دفتر پنجم: حکایت: 152
رجوع بحکایتِ گبر با مسلمان در ایمانِ بایزید
کافر کی کہانی مسلمان کے ساتھ حضرت بایزیدؒ کے ایمان کے بارے میں دوبارہ شروع کرنا
-1-
هست ایمانِ شما زرق و مجاز
راهزن همچون که آن بانگِ نماز
ترجمہ: (کافر نے کہا اے مسلمان!) تم لوگوں کا ایمان (جو محض) فریب اور بناوٹ (ہے سچے ایمان کی) رہزن ہے۔ جیسے وہ بانگِ نماز (جو مؤذن نے دی اور اس پہ ایک ایمان والی لڑکی برگشتہ ہو گئی)
-2-
لیک از ایمان و صدقِ بایزید
چند حسرت بر دل و جانم رسید
ترجمہ: لیکن بایزید کے ایمان اور صدق سے بارہا میرے دل و جان میں حسرت پہنچی۔ (کہ کاش یہ ایمان و صدق مجھے حاصل ہوتا۔ آگے اس کی ایک غیر ملائم سی مثال آتی ہے)
-3-
همچو آن زن کاو جماع خر بدید
گفت آوه زآن خر فحلِ فرید
ترجمہ: جیسے وہ عورت جس نے گدھے کی جفتی دیکھی اورکہتی ہے کہ ہائے اس نر اور لاثانی گدھے (کی جفتی) سے (میں حسرت زدہ ہوں)
-4-
گر جماع این است کآید از خران
در کُسِ ما میریند این شوهران
ترجمہ: اگر (حقیقت میں) جماع یہی ہے جو گدھوں سے (عمل میں) آتا ہے تو (ہمارے) یہ شوہر (کوئی جماع نہیں کرتے بلکہ نامردوں کی طرح) ہماری شرمگاہوں میں ہگتے ہیں۔
مطلب: کافر ہر چند بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا مداح ہے۔ لیکن آخر ہے تو کافر اس لیے وہ حضرت بایزیدؒ کے کمال کی مثال بھی دیتا ہے تو اپنے گندے مزاق کی وجہ سے ایک گندی مثال پیش کرتا ہے۔ اگرچہ اس مشبہ بہ میں وجہ شبہ یعنی فضیلت کے موجود ہونے کے لحاظ سے مدعا حاصل ہے مگر پیرایہ تشبیہ قبیح ہے۔ مولانا بحرالعلوم میں فرماتے ہیں اس شعر کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر جماع یہی ہے جو گدھے کرتے ہیں اور شوہروں نے اس کو اختیار کیا ہے تو یہ جماع نہیں بلکہ بمنزلہ ریدن کے ہے۔ پہلی تقریر پر حضرت بایزیدؒ کے ایمان کی تمثیل جماعِ خراں کے ساتھ لازم آتی ہے اور اس تقریر کی بنا پر عوام کے ایمان پر عوام کی ایمان کی تمثیل جماعِ شوہراں کے ساتھ ہوگی اور یہی موافقِ ادب ہے۔
-5-
داد جمله دادِ ایمان بایزیدؒ
آفرینها بر چنیں شاہِ فرید
ترجمہ: حضرت بایزیدؒ نے ایمان کا پورا حق ادا کر دیا ایسے یکتا بادشاہ پر صد رحمت۔
-6-
قطرۀ ایمانش در بحر ار رود
بحر اندر قطرہ اش غرقه شود
ترجمہ: ان کے ایمان کا ایک قطرہ بھی اگر سمندر میں گر جائے تو سمندر اس قطرہ میں ڈوب جائے۔
-7-
ہمچو آتش ذرہ ای در بیشه ها
کاندران ذره شود بیشه فنا
ترجمہ: جیسے ایک چنگاری اگر جنگلوں میں گر جائے تو اس سے جنگل بالکل فنا ہو جائے گا۔
-8-
چون خیالی در دلِ شه یا سپاہ
می کند در جنگ خصماں را تباہ
ترجمہ: جیسے ایک بادشاہ صاحبِ فوج کے دل میں (معرکہ آرائی کا) خیال پیدا ہوتا ہے تو وہ جنگ کے اندر دشمنوں کو تباہ کر دیتا ہے۔
(آگے مولانا کا قول ہے جو کافر کا قول نہیں ہو سکتا)
-9-
یک ستارہ در محمد ﷺ رو نمود
تا فنا شد کفرِ هر گبر وجہود
ترجمہ: (تائید الہیٰ کا) ایک ستارہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (کی ذاتِ مبارک) میں طلوع ہوا تو ہر آتش پرست اور یہودی کا کفر فنا ہو گیا۔
(منہج القویٰ میں دوسرا مصرع یوں درج ہے)
تا فنا شد گوہرِ کبر و حجود۔
ترجمہ: "تو کافروں کے تکبر و انکار کا مادہ برباد ہو گیا"۔
-10-
یک ستارہ در محمدؐ شد سطرب
تا فنا شد کفر جملہ شرق و غرب
ترجمہ: ایک ستارہ (تائید حق کا) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (کی ذاتِ مبارک) میں پھیلا تو تمام مشرق و مغرب کا کفر فنا ہو گیا۔
(سطرب بمعنی سطر آیا ہے)
-11-
آنکہ ایماں یافت رفت اندر امان
کفرهای باقیاں شد در گمان
ترجمہ: جس نے ایمان پایا وہ امن میں چلا گیا (اور) باقی لوگوں کا کفر شک میں پڑ گیاکہ معلوم نہیں یہ لوگ مسلمان ہیں یا کافر)
مطلب: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح و نصرت کی یہ شان تھی کہ اکثر کافر مسلمان ہو گئے اور جو کافر رہے وہ بھی مسلمان نما کافر تھے۔ دوسرے مصرع کا ترجمہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ باقی لوگوں کا کفر (ان کو) شک (و تذبذب) میں (لے) گیا۔ مگر بعد کے مضمون کے ساتھ پہلا ترجمہ ہی مناسبت رکھتا ہے۔
-12-
کفر صِرف اولین باری نماند
یا مسلمانی ویا بیمی نشاند
ترجمہ: (ان لوگوں کا) پہلا خاص کفر (بحالت سابق) نہیں رہا یا تو (ان کو) مسلمانی (میں داخل کر دیا گیا) اور یا (شوکتِ اسلام کا) رعب (ان کے دلوں پر) بٹھا (کر ان کو ذمی بنا) دیا۔
مطلب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح و نصرت کی بدولت اکثر لوگ داخلِ اسلام ہو گے اور جو لوگ اپنے قدیمی کفر پر اڑے رہے تو وہ تیغِ اسلام سے مغلوب ہو کر اہلِ ذمہ یعنی سلطنت اسلام کی رعایا بن گے اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے عوض میں جزیہ دینا منظور کر لیا۔ یہ لوگ اگرچہ بلحاظِ عقیدہ کافر تھے مگر قانونِ اسلام کی پابندی کی بدولت گویا وہ مسلمان نما کافر تھے۔
محیطے چہ گویم چو بارندہ میغ
بیک دست گوہر بیک دست تیغ
بگوہر جہاں را راستہ
بہ تیغ از جہاں داد دیں خواستہ
خراج آورش حاکمِ روم ورے
خراجش فرستاد کسریٰ و کے
سیاستِ اسلام کا رعب کفار کے دلوں پر پڑنے کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے: ﴿سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ﴾ "ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں دہشت ڈال دیں گے" (الانفال)
﴿سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا﴾ "ہم عنقریب تمہاری ہیبت کافروں کے دلوں میں بٹھا کر رہیں گے کیونکہ انہوں نے ان چیزوں کو خدا کا شریک بنایا ہے جن کی خدا نے کوئی بھی سند نہیں بھیجی" (آل عمران آیت 16) ﴿وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ﴾ (الحشر 1) "اور ان کے دلوں میں (مسلمانوں کی) دھاک ڈال دی"
جزیہ کا ذکر یوں آیا ہے: ﴿حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾(التوبۃ 4) "یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں"
مولانا نے اپنی زبان سے یا گبر کی زبان سے جو حضرت بایزیدؒ کے فضائل و کمالات کی مثالیں پیش کی ہیں اب ان کو ناکافی سمجھ کر فرمایا:
-13-
این به حیلت آب و روغن کردنیست
این مثلہا کفو ذرّہ نور نیست
ترجمہ: یہ (مثالیں پیش کرنا) حیلہ گری کے ساتھ (حقیقت و بناوٹ کے) تیل اور پانی کو (مخلوط) کرنا ہے (جن کا مخلوط ہونا دشوار ہے۔ اسی طرح ان مثالوں کا ممثل لہ پر صادق آنا محال ہے کیونکہ یہ مثالیں (اس) نور (عرفان) کے ایک ذرہ کے برابر نہیں ہیں۔
-14-
ذرّہ نبود جز ز چیزی منجسم
ذرّہ نبود شارق لاینقسم
ترجمہ: ذرّہ (کے ساتھ شیخ کے ایمان کی تمثیل دینا کیونکر صحیح ہو جبکہ وہ ایک) (ناچیز اور) جسمانی چیز کے سوا اور کچھ نہیں۔ ذرّہ ایک آفتابِ غیر منقسم نہیں ہو سکتا (جس کے ساتھ شیخ کے ایمان کی تمثیل زیبا تھی۔ (اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ پھر آپ نے ذرّہ کے ساتھ تمثیل کیوں دی تھی۔ چنانچہ کہا تھا، ہمچو آتش ذرّہ در بےشمار۔۔ الخ (آگے اس کا جواب دیتے ہیں)
-15-
گفتن "ذرہ" مُرادم دان خفی
مَحرم دریا نه ای این دَم کفی
ترجمہ: ذرّہ کا ذکر (بطور تمثیل) کرنے میں میری ایک مخفی مراد (کو مضمر) سمجھو۔ تم (ان مخفی) مرادات اور ناگفتنی اسرار کے دریا سے آگاہ نہیں ہو۔ اس وقت تم (سطحی الخیال ہونے کے لحاظ سے گویا) جھاگ ہو۔
-16-
آفتابِ نیرّ ایمانِ شیخ
گر نماید رخ ز شرقِ جانِ شیخ
-17-
جمله پستی نور گیرد تاثری
جملہ بالا خُلد گردد اخضری
ترجمہ: شیخ کے ایمان کا (وہ رتبہ ہے کہ اس کا) پرنور آفتاب اگر شیخ کی روح کے مشرق سے طلوع کرے تو تمام عالمِ سفلی تحت الثری تک جگمگا اٹھے اور تمام عالمِ علوی سر سبز بہشت بن جائے۔
-18-
او یکے جان دارد از نورِ منیر
او یکی تن دارد از خاکِ حقیر
ترجمہ: (ان کا وجودِ پاک دو چیزوں پر مشتمل ہے) یعنی وہ ایک تو ایسی جان رکھتے ہیں جو روشن نور سے (بنی) ہے (اور) ایک ایسا بدن رکھتے ہیں، جو حقیر مٹی سے (مخلوق) ہے (مگر وہ بدن بھی روح کی معیت میں ایسا منور و مطہر ہو چکا ہے کہ اگر ان کو سراپائے روح کہیں یا سراپائے جسم کہیں تو تعجب نہیں)
-19-
ای عجب اینست او یا آن بگو
کہ بماندم در شکالِ جست وجُو
ترجمہ: ارے تعجب تو یہ ہے (کہ ہم دو میں سے کسی ایک کی تعیّن نہیں کر سکتے تھے) تم ہی بتاؤ کہ وہ یہ (جسم عنصری) ہیں یا وہ (روح) ہیں کیونکہ میں جستجو کی مشکل میں پڑ گیا ہوں۔
-20-
گر وی اینست ای برادر چیست آن
پُر شدہ از نورِ او هفت آسمان
ترجمہ: اگر وہ یہ ہیں تو اے بھائی وہ کیا ہے جس کے نور سے ساتوں آسمان پُر نور ہو گئے۔
-21-
ور وی آنست این بدن ای دوست چیست
ای عجب زین دو کدامین ست و کیست؟
ترجمہ: اور اگر وہ وہ ہیں تو اے دوست یہ بدن کیا ہے۔ ارے تعجب ہے کہ وہ ان دو میں سے کونسے ہیں اور کونسے نہیں؟
آگے اس مضمون کی تمثیل میں ایک کہانی ارشاد ہے: