دفتر پنجم: حکایت: 161
دست و پائے امیر بوسیدن و دوم بار لابہ کردنِ شفیعان و ہمسائیگانِ زاہد آں امیر را
زاہد کے سفارش کرنے والوں اور پڑوسیوں کا امیر کے ہاتھ پاؤں چومنا اور دوبارہ اس امیر کی خوشامد کرنا (اس تقریر میں سفارشیوں نے خوشامد کا وہ جادو بھرا ہے جس کے اثر سے امیر کو ہتھیار رکھ دینے پڑے)
1
آن شفیعان از دم و هیہاي اوچند بوسیدند دست و پاي او
ترجمہ: ان سفارش کرنے والوں نے اس (امیر) کے دعوے اور شور و غوغا سے (مرعوب ہو کر) کئی بار اس کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیا۔
2
کاي امیر از تو نه شاید کین کشی باده گر نبو تو بی بادہ خوشی
ترجمہ: (اور عرض کیا) کے اے امیر آپ کے لیے کینہ کشی زیبا نہیں، اگر شراب تلف ہو گئی (تو بلا سے) آپ شراب کے بغیر (ہی) اچھے ہیں۔
3
بادہ سرمایه ز لطفِ تو بَرَدلطفِ آب از لطفِ تو حسرت خورد
ترجمہ:(آپ شراب پئے بدون ہی اس قدر پرسرور، لطف اندوز ہیں کہ خود) شراب (بھی) آپ کے لطف سے سرمایہ حاصل کرتی ہے۔ پانی کا لطف آپ کے لطف سے حسرت زدہ ہے۔
4
پادشاہی کن به بخشش ای رحیمای کریم ابن کریم ابن الکریم
ترجمہ: اے رحم والے! بادشاہانہ سلوک کرو (اور) اسے معاف کر دو۔ اے بزرگ! جو بزرگ زادہ ہو اور بزرگ زادے کے فرزند ہو (لفظی ترجمہ یوں ہو سکتا ہے۔ اے بزرگ جو اس کے فرزند ہو جو بزرگ کا فرزند تھا)
5
هر شرابی بندہ این قدّ و حدّجمله مستاں را بُود بر تو حسد
ترجمہ: ہر (قسم کی عمدہ سے عمدہ) شراب اس قد و رخسار کی غلام ہے۔ تمام مستوں کو آپ پر حسد آتا ہے (کہ امیر کے رخسار بلا شراب پئے گلگلوں ہیں اور ہم کو شراب پینے سے بھی وہ بات حاصل نہیں)
6
هیچ محتاجِ می گلگوں نه ایترک کن گلگونه تو گلگو نه ای
ترجمہ: آپ (سرخی چہرہ کے لیے) ہر گز سرخ شراب کے محتاج نہیں۔ رنگین پوڈر ملنا بھی ترک کر دیجئے۔ آپ خود (سر تا پا) رنگین غازہ ہیں۔
7
ای رُخِ گلگونه ات شمس الضحٰیاے گدای رنگِ تو گلگو نها
ترجمہ: اجی جناب! آپ کے گلاب کے پھول کا سا چہرہ آفتابِ چاشت ہے۔ اجی حضور! تمام رنگین پوڈر آپ کے رنگ کے بھکاری ہیں۔
8
بادہ کاندر خم همی جوشد نهانز اشتیاقِ روی تو جوشد چنان
ترجمہ: شراب جو مٹکے کے اندر مخفی طور پر جوش کھا رہی ہے تو آپ کے چہرے کے اشتیاق سے یوں جوش میں ہے۔
مطلب: اس کا مطلب یہ نہیں کہ شراب جو آپ کی مشتاق ہے تو آپ کو اُسے وصل کا موقع دینا اور اسے قرب بخشا اور پینا پلانا چاہیے۔ ﴿فَاِّنَہُ خَلَافُ المَْقصُوْد﴾ بلکہ مطلب یہ ہے کہ شراب نوشی سے جو رونقِ جسم اور رنگِ رُخ حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ اس سے مستغنی ہیں۔ خود آپ کو وہ رنگ حاصل ہے جو شراب کو نہیں اس لیے وہ آپ کی مشتاق ہے کہ آپ سے کچھ مزید رنگ حاصل کر سکے مگر آپ کو اس سے کیا سروکار چنانچہ آگے کہتے ہیں:۔
9
ای همه دریا! چہ خواهی کرد نموی همه هستی چه میجویی عدم
ترجمہ: اے تمام (خوش رنگیوں کے) دریا تم (شراب کی خفیف سی رنگت جو) نم (کے برابر ہے) کیا کرو گے اور اے سراپا ہستی! تم عدم کے کیا طالب ہو۔
10
ای مه تابان چه خواهی کرد گردای که خور در پیش رویت روی زرد
ترجمہ: اے چمکیلے چاند! تم گرد کیا کرو گے۔ اے وہ جس کے چہرے کے آگے سورج بھی زرد رُد ہے۔
11
تو خوشی و خوب و کانِ هر خوشیتو چرا خود منتِ بادہ کشی
ترجمہ: آپ (شراب پئے بدون) اچھے ہیں اور خوبصورت ہیں اور ہر خوبی کی کان ہیں (پھر) شراب کا احسان ہی کیوں اٹھاتے ہیں۔
12
تاجِ کَرَّمناَ ست بر فرقِ سرتطوق اَعطَینَاکَ آویز بَرَت
ترجمہ: کَرَّمنا کا تاج آپ کے سر کی مانگ پر (رکھا گیا) ہے۔ اَعْطَیْنَاک کا بار آپ کے سینے پر لٹک رہا ہے۔
مطلب: تم انسان ہو اور انسان کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ "یعنی ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو صحرا و دریا میں سوار کیا" (سورہ بنی اسرائیل ع 7) اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾ (الکوثر 1) یعنی "(اے پیغمبر) ہم نے تم کو بڑی خیر و برکت دی" اور جو شخص حقیقتِ محمدیہ تک واصل ہو جائے وہ بھی اس بشارت کا مصداق ہو جاتا ہے۔ اے امیر! تم بھی ان دونوں فضیلتوں کے مستحق ہو پھر اس ام الخبائث سے آپ کا کیا کام؟
واضح ہو کہ مولانا کی عادت ہے کہ جب آپ ذوق کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں تو اشخاصِ قصہ کی زبان سے کبھی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو بعض اوقات ان اشخاص کا مقولہ نہیں بن سکتی۔ یہاں کی باتیں بھی اسی قبیل سے ہیں۔ چنانچہ یہ قصہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے کا ہے۔ وہ لوگ تمثیلاً آیاتِ قرآنیہ کا ذکر کیونکر کر سکتے ہیں۔ جو ان کے بعد خاص رسول اللہ ﷺ پر ہی نازل ہوئی ہیں۔
13
جوهر است انسان و چرخ او را عرضجمله فرع و سایه اند و تو غرض
ترجمہ: (اجی جناب) انسان (تو) جوہر ہے اور آسمان اس کی عرض ہے (اس لیے) تمام (مخلوقات غیر انسان) اور سایہ ہیں اور آپ (بحیثیت انسان اصل) مقصود ہیں۔ نظامیؒ ٗ
تو آن نوری که چرخت طشت شمع استنمودار دو عالم در تو جمع است
دِل عالم توئی خود را مبیں خردبایں همت توان گوئے از فلک بُرد
چنان را کایزد از خلقت گزید ستجہانِ خاص از پئے تو آفرید ست
(جوہر و عرض کی تفصیل پیچھے کسی جگہ گذر چکی، مختصر یہ کہ جوہر قائم بالذات کو کہتے ہیں جیسے اجسام اور عرض قائم بالغیر کو جیسے مقادیر الوان و کیفیات وغیرہ)
14
علم جوئی از کتبهای فسوسذوق جوئی تو ز حلوای سُبوس
ترجمہ: تم کتابوں سے علم تلاش کرتے ہو (حالانکہ تم خود مجسم علم ہو) ہائے افسوس! تم بھوسی کے حلوے سے مزا چاہتے ہو
15
ای غلامت عقل و تدبیرات و هوشچون چنینی خویش را ارزان فروش
ترجمہ: اے! (جناب) عقل اور تدبیریں اور ہوش آپ کے غلام ہیں (پھر) آپ اپنے آپ کو اس قدر ارزاں کیوں فروخت کر رہے ہیں۔
16
خدمتت بر جملہ هستی مفترضجوهری چون عجز دارد باعرض
ترجمہ: آپ کی خدمت تمام مخلوق پر فرض ہے۔ ایک جوہر کسی عرض کے آگے عاجز کیوں ہو۔
17
بحرِ علمی در نمی پنهاں شدہدر سه گز تن عالمی پنهان شدہ
ترجمہ: تم علم کے سمندر ہو جو (ظاہری وجود کے) ایک قطرے میں پنہاں ہیں، تن کے وجود میں ایک عالم پوشیدہ ہے۔
مطلب: یہ حضرت انسان کی شان عالی کا ذکر ہے۔ جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول منقول ہے۔
﴿واَنتَ الکِتَابُ المُبِین الَّذِی بِاحرَفہ یظھَرُ المُضَمرو تَزعَمُ انکَ جرم صَغیِر وَفِیکَ الظّوِیَ العَالِمُ الاَکبَرُ﴾
اور تو وہ کتاب روشن ہے جس کے حروف سے مخفی باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور تجھے خیال ہے کہ تو ایک چھوٹا سا وجود ہے حالانکہ تیرے اندر عالمِ اکبر مستور ہے۔
18
می چه باشد با جماع و یا سماعتا تو جوی زان نشاط و انتفاع
ترجمہ: شراب، جماع یا راگ سننا کیا چیز ہے کہ تم اس سے سرور اور فائدہ طلب کرو۔
19
آفتاب از ذرہ کی شد وام خواہ؟زهرہ ای از حُمرہ کی شد جام خواہ؟
ترجمہ: سورج ایک ذرہ سے (نور بطور) قرض کب مانگتا ہے۔ بھلا (ستارہ) زہرہ ایک چھوٹے مٹکے سے (شراب کا) جام طلب کرتا ہے؟ (ہر گز نہیں)
20
جان بی کیفی شدہ محبوسِ کیفآفتابی حبسِ عقدہ اینت حیف
ترجمہ: ایک بےکیف روح کیف میں مقید ہو گئی۔ ایک آفتاب گرہ کے اندر پھنس گیا۔ دیکھو (کس قدر افسوس کی بات ہے)
مطلب: روح انسانی باعتبار تجرد ایک بےکیف جوہر ہے جو کیفیاتِ جسمانیہ کی آلائش سے پاک و منزہ ہے مگر جب وہ مقید بجسم ہو گئی تو علائقِ جسمانیہ اس کے لیے ناگزیر ہیں تاہم کاملین کی ارواح کیفیاتِ جسمانیہ کی گرویدہ نہیں ہوتیں بلکہ ان پر تجرید و عدمِ کیف کا وصف غالب رہتا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ امیر سے کہتے ہیں کہ آپ کامل ہو کر اپنی روح کو شراب وغیرہ سامانِ عیش سے ملوث کیوں کرتے ہیں۔ زاہد کے ان سفارشیوں اور ہمسائیوں کی یہ تقریر اس قدر معقول اور لاجواب تھی کہ امیر کا سارا طیش و غضب ہرن ہو گیا اب بجائے اس کے کہ وہ زاہد پر اپنے غصہ کے شرارے جھاڑتا الٹا اس کو ان لوگوں کے سامنے اپنی میخواری کی تاویل کرنی پڑ گئی۔ ان لوگوں نے جو ازراہِ خوشامد اس کو بنانے کے لیے ایک دستارِ فضیلت اس کے سر پر رکھ دی اب امیر کو اس کے سنبھالنے کی فکر ہوئی۔