دفتر 5 حکایت 168: بادشاہ کا ایاز سے دوبارہ خطاب کرنا اور اس کا ایاز کی عزت افزائی کرنا

دفتر پنجم: حکایت: 168


دیگر بار خطابِ شاہ با ایاز و نواختن او ایاز را

بادشاہ کا ایاز سے دوبارہ خطاب کرنا اور اس کا ایاز کی عزت افزائی کرنا


1

ای ایازِ پُر نیازِ صدق کیش صدقِ تو از بحر و از کوهست بیش

ترجمہ: اے ایازِ پرنیاز! سچائی کے طریقے والے! تمہارا صدق دریا و کوہ (پہاڑ) سے بھی زیادہ ہے۔


2

نی بوقتِ شهوتت باشد عثار نی رود عقلِ چو کوهت کاہ وار

ترجمہ: شہوت کے وقت نہ تم کو لغزش پیش آتی ہے، نہ تمہاری پہاڑ کی سی (مضبوط) عقل تنکے کی طرح (اپنی جگہ سے) سرکتی ہے۔

3

نی بوقتِ خشم و کینہ صبر هات سُست گردد در قرار و در ثبات

ترجمہ: نہ غصے اور کینے کے وقت تمہارے صبر و شکیب پائداری اور ثابت قدمی میں سُست ہوتے ہیں۔


4

هست مردی این، نہ آن ریش و ذَکر ورنہ بودی میرِ مردان  کیرِ خر

ترجمہ: مردمی تو یہ ہے کہ (جوتم کو حاصل ہے) نہ کہ ڈاڑھی اور آلہ تناسل (جو ہر شخص کے پاس ہے) ورنہ سب مردوں کا سردار گدھے کا آلہ تناسل ہوتا ہے۔ 


5

حق کرا خواندہ است در قرآں رجال کے بود این جسم را آنجا مجالِ

ترجمہ: حق تعالیٰ نے جس (جماعت) کو قرآن میں رجال (یعنی مردوں) کے نام سے ذکر فرمایا ہے وہاں اس جسم کو کب دخل ہے۔

مطلب: حق تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ...(سورہ نور، آیت نمبر 37) "ایسے لوگ جن کو سوداگری اور خریدو فروخت خدا کے ذکر اور نماز کے پڑھنے اور زکوٰۃ کے دینے سے غافل کرنے نہیں پاتی"۔ (النور) ظاہر ہے کہ یہاں مردوں کے جسم وصف کے لحاظ سے ان کی فضیلت مذکور ہے۔ اس میں جسم اور قوتِ جسم کا کوئی دخل نہیں، بلکہ اس کا تعلق روح اور روحانی حیثیت سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ﴿لَیسَ الشَّدِیدُ باِلصُّرعَۃِ اِنَّمَاَ الشَدِیدُ الَّذِی یَملِکُ نَفسَہ عِندَ الغَضَب یعنی طاقتور کسی کو بچھاڑنے سے طاقتور نہیں بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (مشکوٰۃ) مولانا اسماعیل مرحوم ٗ

دل میں جب کوند جائے برقِ غضب اور طبیعت ہو انتقام طلب

اس خطرناک راہ میں جو مرد کر سکے آتشِ غضب کو سرد

ڈانٹ کر دیو نفس کو لے تھام اور نہ لائے زباں پہ سخت کلام

مشورت عقل کی سُنے اس دم ہے وہی اپنے وقت کا رستم

6

روحِ حیواں را چہ قدر است اے پدر آخر از بازارِ قصاباں گذر

ترجمہ: اے بزرگوار! روحِ حیوانی کی (بھی) کیا حقیقت ہے۔ آخر قصائیوں کے بازار سے گزرو۔


7

صد هزاران سر نهاده بر شکم ار زِشاں از دُنبہ و ازدمّ کم

ترجمہ: (تم وہاں دیکھو گے کہ) لاکھوں (کٹی ہوئی) سریاں (ان جانوروں کے) پیٹوں پر رکھی ہیں۔ جن کی (قدر و) قیمت چکتی اور دم سے بھی کم ہے۔

مطلب: رجال جن صفات کی بدولت خدائی فرمان میں رجال کہلائے ان کا تعلق روح انسانی ہے نہ کہ جسم سے اور نہ روحِ حیوانی سے جسم کی شان و شوکت میں ہاتھی اور اونٹ وغیرہ انسان سے بڑھے ہوئے ہیں اور روحِ حیوانی میں تمام حیوانات انسان کے ساتھ شریک ہیں، اس صورت میں لازم آتا ہے کہ ہاتھی وغیرہ تمام حیوانات بھی اس فضیلت کے مستحق سمجھے جائیں جس کی وجہ سے انسان ممدوح ہے۔ ولیس کذالک۔ آگے شہوت سے بچنے کی ہدایت فرماتے ہیں:۔


8

تا توانی بندہ شهوت مشو درپی شهوت مکن جان را گرو

ترجمہ: جہاں تک تم سے ہو سکے شہوت کے غلام نہ بنو۔ شہوت کے لیے جاں کو گروی نہ رکھو۔ 

جذباتِ نفس تیری سب ادنیٰ غلام هیں افسوس تو غلام هے ادنیٰ غلام کا


9

ورنه شهوت خانمانت بر کند زندہ ات در گورِ تاریک افگند

ترجمہ: ورنہ شہوت تمہارا گھر بار اجاڑ دے گی (اور) جیتے جی تمہیں اندھیری قبر میں ڈال دے گی۔ سعدیؒ ٗ

در شهوتِ نفس کافر به بند دگر عاشقی، لت خورد سر بہ بند


10

روسپی باشد کہ از جولانِ کیر عقلِ او موشی شود شهوت چو شیر

ترجمہ: وہ بدکار عورت ہی ہوتی ہے جو مرد کے اعضائے تناسل کی حرکت سے (مغلوب العقل ہو جائے اور پھر) اس کی عقل چوہے کے مانند (ضعیف) اور شہوت شیر کی طرح (قوی) ہو۔ 

مطلب: شہوتِ فرج تمام شہوات سے زیادہ غافل کن اور ملوث نفس ہے۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ قَضَا ھٰذِہِ الشَّھْوَۃِ یُؤَثِّرُ فِیْ تَلْوِیْثِ النَّفْسِ مَا لَا یُؤَثِّرُ شَیْءًا یعنی یہ شہوت نفس کو ایسا گندہ کرتی ہے۔ کہ اور کوئی چیز نہیں کرتی۔ (حجۃ اللہ البالغہ)


11

اندرین معنی حکایت گویمت تا دِل از شهوت بکلی شویمت

ترجمہ: اس بارے میں ہم تجھے ایک کہانی سناتے ہیں تاکہ تیرے دل کو شہوت سے بالکل دھو ڈالیں۔