دفتر پنجم: حکایت: 167
تمثیلِ فکر هر روزینه که اندر دل آید بمهمانِ نو که از اول روز در خانه فرود آید و تحکم و بدخوئی کند بخداوندِ خانہ و فضیلتِ مہمان نوازی و نازِ مہمان کشیدن
ہر روز کے خیال کی تمثیل جو دل میں آتا ہے نئے مہمان کے ساتھ، جو پہلے گھر میں آتا ہے اور گھر کے مالک کے ساتھ حکمرانی و بدخوئی کا سلوک کرتا ہے اور مہمان نوازی اور مہمان کی ناز برداری کی فضیلت۔
مطلب: یہ خیال عارف کا ہے کہ اس کا ہر فکر و اندیشہ منجانب اللہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ابو طالب مکیؒ سے منقول ہے کہ "اَلْخَوَاطِرُ رُسُلُ الْحَقِّ" اور یہ درجہ عارف کامل ہی کا ہے جس کے افکار و خواطر میں شیطان کا دخل نہیں اور ایسا کامل وہ ہے جو امیر علیہ السلام کے قدم پر گامزن اور عمری القیام ہو۔ یہ حکم ہر شخص کے حق میں نہیں، کیونکہ عوام کے خواطر و خیالات کبھی شیطانی بھی ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہر خیال کی اجابت نہیں کی جاسکتی یا مقصود یہ ہوگا کہ ہر خیال کو دل میں نگاہ رکھو۔ کیونکہ تمام خیالات حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں خواہ وہ اسم ھادی سے ہوں یا اسم مضل سے، پھر اس خیال کو شرع پر پیش کرو، اگر وہ اسم ھادی سے معلوم ہو تو اس پر عمل کرو اور اگر اسم مضل سے ہو تو اس پر عمل کرنے سے پرہیز کرو اور اللہ کی پناہ مانگو تاکہ وہ وقوع نہ پائے۔ (بحر العلوم)
1
ھر زمان فکری چو مهمانِ عزیزآید اندر سینه چون جانِ عزیز
ترجمہ: ہر لمحہ ایک نہ ایک خیال پیارے مہمان کی طرح سینے کے اندر آتا ہے جیسے پیاری جان (جسم میں داخل ہو)
2
فکر را ای جان بجای شخص دانزانکه شخص از فکر دارد قدرِ هان
ترجمہ: اے دوست! فکر کو بمنزلہ شخص کے سمجھو، کیونکہ ہر شخص فکر ہی سے جان کی قدر کرتا ہے۔
مطلب: فکر و خیال کوئی فرضی چیز نہیں بلکہ اس کو بمنزلہ مجسمات سمجھو۔ اس کے اثرات و نتائج بھی ایسے ہی ثابت ہیں جیسے مجسمات کے۔ چنانچہ ہر شخص جو جان کی قدر کرتا ہے تو اس کی یہ قدردانی بھی بواسطہ خیال پیدا ہوتی ہے۔ "کذا یُفْہَمُ واللّٰہ تعالیٰ اعلم"۔ آگے غم افزا خیالات کا ذکر فرماتے ہیں کہ وہ بھی فائدے سے خالی نہیں ہوتے:۔
3
فکرِ غم گر راہِ شادی میزندکار سازیهای شادی میکند
ترجمہ: غم کی فکر اگر خوشی کے لیے راہزن ہے تو وہ (حقیقی) مسرت کا سامان (بھی) کرتا ہے۔
4
خانه میروبد به تندی او ز غیرتا در آید شادیِ نو ز اصلِ خیر
ترجمہ: وہ (غم افزا خیالات) زور کے ساتھ (دل کے) گھر کو اجنبی (خیالات) سے صاف کر دیتا ہے تاکہ بھلائی کے خزانے سے نئی خوشی آئے۔
مطلب: نئے معزز مہمان کے نزول کے لیے گھر کو اجانب و اغیار سے خالی کیا جاتا ہے۔ پس غم کا ورود کسی تازہ خوشی کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور اس کا ورود جس طرح دیگر خیالات کا صفایا کرتا ہے محتاجِ ثبوت نہیں، چنانچہ کسی فکر و غم میں ایک ہی تصور و خیال کے سوا دوسری بات نہیں سوجھتی۔ چنانچہ:۔
5
می فشاند برگِ زرد از شاخِ دلتا بروید برگِ سبزِ متّصل
ترجمہ: وہ (غم و فکر کا خیال دوسرے خیالات کے) زرد پتوں کو دل کی ٹہنی سے جھاڑ دیتا ہے تاکہ (خوشی کے) ہرے پتے مسلسل پیدا ہوں۔
6
می کَند از بیخ سرور کهنه راتا خرامد سروِ نواز ماورا
ترجمہ: وہ پرانے سرو کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے تاکہ عالمِ غیب سے نیا سرو آ جائے۔
7
غم کَند بیخِ کژ پوسیدہ راتا نماید بیخ رُو پوشیدہ را
ترجمہ: (غم دوسرے خیالات کی) ٹیڑھی اور گلی سڑی جڑ کو اکھاڑ ڈالتا ہے تاکہ (تازہ خوشی کی) مخفی جڑ کو ظاہر کرے۔
8
غم ز دل هر چه بریزد یا برددر عوض حقاً که بهتر آورد
ترجمہ: غم دل سے جو کچھ گراتا ہے یا نابود کر دیتا ہے بخدا (اس کے) عوض میں بہتر لاتا ہے۔
مطلب: غم سے اگر جسم کی فربہی و تازگی زائل ہو جاتی ہے تو روح کی صفائی و روشنی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر دنیا کی طرف سے دل شکستگی عارض ہو جاتی ہے تو عقبٰی کی طرف نگاہِ امید لگ جاتی ہے۔ امیر خسروؒ ٗ
من و کنجِ غم و شبهای تاریکطرب جای نهانی من این ست
09
خاصه آن راکه یقینش باشد اینکه بود غم بندہ اهلِ یقین
ترجمہ: خصوصاً اس شخص کے لیے جس کو یقین ہوتا ہے کہ غم اہل یقین کا غلام ہے۔ (غلام آقا کے حکم سے باہر نہیں ہوتا۔ اسی طرح غم ان حضرات کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ ان کی رضا مندی سے کرتا ہے۔ان کے علیٰ ر غمِ انف نہیں کرتا)
10
گر ترش روئی نیارد ابرو برقزر بسوزد از تبسمهای شرق
ترجمہ: اگر بادل اور بجلی ترشروئی نہ کریں تو تابش آفتاب کی (مسلسل) مسکراہٹ انگوروں کو پھونک ڈالے۔
مطلب: خوشیوں کی مسلسل آمد انسان کی کشتِ حیات کو برباد کر دیتی ہے، ساتھ ساتھ غم کا ہونا مفید ہے۔ یہ حکمت کا ایک مسئلہ ہے۔ محض شاعرانہ آورد نہیں۔ صائبؒ ٗ
شادی هر که زیادست ز غم کامل نیستهر کر اخرج ز دخل ست فزون عاقل نیست
11
سعد و نحس اندر دلت مهماں شودچون ستارہ خانه خانه میرود
ترجمہ: سعد و نحس (کا خیال) تمہارے دل میں مہمان ہوتا ہے (اور) ستارہ کی طرح (جو آسمان میں گردش کرتا ہو تمہارے دل کے) گوشہ گوشہ میں رفتار جاری رکھتا ہے۔
12
آن زمان که او رهینِ برجِ توستباش همچون طالعش شیرین و چُست
ترجمہ: جتنا عرصہ وہ تمہارے برج (قلب) میں موجود رہے تم اس کی حالتِ عروج کی طرح خوشدل و بشاش رہو۔
13
تاکه چون بامه شود او متصلِشکر گوید از تو با سلطانِ دل
ترجمہ: تاکہ جب وہ (چاند اپنا دور پورا کر کے) چاند کے ساتھ جا ملے تو بادشاہِ دل (یعنی حق تعالیٰ) کی بارگاہ میں تمہارا شکریہ ادا کرے۔
مطلب: ان تینوں شعروں کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ زمانہ کے گرم و سرد، تنگی و فراخی اور تکلیف و راحت کا حال جو تمہارے وجود کا عارض ہو، اس کو ہمت و حوصلہ کے ساتھ برداشت کرو تاکہ جب وہ حال اپنا دور پورا کر کے رفع ہو جائے تو بارگاہِ حق میں تمہارے صبر و رضا کا شاہد ہو۔ آگے اس کی مثال حضرت ایوب علیہ السلام کے حال سے دیتے ہیں:۔
14
هفت سال ایوب با صبر و رضادر بلا خوش بود با ضیف خدا
ترجمہ: حضرت ایوب علیہ السلام سات سال تک خدا کے (بھیجے ہوئے) مہمان (یعنی مرض و مصائب) کے ساتھ تکلیف کے اندر (بھی) صبر و رضا سے خوش رہے۔ (حضرت ایوب علیہ اسلام کا حال پیچھے جلد ششم میں مفصل گذر چکا ہے)
15
تا چو وا گردد بلای سخت رُوپیشِ حق گوید به صد گون شکر او
ترجمہ: تاکہ جب یہ سخت رو بلا واپس چلی جائے تو حق تعالیٰ کے سامنے ان کا سو سو طرح سے شکریہ ادا کرے۔
16
کز محبت بامنِ محبوب کشرُو نکرد ایوبؑ یک لحظه ترش
ترجمہ: (چنانچہ اس بلا و مصیبت نے بارگاہِ حق میں جا کر عرض کیا) کہ حضرت ایوب علیہ السلام میرے ساتھ جو (ان کے) مرغوبات کو تباہ کرنے والی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی ترشروئی سے پیش نہ آئے۔
17
از وفا و خجلتِ حکمِ خدابود چون شیر و عسل او با بلا
ترجمہ: آپ (عہدِ صبر کو) وفا کرنے اور خدا کے حکم کا لحاظ رکھنے کے لیے بلا (و مصیبت) کے ساتھ شیر و شہد کی طرح (خوش دل) رہتے تھے۔
18
فکر در سینه درآید نو به نوخندِ خنداں پیش او تو باز رو
ترجمہ: (انسان کے) سینہ میں نئے سے نئے خیال آتے ہیں، تم ان سے خندہ روئی سے پیش آؤ۔
19
که اَعِدنِی خَالِقِی مِن شَرّہلا تُحَرّمنِی انِل مِن بَرّہ
ترجمہ: (اور دعا کرو) کہ اے میرے خالق مجھے اس کے شر سے پناہ دے، اس کی خیر مجھے نصیب کر مجھے محروم نہ رکھ۔
20
رَبّ اَوزِعنِی لشکُرمآ اَرٰیلَا تُعَقّب حَسرَۃً لّیَ اِن مَّضٰی
ترجمہ: اے میرے پروردگار! میرے دل میں ڈال دے کہ اس (دکھ) پر جو مجھے دیکھنا پڑے (تیرا) شکر کروں۔ (اور) اگر وہ (دکھ) ٹل جائے تو مجھے (یہ) حسرت بطور نتیجہ عارض نہ کرنا۔ (کہ میں نے اس پر صبر نہ کیا)
21
آن ضمیرِ رُو ترش را پاس دارآن ترش را چون شکر شیرین شمار
ترجمہ: (غرض) تُرش خیال کا لحاظ رکھو اس بدمزہ (خیال) کو شکر کی طرح شیریں سمجھو۔
22
ابر اگرچه هست ظاہر رُو ترشگلشن آرندہ ست ابر و شورہ کش
ترجمہ: بادل اگرچہ بظاہر تُرش رو ہے (مگر یہی) بادل باغ اگانے والا اور خشکی مٹانے والا (بھی) ہے۔
23
فکرتِ غم را مثالِ ابر دانبا ترش تو رو ترش کم کن چنان
ترجمہ: غم کے خیال کو بادل کے مانند سمجھو (پس یاد رکھو کہ جس طرح) بادل کی تُرش روئی پر تُرش رو ہونا بے جا ہے) اسی طرح(غم کے) ترش (خیال) کے ساتھ تُرش رو نہ ہونا۔
24
بو که آن گوهر بدستِ او بودجهد کن تا از تو او راضی شود
ترجمہ: شاید وہ گوہر (مطلوب) اسی کے پاس ہو۔ کوشش کرو تاکہ وہ تم سے راضی ہو (اوراس سے وہ گوہر تم کو مل جائے)
مطلب: کوئی موقع اور وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت کا ایک عمل ہزار ہا اعمال سے زیادہ وزن دار ہوتا ہے اور ایسے عمل کا بجا لانے والا ساری عمر نیک اعمال بجا لاتے رہنے والوں سے سبقت لے جاتا ہے۔ مثلاً کوئی عمل ساعتِ اجابت میں واقع ہو جائے یا کسی وقت پورے خلوص سے کوئی عمل ہو جائے یا کسی ایسے وقت کوئی عمل ہو جائے جب رحمتِ الہٰیہ خاص طور پر اس عمل کرنے والے کے حال پر متوجہ ہو تو ایک لمحہ میں بیڑا پار ہے۔ گو اعمال حسنہ ضائع تو کسی صورت میں نہیں ہوتے۔ ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ مگر مذکورہ قسم کے موقع کا عمل کچھ اور ہی حقیقت رکھتا ہے اور ایسے مواقع شاذ و نادر ہی میسر ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں: کہ اگر تم کسی غم پر صبر و رضا سے کام لو تو شاید یہ صبر و رضا کسی ایسی ساعت میں واقع ہو جائے جو اس کو زندگی بھر کے اعمال سے زیادہ قیمتی بنا دے اور وہی تمہاری بہبودیِ دارین کا باعث ہو جائے۔
25
گر ندارد گوهر و نبود غنیعادتِ شیرینِ خود افزون کنی
ترجمہ: اگر وہ (غم کا خیال مذکورہ) جوہر نہیں رکھتا اور غنی نہیں تو (یہ کیا کم فضیلت ہے کہ) تم (اس صبر و رضا سے) اپنے خصائلِ حسنہ کو ترقی دیتے ہو۔
مطلب: ممکن ہے کہ مذکورہ انفاقِ حسن اس مرتبہ کے صبر و رضا کے لیے مقدر نہ ہو بلکہ وہ پھر کسی موقع کے لیے مقدر ہو۔ تاہم تم کو ہمیشہ ہر غم پر صبر و رضا سے کام لینا چاہیے کیونکہ اب تو کوئی عملِ خیر ثمرہ خیر سے خالی نہیں ہوتا۔ دوسرے اس طرح بجا آوریِ حسنات سے تم اعمالِ صالحہ کے خوگر ہو جاؤ گے۔
26
جای دیگر سُود دارد عادتتناگهان روزی برآید حاجتت
ترجمہ: تو پھر کسی موقع پر تمہاری یہ نیک عادت مفید ہو جائے گی (اور) اچانک تمہاری مراد بر آئے گی۔ (اس لیے اس کو فضول و لایعنی نہ سمجھو)
27
فکرتی کز شادیت مانع شودآن به امر و حکمتِ صانع شود
ترجمہ: تمہارا (غم کا) خیال جو تم کو خوشی سے مانع ہو وہ خداوندِ کریم کے حکم اور حکمت سے ہوتا ہے۔(اس لیے اس کو فضول و لایعنی نہ سمجھو)
28
تو مخوان دو چار دانگش ای جوانبو که نجمی باشد و صاحب قرآن
ترجمہ: اے جوان تم اس (فکر و غم) کو دو چار کوڑی (قیمت کا یعنی ناچیز) نہ سمجھو۔ شاید کہ وہ کوئی ستارہ ہو اور بابرکت۔
29
تو مگو فرعیست او را اصل گیرتا شوی پیوسته بر مقصودِ چیر
ترجمہ: تم یہ نہ کہو کہ یہ زائد ہے (بلکہ) اس کو اصل سمجھو تاکہ تم ہمیشہ مقصود پر غالب رہو۔
30
ور تو او را فرع گیری و مضرچشم تو دراصل باشد منتظر
ترجمہ: اور اگر تم اس کو زائد اور مضر سمجھو تو تمہاری آنکھ اصل کے انتظار میں رہے گی۔
مطلب: اگر تم یہ سمجھو کہ انسان کے لیے اصلی چیز جو لازم ہے وہ خوشی ہے۔ غم محض ایک لایعنی اور فضول چیز ہے جو اتفاقاً پیدا ہو جاتی ہے تو پھر غم کی صورت میں تم سرور کے منتظر رہو گے کیونکہ اصل چیز کا وجود ضروری ہے اور تمہارے خیال میں سرور ہی اصل ہے حالانکہ منتظر رہنا ایک ناقص حالت ہے۔ جو کسی امرِ مزید کے وجود کی متقاضی ہے اور اس امر کے وجود سے یہ نقص رفع ہو سکتا ہے۔ بخلاف اس کے ہم یہ کہتے ہیں کہ غم ہی اصل ہے غم کی موجودگی میں سرور کی ضرورت نہیں۔ آگے انتظار کی خرابی کا ذکر ہے۔
31
زهر آمد انتظار اندر چِششدائما در مرگ باشی ز آن روش
ترجمہ: انتظار (اپنے) ذائقہ میں زہر (کی مانند) ہے۔ تم اس (انتظار) کی روش سے ہمیشہ ہلاکت میں رہو گے۔﴿اَلِانتِظَارُ اَشَدُّ مِنَ المَوتِ﴾۔
32
اصل دان آں را بگیرش در کناربار رہ دائم ز مرگ انتظار
ترجمہ: (لہذا) تم اسی (غم) کو اصل سمجھو اور اس کو بغل میں دبا رکھو (اور) انتظار کی موت سے ہمیشہ بچو۔