دفتر پنجم: حکایت: 151
حکایت آن مؤذنِ زشت آواز که در کافرستان بانگِ نماز زد برائے نماز و مردِ کافر او را ھدیہ ھا داد
اس بد آواز موذن کی کہانی جس نے کافروں کے علاقے میں نماز کے لیے اذان دی اور کافر آدمی نے اس کو ہدیے دیے۔
-1-
یک موذن داشت بس آواز بد
شب همه شب میدری حلق خود
ترجمہ: ایک مؤذن نہایت بری آواز رکھتا تھا۔ تمام رات (تلاوت و اذکار میں) اپنا حلق پھاڑتا رہتا۔
-2-
خوابِ خوش بر مردمان کردہ حرام
در صداع افتادہ ازوی خاص و عام
ترجمہ: وہ لوگوں پر میٹھی نیند حرام کر دیتا۔ اس (کی مکروہ آواز) سے عام و خاص دردِ سر میں مبتلا تھے۔
-3-
کودکان ترسان ازو در جامہ خواب
مرد و زن ز آوازِ او اندر عذاب
ترجمہ: بچے اس (کی آواز) سے بستر کے اندر ڈر (کر چونک) اُٹھتے۔ مرد و زن اس کی آواز سے (ایک) عذاب میں (مبتلا تھے)
مسئلہ: بد آواز ذاکر کا ذکر تو رہا الگ، خوش آواز ذاکر بھی اگر رات کو بلند آواز سے ذکر کرے جس سے لوگوں کی نیند اچاٹ ہو تو یہ مکروہ ہے۔ در مختار میں ہے۔ ﴿ھَلْْ یَکْرَہُ دَفْعُ الصَّوْتِ باِلذِّکْرِ وَالدُّعَا قِیْلَ نَعَمْ﴾ یعنی کیا ذکر و دعا میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے؟ اس کے جواب میں کہا گیا: ﴿وَعَنِ النَّبِیِ صَلَّی اللہُ عَلیہِ وَسَلم اَنّہُ کُرِہَ رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ قِرَاءتَ القُرْآنِ وَالجَنَازَہ وَالرَّحْفِ﴾"یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ قرآن مجید پڑھتے وقت اور جنازہ کے ساتھ اور جنگ کے وقت آواز بلند کرنا مکروہ ہے"۔ پھر آگے چل کر ذکرِِ جہر و ذکرِِ خفی کی فضیلتوں کے تقابل کا یوں فیصلہ فرماتے ہیں۔
﴿فَالْاَسرَارُ اَفْضَلٌ حَیْثُ خِیْفُ الرِّیَاءِ اَوْ تَاذِی الْمُصَلِّیْنْ اَوِالنِّیَامِ وَالْجَھْرِ اَفْضَلٌ حَیْثُ خَلَا مِمَّا ذُکِرَ ﴾ یعنی ذکرِ خفی افضل ہے۔ جہاں ریا اور نمازیوں یا سونے والوں کی تکلیف کا اندیشہ ہو اور ذکرِ جہر افضل ہے، جہاں مذکورہ باتیں نہ ہوں۔ انتہیٰ (فتاوی شامی جلد پنجم کتاب الخطر والاباحۃ)
-4-
مجتمع گشتند مر توزیع را
بہرِ دفعِ زحمت و تصدیع را
ترجمہ: لوگ چندہ (اکٹھا کرنے) کے لیے جمع ہوئے تاکہ (اس مؤذن کو کچھ دے دلا کر یہاں سے چلتا کریں اور اس) تکلیف و دردِ سر کو دفع کریں۔
-5-
پس طلب کردند او را در زمان
اقچہا دادند و گفتند ای فلان
-6-
از اذانت جملہ آسودیم ما
بس کرم کردی شب و روز، ای کیا
ترجمہ: پھر فوراً اس (مؤذن) کو بلایا۔ اس کو درہم و دینار دیے اور کہا اجی صاحب! ہم سب نے آپ کی اذان سے راحت پائی۔ حضرت آپ نے رات دن (ہم پر) بڑا کرم کیا۔
-7-
چون رسید از تو بہ ھر یک دولتی
خواب رفت ازما کنون ہم مدّتی
ترجمہ: چونکہ آپ کی بدولت ہر شخص کو (سرور و راحت کی) ایک دولت حاصل ہو چکی ہے۔ (اس لیے) اب کچھ مدت کے لیے (مارے خوشی کے) ہماری نیند اڑ گئی (یہ بات استہزاءً کہی ورنہ ان لوگوں کی بےخوابی اس مؤذن کی بدآوازی کی وجہ سے تھی)۔
-8-
بہرِ آسايش، زبان کوتاہ کن
در عوض مان ہمتی ہمراہ کن
ترجمہ: (اب اپنے اور ہمارے) آرام کے لیے ذرا خاموش رہیے (اور اس کے نذرانہ کے) عوض میں ہمارے لیے دعا کرتے رہنا۔
-9-
قافلہ میشد بکعبہ از ولا
آقچه بستند، شد روان با قافله
ترجمہ: (ان دنوں ایک) قافلہ (شدتِ) شوق سے کعبہ (عالیہ) کی طرف جا رہا تھا (مؤذن نے) وہ نقدی لے لی (اور) قافلہ کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔
-10-
شب گهی کردند اہلِ کاروان
منزل اندر موضعِ کافرستان
ترجمہ: ایک رات اہلِ قافلہ نے کفار کی سرزمین کے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔
-11-
وان مؤذن، عاشقِ آوازِ خود
درمیانِ کافرستان بانگ زد
ترجمہ: اور اس مؤذن نے جو اپنی آواز کا عاشق تھا۔ کفار کے علاقہ میں اذان کہہ ڈالی۔
-12-
چند گفتندش: مگو بانگِ نماز
کہ شود جنگ و عداوت ها دراز
ترجمہ: (ہمراہیوں نے) بہت کہا (ارے میاں) اذان مت دو کیونکہ (اس سے کفار و مسلمین میں) بڑی جنگ اور عداوتیں (شروع) ہو جائیں گی۔ (معلوم ہوتا ہے کہ آذان کے سننے سے نفرت ہندوستان کی ہندو آبادیوں سے مخصوص نہیں۔ جس کے لیے آئے دن جھگڑے سننے میں آتے رہتے ہیں۔ بلکہ کفر نے اس کلمۃ الحق کے سننے سے ہر جگہ ہر زمانہ میں اظہارِ نفرت کیا ہے)
-13-
او ستیزه کرد و، پس بی احتراز
داد آنجا بی حذر بانگِ نماز
ترجمہ: وہ اس پر جھگڑنے لگا (کہ میں ضرور اذان دوں گا) پھر اس نے بلا تامل وہاں بےخوف ہو کر اذان کہہ ڈالی۔
-14-
جملہ گان خائف ز فتنہ عامہ ای
خود بیامد کافری با جامہ ای
ترجمہ: (ادھر تو اہلِ قافلہ) سب کے سب فتنہ عام سے ڈر رہے تھے (کہ ابھی ایک دم میں یہاں کفار چڑھ آئیں گے اور ادھر کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک کافر (الٹا مؤذن کے انعام کے لیے) ایک تھان لیے آتا ہے۔
-15-
شمع و حلوا ویکی جامہ لطیف
ھدیہ آورد و بیامد چون الیف
ترجمہ: (ایک) شمع اور (کچھ) حلوا اور ایک پاکیزہ (کپڑے کا) تھان (بطور) ہدیہ (مؤذن کے لیے) لایا اور آتے ہی (اس کا) دوست بن گیا۔
مطلب: ہدیہ کی تینوں چیزیں مناسبِ موقع تھیں۔ کپڑا یا کپڑے کا تھان، اس لیے ضروری تھا کہ خطیب و مؤذن اور امام جامع کو پگڑی پہنانے کا عام دستور ہے اور اس مؤذن کی شان بالخصوص اس کی متقاضی تھی۔ حلوا اس کے لیے کہ وہ مسافر تھا اور مسافر کو سب سے پہلے ضیافت کی ضرورت ہوتی ہے۔ شمع اس لیے کہ مسافر کو رات کے سفر و اقامت میں عموماً اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ یا شمع ہدیہ کی اشیاء سے مستثنیٰ ہوگی اور وہ کافر تاریکی شب میں قافلہ تک بآسانی راستہ طے کرنے اور مؤذن صاحب کی صورتِ شریفہ کا دیدار کرنے کے لیے لایا ہوگا۔ مولانا کا عام قاعدہ ہے کہ خواہ قصہ کی طوالت میں خود اپنی طرف سے کچھ واقعات کہہ جائیں، مگر ان کی کوئی بات بےجوڑ نہیں ہوتی۔
-16-
پرس پرسان، کاین مؤذن کو، کجا ست
کہ صدائے بانگ او راحت فزا ست
ترجمہ: (کافر) پوچھتا پوچھتا (آیا) کہ بتاؤ یہ مؤذن کہاں ہے۔ جس کی اذان کی صدا (بڑی) راحت افزا ہے۔
-17-
ھین چه راحت بود زان آوازِ زشت
کاو افتاد از وی بناگه در کنشت
ترجمہ: (تم کہو گے) ارے اس بُری آواز سے کیا راحت (پہنچی) تھی جو اچانک اس مندر میں پہنچی۔
(اور تم نے سنی، لیجئے اس کا جواب سن لیں)
اختلاف منہج القویٰ میں شعر یوں لکھا ہے۔
ہیں چه راحت بود زان آوازِ زشت
گفت کاوازش افتاد اندر کنشت
اس صورت میں مقدرات کی اور شکل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ترجمہ یوں ہوگا۔ (کافر کی یہ بات سن کر اہلِ قافلہ میں سے ایک بولا) ارے اس بری آواز سے کیا راحت (پہنچی) تھی (کافر نے) کہا اس کی آواز جو مندر میں پہنچی تو:
دونوں ترجمے ما بعد کے ساتھ جداگانہ رنگ میں مربوط ہو جاتے ہیں۔ دونوں کو ربط دے کر دیکھ لو۔
-18-
دختری دارم لطیف و بس سنی
آرزو می بود او را مومنی
ترجمہ: میری بیٹی بڑی پاکیزہ اور خوبصورت ہے۔ اس کو مدت سے مسلمان ہونے کی آرزو تھی۔
-19-
هیچ این سودا نمی رفت از سرش
پندها میداد چندین کافرش
ترجمہ: اس کے سر سے یہ سودا بالکل زائل نہ ہوتا، بہت سے ہم مذہب اس کو سمجھاتے رہے۔
-20-
در دلِ او مہرِ ایمان رستہ بود
همچو مجمر بود این غم من، چو عُود
ترجمہ: اس کے دل میں ایمان کی محبت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ غم انگیٹھی کے مانند تھا اور میں عود کی مانند۔ (جو انگیٹھی میں جلتا ہے)
-21-
در عذاب و درد و شکنجه بُدم
کہ بجنبد سلسلہ او دم بہ دم
ترجمہ: (میں اس مصیبت میں) شکنجہ کے (سے) درد و عذاب میں (مبتلا) تھا کہ اس کا (میلان با اسلام کا) سلسلہ دم بہ دم حرکت پا رہا ہے۔
-22-
هیچ چاره می ندانستم در آن
تا فرو خواند این مؤذن این اذان
ترجمہ: اس (مشکل) میں کوئی چارہ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ حتیٰ کہ اس مؤذن نے وہ اذان پڑھ ڈالی (جس نے سارے عقدے حَل کر دیے)
-23-
گفت دختر: چیست این مکروه بانگ؟
کہ بگوشم آید این دو چار دانگ؟
ترجمہ: لڑکی نے پوچھا کہ کیا مکروہ آواز ہے کہ (جس کے) یہ دو چار ٹکڑے میرے کان میں پہنچے ہیں۔
-24-
من همه عمر این چنین آوازِ زشت
هیچ نشنیدم درین دیر و کنشت
ترجمہ: میں نے ساری عمر اس مندر اور بُت خانہ میں ایسی بُری آواز کبھی نہیں سنی۔
-25-
خواہرش گفتا کہ این بانگِ اذان
ھست اعلام و شعارِ مومنان
ترجمہ: اس کی بہن نے کہا کہ یہ اذان کی آواز مسلمانوں کی (عبادت کی) منادی ہے اور (مذہبی) دستور ہے۔
-26-
باورش نیامد بپرسید از دگر
آن دگر هم گفت آری ای قمر
ترجمہ: اس کو یقین نہ آیا (کہ ایسے اچھے مذہب میں ایسی مکروہ آواز کے ساتھ منادی کی جاتی ہے اس لیے) دوسری (عورت) سے پوچھا۔ اس دوسری نے بھی کہا، ہاں اے اچھی لڑکی! (یہ درست ہے)
-27-
چون یقین گشتش رخِ او زرد شد
و ز مسلمانی دلِ او سرد شد
ترجمہ: جب اس کو یقین ہو گیا (کہ واقعی یہ اسلام کی منادی ہے تو مایوسی سے) اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور مسلمانی سے اس کا دل افسردہ ہو گیا۔
-28-
باز رستم من ز تشویش و عذاب
دوش خوش خفتم دران بیخوف و خواب
ترجمہ: میں پریشانی اور عذاب سے چھوٹ گیا۔ میں کل (اس رات میں) جو خطر اور خواب (پریشاں) سے خالی تھی آرام سے سویا۔
-29-
راحتم این بود از آوازِ او
ھدیہ آوردم بشکر، آن مرد کو؟
ترجمہ: اس کی آواز سے یہ راحت مجھ کو (پہنچی) تھی میں (اس کے) شکرانہ میں ہدیہ لایا ہوں۔ وہ مرد کہاں ہے؟ (تاکہ اسے دے دوں)
-30-
چون بدیدش، گفت این ھدیہ بگیر
چون مرا گشتی مُجیر و دستگیر
ترجمہ: جب (کافر نے) اس (مؤذن) کو دیکھا تو کہا لو یہ ہدیہ (قبول کرو) جب کہ تم میرے پناہ دہندہ اور دستگیر ہو گے۔
-31-
آنچه کردی با من از احسان و بِرّ
بندہ تو گشتہ ام من مستمر
ترجمہ: جو کچھ تم نے میرے ساتھ احسان و سلوک کیا ہے (اس کے لیے) میں دائمی طور پر تمہارا غلام ہو گیا۔
-32-
گر به مال و ملک و ثروت فردمی
من دهانت را پر از زر کرد می
ترجمہ: اگر میں مال و ملک اور خوشحالی میں یکتا ہوتا تو تمہارا منہ سُونے سے پُر کرتا۔
مطلب: کافر کا مؤذن سے اس قدر خوش ہونا اس کی بد آوازی کی بناء پر، جس نے اسلام کا ایک بُرا تصور لڑکی کے دل میں پیدا کیا، اور وہ اسلام لانے کے ارادے سے دست بردار ہو گئی اور اس بات کا کافر کے لیے باعثِ سرور اور ایک مسلمان کے لیے موجبِ اندوہ و الم ہونا لازمی ہے۔ اس لیے شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے ایک بد آواز قرآن خواں کو کہا تھا۔
گر تو قرآن بدین نمط خوانی
ببری رونق مسلمانی
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احوال میں لکھا ہے کہ آغازِ اسلام میں وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر اس درد و سوز اور خوش آوازی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے کہ بیسیوں زن و مرد ان کے گھر کے گرد کھڑے ہو کر گھنٹوں قرآن سنتے اور خط اٹھاتے جن میں سے اکثر مسلمان ہو جاتے۔ آخر کفارِ مکہ نے ان کو مجبور کیا کہ بلند آواز سے تلاوت نہ کیا کریں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿اُذِنَ الِلہِ بِشَیءٍ مَا اُذِنَ نَبِّیٍ بالقرآن﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو اس طرح بخوشی نہیں سنا جس طرح نبی کو خوش آوازی کے ساتھ قرآن پڑھتے سنا ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے۔ ﴿مَا اُذِنَ الِلہِ بِشَیءٍ مَا اُذِنَ لِنَبِّیٍ حُسْنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ یَجْھَرُبِہِ﴾ (مشکوٰۃ) یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو اس پسندیدگی کے ساتھ نہیں سُنا جیسے نبی کو خوش الہانی و بلند آواز سے قرآن پڑھتے سنا ہے۔ ﴿اَنَّ التَّغنیٰ بمعنی حُسنُ الصَّوتْ مَنْدُوب عَلٰی مَا ذُکِرَ فِی التَّاتَارِ خَانِیْہِ انَ التَّغْنٰی بِالقُرْآنِ اِنْ لمَ ْیُغَیّرُ الْکَلِمَہ عَنْ وَضعِھَا بَلْ یُحْسِنُہ تَحْسِیْنُ الصَّوْتِ وَ تُزَییّنُ الْقَرَاًۃ فَذَلِکَ مُسْتَحَبٌ عِنْدَنَا فِی الصَّلوٰۃِ وَ خَارِجُھَا تَرَنَّمٌ﴾ یعنی خوش آوازی مستحب ہے۔ چنانچہ تاتار خانیہ میں مذکور ہے کہ: قرآن کریم کو ترنم سے پڑھنا اگر کلمہ اپنی وضع سے تغیر نہ ہو۔ بلکہ خوش آوازی اور حسن ادا اس کو دل پسند بنا دے تو یہ مستحب ہے ہمارے نزدیک نماز کے اندر اور اس کے باہر۔ (مجالس الابرار) ﴿قَالَ التُّورپُشتِی اَلْقَراَۃُ عَلٰی الوَجْہِ الذِّی یَھِیْجُ الْوَجْدِ فِی قُلُوْبِ السَّامِعِینِ وَ یُورِثُ الْحَزْنِ یُجَلِّبُ الدَّمُوعٍ مُسْتَحَبِّہِ مَالمَ یَخْرِجُہ التّغنٰی عَنِ التَّجْوِیْدِ۔۔ الخ﴾ یعنی تور پشتی کا قول ہے کہ قرات اس انداز سے کہ سامعین کے دلوں میں سوز کو ابھارے اور غم کو پیدا کرے، اور اشکباری کی تحریک پیدا کرے مستحب ہے، تا وقت یہ کہ ترنم اس کو صحتِ مخارجِ حروف سے باہر نہ لے جائے۔