دفتر 5 حکایت 154: اس امیر کی کہانی جس نے غلام کو حکم دیا کہ شراب لا۔ غلام گیا اور شراب کا گھڑا بھر لایا۔ راستے میں ایک زاہد تھا جو نیکی کی ہدایت کرتا تھا اس نے اس کے گھڑے کو پھوڑ ڈالا۔ امیر نے سنا تو زاہد کو سزا دینےکا قصد کیا۔ زاہد بھاگ گیا۔

دفتر پنجم: حکایت: 154



اس امیر کی کہانی جس نے غلام کو حکم دیا کہ شراب لا۔ غلام گیا اور شراب کا گھڑا بھر لایا۔ راستے میں ایک زاہد تھا جو نیکی کی ہدایت کرتا تھا اس نے اس کے گھڑے کو پھوڑ ڈالا۔ امیر نے سنا تو زاہد کو سزا دینےکا قصد کیا۔ زاہد بھاگ گیا۔

یہ قصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (کی شریعت) کے زمانے میں واقع ہوا کہ ابھی شراب حرام نہ ہوئی لیکن زاہد لذّت اور عیش سے منع کرتا تھا۔

مطلب: عہد عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مراد نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں یہ واقعہ گزرا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا زمانہ تھا جبکہ شراب حرام نہ ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی امیر علانیہ شراب نوشی کرتا تھا حالانکہ وہ ایک صالح آدمی اور عامل بشرع تھا اور اسی سے شاید طاعات و عبادات میں سرور و استغراق حاصل کرنا اس کا مقصود تھا مگر چونکہ شراب ام الخبائث اور مہیجِ شہوات ہے اور اس کا اثر بد ہر زمانہ اور عہد میں یکساں رہا ہے، اس لیے زاہد اس سے منع کرتا تھا جیسے کہ زہد و تقویٰ اکثر مباحات کو ترک کرنے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ادھر امیر کو زاہد پر بدیں وجہ غصّہ آیا کہ اس نے امرِ مباح پر اس سختی کا سلوک کیا کہ سبُو توڑ ڈالا۔ اور امیر کے وقار کی بھی پروا نہ کی۔


-1-

بود امیری خوشلی می خوارہ ای

کهفِ هر مخمور و هر بی چارہ ای

ترجمہ: ایک امیر تھا جو خوش اور شراب پینے کا عادی تھا۔ ہر شرابی اور مے کش کی پناہ تھا (بعض نسخوں میں میخوارد کے بجائے بارہ لکھا۔ بارہ کے معنی دوست کے ہیں یعنی شراب کا دوست تھا)


-2-

مشفق و مسکین نوازی عادلی

مکرمی، زر بخشی و دریا دلی

ترجمہ: مہربان، غریبوں کی مدد کرنے والا، انصاف کرنے والا۔ سخی، نقدی دینے والا اور دریا دل تھا۔


-3-

شاہِ مردان و امیرالمومنین

راہ بان و راز دان و دور بین

ترجمہ: بہادروں کا بادشاہ مسلمانوں کا امیر، راستے کا محافظ راز کا واقف اور دور اندیش تھا۔


-4-

دورِ عیسیٰؑ بود و ایامِ مسیح

خلق دلدار و کم آزار و ملیح

ترجمہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام (کی شریعت) کا دور تھا اور مسیح علیہ السلام (کی ملت) کا زمانہ۔ (اس امیر کے) اخلاق دلدار اور بے ضرر اور اچھے تھے (یوں کہو کہ اس زمانہ کی مخلوق آپس میں دلدار بے ازار اور اچھی تھی)


-5-

آمدش مهمان به نا گاهان شبی

هم امیری جنسِ او خوش مذهبی

ترجمہ: (ایک شب) اچانک اس کے ہاں مہمان آ گیا۔ وہ بھی امیر تھا۔ اس کا ہم رتبہ تھا اور اچھے مذہب والا تھا۔



-6-

بادہ می بایستشاں در نظمِ حال

بادہ بود آن وقت مأذون و حلال

ترجمہ: ان کو (اس وقت اپنی) حالت کی باقاعدگی کے لیے شراب کی ضرورت تھی (اور) شراب اس وقت جائز و حلال تھی۔


-7-

بادہ شان کم بُود گفت اوبا غلام

رَو سبو پُر کُن بما آور مدام

ترجمہ: ان کے پاس شراب کم تھی اور اس نے غلام کو کہا جا شراب کا گھڑا بھر کے ہمارے پاس لا۔


-8-

از فلان راهب که دارد خُمرِ خاص

تا زخاص و عام جان یا بد خلاص

ترجمہ: فلاں راہب سے (شراب لا) جو خاص (قسم کی عمدہ شراب) رکھتا ہے تاکہ (ایسی مقدس ہستی سے کار براری ہو جائے) خاص و عوام (کے آگے دستِ سوال پھیلانے) سے جان نجات پائے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے راہب بھی مےنوشی کو ممدِ عبادت سمجھتے تھے۔ اسی قسم کا خیال ان امیروں کو ہوگا وگرنہ اگر راہب بطورِ خیانت نفس شراب نوشی کرتا تو امیر کو اس کی اطلاع نہ ہوتی اور اگر اطلاع ہوتی تو وہ اس کو جائز نہ رکھتا۔


-9-

جرعه ای زآن جامِ راهب آن کند

که هزاران جُرہ و خُمدان کند

ترجمہ: اس راہب کے جام کی ایک گھونٹ وہ (اثر) کرتی ہے جو (شراب کے) ہزاروں گھڑے اور مٹکے نہ کر سکیں۔


-10-

اندر آن می مایۀ پنهانی ست

آنچنان کاندر عبا سلطانی است

ترجمہ: اس شراب میں (مستی کا) ایک جوہر پنہاں ہے جس طرح گدڑی کے اندر ایک بادشاہ چھپا ہوا ہو۔

(آگے چند شعروں میں یہ ذکر ہے کہ بعض اوقات ظاہرِ پراگندہ باطنِ معمور کا حجاب ہوتا ہے)

-11-

تو به دلقِ پاره پارہ کم نگر

که سیه کردند از بیرونِ زر

ترجمہ: تم پھٹی پرانی گدڑی کو نہ دیکھو (بلکہ اس وجود کو دیکھو جو اس کے اندر مخفی ہے جیسے) کہ سونے کو باہر سے سیاہ کر دیا جاتا ہے (اور اندر سے وہ دمک رہا ہوتا ہے)


-12-

از برای چشمِ بَد مردود شد

وز برون آن لعل دُود آلود شد

ترجمہ: نظر بد (سے بچانے) کے لیے وہ ناپسند بنایا گیا ہے اور باہر سے وہ لعل دھوئیں سے آلودہ ہے۔


-13-

گنج و گوهر کی میانِ خانها ست

گنجها پیوسته در ویرانه هاست

ترجمہ: خزانے اور موتی (آراستہ) گھروں میں کب ہوتے ہیں۔ خرانے ہمیشہ ویرانوں میں ملتے ہیں۔


-14-

گنجِ آدم چون به ویران بُد دفین

گشت طینش چشم بند آن لعین

ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام (کے کمالات باطن) کا خزانہ چونکہ (خاکی وجود کی) ویرانہ میں مدفون تھا (اس لیے) ان کی خاک (وجود) اس (شیطان) ملعون کی نظر کا حجاب بن گئی۔


-15-

او نظر می کرد در طین سُست سُست

جان همی گفتش که طینم سدّ توست

ترجمہ: وہ (ملعون ان کی) خاک (وجود) کو حقارت سے دیکھتا تھا (اور آپ کی باکمال) روح اس سے کہہ رہی تھی کہ میری خاک تیرے لیے حجاب ہے۔

(آگے پھر قصہ چلتا ہے)



-16-

دو سبو بستد غلام و خوش دَوید

در زمان تادیر رُهباناں رسید

ترجمہ: (غرض) غلام نے دو (خالی) گھڑے لیے اور خوشی خوشی دوڑا فوراً راہبوں کے گرجا میں پہنچ گیا۔


-17-

زر بداد و بادۀ چون زر خرید

سنگ داد و در عوض گوهر خرید

ترجمہ: نقدی دی اور سونے کی سی (چمکیلی) شراب خرید لی۔ چند جمادی ٹکڑے دیے اور ان کے عوض میں موتی خرید لیے۔ (زر کی تشبیہ اور سنگ و گوہر کا مقابلہ پرلطف ہے)


-18-

بادہ ای کان برسرِ شاهان جهد

تاجِ زر بر تارکِ ساقی نهد

ترجمہ: وہ شراب جو بادشاہوں کے سر میں دوڑ جائے (اور) ساقی کے سر پر سنہری تاج رکھ دے۔ (یعنی بادشاہ تک اس شراب سے مست ہیں اور ساقی اس کی بدولت سرفراز ہیں)


-19-

فتنه ها و شورها انگیخته

بندگان و خسروان آمیختہ

ترجمہ: (اس شراب نے اپنی شدّت تاثیر سے) فتنے اور شور برپا کر رکھے ہیں۔ غلاموں اور بادشاہوں کو باہم ملا دیا۔ (غلبہ مستی سے ان میں فرقِ مراتب نہیں رہا)


-20-

استخوان ها رفته جمله جان شدہ

تخت و تخته آن زمان یکسان شدہ

ترجمہ: (غلام و آقا کے ظاہری وجود کے) پنجر (جو باعثِ امتیاز تھے) نابود ہو گئے (اور) سب کے سب مستی کے مقام میں یک جاں ہو گئے۔ تخت (شاہی) اور تختہ (تابوت) اس وقت یکساں ہو گئے۔


-21-

وقت هوشیاری چو آب و روغنند

وقت مستی همچو جان اندر تنند

ترجمہ: ہوشیاری کے وقت پانی اور تیل کی مانند ہیں۔ (جو باہم آمیزش نہیں پاتے اور) مستی کے وقت (سب کے سب) جان کی مانند ہیں (جو ایک) بدن میں ہو۔


-22-

چون هریسه لحم و گندم عرق هم

هیچ سبقی نی در ایشاں فرق هم

ترجمہ: جیسے گوشت اور گیہوں کا دلیا (جس میں) ہڈیوں سے الگ کیا ہوا گوشت بھی (شامل ہو کہ) ان (چیزوں) میں (باہم) کوئی پیش قدمی اور فرق نہیں۔ (ہوتا)


-23-

چون هریسه گشته آنجا فرق نی

نیست فرقی کاندر آنجا غرق نی

ترجمہ: جب (یہ چیزیں) کھچڑی ہو گئیں تو وہاں (کسی چیز کا) فرق نہیں ہے کوئی فرق ایسا نہیں جو یہاں غرق (و نا بود) نہیں۔


-24-

این چنین بادہ همی بُرد آن غُلام

سوی قصرِ آن امیرِ نیک نام

ترجمہ: (غرض) وہ غلام اس قسم کی (نایاب) شراب اس نیک نام امیر کے محل کی طرف لے جا رہا تھا۔


-25-

پیشش آمد زاهدی غم دیدہ ای

خشک مغزی در بلا پیچیدہ ای

ترجمہ: (کہ اتنے میں) ایک زاہد سامنے آیا جو (آخرت کے) غم میں گھلتا رہتا تھا (شدتِ مجاہدات سے) اس کا مغز خشک تھا (ریاضت کے) مصائب میں گرفتار تھا۔



-26-

تن ز آتشهای دل بگداخته

خانه از غیرِ خدا پرداخته

ترجمہ: (اس کا) بدن قلب کی سوزشوں سے پگھل رہا تھا (دل کے) گھر کو ماسویٰ اللہ (کے خیال) سے خالی کر چکا تھا۔


-27-

گوشمالِ محنتِ بی زینہار

داغها بر داغها چندیں هزار

ترجمہ: وہ (ریاضت و مجاہدات کی) بےپناہ محنت کا سزایافتہ تھا کئی ہزار داغ پر داغ۔ (اٹھائے ہوئے تھا)


-28-

دیدہ هر ساعت خلش در اجتهاد

روز و شب چسپیدہ او بر اجتهاد

ترجمہ: وہ ہر گھڑی مجاہدہ میں تکلیف اٹھاتا تھا۔ رات دن مجاہدہ میں مشغول تھا۔

-29-

سال و مه در خاک و خون آمیختہ

صبر و حلمش نیم شب بگریخته

ترجمہ: وہ مہینوں اور برسوں خاک و خوں میں مل چکا تھا۔ اس کے صبر اور حلم آدھی رات کے وقت (پر لگا کر) اڑ چکے تھے۔


-30-

گفت زاهد در سبوها چیست آن؟

گفت بادہ گفت بهرِ کیست آن؟

ترجمہ: زاہد نے پوچھا گھڑوں میں کیا ہے؟ (غلام نے) جواب دیا شراب ہے (پھر) پوچھا وہ کس کے لیے ہے؟


-31-

گفت این زآنِ فلان میرِ اجل

گفت طالب را چنیں باشد عمل؟

ترجمہ: (غلام نے کہا) یہ فلاں امیر کبیر کی ہے۔ (زاہد نے) کہا کیا طالب (حق) کے اعمال ایسے ہی ہوتے ہیں؟ (کہ وہ شراب و کباب کا دلدادہ رہے)


-32-

طالبِ یزدان و آنگه عیش و نوش

بادۀ شیطان و آنگه تیز هوش

ترجمہ: طالبِ حق (ہونے کا دعویٰ) اور پھر عیش پرستی و مے نوشی؟ شیطان کی شراب (پینے کا لپکا) اور پھر تیز ہوش ہونے کا دعوٰی؟

مطلب: طالب حق ہر گز عیش پرستی کا شائق نہیں ہو سکتا۔ ٗ

حافظ آن روز طرب نامه عشق تو نوشت

که قلم برسر اسباب و دل خرم زد

اور شیطانی خیالات میں سرمست رہنے والا ہر گز دور اندیش نہیں ہو سکتا۔ بعض نسخوں میں دوسرے مصرعہ کے لفظ "تیز ہوش" کے بجائے "نیم ہوش" درج ہیں پھر مطلب یوں ہوگا کہ شیطانی شراب پی لینے میں تو ہوشِ کامل کی بھی خیر نہیں۔ لیکن جب ہوش پہلے ہی ناقص ہوں تو کیا ٹھکانا۔


-33-

هوشِ تو بے می چنیں پژ مردہ است

هوشها باید بر آن هوشِ تو بَست

ترجمہ: تمہارے ہوش (جب) شراب (پئے) بدون اس قدر پژ مردہ ہیں کہ بہت سے ہوش چاہییں جن کو تمہارے ہوش پر اضافہ کیا جائے (اور پھر کہیں جا کر تم ہوشمند کہلا سکتے ہو)

(اس شعر کی جزا اگلا شعر ہے)


-34-

تاچه باشد هوشِ تو هنگامِ سُکر

ای چو مرغی گشته صیدِ دام سُکر

ترجمہ: تو اے وہ! جو ایک پرندہ کی طرح بدمستی کے جال کا شکار ہو گیا (جب تم شراب پیتے ہوگے تو) بدمستی کے وقت تمہارے ہوش (و حواس) کا کیا حال ہوگا؟

مطلب: دونوں شعروں کا مفاد یہ ہے کہ جب پیے بدون ہی تم ناقص العقل، غیر ذی فہم اور کوتاہ اندیش ہو تو شراب پی کر تمہاری بدمستی و بدحواسی کا کیا ٹھکانا۔

آگے ایک کہانی اس کی تائید میں ارشاد ہے جس میں ایک کوتاہ قد بزرگ نے دوسرے بزرگ کی تعظیم میں پورے قیام کے بجائے آدھا قیام کیا۔ تو دوسرے بزرگ نے مزاحاً کہا: "تمہارا قد شاید ضرورت سے زیادہ لمبا ہے" اسی لیے تم نے اس میں سے نصف قد چرا لیا ہے اور اس سے اس بات کی تائید مقصود ہے کہ تمہاری عقل پہلے ہی ناقص ہے مگر تم شراب کے ساتھ اس کو اور بھی ناکارہ بنا لیتے ہو۔