دفتر 5 حکایت 155: ضیاء بلخ اور تاج الاسلام کی حکایت اور ضیاء کا مذاق کرنا

دفتر پنجم: حکایت: 155


حکایت ضیاءِ بلخ و تاج الاسلام و لطیفه گفتنِ ضیاء

ضیاء بلخ اور تاج الاسلام کی حکایت اور ضیاء کا مذاق کرنا


-1-

آن ضیاء بلخ خوش الهام بود

دادرِ آن تاج شیخ اسلام بود

ترجمہ: ان ضیاءِ بلخ کو (جن کی کہانی ہے) عجب سوجھا کرتی تھی ان کے بھائی تاج شیخ الاسلام تھے۔


-2-

از برای علم خلقی پیشِ او

گشته دائم در ملازم درس جو

ترجمہ: ایک مخلوق کثیر ہمیشہ ان کے سامنے علم کے لیے شریک صحبت رہ کر طالب درس ہوتی۔


-3-

تاج شیخ الاسلام دارالملکِ بلخ

بود کوته قد وکوچک همچو فرخ


-4-

گرچه فاضل بود و فحل و ذو فنون

این ضیاء اندر ظرافت بُد فزون

ترجمہ: (حضرت) تاج (الاسلام) جو دارالملک بلخ کے شیخ الاسلام تھے۔ اگرچہ فاضل اور یکتائے زمانہ اور ماہر فنون تھے (مگر) کوتاہ قد اور بونے مرغی کے بچے کی مانند تھے اور یہ (ان کے بھائی) ضیاء شرافت میں بڑھے ہوئے تھے۔


-5-

او بسی کوته ضیا بی حد دراز

بود شیخ اسلام را صد کبر و ناز

ترجمہ: (اور تماشہ یہ کہ) وہ بہت پست قد تھے اور ضیاء از حد لمبے۔ شیخ الاسلام کو (اپنے علم و فضل پر) بہت کچھ فخر و ناز (بھی تھا)

-6-

زین برادر ننگ وعارش آمدی

وین ضیا هم واعظی بد با هدی

ترجمہ: (اس لیے اپنے) اس بھائی (ضیاء) سے ان کی عار و ننگ آتی تھی۔ حالانکہ یہ ضیاء (صاحب) بھی (اگر ویسے فاضل علامہ نہیں تو کم از کم) ایک واعظ خوش بیان با ہدایت (ضرور) تھے۔

مطلب: ضیاء صاحب کے وعظ کا ذکر بدیں غرض کیا ہے کہ وہ بھی ایک علمی ہنر رکھتے تھے اس لیے تاج الاسلام صاحب ان سے عار کرنے میں حق بجانب نہ تھے مگر شاید ان کی عار اس بنا پر ہو کہ ضیاء ظریف الطبع تھے اور ظرافت و مذاق بعض اوقات عملی وقار کے لیے ضرر رساں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ممکن ہے کہ ان کا شغل وعظ بھی تھا تاج الاسلام کی نظر میں موجبِ عار ہو۔ جیسے کہ عموماً واعظوں کی موضوع روایات اور ان کی قصہ خوانیاں اہل ثقہ کی نظر میں ناپسند ہوتی ہیں۔ بہر کیف ان دونوں بھائیوں کے اوصاف سے تعارف ہو چکا ہے۔

اب واقعہ سنیے:۔


-7-

روزِ مجلس اندر آمد آن ضیا

بار گہ پُر قاضیان و اصفیا

ترجمہ: (ایک مرتبہ) وہ ضیا صاحب درس کے روز اندر آئے (جب کہ) مجلس قاضیوں اور برگزیدہ لوگوں سے پُر تھی۔

-8-

کرد شیخ اسلام از کبرِ تمام

مر برادر را ضیت نصف القیام

ترجمہ: تو تاج اسلام نے پورے غرور کے انداز میں بھائی (کی نمائشی تعظیم) کے لیے کچھ یونہی آدھا سا قیام کیا۔


-9-

پس ضیا چوں دید کبر اندر سرش

انفعالی داد حالی در خورش

ترجمہ: پس ضیاء نے جب ان کے سر میں تکبر دیکھا تو فوراً ان کو شرمندہ کیا جیسا کہ چاہیے۔


-10-

گفت آری بس درازی بہرِ مُزد

اندکی از قدّ سروت هم بُدزد

ترجمہ: (ان سے) کہا جی ہاں! تم بہت دراز قد جو ہوئے تو (حصول) عوض کے لیے اپنے قد (مثل) سرو میں سے کسی قدر چرا رکھیے۔

مطلب: یعنی تمہارا قد بہت لمبا ہے میری تعظیم کے لیے اس کا کچھ تھوڑا سا حصہ دراز کر دینا کافی ہے۔ باقی حصے کو سنبھال رکھو تاکہ اس کا جلوہ دکھا کر کسی اور سے انعام حاصل کرو۔ قد کی لمبائی کا ذکر بطورِ استہزا کیا ہے کیونکہ وہ برعکس اس کے کوتاہ قد تھے۔

اب وہ زاہد غلام سے کہتا ہے۔


-11-

پس ترا خود عقل کو، یا هوش کو

تا خوری می ای تو دانش را عدو

ترجمہ: پس تجھ میں عقل یا ہوش ہے کہاں؟ جو اے عقل کے دشمن تو شراب (بھی) پئے۔ (اور صحیح العقل بھی رہے)

-12-

رُوت بس زیبا ست نیلی هم بکش

ضُحکہ باشد نیل بر روی حبش

ترجمہ: تیرا منہ بہت خوبصورت ہے (اس پر) نیل بھی مل لے۔ حبشی کے منہ پر نیل (کا رنگ) مضحکہ (کا باعث) ہوگا۔


-13-

در تو نورے کے درآمد اے غوی

تا تومی نوشی و ظلمت جُو شوی

ترجمہ: اے گمراہ! تجھ میں (عقل کا) نور آیا ہی کہاں ہے۔ تو شراب پی کر (بدمستی کی) ظلمت کا طالب ہو گیا۔


-14-

سایه در روز است جستن قاعدہ

در شبِ ابری تو سایہ جُو شدہ

ترجمہ: سایہ دن میں طلب کرنے کا قاعدہ ہے۔ تو ابر آلود رات میں سایہ تلاش کر رہا ہے (اہلِ عقل کو سکر کی حالت مطلوب ہو سکتی ہے مگر تو خالی از عقل ہو کر طالب سکر ہے)



-15-

گر حلال آمد پی قوتِ عوام

طالبانِ دوست را آمد حرام

ترجمہ: اگرچہ (ہماری شریعت عیسوی میں) عام لوگوں کی غذا کے لیے (شراب) حلال ہے (مگر) محبوب (حقیقی) کے طالبوں کے لیے حرام ہے۔


-16-

عاشقاں را بادہ خونِ دل بود

چشمِشاں بر راہ و بر منزل بود

ترجمہ: عاشقوں کی شراب دل کا خون ہوتی ہے۔ ان کی آنکھ راستے اور منزل پر ہوتی ہے۔


-17-

در چنیں راہ بیابانِ مخوف

ایں قلاوزِ خرد باصد، کسوف

ترجمہ: ایسے راستے اور خطرناک جنگل میں یہ رہبرِ عقل (کا آفتاب) سو گہن میں (مبتلا) ہے۔


-18-

خاک در چشمِ قلاوزاں زنی

کاروان را گمرہ و هالک کنی

ترجمہ: تو (اپنی عقلِ راہبر کو مستِ شراب کر کے دوسرے) رہبروں کی آنھ میں خاک جھونک رہا ہے۔ قافلے کو گمراہ اور تباہ کر رہا ہے۔

مطلب: امیر کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی تو رعایا کا حاکم اور پاسبان ہے اور مستِ شراب ہو کر وہی کام کرتا ہے جو ایک بدمست و بےہوش سے ہو سکتا ہے اور ماتحت امرا کے نیک مشورے کو نہیں مانتا نتیجہ یہ کہ رعایا برباد ہو رہی ہے جس طرح قافلے کا ایک زبردست راہنما گمراہی میں پڑ کر قافلے کو ہلاکت کی طرف لے جائے اور دوسرے رہنماؤں کی ایک نہ مانے بلکہ ان کو گمراہی سے منسوب کرے حتیٰ کہ قافلہ ہلاک ہو جائے۔


-19-

نانِ جَو حقَّا حرام ست و فسوس

نفس را در پیش نہ نانِ سبوس

ترجمہ: (شراب تو ایک بڑی چیز ہے نفس کو اگر) جو کی روٹی (میں لذت آئے تو) بخدا (وہ بھی) حرام اور قابلِ دریغ ہے۔ نفس کے سامنے بھوسے کی روٹی رکھو۔


-20-

دشمنِ راہِ خدا را خوار دار

دُزد را منبر منه، بردار دار

ترجمہ: راہِ خدا کے دشمن کو ذلیل بنا کر رکھو۔ چور کے لیے منبر نہ رکھو (کہ اس پر چڑھ کر اپنی چوری کے فضائل سنائے بلکہ) سولی پر چڑھا دو۔ (تاکہ اپنے کیفر کردار کو پہنچے)


-21-

دُزد را تو دست ببریدن پسند

از بریدن عاجزی دستش ببند

ترجمہ: تم چور کے ہاتھ کاٹ ڈالنا پسند کرو (اگر) کاٹ ڈالنے سے عاجز ہو (تو کم از کم) اس کے ہاتھ جکڑ (ہی) دو (اگر تم مقتضیاتِ نفس کا قلع و قمع نہیں کر سکتے تو ان کو ضبط رکھنے کی ہی کوشش کرو)


-22-

گرنبندی دست او دستِ تو بست

ور تو پایش نشکنی پایت شکست

ترجمہ: اور اگر تم اس کے ہاتھ بند نہیں کرو گے تو وہ تمہارے ہاتھ باندھ دے گا اور اگر تم اس کے پاؤں توڑ نہیں ڈالو گے تو وہ تمہارے پاؤں توڑ ڈالے گا۔


-23-

تو عدو را می دہی و نی شکر

بهرچه گو زهر نوش و خاک خور

ترجمہ: تم (الٹا) دشمن کو شراب (پینے کو) اور گنے (چوسنے کو) دیتے ہو۔ یہ کیوں؟ (بلکہ تم اُسے) کہو زہر پی اور خاک کھا۔


-24-

زد زغیرت برسبو سنگ و شکست

اوسبو انداخت از زاهد بجست

ترجمہ: (زاہد نے اتنا کہا اور جوش) غیرت سے (شراب کے) گھڑے پر پتھر دے مارا۔ اس (غلام) نے (دوسرا) گھڑا (بھی) پھینک دیا اور زاہد سے بھاگ گیا۔ (کہ مبادا جوشِ غضب میں میری بھی گت بنا دے)