دفتر 5 حکایت 163: اس آیت کے معنی میں کہ بےشک آخرت کا گھر البتہ وہی زندہ ہے اگر لوگ جانتے ہیں۔ اس عالم کے در و دیوار اور تمام اجزا زندہ ہیں اور بات کرنے والے اور بات سننے والے ہیں اور اسی لیے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں"۔ اگر آخرت کی زندگی نہ ہوتی تو وہ دنیا کی طرح مردار ہوتی کیونکہ (دنیا کو) اس کی مردگی کی وجہ سے ہی مردار کہتے ہیں

دفتر پنجم: حکایت: 163


در معنی آیہ ﴿اِنَّ الدَّارَ الاٰ خِرَۃَ لَھِیَ الحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْا یَعلَمُونَ درو دیوار وہمہ اجزائے آں عالم ہمہ زندہ اند و سخن گو و سخن شنو وجہتِ آں فرمود مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿اَلدُّنْیَا جِیفَۃٌ وَطُلَّابُھَا کِلَابٌ اگر آخرت راحیات نبودے چوں دنیا جیفہ بودے چہ برائے مُرد گیش جیفہ خوانند!۔

اس آیت کے معنی میں کہ بےشک آخرت کا گھر البتہ وہی زندہ ہے اگر لوگ جانتے ہیں۔ اس عالم کے در و دیوار اور تمام اجزا زندہ ہیں اور بات کرنے والے اور بات سننے والے ہیں اور اسی لیے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں"۔ اگر آخرت کی زندگی نہ ہوتی تو وہ دنیا کی طرح مردار ہوتی کیونکہ (دنیا کو) اس کی مردگی کی وجہ سے ہی مردار کہتے ہیں.

مطلب: حدیث میں وارد ہے کہ جنت اور اس کی تمام چیزیں درخت اور پھل اور بالاخانے اور دیواریں اور نہریں حتیٰ کہ اس کی مٹی اور کنکر سب زندہ ہیں۔ (منہج القویٰ)

صاحبِ کشاف وغیرہ اصحاب تاویل لکھتے ہیں کہ حیوان مصدر بمعنی حیات ہے اور دار آخرت پر حیات کا حمل بایں اعتبار ہوا ہے کہ آخرت میں حیاتِ دائمی ہے۔ پس گویا وہ عالم کے زندوں کی زندگی کا گھر ہے یا یہ کہ دارِ آخرت دارِ حیات ہے۔ بحذفِ مضاف اور محققین صوفیا کا مذہب یہ ہے کہ وہ عالم خود زندہ ہے اور زندگی رکھتا ہے اور زمین گھر، درخت وغیرہ جو کچھ اس میں ہے سب زندہ ہے۔ مولانا بھی اسی کے قائل ہیں (بحر) حدیث﴿اَلدُّنْیَا جِیفَۃٌ وَطُلَّابُھَا کِلَابٌ بہت مشہور ہے۔ مگر فنِ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی پیچھے یہ ذکر تھا کہ جو زندہ محبوب سے ہمکنار ہو وہ مردہ کی طرف کیوں راغب ہونے لگا۔ جس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص آخرت کا دلدادہ ہو جو سراپا حیات ہے وہ اس جیفہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوگا۔ اب آخرت کی زندگی کے ثبوت میں یہ فرماتے ہیں۔

1

آنجهان چون ذرّہ ذرّہ زندہ اند نکته دانند و سخن گوینده اند

ترجمہ: چونکہ اس عالم (آخرت) کی ذرہ ذرہ چیزیں زندہ ہیں (اور) اسرار کو سمجھنے والی اور بیان کرنے والی ہیں۔ (جن سے انبیاءکرام و اولیاء کرام مانوس ہیں)


2

در جهان مُرده شاں آرام نیست کاین علف جز لائقِ اَنعام نیست

ترجمہ: (اس لیے) اس مردہ جہان میں ان (حضرات) کو آرام نہیں۔ کیونکہ یہ چارہ چوپایوں کے سوا کسی کے لائق نہیں۔


3

هر که را گلشن بود بزم و وطن کی خورد او بادہ اندر گولخن

ترجمہ: جس شخص کی مجلس اور وطن باغ ہو وہ بھاڑ میں (بیٹھ کر) شراب نوشی کب کرے گا۔


4

جای روحِ پاک علیین بود جای روحِ هر نجس سِجّین بود

ترجمہ: پاک روح کا ٹھکانا علّیین ہوتا ہے۔ ہر ناپاک کی روح کی جگہ سجّیین ہوتی ہے۔ (علّیین بہشت کا ایک اعلیٰ مقام ہے اور سجّین دوزخ کا ایک تاریک ترین درجہ ہے ان دونوں لفظوں کے اور بھی کئی معنی ہیں مگر یہاں یہی چسپاں ہوتے ہیں)


5

جای بلبل گلبن و نسرین بود کِرم باشد کش وطن سرگین بود

ترجمہ: بلبل کی جگہ بوٹے اور نسرین ہوتی ہے۔ وہ کیڑا ہوتا ہے جس کا وطن گوبر ہو۔


6

بهرِ مخمورِ خدا جامِ طهور بهرِ منکر آبِ شور پر نفور

ترجمہ: خدا کے مست کے لیے (شراب) طہور کا جام ہے۔ منکر کے لیے کھاری پانی قابلِ نفرت۔


7

هر که را عدل عمر ننمود دست پیشِ او حجّاج خونی عادل ست

ترجمہ: جس شخص کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عدل سے واسطہ نہیں پڑا اس کے آگے حجاج خون خوار (بھی) عادل ہے۔ 

مطلب: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے عدل کا یہ عالم تھا کہ اپنے لختِ جگر ابو شحمہ کو مےنوشی کی پاداش میں خود اپنے ہاتھوں دُرّے مار مار کر شہید کر دیا اور حجاج بن یوسف کی سفاکی و خونخواری کا یہ عالم تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو اس کے لقمہ تیغ ہوئے ان کی تعداد چار ہزار ہے۔ دوسری عام مخلوق کا تو کیا شمار ہے۔ پس جس شخص نے عدل کا اعلیٰ نمونہ نہیں دیکھا اس کے آگے ظلم کی بدترین نظیر بھی بمنزلہ عدل ہے۔ اسی طرح جس شخص کو امورِ آخرت کے سرورِ موفور کا علم نہیں اس کے لیے دنیا کی بدترین زندگی بھی مسرت بخش ہے۔

8

دختران را لعبتِ مردہ دهند که ز لعبِ زندگان نا آ گهند

ترجمہ: (ننھی) لڑکیوں کو بےجان پتلی کھیلنے کو دیتے ہیں کیونکہ وہ زندہ کھلونوں (یعنی شوہروں و بیویوں) کے معاملے میں بےخبر ہیں۔ (لڑکیاں، گڑیوں کے بیاہ رچاتی ہیں۔ مگر ان کو اصلی بیاہ اور اس کے مقاصد کی خبر نہیں)

9

چو ندارند از مروّت زورِ دست کودکان را تیغ چوبیں بهتر است!۔

ترجمہ: (چھوٹے) لڑکے جب جوانمردی کا زور بازو نہیں رکھتے تو (ان کے لیے) لکڑی کی (نمائشی) تلوار بہتر ہے۔


10

کافران قانع به نقشِ انبیا که  نگاریدہ ست اندر دیده ها

ترجمہ: کافر لوگ انبیاء کی تصویروں پر قانع ہیں (ان کی) آنکھوں میں وہی منقش ہیں۔

مطلب: کافر لوگوں کو انبیاء کے کمالاتِ باطن ان کے انوارِ صحبت، ان کے فیوض اور ان کی تعلیمات کا خیال تک نہیں وہ صرف ان کی صورت کے پرستار ہیں اس لیے ان کی تصاویر اپنے عبادت خانوں میں منقش کراتے ہیں اور یہی تصاویر ان کی مطمحِ نظر ہوتی ہیں۔ جیسے مشرکینِ مکہ نے خانہ کعبہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تصاویر بنا رکھی تھیں اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کی تصویریں اپنے گرجا گھروں میں رکھتے ہیں۔


11

ز آن مهان مارا چو دور روشنیست  هیچ مان پروای نقش و سایه نیست

ترجمہ: (بخلاف اس کے) ان بزرگوں کے (فیوضِ باطن) ہماری نظر میں روز روشن کی طرف (نمایاں) ہیں (اس لیے) ہمیں ہر گز (کسی) تصویر اور عکس کی پروا نہیں۔

مطلب: ظاہر پرست لوگ ظاہر پر مرتے ہیں اور اپنے پیشواؤں کی تصویر پرستی پر اکتفا کرتے ہیں مگر ہم ان کے کمالاتِ باطن اور فیوضِ تعلیم کے طالب و راغب ہیں۔ بعض نسخوں میں پہلا مصرعہ یوں درج ہے۔ "واں جہاں مارا چو روز روشنے ست" اس کے معنی بھی درست ہو جاتے ہیں۔ مگر بتکلف یعنی وہ عالمِ آخرت ہماری نظر میں روزِ روشن کی طرح (نمایاں) ہے۔ (جس کی طرف وہ انبیا داعی ہیں) الخ۔۔ آگے ان بزرگانِ دین کی ظاہری و باطنی دونوں حیثیتوں کا ذکر کرتے ہیں:۔


12

آن یکی نقشش نشسته در جهان آن دگر نقشش چومه در آسمان

ترجمہ: ان کا ایک نقش دنیا میں قائم ہے اور ان کا دوسرا نقش آسمان پر چاند کی طرح (درخشاں) ہے۔ (صاحبِ باطن ایک ہی وقت میں امورِ دنیا میں بھی مشغول ہے اور امورِ غیبیہ کا مشاہدہ بھی کرتا ہے)


13

ایں دهانش نکته گویان با جلیس و آن دگر باحق به گفتار و انیس

ترجمہ: ان کا یہ منہ ہم نشین سے راز بیان کر رہا ہے اور وہ دوسرا (منہ) حق تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام و رفیق ہے۔


14

گوشِ ظاهر ضبطِ این افسانه کُن  گوشِ باطن جاذبِ اسرارِ کُن

ترکیب: ضبط مضاف اور ایں افسانہ مضاف الیہ کلمہ کن کے ساتھ شامل ہو کر اسم فاعل ہوئے۔ یعنی ضبط کنندہ ایں فسانہ شارحین نے جو افسانہ کن سے افسانہ کنندہ سمجھا ہے درست نہیں۔

ترجمہ: ظاہری کان اس کہانی کو ضبط کرنے والے ہیں (اور) باطنی کان کن (فیکون) کے رازوں کو اخذ کرنے والے۔


15

چشمِ ظاهر ضابطه حلیهء بشر چشمِ سر حیرانِ مَازاغَ البَصَر

ترجمہ: ظاہر کی آنکھ انسان کے حلیہ کو دیکھنے والی ہے۔ باطنی آنکھ (مشاہدہ حق سے) نگہ (ادھر ادھر) نہ پھیرنے میں حیران ہے۔ (مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغیٰ) (النجم 1) کی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ معراج کے بارے میں آئی ہے۔ یعنی نگاہ نہ (کسی طرف کو) لپکی اور نہ (جگہ سے) اچٹی۔

16

دستِ ظاهر میکند داد و ستد دستِ باطن بردرِ فردِ صمد

ترجمہ: ظاہری ہاتھ لین دین کرتا ہے۔ باطنی ہاتھ (خداوند) (و) بےنیاز کی درگاہ پر ہے۔


17

پای ظاهر در صفِ مسجد صواف پای معنی فوقِ گردون در طواف

ترجمہ: ظاہری پاؤں مسجد کی صف ذدہ (لوگوں میں شامل) ہے باطنی پاؤں آسمان کے اوپر طواف میں ہے۔


18

جزوِ جزوش را تو بشمر همچنین این درونِ وقت و آن بیرون حین

ترجمہ: (غرض) ان کے (وجود کے) ایک ایک حصے کو اسی طرح سمجھ لو کہ ظاہر کی کوئی حالت ہے اور باطن کی کوئی) یہ ظاہر تو وقت کے اندر ہے اور وہ باطن باہر سمجھو۔

مطلب: وقت سے مراد حال ہے جو اہل اللہ پر وارد ہوتا ہے۔ یعنی ظاہر مقید باحوال ہے اور باطن احوال سے باہر ہے جس میں ماضی و مستقبل کی گنجائش نہیں۔ (بحر)


19

این که در وقت است باشد تا اجل و آن دِگر یارِ ابد قرنِ ازل

ترجمہ: یہ (ظاہر) جو وقت میں (مقید) ہے۔ اجل تک ہے اور وہ دوسرا (یعنی باطن) ابد کا رفیق اور ازل کا قرین ہے (یعنی اس کی ابتدا انتہا نہیں)


20

هست یک نامش ولی الدّولتین و آن دگر نامش امام القبلتین

ترجمہ: ان کا ایک نام دونوں قبلوں کا متولی ہے اور دوسرا نام دونوں (جہانوں کی) سلطنتوں کا تاجدار ہے۔

21

خلوت و چله بر او لازم نماند هیچ عزمی مرورا عازم نماند

ترجمہ: تنہائی اور چلہ کشی ان پر لازم نہ رہی (کیونکہ ان کو خلوت کے بدون ہر وقت حضوری حاصل ہے۔ بشریت کا) کوئی ابر ان (کے احوال کو) ابر آلود کرنے والا نہیں رہا۔

اختلاف: دوسرا مصرع منہج القویٰ کے متن کے مطابق ہے قلمی نسخہ میں یہ مصرعہ یوں ہے۔ "ہیچ غیبے مرورا مظلم نماند"۔ یعنی کوئی معاملہ غیب ان کے لیے تاریک نہیں رہا۔ بعض نسخوں میں یوں ہے۔ "ھیچ عزمے مرور اعازم نماند" کوئی قصد ان کی طرف رخ کرنے والا نہیں۔ کیوں کہ ان کی تمام مرادات مرادِ حق میں فنا ہیں۔


22

عِلّت و پرهیز شد بُحران نماند کفرِ او ایماں شد و کفران نماند

ترجمہ: (مقتضیاتِ نفس کا) مرض اور (اس سے) پرہیز (کرنے) کی فرصت جاتی رہی اور (نفس و عقل و معاد کی) کشمکش نہ رہی۔ کفر ان کا ایمان بن گیا۔ اور ناشکری نہ رہی۔


23

چون الف از استقامت شد  به پیش او ندارد هیچ از اوصافِ خویش

ترجمہ: الف کی طرح وہ راستی سے پیش قدمی کر گئے (اب) وہ اپنے بشری اوصاف بالکل نہیں رکھتے۔


24

گشت فرد از کسوتِ خوهای  خویش شد برهنه جان به جان افزای خویش

ترجمہ: وہ اپنی عادت (و خصائل) کے لباس سے عاری ہو گے (ان کی) روح اپنے روحانی ترقی بخشنے والے (جواد مطلق) کی (بارگاہ کی) طرف مجرد ہو (کر) گئی۔


25

چون برهنه رفت پیشِ شاہِ فرد شاهش از اوصافِ قدسی جامه کرد

ترجمہ: جب (ان کی روح بشری اوصاف سے) عاری ہو کر بادشاہِ یکتا کی پیش گاہ میں گئی تو بادشاہ نے اس کو قدسی اوصاف کی پوشاک پہنا دی۔


26

خلعتی پوشید از اوصافِ شاہ بر پرید از چاہ بر ایوانِ جاہ

ترجمہ: اس نے بادشاہ (برحق) کے اوصاف سے خلعت پہن لیا۔  (یعنی متخلق باخلاق اللہ ہو گئ) وہ اوصافِ بشریہ کے کنوئیں سے (نکل کر قربِ حق کے) مرتبہ عالیہ پر پرواز کر گئی۔


27

این چنین باشد چو دُردی صاف گشت از بُنِ طشت آمد او بالای طشت

ترجمہ: جب ایک مکدر شراب صاف ہو جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے وہ طشت کی تہ سے اس کے اوپر آجاتی ہے۔ (تنزل کی حالت سے نکل کر عروج کر جاتی ہے) 


28

در بنِ طشت ارچه بود او دُرد ناک شومیِ آمیزشِ اجزای خاک

ترجمہ: (ہاں بتاؤ کہ) وہ گدلی (شراب) طشت کی تہ میں کیوں رہ گئی تھی۔ (لو سنو) خاک کے اجزا کی آمیزش کی وجہ سے۔ (اسی طرح انسان کو اس کے اوصافِ بشریہ تنزل میں رکھتے ہیں)


29

یارِ ناخوش پرّو بالش بسته بود ورنہ او در اصل بس برجسته بود

ترجمہ: (خاک کے) نامبارک رفیق نے اس کے پر اور بازو باندھ رکھے تھے۔ ورنہ اصل میں وہ بڑی چالاک (اور قابلِ عروج) تھی (اسی طرح روح جو ہمیشہ مائل بہ عروج اور متوجہ بفوق ہے مقارنتِ جسم کی وجہ سے پستی میں مقید ہے اور قانع بہ تنزل) حافظؒ 

چگو نه طوف گم در سرائے عالمِ قدس  چو در سراچه ترکیب تخته بند تنم


30

چوں عتاب اِھبِطُوا انگیختند همچو هاروتش نگوں آویختند

ترجمہ: جب اِھبِطُوا (یعنی اتر جاؤ) کا عتاب صادر کیا گیا تو اس (روح) کو ہاروت اور (ماروت) کی طرح (جسم کے کنویں میں الٹا) لٹکا دیا گیا۔

مطلب: حضرت آدم علیہ السلام اور حوّا علیہ السلام سے جب اکلِ شجرہ کا قصور سرزد ہوا اور اس قصور کا محرک ابلیس لعین تھا تو ان سب کو حکم ہوا: (اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ)  (البقرۃ، آیت نمبر 4) "اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک اور زمین تمہارے لیے ایک وقت (خاص) تک ٹھکانا اور سامانِ زندگی ہے"۔ مطلب یہ کہ روحِ انسانی اگرچہ پہلے بھی قید جسمانی میں مقید تھی۔ مگر عالم بالا کی بود و باش میں اس کو پھر بھی بہت کچھ قرب حاصل تھا اور زمین پر اتر جانے سے اس عالم سفلی میں وہ زیادہ مقید ہو گئی جو اس کے لیے بمنزلہ قید چاہ ہے۔ ہاروت و ماروت کی تمثیل بنا علی المشہور ہے اس میں کوئی تاریخی حیثیت ملحوظ نہیں (کمامر مراراً) کیونکہ اس قصہ میں باطل کی آمیزش بہت ہے۔


31

بود هاروت از ملائک بیگماں از عتابی شد معلّق همچنان

ترجمہ: ہاروت (و ماروت) بےشک ملائکہ سے تھے (مگر) عتاب کی وجہ سے یوں الٹے لٹکائے گے۔


32

سرنگوں زآن شد که از سَر دور ماند خویش را سر کرد و تنہا پیش راند

ترجمہ: وہ اس لیے سرنگوں ہو گیے کہ مبدا حقیقی (پر توکل رکھنے) سے دور رہ گیے اپنے آپ کو مقدم سمجھ لیا اور اکیلے پیش قدمی کرتے چلے گیے۔

مطلب: ہاروت و ماروت کا یہ قصہ مشہور ہے کہ ان دو فرشتوں نے بنی آدم کے متعلق اعتراض کیا کہ یہ لوگ کیوں مرتکبِ فواحش ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم کو دنیا میں بھیجا جاتا تو کبھی گناہوں کا ارتکاب نہ کرتے۔ حق تعالیٰ کو اُن کا یہ دعویٰ جس میں اپنی قوت و اختیار کا زعم تھا ناپسند ہوا۔ لہٰذا امتحاناً ان کو انسان بنا کر دنیا میں بھیجا گیا اور ان پر وہ آزمائشیں ڈالی گئیں جو بنی آدم کو پیش آتی ہیں۔ آخر وہ بھی شراب نوشی و زنا کے مرتکب ہو گے جس کی سزا میں چاہِ بابل کے اندر الٹا لٹکایا گیا۔ 

یہ قصہ سراسر بناوٹی ہے اور مفتریاتِ یہود سے ہے۔ مولانا نے اس کا ذکر بطورِ واقعہ تاریخیہ نہیں بلکہ علی سبیلِ تمثیل کیا ہے اور مقصد اس سے یہ ہے کہ روحِ انسانی جب مقرن بجسم ہو کر دنیا میں آ گئی اور اپنی سابقہ اور اصلی قرار گاہ کو فراموش کر کے دنیا کے عجائبات کی دلدادہ اور اپنے تعیشِ دنیوی پر مغرور ہو گئی تو وہ دنیا کی تاثیرات سے مکدر و بے نور ہو گئی اور بدن اس کے لیے بمنزلہ چاہِ بابل بن گیا اور اس کی وہ مثال ہوئی کہ:۔


32

آن سبد خود را چو پُر از آب دید  کرد استغناء و از دریا برید

ترجمہ: (جیسے) وہ ٹوکرا (جو دریا کے اندر ہو) جب اس نے اپنے آپ کو پانی سے پُر دیکھا تو بے پروا ہو گیا اور دریا سے قطع تعلق کر لیا۔ (روح جب عالمِ ارواح میں تھی فیوضِ غیب سے متمتع تھی مگر اس نے ان فیوض و برکات کو اپنی ذات سے مخصوص سمجھ لیا اور اس عالم سے بے نیاز ہو کر دنیا میں آ گئی)


33

برچکید آبش یکے قطرہ نماند بحرِ رحمت کرد او را باز خواند

ترجمہ: (آخر دریا سے قطع تعلق کرتے ہی) اس کا پانی (سارے کا سارا) ٹپک گیا اور ایک قطرہ (باقی) نہ رہا (پھر) دریا نے رحم کیا اور اس کو (اپنی طرف) واپس بلا لیا۔ (آخر جب روح ان فیوض و برکات سے محروم ہو گئی تو حق تعالیٰ کو اس پر رحم آیا اور پھر اسے اپنے قریب بلا لیا)


34

رحمتِ بی علتی بی خدمتی آید از دریا مبارک ساعتی

ترجمہ: رحمت بلا سبب اور بلا محنت" دریائے (احدیت) سے (ہر) مبارک ساعت میں آتی (رہتی) ہے۔ (آگے اہل اللہ کے پاس جانے کی ہدایت فرماتے ہیں)۔

35

اللہ اللہ گردِ دریا باز گرد گرچہ باشند اهل دریا روی زرد

ترجمہ: برائے خدا برائے خدا! تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اگرچہ اللہ والے زرد (رخ) ہوں (یعنی اگرچہ اہل اللہ فقیر و محتاج اور کہنہ لباس و لاغر اندام ہوں مگر یاد رکھو کہ دولتِ سعادت کے خازن وہی ہیں۔ (اگر کچھ ملے گا تو انہی کے پاس ملے گا)

36

تاکه  آید لطف و بخشایش گری سرخ گردد روی زرد از گوهری

ترجمہ: تاکہ (ان حضرات کی بدولت اللہ تعالیٰ کی) مہربانی اور بخشش نازل ہو اور زرد چہرہ جواہراتی (اوصاف) سے سرخ ہو جائے۔ (آگے غم و الم اور زرد روئی کی تعریف فرماتے ہیں)۔


37

زردی رو بهترینِ رنگها ست زانکه اندر انتظارِ آن لقاست

ترجمہ: چہرے کی زردی سب سے اچھا رنگ ہے کیونکہ (یہ رنگ) اے (محبوب حقیقی کے) وصل کے انتظار میں (عارض ہوتا) ہے۔


38

لیک سرخی بر رخی کان لا مع است بهرِ آن آمد که جانش قانع ست

ترجمہ: لیکن وہ (اطمینان کی) سرخی جو کسی چہرے پر درخشاں ہے۔ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی روح (موجودہ حالت پر) قانع ہے (مائل بہ ترقی نہیں)

مطلب: پہلے جو کہا تھا "سرخ گردد روئے زرد از گوہری"۔ اس سرخی سے مراد کمال تھا اور یہاں جو کہا ہے لیک سرخی۔۔ الخ اس سے وہ عدمِ کمال اور نقصِ احوال مراد ہے جس پر قناعت کر لی جائے جیسے کسی کو مرتبہ عین الیقین حاصل ہو اور وہ اسی پر قناعت اختیار کر لے۔ بس حق الیقین کے کمال سے محروم رہ جائے یا یہ کہ اس کو ریاضات کی بدولت کسی قدر صفائی قلب حاصل ہو جائے اور اسی کو ولایت سمجھ کر قانع اور ریاضات سے دست بردار ہو جائے۔ (بحر) خلاصہ یہ کہ پہلی سرخی کی مثال وہ سرخی ہے جو کسی پھل کو زردی کی منازل طے کرنے کے بعد بہ تدریج حاصل ہو اور دوسری سرخی ایسی ہے جیسے کسی پھل پر عارضی سرخی کا رنگ چڑھ جائے۔


39

کہ طمع لاغر کند زرد و ذلیل  نی ز درد و علت آید او علیل 

ترجمہ: (زردی و لاغری اس لیے اچھی ہے) کہ (حصولِ کمال کی) حرص (ہی) لاغر اور زرد اور خوار بناتی ہے۔ (وہ شخص) کسی درد یا مرض سے مریض نہیں ہوتا (پس یہ حالت طلبِ عروج و سعیِ ترقی کی علامت ہے اور اچھی چیز کی علامت اچھی ہوتی ہے)


40

چون به ببیند روی زردِ و بی سقم خیرہ گردد عقلِ جالینوس هم

ترجمہ: جب جالینوس (حکیم) کسی ایسے عاشق حق کے چہرہ کو زرد اور غیر مریض دیکھتا ہے تو اس کی عقل بھی چکرا جاتی ہے۔ (کیونکہ وہ زردیِ چہرہ کو صرف امراضِ جسم کی علامت سمجھتا ہے۔ وہ مردہ دل نام کا حکیم اس حالت کے اصلی سبب کو کیا جانے)

41

چون طمع بستی تو در انوارِ ھُو مصطفی گوید که ذَلَّت نَفسَهُ

ترجمہ: جب تم حق تعالیٰ کے انوار (تجلیات) کے شائق ہو جاؤ تو (تم وہ عالی رتبہ انسان ہو جس کے حق میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کا نفس ذلیل ہو گیا۔

مطلب: اس سے ظاہر ہے کہ خواری نفس کتنی اعلیٰ فضیلت ہے۔ یہ شاید اس حدیث سے ماخوذ ہے جو جامعہ صغیر میں حلیہ ابی نعیم سے منقول ہے کہ "مَن اَذَلَّ نَفسَہ فِی طَاعَۃِ اللّٰہ فَھُوَ اَعَزُّ مِمَّن تَعَزَّ بِمَعصِیَۃِ اللّٰہ "یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی طاعت میں اپنے نفس کی ذلت گوارا کی وہ اس شخص سے زیادہ معزز ہے جس نے اللہ کی نافرمانی میں معزز بننا چاہا۔


42

نورِ بی سایه لطیف و عالی است آں مُشَبَّک سایهء غربالی است

ترجمہ: وہ نور پاکیزہ اور اعلیٰ ہے جو سایہ (و ظلمت) سے خالی ہے (اور) وہ جالی دار سایہ تو چھلنی کا ہے جس میں کچھ نور و ظلمت مخلوط ہوتی ہے)۔

مطلب: روح وہی اچھی اور عالی رتبہ ہے جس میں اوصافِ جسمانیہ کا غلبہ نہ ہو۔ نور سے مراد یہاں روح ہے۔ آگے اس کی تائید میں فرماتے ہیں:۔


43

عاشقاں عریاں همی خواهند تن پیش عُنیاناں چه جامه چه بدن

ترجمہ: مردانِ عِشق تو ننگے بدن (سے وصل) کے خواہاں ہیں۔ نامردوں کے آگے کیا کپڑے (کا حجاب) اور کیا (ننگا) بدن یکساں ہیں۔

مطلب: عنین، بکسر عین و تشدید نون مکسور۔ وہ جوان جو بروقت رجولیت کے نقصان یا فقدان سے جماع پر قادر نہ ہو غیر عاشق کو اس کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ یعنی عاشق حق اپنے آپ کو ان اوصاف سے خالی کر لیتا ہے جو مقتضی بدن ہیں اور جو شخص دولتِ عشق سے تہید ست ہے اس کے نزدیک ان اوصاف جسمانیہ کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے۔ مثلاً:۔

44

روزہ داران رابود آن نان و خوان خر مگس را چه  ابا چه دیگدان

ترجمہ: روٹی اور خوان روزہ داروں کے لیے ہوتا ہے۔ مکھی کے لیے کیا شوربا اور کیا چولھا۔ (دونوں برابر ہیں یعنی مکھی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی مکلّف خوان پر بیٹھ کر کھائے بلکہ گرم چولھے پر گرے ہوئے طعام سے لذت گیر ہونا بھی اس کو ویسا ہی پسند ہے۔ جیسے خوان پر)


45

این سخن راحد و اندازہ است بیش ای ایاز اکنون بگو احوالِ خویش

ترجمہ: اس بحث کی حد اور اندازہ بہت ہے۔ اے ایاز اب اپنا حال بیان کرو۔