دفتر 5 حکایت 159: اس بات کے بیان میں کہ سالکوں کو فتح باب سے پہلے بےتابی عارض ہو جاتی ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجاب کی وحشت سے اپنے آپ کو کوہِ حرا سے گرا دینے کا قصد فرمانے اور جبرائیل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے آپ کو ظاہر کرنے اور (اس سے) منع کرنے اور بشارت دینے کا قصہ

دفتر پنجم: حکایت: 159


در بیانِ بے طاقتی سالکان پیش از کشاد و قصد کردنِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم افگندن خود را از کوہِ حرا از وحشتِ حجاب و نمودنِ جبرئیل خود رابوئے منع کردن و بشارت دادن

اس بات کے بیان میں کہ سالکوں کو فتح باب سے پہلے بےتابی عارض ہو جاتی ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجاب کی وحشت سے اپنے آپ کو کوہِ حرا سے گرا دینے کا قصد فرمانے اور جبرائیل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے آپ کو ظاہر کرنے اور (اس سے) منع کرنے اور بشارت دینے کا قصہ:

یہ واقع بخاری کی اس روایت سے ماخوذ ہے جو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مروی ہے اور جس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں۔

﴿وَفَتَرَ الْوَحْیُ فَتْرَۃً حَتّٰی حَزِنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْہُ مِرَارًا کَیْیَتَرَدّٰی مِنْ رُؤُوْسِ شَوَاھِقِ الْجِبَالِ، فَکُلَّمَا اَوْفٰی بِذِرْوَۃِ جَبَلٍ لِکَیْیُلْقِیَ نَفْسَہُ مِنْہُ تَبَدّٰی لَہُ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اِنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَقًّا فَیُسْکِنُ ذٰلِکَ جَأْشَہُ وَتَقَرُّ نَفْسُہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَیَرْجِعُ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَیِْہِ وَفَتَرَ الْوَحْیُ غَدَا لِمِثْلِ ذٰلِکَ، فَإِذَا أَ وْفٰی بِذِرْوَۃِ جَبَلٍ تَبَدّٰی لَہُ جِبْرِیْلُ فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۸۶) وحی کے نزول میں توقف ہوا حتیٰ کہ ان حدیثوں میں جو ہم کو پہنچی ہیں (مروی ہے کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غمگین ہوئے جس سے کئی مرتبہ صبح سویرے پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینے کا قصد فرمایا۔ پس جتنی مرتبہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس سے اپنے آپ کو نیچے گرا دیں آپ کے سامنے جبرئیل علیہ السلام ظاہر ہوئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم سچ مچ اللہ کے رسول ہو تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو تسکین ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو قرار آ جاتا (مشکوٰۃ) نزول وحی میں توقف سب سے پہلی سورہ ﴿اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّک۔۔۔ ﴾  کے نزول کے بعد سورہ مدثر کے نزول تک ہوا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ توقف تین سال رہا، بعض کے نزدیک چھ ماہ اور بعض تین ماہ بتاتے ہیں۔ بہر کیف اس مدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبع مبارک پر سخت اضطراب و بےتابی عارض رہی کہ کلامِ الہیٰ کا نزول کیوں نہیں ہوتا اور اکابر علماء نے اس توقف میں یہ حکمت سمجھی ہے کہ آغازِ وحی میں جو خوف اور وحشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوئی تھی۔ وہ مبدل باشتیاق ہو جائے۔ سعدیؒ ٗ

دیدار می نمائی و پرہیز مے کنی

بازار خویش آتشِ ما تیز مے کنی


1

مصطفےٰ را هجر چون بفراختی خویش را از کوہ می انداختی

ترجمہ: حضرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب (وحی الٰہی کا) فراق غلبہ پاتا ہے تو اپنے آپ کو پہاڑ سے (نیچے) گرا دینے کا عزم فرماتے۔


2

تا بگفتی جبرئیلش هین مکن که تورا بس دولت ست از امرِکن

ترجمہ: حتیٰ کہ جبرئیل علیہ السلام (نمودار ہو کر) آپ سے کہتے۔ اے محمد ایسا نہ کیجئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (حق تعالیٰ) (کے) حکم کن سے (رسالت و نبوت کی) عظیم الشان دولت (مقدر ہو چکی) ہے۔


3

مصطفےٰ ساکن شدی ز انداختن باز هجران آوریدی تاختن

ترجمہ: تو حضرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو گرانے سے ٹھہر جاتے پھر فراق (کا اضطراب) حملہ کرتا۔


4

باز خود راسر نگون از کوہِ او می فکندی از غم و اندوہِ او

ترجمہ: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غم  و اندوہ سے مغلوب ہو کر اپنے آپ کو پہاڑ سے سرنگوں گرانے لگتے۔


5

باز خود  پیدا شدی آن جبرئیل که مکن ای که تو شاهی بی بدیل

ترجمہ: تو پھر جبرئیل آپ کے سامنے نمودار ہوتے (اور کہتے) ایسا نہ کیجئے آپ لاثانی بادشاہ ہیں۔


6

همچنین می بود تا کشفِ حجیب تا بیابید آن گهر را او ز جیب

ترجمہ: (غرض اس) حجاب (قبض) کے رفع ہونے تک آپ ﷺ کی یہی حالت رہی حتیٰ کہ آپ ﷺ نے اس گوہر (مطلوب) کو اپنی جیب میں (موجود) پایا۔

مطلب: پہلی مرتبہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نمودار ہو کر آپ کو سورہ علق کی چند پہلی آیات پڑھائیں اور آپ ﷺ گھر واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ پر رعب و ہیبت طاری تھی، جس پر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ ﷺ کو تشفی دی اور ایک مشہور عالمِ کتب سماوی ورقہ بن نوفل نے آپ ﷺ کو پیغمبری کی بشارت دی پھر جب مدت تک وحی کا نزول نہ ہوا تو آپ ﷺ اس توقف سے مضطرب رہنے لگے۔ آپ ﷺ کا اضطراب کلام الہیٰ کے اشتیاق کے لیے تھا۔ جس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کو تسلی دیتے کہ آپ ﷺ خدائی دفتر میں رسول بلکہ سیدالمرسلین درج ہو چکے ہیں اور رسول پر کلامِ الٰہی کا نازل ہونا لازمی ہے لہٰذا آپ ﷺ کو نزول کلام سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

دوسرے مصرعے کا مطلب یہ ہےکہ جب دوبارہ وحی آئی تو آپ ﷺ کو معلوم ہو گیا کہ جس گوہرِ گمشدہ کے لیے بے تابی پیش آرہی تھی۔ یعنی مہبطِ وحی ہونے کی صلاحیت اور نبوت و رسالت وہ پہلے سے حاصل ہو چکی ہے۔  ﴿کُنتُ نَبیّاً وَآدَمُ بَینَ المَآءِ وَالطِّینِ آگے مولانا آپ ﷺ کے اس اضطراب اور زندگی سے بیزاری کے متعلق فرماتے ہیں:۔


7

بهرِ هر محنت چو خود را می کشند اصل محنتها ست این چونش کشند

ترجمہ: جب (عال لوگ دنیا کی) ہر مصیبت (کے نازل ہونے) سے خودکشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو یہ (مشاہدہ حق اور تجلیّاتِ ذات کی جدائی تو) تمام مصائب کی اصل ہے (پس) اس کو کیونکر برداشت کریں۔


8

از فدائی مردمان را حیرتیست هر یکی از ما فدائی سیرتیست

ترجمہ: (محبوبِ حقیقی کے شوق میں اپنے آپ کو) فدا کرنے پر لوگوں کو تعجب آتا ہے (حالانکہ) ہم میں سے ہر شخص ایک نہ ایک غرض پر فدا ہے۔

مطلب: جب لوگ زر، زمین، زن وغیرہ اغراضِ سفلیہ کے لیے جان لڑا دینے میں دریغ نہیں کرتے تو محبوبِ حقیقی کے لیے جان فدا کرنا کونسی بڑی بات ہے۔ جو منتہیٰ لغایات اور اقصی المرادات ہے۔ (جامی)

خواهیم بهرِ هر قدش تحفه دگر  لیکن مقصریم که جان در بدن یکی ست


9

ای خنک آن کاو که فدا کرد ست تن بهرِ آن کارزد فدای او شدن

ترجمہ: ارے مبارک ہے وہ جس نے اس (محبوب) کے لیے (اپنا) وجود فنا کر دیا جس کے لیے فدا ہو جانا موزوں ہے۔صائبؒ۔

تن چه باشد که دریغ از سگ آن کو دارند استخواں چیست که درکار هماں نتوان کرد


10

باری این مقبل فدای این فن است کاندر آن صد زندگی در کشتن است

ترجمہ: آخر وہ بااقبال (عاشقِ حق) اس حالتِ پر فدا ہے جس کے اندر قتل ہونے میں سینکڑوں زندگیاں (مضمر) ہیں۔


11

عاشق و معشوق و عشقش بر دوام در دو عالم بهره مند و نیک نام

ترجمہ: (پھر) عاشق اور معشوق اور ان کا عشق دونوں جہانوں میں ہمیشہ کامیاب اور نیک نام ہے۔ 

مطلب:  خلاصہ ان پانچ اشعار کا یہ ہے کہ جب دنیا کی ادنٰی مرادات کے لیے ہر شخص جان قربان کرنے کو تیار رہتا ہے تو اس انتہائی مراد اور اعلیٰ ترین مقصد یعنی محبوبِ حقیقی کے قرب کے لیے فدا ہونا کونسی بڑی بات ہے ایسے مرنے پر سینکڑوں زندگیاں فدا ہیں اور اس راہ میں مرنے والا دارین میں بہرہ مند ہے۔

 آگے مولانا ؒ اپنی عادتِ شریفہ کے مطابق اسی مضمون کو پھر دہراتے ہیں۔


12

در جهان ہر کس فدای هر فنی است کاندر آن رہ صرف عمر و کشتنے ست

ترجمہ: دنیا میں ہر شخص ہر حالت پر (جو اُسے مرغوب ہے) فدا ہے کہ (اسے) اسی راہ میں عمر صرف کر دینا اور اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالنا (منظور) ہے۔

13

کشتنی اندر غروبی یا شروق که نه شایق ماند آنگہ نه مشوق

ترجمہ: (مگر اپنے آپ کو) ہلاک کرنا (موزوں و بجا تو وہ ہے جو محبوب کی) مستوری یا جلوہ گری میں (ہو وہ جلوہ گری) کہ جس میں (شدتِ استغراق سے) نہ شائق رہتا ہے نہ (اس کو اپنے) محبوب (کا شوقِ متصور رہتا ہے)


14

یَا کِرَامی اِرحَمُوا اَھلَ الھَوٰی شَانھم وِرد التّوی بَعدَ التّوی

ترجمہ: اے میرے بزرگو اہلِ عشق پر رحم کرو جن کی شان ہلاکت کے بعد ہلاکت پر وارد ہونا ہے۔ (آگے پھر ان لوگوں کا خطاب امیر سے ہے جو زاہد کے لیے سفارش کرتے ہیں)


15

عفو کن اي میر بر سختیِ او در نگردد درد و بَد بختیِ اُو

ترجمہ: اے امیر اس کی سختی کو (جو اس نے اس غلام کے ساتھ کی) معاف کیجئے اس کے درد اور بدنصیبی کو دیکھئے۔


16

تا زِجرمت هم خدا عفوي کند زلتت را مغفرت در آ كند

ترجمہ: تاکہ خداوند تعالیٰ آپ کے قصور کو بھی معاف فرمائے۔ آپ کی لغزش کو بخشش سے بھر دے۔

مطلب: یہ اس حدیث کا مضمون ہے  ﴿الرَّاحمُونَ بِرَحمُھُمُ الرّحمٰنُ اِرحَمُوا من فی الاَرضِ یَرحَمکُم مَن فِی السَّمَآءِ  "رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم کرے گا۔ تم زمین والوں پر رحم کرو۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا"۔ حالی مرحوم:۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمین پر خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر


17

توزِ غفلت بس سبو بشکسته ای در امیدِ عفو دِل بر بسته ای


18

عفو کن تا عفو یابی در جزا می شکافَد مُو، قدر اندر سزا

ترجمہ: (یا امیر! گستاخی معاف!) آپ نے بھی تو غفلت سے بہتیرے گھڑے پھوڑے ہوں گے (اور پھر حق تعالیٰ کی) معافی کا دل کو امیدوار رکھا ہے (پس) آپ (اس زاہد کو) معاف کیجئے تاکہ روز جزا میں (خدا سے) معافی پائیں۔ تقدیر (الہیٰ آخرت میں) سزا دیتے وقت بال کی کھال اتارے گی۔

19

موشگافانِ قدر را هوش دار قصهء مارا تو نیکو گوش دار

ترجمہ: تقدیر کی موشگافی کرنے والوں کا خیال رکھیے، ہماری (اس) بات کو اچھی طرح سن لیجیے۔ 


20

باز بشنو قصه میران دگر تا بیابی زین حکایت صد خبر

ترجمہ: دوسرے امرا کا حال سن لو (کہ مردم آزاری سے ان کا کیا انجام ہوا) تاکہ تم اس قصہ سے سینکڑوں عبرتیں حاصل کرو۔ سعدیؒ 

پند گیر از مصائبِ دیگران تا نگیرند دگران ز تو پند