرت) آپ ناراض کیوں ہو گے؟ اس نے کہا: (میں ناراض نہیں ہوں، بلکہ اس تحفہ کو قبول کرنے سے معذور ہوں کیونکہ) میں جہاد (میں شامل ہونے) سے محروم رہا (اس لیے اس کا مستحق نہیں ہوں)
7
ز آن تلطُف هیچ صوفی خوش نشدکاو میان غز و خنجر کش نشد
ترجمہ: (غرض) صوفی (صاحب) اس مہربانی سے بالکل خوش نہ ہوئے۔ کیونکہ ان کو جنگ میں خنجر آزمائی کا موقع نہ ملا تھا۔
مطلب: یہ ترجمہ اس تقدیر پر ہے کہ اس شعر کو مولانا کا مقدمہ ٹھہرایا جائے اور ہیچ بمعنی چیزے کا تعلق خوش کے ساتھ ہو۔ لیکن اگر وہ صوفی کے قول کا تتمہ ہو اور ہیچ بمعنی کسی صوفی سے متعلق ہو تو پھر ترجمہ مع ربط یوں ہوگا۔ کہ صوفی نے کہا میں جہاد میں شامل ہونے سے محروم رہا اس لیے اس کا مستحق نہیں ہوں اور آپ کی اس قسم کی مہربانی سے کوئی صوفی جس کو جنگ میں خنجر آزمائی کا موقع نہ ملا ہو خوش نہیں ہوتا۔
8
پس بگفتندش که آوردیم اسیرآن یکی رابهرِ کشتن تو بگیر
ترجمہ: تو انہوں نے کہا ہم قیدی (کافروں کو ساتھ) لائے ہیں ان میں سے ایک کو قتل کرنے کے لیے تم لے لو۔
9
سر ببرّش تا تو هم غازی شویاندکی خوش گشت صوفی دل قوی
ترجمہ: تم اس کا سر کاٹ لو تاکہ غازی بن جاؤ۔ اس سے صوفی کسی قدر خوش (اور) حوصلہ مند ہو گیا۔
10
کآب را گردر وضو صد روشنیستچونکہ آن نبود تیمّم کردنی ست
ترجمہ: کہ اگرچہ وضو میں پانی کے بےانتہا انوار ہیں (لیکن) جب وہ (میسر) نہ ہو (اور وضو کا موقع نہ ملے) تو تیمّم ہی کیا جاتا ہے۔ (جب جنگ میں تلوار چلانے کا موقع نہ ملے تو غازی بننے کے لیے کسی قیدی کی گردن اڑا دینا ہی غنیمت ہے)
11
بُرد آن صوفی اسیرِ بسته رادر پسِ خرگاه تا آرد و غا
ترجمہ: (غرض) صوفی اس بندھے ہوئے قیدی کو خیمہ کے پیچھے لے گیا تاکہ (فرضِ) جہاد ادا کرے۔
12
ماند آنجا دیر صوفی با اسیرقوم گفتند ای عجب چون شد فقیر
ترجمہ: صوفی کو قیدی کے ساتھ وہاں (گئے ہوئے) دیر ہو گئی، لوگوں نے کہا: تعجب ہے اس درویش (صوفی) کو کیا ہو گیا۔ اگر فقیر بمعنی تہیدست ہو تو یوں معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ (یہ صوفی زورِ بازو سے اس قدر) تہیدست کیوں ہو گیا۔ (کہ اب تک ایک قیدی کو بھی قتل نہ کر سکا)
13
کافر بسته دو دست او کشتنیستبسملش را موجبِ تاخیر چیست
ترجمہ: ایک کافر جس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوں مار ڈالنا (بالکل آسان) ہے۔ اس کے ذبح کر ڈالنے میں دیر کرنے کا کیا سبب ہے۔
14
شخص آمد در تفّحص از پی اشدید کافر را به بالای وى اش
ترجمہ: ایک شخص تلاش کے لیے اس کے پیچھے آیا تو دیکھا کہ صوفی بخوبی کافر کے نیچے پڑا ہے۔
15
همچو نر بالاى مادہ آن اسیرخفتہ همچون شیر بالاى فقیر
ترجمہ: (اور) وہ قیدی مادہ کے اوپر نر کی طرح پڑا تھا (اور اس) درویش کے اوپر شیر کی طرح (قابض تھا)
16
دستها بستہ همى خائید اُواز سرِ استیزہ صوفی را گلو
ترجمہ: وہ ہاتھ بندھے ہونے کی حالت میں صوفی کا گلہ کینہ وری سے کاٹ رہا تھا۔
17
گبر مى خائید با دندان گلوشصوفی افتادہ بزیرش رفتہ هوش
ترجمہ: کافر اس کو دانتوں سے کاٹ رہا تھا (اور) صوفی اس کے نیچے بے ہوش پڑا تھا۔
18
دست بسته گبر همچون گربه اىخستہ کردہ حلق او بى حربه
ترجمہ: ہاتھ باندھے کافر نے بلی کی طرح (کسی ہتھیار کے بدون) اس کے حلق کو زخمی کر دیا۔
19
نیم كشتش کردہ با دنداں اسیرریشِ او پر خون ز حلقِ آن فقیر
ترجمہ: قیدی نے دانتوں (کی کاٹ) سے اس کو ادھ موا کر دیا، اس کی ڈاڑھی اس درویش کے (مجروح) حلق سے خون آلودہ (تھی) آگے مولانا ضمناً عبرت دلاتے ہیں:۔
20
همچو تو کز دست نفسِ بستہ دستهمچو آن صوفی زبون گشتیّ و پَست
ترجمہ: تیری طرح جو نفس بستہ دست کے ہاتھ سے اس صوفی کی مانند عاجز و مجبور ہو گیا۔
21
ای شدہ عاجز ز تلّ کیشِ توصد هزاران کوه ها در پیش تو
ترجمہ: ارے تو اپنے مذہب (ہی) کے (ایک) ٹیلے سے عاجز ہو گیا۔ (ابھی تو) لاکھوں پہاڑ تیرے سامنے ہیں۔
22
زین سر پشتہ بمُردی از شکوہ چون روی بر عقبهای همچو کوہ
ترجمہ: تو اتنے سے ٹیلے سے خائف ہو کر مرنے لگا۔ پھر پہاڑ کی سی گھاٹیوں سے کیونکر گزرے گا۔ (اب پھر قصّہ چلتا ہے)۔
23
غازیاں کُشتند کافر را به تیغهم در آن ساعت زحمیت بی دریغ
ترجمہ: غازیوں نے کافر کو اُسی وقت (اس) احتیاط سے کہ (درویش کو کوئی اذیت نہ پہنچے) بےدریغ قتل کر دیا۔ (چونکہ کافر کو درویش پر لیٹے لیٹے قتل کیا ہوگا) اس لیے درویش کو تیغ کی ضرب سے بچانے کی احتیاط ضروری تھی۔
24
بر رخِ صوفی زدند آب و گلابتا بهوش آمد ز بیهوشی و تاب
ترجمہ: اسی وقت صوفی کے چہرے پر گلاب چھڑکا گیا۔ حتیٰ کہ بے ہوشی سے اس کے ہوش و حواس بجا ہوئے۔
25
چون به خویش آمد بدید آن قوم راپس بپرسیدند چون بد ماجرا
ترجمہ: جب ہوش میں آیا تو اس نے ان لوگوں کو (اپنے گرد جمع) دیکھا پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہوا۔
26
اللہ اللہ این چه حال ست ای عزیزاین چنین بیهوش گشتی از چه چیز
ترجمہ: اللہ اللہ اے بزرگ! یہ کیا حالت ہے۔ تم اس طرح کس چیز سے بے ہوش ہو گئے۔
27
از اسیرِ نیم کشتِ بسته دستاین چنیں مدهوش افتادی و پست
ترجمہ: ایک ادھ مرے اور دست بستہ قیدی (کے مقابلے) سے اس طرح بیہوش اور حواس باختہ ہو کر گر پڑے۔
28
گفت چون قصدِ سرش کردم به خشمطرفه در من بنگرید آن شوخ چشم
ترجمہ: (صوفی نے کہا) جب میں نے غصہ کے ساتھ اس کے سر کا قصد کیا تو اس شوخ چشم نے ایک عجیب (ڈراؤنی) نگاہ مجھ پر ڈالی۔
29
چشم را وا کرد پهن او سوی منچشم گردانید و شد هوشم ز تن
ترجمہ: اس نے میری طرف آنکھیں پھاڑیں۔ ڈیلوں کو پھرایا اور میرے بدن سے ہوش اڑ گئے۔
30
گردشِ چشمش مرا لشکر نمودمی نیارم گفت چون پُر هَول بُود
ترجمہ: اس کی آنکھوں کی گردش مجھے (بھاری) فوج (کی طرح ہیبت ناک) نظر آئی۔ میں بتا نہیں سکتا کہ کس قدر ہیبت ناک تھی۔
31
قصه کوته کن کز آن چشم این چنینرفتم از خود او فتادم بر زمین
ترجمہ: قصہ کو تاہ کرو۔ (اور اتنا سمجھ لو) کہ اس آنکھ سے میں اس طرح از خود رفتہ ہو گیا اور زمین پر گِر پڑا۔