دفتر 5 حکایت 156: امیر کا (اس واقعہ سے) خبر پانا اور غضبناک ہوکر زاہد پر چڑھائی کرنا۔

دفتر پنجم: حکایت: 156


خبر یافتنِ امیر و خشم آلودہ رفتن بسرِ زاهد

امیر کا (اس واقعہ سے) خبر پانا اور غضبناک ہوکر زاہد پر چڑھائی کرنا۔

1

رفت پیشِ میر و گفتش بادہ کو ماجرا را گفت یک یک پیشِ اُو

ترجمہ: (غلام بھاگا بھاگا) امیر کے سامنے گیا اور اس (امیر) نے پوچھا شراب کہاں ہے؟ (غلام نے سارا) واقعہ مِن و عن اس کے سامنے بیان کر دیا۔

2

میر چوں آتش شد و برجست راست گفت بنما خانہ زاہد کجاست

ترجمہ: امیر (یہ سن کر) آگ کی مانند (تیز) ہو گیا اور (طیش میں) کود کر کھڑا ہو گیا۔(پھر) بولا زاہد کا گھر (مجھے) دکھا کہاں ہے۔


3

تا بدیں گُرزِ گراں کو بم سرش آں سرِ بیدانشِ مادر غرش

ترجمہ: تاکہ اس بھاری گُرز کے ساتھ اس بےعقل مادر بخطا کا سر  پھوڑ دوں۔

4

او چہ داند امرِ معروف از سگی طالبِ معروفی ست و شُہرگی

ترجمہ: وہ نیکی کا امر کرنا کیا جانے (جو مسلمان کے جان و مال کو تلف کرتا ہو بلکہ) کتے پن سے مشہوری و نام آوری کا طالب ہے (کہ اپنے ان افعال سے عوام میں حق شناس و حق گو مشہور ہو جائے)

5

تا بدیں سالوس خود را جاکند تا بچیزے خویش را پیدا کند

ترجمہ: تاکہ اس ریاکاری سے اپنے لیے منزلت (پیدا) کرے اور کسی ڈھب سے اپنے آپ کو (لوگوں میں) نمایاں کرے۔

6

او ندارد خود ہنر الاّ ہماں کہ تسلّس میکند با مردماں

ترجمہ: وہ کوئی بھی ہنر نہیں رکھتا مگر یہی کہ لوگوں کے ساتھ فریب کرتا ہے۔

7

او اگر دیوانہ ست و فتنہ کاؤ چارہ دیوانہ چہ بود؟ کیر گاؤ

ترجمہ: وہ اگر دیوانہ اور فتنہ انگیز ہے تو دیوانے کا علاج کیا ہوتا ہے؟ کیرگاؤ (کا تازیانہ)


8

تاکہ شیطاں از سرش بیروں رود بے لتِ خربندگاں خر چوں رود

ترجمہ: تاکہ شیطان اس کے سر سے نکل جائے، کمہاروں کی ضرب کے بغیر گدھا کب چلتا ہے، (لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے)

9

میر بیروں جست و دبّوسے بدست نیم شب آمد بزاہد نیم مست

ترجمہ: (اتنا کہہ کر) امیر باہر نکلا اور ایک گُرز ہاتھ میں (تھا) آدھی رات کو زاہد کی طرف آیا جب کہ وہ (غصے سے) نیم مست تھا۔ (یا زاہد نیند سے نیم مست تھا)


10

خواست کشتن مردِ زاہد را ز خشم مردِ زاہد گشت پنہاں زیرِ پشم

ترجمہ: اس نے غصہ سے مردِ زاہد کو مار ڈالنا چاہا۔ مرد زاہد پشم کے نیچے چھپ گیا۔

11

مردِ زاہد مے شنید از میر آں زیر پشم آں رسن تاباں نہاں

ترجمہ: مرد زاہد  رسی بٹنے والوں کی پشم کے نیچے چھپا ہوا  امیر کی (غضب آمیز گفتگو) سن رہا تھا۔

12

گفت در رو گفتنِ زشتیِ مرد آئینہ تاند کہ رو را سخت کرد

ترجمہ: (اور دل ہی دل میں) کہنے لگا کہ کسی شخص کی برائی (اس کے) منہ پر کہہ دینا آئینہ ہی کی طاقت ہے جس نے (اپنا) منہ سخت بنا رکھا ہے۔

مطلب: اگلے زمانہ میں آئینہ فولاد کا ہوتا تھا جس کی ہموار سطح کو صیقل کر کے چہرہ وغیرہ دیکھنے کے قابل بنا لیتے تھے اب آئینے کانچ کے بنتے ہیں اسی رسمِ قدیم کی بنا پر ادبیاتِ فارسی میں آئینہ کو سخت رو، جوہردار، زنگ خوردہ وغیرہ صفات کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ زاہد کہتا ہے کہ آئینہ سخت رو ہے اس لیے جو شخص اس کے سامنے اپنا منہ لاتا ہے آئینہ اس کا عکس دکھا کر بلا تامل اس کے چہرے کو اس پر عیاں کر دیتا ہے۔ مجھ میں یہ بات کہاں کہ امیر کے عیب کو واشگاف کر کے اب اس کے سامنے آ سکوں لہذا مجھے یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی یا آئینہ کی سی سخت روئی مجھ میں ہوتی۔

13

روئے باید آئینہ وار آہنیں تات گوید روئے زشت خود ببیں

ترجمہ: (اے امیر) آئینہ کی طرح آہنی منہ چاہیے۔ تاکہ تجھے کہے کہ اپنے برے منہ کو تو دیکھ۔ (زاہد کے پشم کے نیچے چھپ جانے کی تمثیل میں ایک اور حکایت ارشاد ہے)