دفتر پنجم: حکایت: 153
مثل آوردنِ گبر در بیانِ معنی و صورت بایزیدؒ
گبر کا حضرت بایزیدؒ کے باطن و ظاہر (کی یکرنگی) کے بیان میں تمثیل پیش کرنا
-1-
بُود مردی کدخدا او را زنی
سخت طنّاز و پلید و رهزنی
ترجمہ: ایک مال دار آدمی تھا اور اس کی ایک عورت تھی۔ بڑی نخرے والی اور ناپاک اور لٹیری۔
-2-
هر چه آوردی تلف کر دیش زن
مرد مضطر گشته اندر تن زدن
ترجمہ: جو کچھ (وہ غریب کما کر) لاتا عورت خُورد بُرد کر لیتی، مرد خاموشی اختیار کرتا کرتا تھک گیا۔
-3-
بهرِ مهمان گوشت آورد آن معیل
سوی خانه با دو صد جهد طویل
ترجمہ: (ایک مرتبہ) وہ مالدار بڑی کوشش سے کسی مہمان کے لیے (بازار سے) گوشت (خرید کر) گھر لایا۔
-4-
زن بخُوردش با شراب و با رباب
مرد آمد گفت دفعِ نا صواب
ترجمہ: عورت اس (گوشت) کو شراب و کباب میں اڑا گئی۔ جب مرد آیا (اور اس نے گوشت مانگا تو اس کو) بےہودہ جواب دیا۔
-5-
مرد گفتش گوشت کو؟ مهماں رسید
پیش مهماں لُوت میباید کشید
ترجمہ: (چنانچہ) مرد نے اس سے پوچھا گوشت کہاں ہے مہمان آ گیا ہے اس کے آگے کھانا لے جانا چاہیے۔
-6-
گفت زن این گربه خورد آن گوشت را
گوشت دیگر خر اگر باشد هلا
ترجمہ: عورت نے کہا اس بلی نے گوشت کھا لیا اگر تم کو (گوشت کی) ضرورت ہے تو اور خرید کر لاؤ، جلدی کرو۔
-7-
گفت ای ایبک ترازو را بیار
تاکه گربه برکشم گیرم عیار
ترجمہ: (مرد نے) آواز دی کہ ارے او غلام! ترازو لے کر آ میں بلی کا وزن کرتا ہوں۔
-8-
بر کشیدش، بود گربه نیم من
بس بگفتش مرد کای محتاله زن!
ترجمہ: (چنانچہ اس کو وزن کیا تو بلی آدھ سیر (وزن) کی تھی۔ پھر مرد نے اس کو کہا اری حیلہ باز عورت۔
-9-
گوشت نیم من بود افزون یک ستیر
هست گربه نیم من هم ای ستیر
ترجمہ: گوشت آدھ سیر سے تولہ دو تولہ زیادہ ہی تھا (کم نہ تھا) اے پردہ نشین! بلی بھی آدھ سیر کی ہے۔ (یہ پالتو بلی تھی جو پہلے سے وزن کی ہوئی ہو گی)
-10-
این اگر گربه ست پس آن گوشت کو؟
ور بود این گوشت بنما، گربه تو
ترجمہ: یہ اگر بلی ہے تو وہ گوشت کہاں گیا؟ اور اگر یہ گوشت ہے تو تم بلی دکھاؤ کہ وہ کونسی ہے۔
(آگے اس مثال کو ممثل لہ پر چسپاں فرماتے ہیں)
-11-
بایزید ار این بود آن روح چیست؟
ور وی آن روح ست این تصویر کیست؟
ترجمہ: (اسی طرح ہم پوچھتے ہیں کہ) بایزید! اگر یہ (جسم) ہیں تو وہ روح کیا ہے اور اگر وہ وہی روح ہیں تو یہ (مجسم) صورت کس کی ہے؟
-12-
حیرت اندر حیرت است ای یارِ من
این نه کارِ توست نی هم کارِ من
ترجمہ: میرے دوست! (اس راز کا سمجھنا) حیرت پر حیرت (کا باعث) ہے یہ نہ تیرا کام ہے نہ میرا ہے۔
مطلب: حیرت کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ روح نورانی کا خاک ظلمانی کے ساتھ اجتماع کیونکر ہوا؟ دوسرے اس اجتماع کے بعد وہ ایک مدت متعین تک باہم متفق کیونکر رہتے ہیں؟ تیسرے جسم کو اس کی ارزلیت کے باوجود ظہور و بروز کی فضیلت کیوں بخشی گئی اور روح کو اس کے علوِ منزلت کے باوجود کتم و خفا میں کیوں رکھا گیا ہے؟ چوتھے اسمِ انسان کا مسمی صرف روح ہے یا روح و جسم دونوں کا مجموعہ ہے؟
(انہی مشکلات کی بنا پر کلامِ الہیٰ میں روح کے اسرار کو حوالے بخدا کیا گیا ہے حیث قال تعالیٰ: ﴿قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي﴾ "کہہ اے پیغمبر کہ روح میرے پروردگار کا ایک امر ہے"۔﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلاً﴾ 'اور تم کو صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے" ( الاسراء،آیت 9)
آگے مولانا باوجود اس اظہارِ مجبوری کے ان اسرار کی عقدہ کشائی بالہامِ ربانی کرتے ہیں۔
-13-
هر دو او باشد و لیک از ریع و زرع
دانه باشد اصل و کاہِ اوست فرع
ترجمہ: وہ (یعنی انسان یا حضرت بایزیدؒ روح و جسم) دونوں (کا مجموعہ) ہیں۔ لیکن پیداوار کھیتی سے دانہ اصل ہوتا ہے اور اس کا بھوسہ متعلقات سے ہے۔
مطلب: یہ چوتھے عقدہ کا حل ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ مولانا کے نزدیک انسان روح و جسم کے مجموعہ کو کہتے ہیں اور یہی مذہب اکثر محققین کا ہے۔ بخلاف اس کے جو حکما اور ان کے مقلدین کہتے ہیں کہ انسان کا مصداق صرف روح ہے جسم اس کا ایک آلہ کار ہے۔ جس طرح سوار صرف گھوڑے پر بیٹھنے والے کو کہتے ہیں گھوڑا اس کا مرکب ہے سوار کے مفہوم میں گھوڑا داخل نہیں اسی طرح جسم روح کا مرکب ہے اور انسان یہی روح ہے۔ "عراقیؒ"
تو جانی و چناں دانی کہ جسمی
تو دریائی و پنداری کہ جوئی
اب پہلے اشکال کا حل آتا ہے۔
-14-
حکمت ایں اضداد را باهم ببست
اے قصّاب ایں گِرد ران باگَردن است
ترجمہ: حکمت (الہیٰہ) نے ان متضاد چیزوں کو باہم وابستہ کر دیا ہے (ذبیحہ کے اعضا کو الگ الگ کاٹنے والے) قصائی! یہ ران کا ارد گرد (کا حصہ) گردن کے ساتھ (پیوستہ) ہے۔
مطلب: ہر چند کہ روح و جسم دونوں "ذاتاً و صفاتاً" متضاد واقع ہوئے ہیں۔ جن میں اجتماع و ارتباط متعذر تھا مگر حکمتِ الہٰیہ نے بعض مصالح کی بنا پر جن کا ذکر آگے آتا ہے ان کو باہم وابستہ کر دیا اور یہ وابستگی اس قدر گہری اور وحدت بخش ہے کہ اب دونوں میں یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ یہ روح ہے اور یہ جسم ہے۔
حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ علمائے شریعت کے نزدیک روح ایک خاص ہستی انسان کے ظاہری وجود کے اندر موجود ہے۔ گویا انسان کے اندر ایک اور انسان ہے جو شکل و صورت اور ہییت و کیفیت میں بالکل اسی ظاہری انسان اور باطنی انسان کے برابر اور ہو بہو وہی ہے۔ اگر کسی کو یہ اندرونی انسان نظر آ سکتا جو اہلِ بصیرت کو نظر آ سکتا ہے تو اس کو اس ظاہری انسان اور باطنی انسان میں امتیاز کرنا مشکل ہو جائے۔ یوں سمجھ لو کہ انسان ظاہری کا ہاتھ اس باطنی انسان کے ہاتھ کی آستین ہے اور انسان ظاہری کا پاؤں اس باطنی انسان کا پائچہ ہے۔ روح کی یہ تعریف علماء شریعت نے کی ہے۔ مگر علماء طریقت یعنی صوفیا کے نزدیک یہ جسم مثالی ہے یعنی یہ عالم مثالی کا وجود ہے روح ان کے نزدیک اس سے برتر ایک اور ہستی ہے۔ (انتہٰی کلامہ) قصائیوں کا قاعدہ ہے کہ گوشت کا خریدار جس عضو کا گوشت پسند کرے۔ مثلاً شانہ، گردن، سینہ، ران وغیرہ اسی عضو کا گوشت اسے دیتے ہیں۔ گویا یہاں ایک ہی جسم کے گوشت کو پسند و اختیار نے الگ الگ قسموں میں بانٹ رکھا ہے۔ مگر روح و جسم میں ایسا گہرا ارتباط ہو رہا ہے کہ ان میں اب اس قسم کی تقسیم بھی ناممکن ہے۔
آگے دوسرے اشکال کا حل آتا ہے۔
-15-
روحِ بی قالب نتاند کار کرد
قالبِ بی جاں بود بی کار و سرد
ترجمہ: روح قالب کے بغیر (کوئی) کام نہیں کر سکتی۔ قالب بے جان، بےکار اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔
مطلب: حکمتِ الٰہیہ نے جن مصالح کی بنا پر جسم و جان کو مجتمع کیا ہے ان کا حصول اسی صورت میں متوقع ہے کہ ان دونوں کا اجتماع ایک مدتِ معینہ تک قائم رہے ورنہ اکیلی روح عالمِ اجسام (دنیا) میں کوئی کام نہیں کر سکتی اور نہ اکیلا جسم حس و حرکت کے قابل ہے۔
-16-
قالبت بی جان کم از خاک ست دوست!
رُوح چون مغز است و قالب همچو پوست
ترجمہ: اے دوست! جسم بےروح خاک سے بھی کم رتبہ ہے۔ روح گویا مغز ہے اور جسم مثل پوست (اور پوست مغز کے بغیر نکما ہے)
مطلب: اس شعر کے مصرعہ ثانیہ سے تیسرے اشکال کا جواب شروع ہوتا ہے اور اگلے شعر کا مضمون بھی اس جواب میں شامل ہے۔ یعنی روح اپنی نفاست کی بنا پر مثل مغز اور جسم اپنی کثافت کی وجہ سے مثل پوست ہے اور مغز ہمیشہ پوست میں مخفی و مستور ہوتا ہے اور جسم کے اس ظہور و بروز اور روح کے خفا کی یہ خاص وجہ ہے کہ جسم اسی عالم کی چیز ہے جو عالمِ اجسام ہے اور اس کو محسوس کرنے والے آلات و حواس بھی جسمانی ہیں اس لیے وہ ظاہر نظر آتا ہے بخلاف اس کے روح اس عالم سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عالمِ ارواح سے ہے اس لیے جسمانی آلات حواس بوجہ عدمِ مناسبت اس کو محسوس و مدرک کرنے سے قاصر ہیں چونکہ انسان کے کسبِ اعمال کا مقام دنیا ہے جس کو مختلف اعتبارات سے عالمِ اجسام یا عالم شہادت یا عالمِ ناسوت بھی کہتے ہیں اور کسبِ اعمال کے لیے انسان کا اس عالم کے ساتھ مباشر و معالج ہونا ضروری ہے جو جسم ہی کے ذریعہ سے ممکن ہے اس لیے جسم کا ظاہر نمایاں ہونا لازمی ہے جس کے بغیر کسبِ اعمال ناممکن تھا اور روح چونکہ مباشر بالذات نہیں اس لیے اس کا ظہور و بروز لازمی نہیں چنانچہ فرماتے ہیں:
-17-
قالبت پیدا و آن جان بس نهان
راست شد زیں هر دو اسبابِ جهان
ترجمہ: تیرا جسم ظاہر ہے اور وہ جان نہایت مخفی ہے ان دونوں (کے ایسے اجتماع) سے (کہ) ایک ظاہر اور دوسرا (مخفی ہے) دنیا کے کاروبار چلنے لگے (آگے ایک مثال سے ظاہر فرماتے ہیں کہ کس طرح اس اجتماع سے دنیا کے کاروبار چلتے ہیں اور یہی وہ مصالح ہیں جن کی بنا پر جسم و روح کو اجتماع بخشا گیا ہے)
-18-
خاک رابر سَر زنی سَر نشکند
آب را بر بَرزنی بَر نشکند
ترجمہ: (اگر تم اکیلی) مٹی کو (کسی کے) سر پر مارو تو سر زخمی نہ ہوگا۔ (اور اسی طرح اگر اکیلے) پانی کو (کسی کے) سینے پر مارو تو سینہ مجروح نہ ہوگا (اگر بر بمعنی ثمر ہو تو بھی معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں مگر سر کے لیے سینے کا ذکر مناسب ہے)
-19-
گر میخواهی که سَر را بشکنی
آب را و خاک را بر هم زنی
ترجمہ: اگر تم (کسی کے) سر کو زخمی کرنا چاہو تو مٹی اور پانی کو ملا (کر ڈھیلا بنا) لو (اور اسے خشک کر کے اس کے سر پر دے مارو وہ ضرور زخمی ہو جائے گا)
مطلب: جس طرح یہاں مٹی اور پانی الگ الگ کوئی مؤثر کام نہ دے سکے۔ اسی طرح روح اور جسم میں سے ہر ایک اکیلا کوئی کام نہیں کر سکتا ان کے اجتماع سے یہ صورت ہو گی کہ انسان دنیا میں ہر طرح کے کام کرنے لگا یہاں روح کو پانی سے اور بدن کو مٹی سے تشبیہ دی ہے۔
آگے روح و بدن کے ایک دوسرے سے جدا ہونے کی مثال دیتے ہیں:
-20-
چوں شکستی سر رَود آبش به اصل
خاک سُوی خاک آید روز فصل
ترجمہ: جب تم نے (کسی کا) سر توڑ ڈالا تو اس کا پانی اپنی اصل کی طرف چلا گیا (اور سر کے بدن سے) جدا ہونے کے دن خاک (معدن) کی طرف آ جائے گا۔
مطلب: تمام نباتات و حیوانات اربعہ عناصر سے مرکب ہیں جب تک ان کی زندگی قائم ہے ان کے عناصر کی یہ ترکیب بھی قائم ہے۔ جب ان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو ترکیب کا یہ سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے اور ہر عنصر الگ ہو کر اپنے اپنے معدن کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہ عنصری ترکیب محض بدن سے تعلق رکھتی ہے مگر اس تمثیل سے بدن اور روح کی ایک دوسرے سے علیحدگی مقصود ہے چنانچہ آب سے روح اور خاک سے بدن مراد ہے اور آب کے لیے رود اور خاک کے لیے آید کے استعمال میں روح کے لیے عالمِ علوی اور خاک لیے عالمِ سفلی کی پر لطف مناسبت ملحوظ ہے۔
-21-
حکمتی که حق نمود از ازدواج
گشت حاصل از نیاز و از لجاج
ترجمہ: حق تعالیٰ نے (اس) اجتماع (روح و جسم) سے جو حکمت (ظاہر) فرمائی ہے۔ وہ (انسان کے) طلب (مرغوبات) اور دفع (غیر مرغوبات) سے حاصل ہو گی۔
مطلب: انسان کے افعال و اعمال کا منشا تین طاقتیں ہیں۔ ملکی، سبعی، بہیمی، ملکی طاقت جو منسوب بملائکہ ہے۔ اعمالِ صالحہ اور افعالِ حسنہ کے صدور کی متقاضی ہے۔ سبعی طاقت جو سباع سے منسوب ہے اور مظہر غضب و خصومت ہے۔ دفع غیر ملائم کا کام دیتی ہے۔ بہیمی طاقت جو بہائم سے منسوب اور مظہر شہوت و ہوس ہے۔ مرغوب و جلب ملائم میں مشغول رہتی ہے۔ ملکی طاقت روح سے خاص ہے اور سبعی و بہیمی طاقتیں مائل بہ جسمانیت ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے روح و جسم کے اقران میں جو ایتانِ اعمال کی حکمت رکھی ہے وہ سبعی طاقت کے استعمال سے علم، صبر، استقلال، شجاعت وغیرہ فضائل اور غضب، ظلم، قتل وغیرہ رذائل کے وقوع میں اور بہیمی طاقت کے استعمال سے قناعت، توکل، سخاوت، ایثار وغیرہ فضائل اور شہوت، فخر، حرص، حسد وغیرہ رذائل کے وقوع میں پوری ہو رہی ہے۔ اگر جسم و روح یوں مجتمع اور ایک زندہ ہستی کی شکل میں ظاہر نہ ہوتے تو یہ اعمال نہ اکیلی روح سے وقوع پاتے نہ اکیلے جسم سے۔ پھر ایک مدت خاص تک جع تقدیر الٰہی میں مقرر و معین ہے۔ روح و جسم کا یہ اجتماع قائم رہ کر آخر میں تفرقہ پڑ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ قیامت میں دوبارہ اسی روح اور اسی جسم میں پھر اقتران و اجتماع ہوگا جس کی کیفیت اللہ کو معلوم ہے۔ اہلِ دنیا نے نہ اس کو دیکھا ہے نہ سُنا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
-22-
باشد آنگه ازدواجات دگر
لَا سَمِع اُذُنً وَّلَا عَین بَصَر
ترجمہ: پھر اس وقت (ارواح و اجسام میں) ایک اور طرح کے اجتماعات (قائم) ہوں گے جن کو نہ کان نے سُنا ہے اور نہ آنکھ نے دیکھا ہے۔
مطلب: قیامت کے معاملات اور آخرت کے انعامات ہماری موجودہ دید و شنید سے بالا تر ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَعدَدتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِین مَالَا عَین راَت وَ لَا اُذُن سَمِعَت﴾ "میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ انعامات تیار کر رکھے ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے اور نہ کسی کان نے سنے"
مصرعہ ثانیہ اسی حدیث سے مقتبس ہے اور بضرورتِ شعری سَمِعَت اور رات کے بجائے سمع اور بصر کے مذکر صیغے استعمال ہوئے۔ ورنہ عربی میں عین و اذن مؤنث ہیں۔
-23-
گر شنیدی اُذن کی ماندی اُذن
یا کجا کردی دگر ضبطِ سخن
ترجمہ: (معاملاتِ آخرت کو آنکھوں سے دیکھنا تو بڑی بات ہے کانوں سے سُننا بھی ناممکن ہے) اگر کان ان کو سن لیتے تو کان ہی کہاں رہتے یا (ان کے متعلق سُنی ہوئی) بات کو ضبط ہی کہاں کر سکتے۔
-24-
گر بدیدی برف و یخ خورشید را
ازیخی بر داشتی امّید را
ترجمہ: اگر برف اور یخ آفتاب کو دیکھ لیں تو یخ ہونے سے ناامید ہو جائیں۔
-25-
آب گشتی بی عروق و بی گرہ
که ز لطف از باد میگشتی زرہ
ترجمہ: وہ (برف اور یخ آفتاب کی گرمی سے صاف) پانی بن جاتا جس میں کوئی رگ اور گرہ نہ ہو جو ہوا کی لطافت (خیز لہریں پیدا کرنے) سے زرہ (کا ہم شکل) ہو جاتا۔
مطلب: ہوا کی لہریں جب پانی کی سطح پر سے گذرتی ہیں تو پانی کی سطح اپنے مسلسل اور لطیف تموج سے ایسی ہو جاتی ہے۔ جیسے زرہ کی کڑیاں مسلسل پیوستہ نظر آتی ہیں۔
بعض نسخوں میں دوسرا مصرعہ یوں درج ہے۔
زآب واؤ ہوا کردے زرہ۔ یعنی ہوا کا واؤ پانی سے زرہ بنا دیتا ہے (حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں لوہا مثل موم نرم ہو جاتا تھا اور وہ اپنے ہاتھ سے زرہ تیار فرماتے تھے اس لیے یہ تشبیہ استعمال ہوئی ہے)
-26-
پس شدی در مانِ جانِ هر درخت
هر درختی از قدومش نیک بخت
ترجمہ: پھر وہ (پانی) ہر درخت کی جان کا علاج بن جاتا۔ ہر درخت اس کی آمد سے خوش نصیب ہو جاتا۔
-27-
آن یخی بفسر دہ در خود ماندہ ای
لامساسی “بر درختاں خواندہ ای”
ترجمہ: وہ یخ منجمد ہے، ٹھوس ہے۔ درختوں کو لامساس کہہ رہا ہے۔
مطلب: لاَ مِسَاسَ کے معنی ہیں "مجھ سے کوئی مت چھوئےؔ" اور اس لفظ میں سامری کے قصہ کی طرف تلمیح ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک آدمی تھا اس نے ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری کا موقع تاک کر سونے چاندی کا ایک بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل کو اس کی پرستش کرنے پر آمادہ کر کے آلودہ شرک کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لائے تو یہ عالم دیکھ کر سخت ناراض ہوئے۔ خدا کے حکم سے مرتکبینِ شرک نے اپنے شرک کی سزا پائی اور سامری کو یہ سزا ملی کہ وہ لوگوں سے دور مارا مارا پھرتا تھا۔ اگر کوئی شخص اس سے چھو جاتا تو دونوں کو تب عارض ہو جاتی۔ اس لیے وہ دور ہی دور سے لوگوں کو پکارتا رہتا تھا کہ لا مساس یعنی کوئی مجھے نہ چھوئے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ اسی طرح برف و یخ درختوں کو اپنے سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں کیونکہ وہی پانی جو درختوں کے لیے مایہ حیات ہے منجمد ہو کر ان کے لیے باعثِ تباہی بن جاتا ہے اور اس کے چھونے سے درخت پژ مردہ و افسردہ ہو جاتے ہیں۔
-28-
لَیسَ یَالِف لَیسَ یُولِف جِسمُہ
لَیسَ اِلَّا شُحُّ نَفسِ قِسمَہ
ترجمہ: اس (یخ) کا جسم نہ کسی دوسرے سے اتفاق کرتا ہے نہ (اس کے ساتھ) اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ اس کا حصہ صرف بخلِ نفس ہے۔ (اور کچھ نہیں)
مطلب: اس شعر کا مضمون اس حدیث سے ماخوذ ہے ﴿اَلمُؤمِنُ یاَلِفُ بِہِ وَ المُنَافِقُ لَا یَالِفُ وَلَا یُؤلَفُ بِہِ﴾یعنی مومن مانوس ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ مانوس ہو سکتے ہیں اور منافق مانوس نہیں ہوتا نہ اس کے ساتھ مانوس ہو سکتے ہیں (ہکذا فی بحر العلوم) حاکم نے مستدرک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے مرفوعاً یوں روایت کی ہے اور کہا ہے کہ روایت شیخین کی شرط کے مطابق ہے﴿ اَلمُؤمِنُ یَاِلفُ وَلَا خَیْرٌ فِیْمَنْ لَا یَالِفُ وَلَا یُؤلَفُ﴾ یعنی مومن مانوس ہو جاتا ہے اور جو شخص نہ مانوس ہوا اور اسے مانوس نہ کیا جا سکے اس میں کوئی بھلائی نہیں۔
بیہقی کی روایت شعب الایمان میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے مرفوعاً یوں ہے: ﴿اَلمُؤمِنُ اَلْفٌ ماَلُوْفٌ وَلَا خَیْرٌ فِیْمَنْ لَا یَالِفُ وَلَا یُؤْلَفُ﴾ یعنی مومن مانوس ہونے والا ہے اور مانوس کیا جا سکتا ہے اور جو شخص نہ مانوس ہوا اور نہ مانوس کیا جا سکے اس میں کوئی خوبی نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ آخر روایت مضمونِ شعر کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے یعنی (خیر فیمن کی تعبیر الاشح کے الفاظ سے کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ مولانا کے پیش نظر یہی روایت ہو)
-29-
نیست ضایع زو شود تازہ جگر
لیک نبود پیک سلطانِ خضر
ترجمہ: (مگر خداوند تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں پس) وہ (یخ بھی) بےفائدہ نہیں ہے (چنانچہ) اس (کو پانی میں ملا کرپینے) سے جگر تازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ سر سبزی (و شادابی) کے بادشاہ کا قاصد نہیں ہے۔
مطلب: خضر بمعنی سر سبزی، اگر سر سبزی کو بادشاہ فرض کر لیا جائے تو پانی گویا اس بادشاہ کا قاصد ہے جس طرح قاصد بادشاہ کی آمد کی اطلاع دیتا ہے۔ اس طرح پانی کا باغ و کشت میں آنا گویا سر سبزی و شادابی کی آمد کا پیش خیمہ ہے۔
پیچھے یہ مضمون چل رہا تھا کہ انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے اور موت کے آجانے سے یہ جسم و روح ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں پھر فرمایا: کہ قیامت کے روز اس جسم و روح میں پھر اجتماع ہوگا اور وہ اجتماع اس قسم کا ہوگا جس کی کیفیت ہنوز نہ بیان ہو سکتی ہے نہ سمجھ آ سکتی ہے اس کے بعد مولانا اس سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے چند ایسے کلمات فرما گئے ہیں جن کا ما سبق کے ساتھ کوئی معقول ربط قائم نہیں ہوتا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ اگر کان ان باتوں کو سن لیں تو پانی ہو جائیں۔ جس طرح برف آفتاب کو دیکھ کر پانی ہو جاتی ہے اور پانی ہر درخت کے لیے مایہ حیات بن جاتا ہے بخلاف اس کے برف درختوں کے لیے بمنزلہ آفت ہے۔ گو برف پینے سے انسان کا جگر ٹھنڈا ہو جاتا ہے مگر باغ و کشت کو اس سے سر سبزی حاصل نہیں ہو سکتی (انتہٰی) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گر بدیدے برف و یخ خورشید را۔۔۔ الخ سے مولانا سابقہ مضمون کو چھوڑ کر ایک اور ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں اور اس کو رمز و کنایہ میں ادا کیا ہے بقول خود۔
خوشتر آن باشد کہ سرّ دلبران
گفته آید در حدیث دیگران
چنانچہ برف و یخ سے طبعِ انسانی آفتاب سے آفتاب حقیقت، آب سے ذاتِ عارف، باد سے فیضانِ غیب، درخت سے عوام الناس مراد ہیں۔
اب ان چھ اشعار کا مطلب علی الترتیب یہ ہوگا۔
(1) گر بدیدے۔۔ الخ اگر طبعِ انسانی آفتابِ حقیقت کا جلوہ دیکھ لے تو اپنے جمود و خمود کو چھوڑ جائے (2) آب گشتے۔۔ الخ پھر وہ عارف بن جائے۔ جس میں نفسانیت کا کوئی بھی رگ و ریشہ باقی نہ رہے اور فیضانِ غیب اس کو متجلی بکمال کر دے (3) پس شدے در ماں۔۔ الخ پھر وہ عارف عوام الناس میں بھی روحانیت کی روح پھونک دے (4) واں یخے بفسردہ۔۔ الخ اور وہ جو شخص مقتضیات نفس و طبع کا بندہ بنا رہے اس کی صحبت سامری کی طرح عوام الناس کو مبتلاء گمراہی کر دیتی ہے (5) اس کی صحبت نہ خود برکت بخشتی ہے اور نہ اس سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ فیضان و برکت سے تہی دامن ہے۔ (6) نیست ضائع۔۔ الخ بیشک دنیوی مقاصد میں اس کی صحبت خالی از فائدہ نہیں۔ لیکن اس سے روحانی سر سبزی حاصل نہیں ہو سکتی۔
آگے پھر سلطان محمود و ایاز کے مکالمہ کی طرف عود فرماتے ہیں۔ جس کا سر رشتہ بہت دور چھوٹ گیا تھا۔
-30-
ای ایاز استارۀ تو بس بلند
نیست هر بُرجی عُبورت را پسند
ترجمہ: (سلطان محمود اپنے محبوب غلام ایاز سے کہتا ہے) اے ایاز! تیرا ستارہ بہت بلند ہے۔ ہر برج تیرے عبور کے قابل نہیں۔
-31-
هر وفا را کی پسندد همتت
هر صفارا کی گزیند صفوتت
ترجمہ: تیری (بلند) ہمت ہر وفا کو کب پسند کرتی ہے؟ تیری صاف دلی ہر صفائی کو کب منظور کرتی ہے؟
مطلب: تیری صفات عام لوگوں کی صفاتِ حسنہ سے کہیں برتر ہیں۔
آگے اس کی تائید میں ایک امیر کا قصہ مذکور ہے جس کو لوگ کہتے تھے کہ اے امیر کبیر آپ کے لیے مے نوشی شایاں نہیں اور وہ کہتا تھا کہ میرا درجہ عام مے نوشوں سے بلند اور میری شراب اس شرابِ صوری سے کہیں اعلیٰ ہے۔