دفتر پنجم: حکایت: 158
باز رجوع به حکایت امیر و زاہد و اجتماعِ خلق
پھر امیر اور زاہد کی کہانی کی طرف رجوع اور مخلوق کا جمع ہونا۔
1
چون محله پر شد از هیهای میروز لگد بر در زدن و ز دار و گیر
ترجمہ: جب امیر کے شور و غوغا، دروازے پر لاتیں مارنے اور دار و گیر سے محلّہ (بھر کے لوگوں) کی بھیڑ لگ گئی۔
2
خلق بیرون جَست زود از چپ و راستکاي مقدّم وقتِ عفو ست و رضا ست
ترجمہ: مخلوق دائیں بائیں سے باہر نکل پڑی (اور امیر کی منت کرنے لگی) کہ اے سردار! (یہ) معافی اور رضا کا وقت ہے۔
3
مغزِ او خشک ست و عقلش این زمانکمتر است از عقل و فهمِ کو دکان
ترجمہ: ( اس کا مغز مارے ریاضت کے) خشک ہے اور اب اس کی عقل بچوں کی عقل اور فہم سے بھی کمتر ہے (اس لیے اس سے یہ حرکت سرزد ہو گئی)
4
زهد و پیری ضعف بر ضعف آمدہو اندر آن زهدش کشادي ناشدہ
ترجمہ: (ایک تو) زہد (یعنی ترک دینا) اور (پھر) بڑھاپا (اس لیے) اس پر ضعف پر ضعف طاری ہو گیا اور اس کے زہد میں کوئی قلبی کشائش حاصل نہیں ہوئی۔ (جس سے طبیعت ٹھکانے پر آ جاتی۔ یعنی اس پر قبض طاری رہی ہے، بسط حاصل نہیں ہوا)
5
رنج دیدہ گنج نادیدہ زیارکار ها کردہ ندیدہ مُزدِ کار
ترجمہ: اس نے (اب تک ریاضتوں کی) تکلیف اٹھائی ہے (اور) محبوب (حقیقی) سے (وصل کا) خزانہ نہیں پایا (مشقت کے) کام کیے ہیں اور کاموں کا عوض حاصل نہیں کیا۔
6
یا نبود آن کارِ او را خود گهریا نیامد وقتِ پاداش از قدر
ترجمہ: یا تو اس کی اطاعت میں کوئی جوہر (اخلاص) ہی نہ تھا یا تقدیر سے جزا کا وقت نہیں آیا۔
7
یا که بود آن سعی چون سعیِ جهودیا جزا وابسته میقات بود
ترجمہ: یا وہ سعی یہودیوں کی سعی کی طرح (گمراہانہ) تھی یا جزا کسی مقررہ وقت پر موقوف تھی۔
8
مَرو را درد و مصیبت این بس ستکاندر این وادیِ پُرخون بیکس است
ترجمہ: (اس شخص کے لیے یہی درد و مصیبت کافی ہے کہ وہ اس (سلوک کی) وادی پُرخون میں بیکس ہے۔ (اب اس کو مارنا مرے کو مارے شاہ مدار کا مصداق ہوگا)
9
چشمِ پر درد و نشسته او به کنجرُو ترش کردہ فرو افکنده لُنج
ترجمہ: (اس کی) آنکھوں میں درد ہے اور وہ ایک کونے میں بیٹھا ہے۔ منہ کو ترش کیے اور ہونٹ لٹکائے ہوئے۔ (جو رنج و آزردگی کی علامت ہے)
10
نی یکی کحّال کاو را غم خوردعقل هم نی کو بکحلی رہ بَرد
ترجمہ: نہ کوئی سرمہ دینے والا ہے جو (اس کی دردمند آنکھوں کے لیے) اس کا غمخوار ہو اور نہ خود اس میں اتنی (عقل) ہے کہ وہ آپ ہی سرمہ (کی جگہ) تک جا پہنچے۔
11
اجتهادی می کند با وهم وظنکار در بوک است تا نیکو شدن
ترجمہ: وہ (ایک) وہم و ظن کے ساتھ کوشش کر رہا ہے (اس کا) معاملہ ٹھیک ہونے تک احتمال (و گمان ہی) میں ہے۔
12
زآن رهش دو رست تا دیدار دوستکه نماندش مغزِ سر از عشقِ پوست
ترجمہ: اسی لیے تو اس کا راستہ محبوب (حقیقی) کے دیدار تک دور ہےکہ ظاہر پرستی کی وجہ اس کے سر میں مغز نہیں۔ (اس نے فضول اور دور از کار محنتوں میں اپنا مغز کھپا لیا اور منزلِ مقصود سے دور جا پڑا)
13
ساعتی او باخدا اندر عتابکه نصیبم رنج آمد زین جناب
ترجمہ: کبھی وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ عتاب میں مشغول ہے کہ مجھے اس بارگاہ سے دکھ ہی نصیب ہوا۔
14
ساعتی بابختِ خود اندر جدالکه همه پرّان و ما ببریدہ بال
ترجمہ: کبھی وہ اپنے نصیب کے ساتھ لڑنے میں (مصروف) ہے کہ سب لوگ پرواز کرتے ہیں اور ہمارے بازو کٹے ہوئے ہیں۔
(آگے مولاناؒ فرماتے ہیں)
15
هر که محبوس ست اندر بو و رنگگر چه در زهد ست خود باشد بتنگ
ترجمہ: جو شخص (اس زاہد کی طرح منافع دنیویہ کے) بُو و رنگ (کی لگن) میں گرفتار ہے۔ اگرچہ وہ زہد میں ہے (مگر) خود تنگ ہوتا ہے۔
16
تا برون ناید از ایں تنگین مناخکی شود خویشِ خوش و صدرش فراخ
ترجمہ: جب تک وہ اس تنگ باڑے سے باہر نہیں نکلے گا۔ اس کی خصلت اچھی اور اس کا سینہ فراخ کب ہو سکتا ہے۔
17
زاهدان را در خلا پیش از گشادتیغ و اُستّرہ نشاید هیچ داد
ترجمہ: اسی لیے تو زاہد کو فتحِ باب سے پیشتر تنہائی میں۔ چھری، اُسترہ ہر گز نہیں دینا چاہیے۔
18
کز ضجرِ خود را بدّراند شکمغصه آن بی مرادیها و غم
ترجمہ: کہ وہ ان نامرادیوں اور غم کے باعث (جو اُسے راہِ سلوک میں پیش آ رہی ہیں) تنگی سے خود اپنا پیٹ پھاڑ ڈالے گا۔
19
بی مرادیهای این دنیا خوش ستبامرادی تند خودی و سرکش ست
ترجمہ: (بخلاف اس کے) اس دنیا کی نامرادیاں (انسان کو منکسر مزاج اور بھلے مانس منانے کے لیے) اچھی ہیں (اور دنیاوی) مرادمندی تند خو و سرکش (بنا دیتی) ہے۔
مطلب: دینی و دنیوی امور کا معاملہ برعکس ہے۔ دینی مرادمندی جس سے یہاں منازل سلوک طے ہونا مراد ہے انسان کو خوش اخلاق اور منکسر مزاج بنا دیتی ہے۔ نامرادی جس سے قبض کی حالت مراد ہے۔ بیتابی و تندخوئی پیدا ہوتی ہے بخلاف اس کے دنیاوی مرادمندی سے غرور و تکبر اور سرکشی اور دنیوی نامرادی سے عجز و مسکنت اور خاکساری پیدا ہوتی ہے۔