دفتر پنجم: حکایت: 150
دعوت کردن مسلمانی کافر را به اسلام در عہدِ بایزیدؒ
حضرت بایزیدؒ قدس سرہٗ کے عہد میں ایک مسلمان کا کسی کافر کو اسلام کی دعوت دینا
-1-
بود گبری در زمانِ بایزید
گفت او را یک مسلمانِ سعید
-2-
کہ چہ باشد گر تو اسلام آوری؟
تا بیابی صد نجات و سروری
ترجمہ: حضرت بایزیدؒ کے عہد میں ایک کافر تھا۔ ایک سعادتمند مسلمان نے اس کو کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو کیا بات ہے۔ تاکہ تم سینکڑوں طرح کی نجات اور سرداری حاصل کرو۔
-3-
گفت این اسلام اگر هست ای مرید
آنکہ دارد شیخ عالم بایزیدؒ
ترجمہ: (کافرنے) کہا اے مرید یہ اسلام (جس کی تم دعوت دیتے ہو) اگر وہی ہے جو شیخ عالم بایزیدؒ رکھتے ہیں تو:
-4-
من ندارم طاقتِ آن، تابِ آن
کان فزون آمد زکوششهای جان
ترجمہ: تو میں اس کی طاقت (اور) اس کی قوت نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ جان کی کوششوں سے بڑھ کر ہے۔ (اگر تاب آں کہ بہ تقدیر عطف معطوف نہیں بلکہ پہلے آں کا مشار الیہ قرار دیا جائے تو معنی یوں ہوں گے میں اس (ایمان) کے جس کے اوپر تو کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ جو جان کی کوششوں سے بڑھ کر ہے)
-5-
گرچہ در ایمان و دین ناموقنم
لیک در ایمانِ اوبس مومنم
ترجمہ: اگرچہ میں (امتِ اسلامیہ کے) ایمان و دین کا یقین نہیں رکھتا۔ لیکن مجھے ان (شیخ عالم) کے ایمان پر پورا یقین ہے۔
-6-
دارم ایمان کہ او ز جملہ بر ترست
بس لطیف و با فروغ، و بافرست
ترجمہ: میں ایمان رکھتا ہوں کہ وہ سب سے برتر ہیں۔ بڑے پاکیزہ اور پُر نور اور با اقبال ہیں۔
-7-
مومنِ ایمانِ اویم در جہان
گرچہ مھرم ھست محکم بر د ھان
ترجمہ: دنیا میں میرا ایمان ان کے ایمان پر ہے۔ اگرچہ (کلمہ ایمان اور اقرار باللسان کی طرف سے) میرے منہ پر مضبوط مہر (لگی ہوئی) ہے۔
-8-
باز ایمان گر خود ایمانِ شماست
نی بدان میل استم، و نہ مشتهاست
ترجمہ: پھر اگر یہی ایمان (ہے جو) تمہارا ہے تو اس کی طرف نہ مجھے میلان ہے نہ خواہش ہے۔
-9-
آنکه صد میلش سوی ایمان بود
چون شما را دید آن فاتر شود
ترجمہ: جس شخص کی سینکڑوں خواہشات ایمان کی طرف ہوں جب تم (جیسے مومنوں) کو دیکھ لے گا۔ تو اس کا وہ (ایمان کا شوق) ٹھنڈا پڑ جائے۔
-10-
زانکه نامی بیند و معنیش نی
چون بیابان را مفازه گفتنی
ترجمہ: کیونکہ وہ (ایمان کا صرف) نام (ہی نام) دیکھتا ہے اور اس کے معنی (نظر) نہیں (آتے) جیسے (چٹیل) جنگل کو مفازہ (کامیابی کی جگہ) کہہ دینا۔
-11-
چون به ایمانِ شما او بنگرد
عشق او ز آوردِ ایمان، بفسرد
ترجمہ: جب وہ تمہارے ایمان کو دیکھے گا تو اس کا عشق ایمان لانے سے ٹھنڈا پڑ جائے گا۔
مطلب: جیسے کہ آج کل کے عام مسلمانوں کا حال ہے۔ کہ وہ محض نام کے مسلمان ہیں اور ان کی اخلاقی حالت کفار سے بھی بدتر ہے۔ پس کوئی غیر مذہب کا آدمی جس کو دین اسلام کی حقیقت کا پتا نہیں۔ جب وہ اسلام کو ان مسلمانوں کی حالت پر قیاس کرے گا۔ تو ہر گز اس کے دل میں اسلام کی کوئی وقعت قائم نہ ہوگی اور آگے اس کی تائید میں ایک حکایت ارشاد فرماتے ہیں:
-12-
ایں حکایت یاد گیر ای تیز ھوش
صورتش بگذار و معنی را نیوش
ترجمہ: اے تیز ہوش والے! یہ کہانی یاد رکھ (جو ہم ابھی سناتے ہیں) اس کے ظاہری پہلو کو چھوڑ دے اور معنی سن لے۔