دفتر 5 حکایت 166: ایک مہمان، گھر کے مالک اور (اس کی) بیوی کی کہانی اور مہمانداری کی فضیلت کا بیان

دفتر پنجم: حکایت: 166


حکایتِ مہمان و کدخدا و زن و بیانِ فضیلتِ مہمانداری

ایک مہمان، گھر کے مالک اور (اس کی) بیوی کی کہانی اور مہمانداری کی فضیلت کا بیان۔

1

آن یکي را بیگهاں آمد قُنقُ ساخت او را همچو طوق اندر عُنُق

ترجمہ: ایک شخص کے ہاں بےوقت مہمان آ گیا، اس نے اس کو گلے کے ہار کے مانند سمجھا۔

2

خوان کشید او را کرامتها نمود آن شب اندر کوي ایشاں سُور بود

ترجمہ: اس کے لیے دسترخوان بچھایا اور خاطر  تواضع کی، اس رات ان کے کوچہ میں شادی تھی۔


3

مرد زن را گفت پنهانی سخن کامشب اي خاتون دو جامهء خواب کن

ترجمہ: مرد نے عورت کو مخفی طور سے کہا کہ اے بیوی آج کی شب سونے کے دو بستر بچھانا۔

4

بسترِ مارا بگستر سوي در بهرِ مهماں گستر آن سوی دگر

ترجمہ: ہمارا بستر دروازے کی طرف بچھانا، (اور) مہمان کے لیے ادھر دوسری طرف بچھانا (یہ فرمائش بدیں خیال کہ اگر بیوی رات کو شوہر کے پاس آنا چاہے تو دھوکہ نہ کھائے)۔


5

گفت زن فرمان برم خدمت کنم  سمع و طاعت ای دو چشمِ روشنم

ترجمہ: بیوی نے کہا(اے میرے سرتاج جو)میری دو روشن آنکھوں (کے برابر ہو) میں (یہ) بجا لاؤں گی میں فرمانبردار ہوں۔ سُن لیا اور مان لیا۔


6

هر دو بستر گسترید و رفت زن سوی ختنه سُور کرد آنجا وطن

ترجمہ: عورت نے دونوں بستر بچھا دیے اور شادی والے گھر کی طرف چلی گئی اور وہیں ٹھہری رہی۔


7

ماند مهمانِ عزیز و شوهرش نقل بنهادند از خشک و ترش

ترجمہ: مہمانِ عزیز اور اس (عورت) کا خاوند (گھر میں) رہ گئے انہوں نے خشک و تر نُقل (سامنے) رکھے۔ (اور کھانے لگے)۔


8

در سمر گفتند هر دو منتجَب سر گذشتِ نیک و بد تانیم شب

ترجمہ: دونوں شریف آدمیوں نے رات کی گفتگو میں ہر قسم کی نیک و بد سرگذشت کا ذکر آدھی رات تک کیا۔


9

بعد از آن مهماں زِ خواب و از سمر شد در آن بستر که بُد آن سوی در

ترجمہ: اس کے بعد مہمان نیند سے (مغلوب) اور کہانی سے (فارغ ہو کر) اس بستر پر چلا گیا جو دروازے کے اس طرف تھا۔ (جو عورت نے اپنے شوہر کے لیے بچھایا تھا)


10

شوهر از خجلت بدو چیزی نگفت که مرا این سوست ای جان جای خفت

ترجمہ: شوہر نے لحاظ کے مارے اُسے کچھ نہ کہا کہ اے دوست یہاں میرے سونے کی جگہ ہے۔


11

وز برای خواب تو ای بو الکرم بستر آن سوی دگر افگنده ام

ترجمہ: اور اے بزرگ آپ کے سونے کے لیے میں نے اس دوسری طرف بستر بچھوایا ہے۔


12

آن قراری که به زن او کردہ بُود گشت مبدل آن طرف مهمان غنود

ترجمہ: اور وہ قرارداد جو اس نے بیوی سے ٹھہرائی تھی تبدیل ہو گئی اور وہاں مہمان سو گیا۔

13

آن شب آنجا سخت باران در گرفت کز شکوہِ ابر شان آمد شگفت

ترجمہ: اُس رات وہاں سخت بارش ہونے لگی کہ بادل کی ہیبت سے وہ متحیر تھے۔


14

زن بیامد بر گمان  آنکه شو  سوی در خفته ست، و آن سو آن عمُو

ترجمہ: عورت اس قرارداد کے مطابق آئی کہ اس کا شوہر دروازہ کی طرف سو رہا ہے اور ادھر وہ بزرگ۔


15

رفت عُریان در لحاف آندم عروس داد مهماں را برغبت چند بوس

ترجمہ: بیوی اس وقت (مہمان کو شوہر سمجھ کر اس کے) لحاف میں بےحجابانہ داخل ہو گئی۔ اور مہمان (کہ منہ) پر محبت سے چند بوسے دیے۔


16

گفت می ترسیدم ای مرد کلان ز آنچه می ترسیدم آمد خود همان

ترجمہ: (اور) کہنے لگی اے بزرگ میاں! میں (پہلے ہی) ڈرتی تھی۔ (اور) جس بات سے میں ڈرتی تھی وہی پیش آ کر رہی۔


17

مرد مهمان را گل و باراں نشاند بر تو چون صابونِ سلطانی بماند

ترجمہ: (یعنی) مہمان آدمی کو کیچڑ اور بارش نے (کئی دن کے لیے ہمارے گھر میں) بٹھا دیا اب وہ تم پر شاہی تاوان کی طرح آ پڑا۔


18

اندر این باران و گل او کَی رود بر سر و جانِ تو او تاوان شود

ترجمہ: اس بارش و کیچڑ میں وہ (بھلا) کب جانے لگا۔ تمہارے سر اور جان پر وہ تاوان بن گیا۔


19

زود مهماں جَست و گفت ای زن بهل موزہ دارم من ندارم غم ز گِل

ترجمہ: (اتنا سُن کر) مہمان فوراً اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بولا اری عورت چھوڑ دے میرے پاس موزے ہیں۔ (اس لیے) مجھے کیچڑ کی پروا نہیں۔


20

من روان گشتم شما را خیر باد در سفر یکدم مبادا روح شاد

ترجمہ: میں روانہ ہو رہا ہوں تم خوش رہو۔ سفر میں ایک دم بھی روح خوش نہ ہو۔

مطلب: یہ کنایہ ہے روح کے سفر سے جو اس نے دنیا کی طرف کیا ہے کہ سفر میں روح کا خوش رہنا اچھا نہیں۔ (اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الفَرِ حِینَ) اور حدیث میں (کُن فِی الدُّنیَا کَاَنَّکَ غَریب اَو عَابِرِ سَبِیل) یعنی دنیا میں اس طرح رہو گویا پردیسی ہو یا راہرو۔ اس کنایہ کے بعد اب بصراحت کہتے ہیں۔


21

تا ک زود تر جانبِ معدن رود کاین خوشی اندر سفر ره زن شود

ترجمہ: تاکہ جلدی (روح) اپنے اصلی مقام کی طرف چلی جائے کیونکہ یہ خوشی سفر میں رہزن بن جاتی ہے۔

مطلب: روح کو اپنے اصلی مقام کی یاد اور شوق رہے گا تو وہ دنیا سے ناخوش اور دنیا کی غفلت پیدا کرنے والے احوال سے مجتنب بھی رہے گی اور یہ کیفیت اس کے ترقی و عروج کی باعث ہے لیکن اگر وہ دنیا میں عیش و سرور میں منہمک ہو گئی تو یہ حالت اس کے تنزل اور محرومی کی موجب ہے۔ حدیث میں ہے۔ (مَن اَحبَّ لِقآءَ اللّٰہِ اَحَبَّ اللہُ لِقآئَہ وَمَن کَرِہَ لِقآءَ اللّٰہِ کَرِہَ اللہُ لِقآئَہ) یعنی "جو شخص اللہ سے ملنا پسند کرے اللہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ اللہ اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے"۔ (جامع صغیر)


22

زن پشیماں شد ازیں گفتار سرد چون رمید و رفت آن مهمانِ فرد

ترجمہ: جب وہ لاثانی مہمان (ان کے گھر سے) نکل بھاگا تو عورت (اپنی) اس سرد مہری کی بات سے پچھتائی۔


23

زن بسی گفتش کہ  آخر ای امیر گر مزاحی کردم، از طیبت مگیر

ترجمہ: عورت نے بہتیرا کہا کہ آخر اے سردار اگر میں نے مذاق کر دیا تو تم خوش طبعی سے ناراض ہو۔


24

لابه و زاری زنِ سودی نداشت رفت و ایشاں را درآن حسرت گذاشت

ترجمہ: (مگر) عورت کی منت اور زاری کچھ مفید نہیں ہوئی وہ چلا گیا اور ان کو حسرت میں چھوڑ گیا۔ 

25

جامه ازرق کرد از غم مرد و زن صورتش دیدند شمع بی لگن

ترجمہ: میاں بیوی (دونوں) نے (اس) غم سے (کہ ایسے ولی اللہ کو ناراض کیا اپنا) لباس نیلے رنگ کا (ماتمی) بنا لیا۔ انہوں نے اس (مہمان) کی صورت کو یوں دیکھا جیسے ایک شمع لگن کے بدون ہو۔

مطلب: "صورتش دیدند" کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اب اس ولی اللہ کو یاد کر کے اپنے تصور میں اسے ایسا دیکھتے تھے جیسے ایک شمع بدون شمعدان کے روشن ہو۔ یعنی وہ قدرتِ الٰہیہ سے روشن ہو کسی شمعدان میں نہ رکھی گئی ہو ورنہ اگر اس کو اول ورود میں ایسا دیکھتے تو اس کے ساتھ یہ سلوک نہ ہوتا اور عورت اس سرد مہری سے پیش نہ آتی۔


26

می شد و صحرا  ز نورِ شمعِ مرد چون بهشت از ظلمتِ شب گشته فرد

ترجمہ: وہ مرد (خدا) جا رہا تھا اور جنگل اس کے نور سے بہشت کی طرح رات کی تاریکی سے الگ ہوتا جاتا تھا۔


27

کرد مهماں خانه خانهء خویش را از غم و از خجلت این ماجرا

ترجمہ: (ادھر دونوں نے) اس واقعہ کے غم اور شرمندگی سے اپنے گھر کو مہمان خانہ بنا دیا۔

مطلب: گھر کو مہمان خانہ بنانا تو اس امید پر مبنی تھا کہ شاید اب کوئی اور ولی اللہ تشریف لائیں تو اس سے ہم فیض یاب ہوں گے یا اس خیال سے کہ نفسِ پلید جو ایک مہمان کو رکھنے سے گھبرا گیا تھا اب اس کی سزا یہی ہے کہ یہاں ہر روز مہمانوں کی آمد و شد رہے۔


28

در درونِ هر دو از راہِ نهان هر زمان گفتی خیالِ میهمان


29

که بُدم یارِ خضر صد گنجِ جود می فشاندم لیک  روزیتان  نبود

ترجمہ: دونوں کے دل میں مہمان کا خیال ایک مخفی راستے سے (آ کر) یہ کہتا کہ میں حضرت خضر کا رفیق تھا۔ تمہارے آگے بخشش کے سینکڑوں خزانے ڈھیر کر دیتا لیکن تمہاری قسمت میں نہ تھے۔