دفتر پنجم: حکایت: 148
حکایتِ جوحی که چادر پوشیده و درمیانِ زنان نشسته حرکتے کرد که زنے او را بشناخت و نعرہ کشید
جوحی کی حکایت جس نے چادر پہن کر عورتوں کے درمیان بیٹھ کر ایک ایسی حرکت کی کہ ایک عورت نے اس کو پہچان لیا اور نعرہ مارا
-1-
واعظے بُد بس گزیده در بیان
زیر منبر، جمع مردان و زنان
ترجمہ: ایک واعظ بیان (و تقریر) میں نہایت ممتاز تھا (اس کی تقریر سننے کے شوق میں) منبر کے نیچے مرد اور عورتیں جمع (تھیں)
-2-
رفت جوحي، چادر و روبند ساخت
درمیانِ آن زنان شد ناشناخت
ترجمہ: جوحی (بھی ان عورتوں میں) جا پہنچا۔ اس نے چادر (پہن لی) اور نقاب منہ پر ڈال لیا (اور) ان عورتوں میں (جا کر) بے پہچان ہو گیا۔
-3-
سائلے پرسید واعظ را براز
موی عانه ھست نقصانِ نماز؟
ترجمہ: ایک مسئلہ پوچھنے والے نے واعظ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا زیرِ ناف بال نماز کے لیے نقصان (کے باعث) ہیں۔
-4-
گفت واعظ چون شود عانه دراز
پس کراهت باشد از وی در نماز
ترجمہ: واعظ نے کہا جب زیرِ ناف کے بال لمبے ہو جائیں توان سے نماز میں بڑی کراہت ہوتی ہے۔ (عانہ سے موئے عانہ مراد ہیں)۔
-5-
یا بنورہ، یا بستُره بسترش
تا نمازت کامل آید، خوب و خوش
ترجمہ: یا تو چونا کے ساتھ یا استرہ کے ساتھ اس کو مونڈ ڈالو تاکہ تمہاری نماز پوری اور بخوبی عمدہ (طریق سے ادا) ہو۔
-6-
گفت سائل آن درازی تا چه حد
شرط باشد؟ تا نماز اکمل بود
ترجمہ: سوال کرنے والے نے کہا وہ لمبائی کس حد تک (مونڈنے کی) شرط ہے تاکہ نماز کامل ہو۔
-7-
گفت چون قدرِ جوی گردد بطول
پس ستردن فرض باشد، اے سئول
ترجمہ: (واعظ نے) کہا جب بال لمبائی میں ایک جو کے برابر ہو جائیں تو پھر اے سوال کرنے والے (ان کا) مونڈنا فرض ہو جاتا ہے۔
مطلب: مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ چالیس دن تک موئے زہار کو نہ مونڈنا معاف ہے۔ اس کے بعد مکروہ ہے۔ شاید واعظ نے جو کے برابر لمبائی کا تخمینہ اس لیے تجویز کیا ہو کہ اس کی دانست میں چالیس دن میں بال اسی قدر بڑھتے ہوں گے۔ فرض کے ایک معنی معین کرنے اور کسی کا وقت مقرر کرنے کے بھی ہیں۔ یہاں یہی معنی مراد ہیں یعنی اس وقت ان کا مونڈنا مقرر ہے۔ فرض بمعنی لازم بدلیلِ قطعی مراد نہیں۔ کیونکہ زہار کا مونڈنا نماز و روزہ وغیرہ کی طرح فرض نہیں۔ بلکہ یہ ایک سنت خلیلیہ ہے۔
-8-
پیشِ جوحی یک زنی بنشسته بود
ھوش را بر وعظ واعظ بستہ بود
ترجمہ: جوحی کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی۔ جس نے واعظ کے وعظ پر توجہ لگا رکھی تھی۔
-9-
گفت او را جوحی ای خواهر ببین
عانۂ من باشد اکنون این چنین
ترجمہ: اس کو جوحی نے کہا اے بہن (ذرا) دیکھنا کیا میری زیرِ ناف کے بال (بھی) اب ایسی (حالت میں) ہیں (کہ ان کو مونڈنا چاہیے)
-10-
بھرِ خوشنودیِ حق پیش آر دست
کان بمقدارِ کراهت آمدست؟
ترجمہ: خدا کی خوشنودی کے لیے ہاتھ بڑھا (کر دیکھو) کہ آیا وہ مکروہ مقدار میں بڑھے ہوئے ہیں (یا نہیں)
-11-
دست زن در کرد در شلوارِ مرد
خرزه اش بردستِ زن آسیب کرد
ترجمہ: عورت نے مرد کے پاجامہ میں (جس کو وہ غلطی سے عورت سمجھتی تھی) ہاتھ ڈال دیا۔ تو اس (مرد) کا آلۂ تناسل عورت کے ہاتھ سے چھو گیا۔
(2) مرد نے عورت کا ہاتھ پکڑ کر (اپنے) پاجامہ میں ڈال لیا تو اس (مرد) کا آلہ تناسل عورت کے ہاتھ سے چھو گیا۔ (صورتِ ثانی کہ ہم نے معناً مناسب اس لیے ٹھہرایا ہے کہ یہ حرکت بجائے عورت کے مرد سے زیادہ متوقع ہے اور عورت ذات سے ایسی جرات غالباً غیر مظنون ہے)
-12-
نعرہ زد سخت، اندر حالِ زن
گفت واعظ بر دلش زد گفتِ من
ترجمہ: عورت (گھبرا کر) فوراً چیخ اٹھی۔ واعظ نے (اس کی چیخ سن کر فخریہ لہجہ میں) کہا (دیکھو) میری تقریر اس کے دل پر اثر کر گئی۔
-13-
صدق را از این زن بیاموزید هین
چونکہ بردل زد او را گفتِ چنین
ترجمہ: ہاں (لوگو ) اس بی بی سے صدق سیکھو۔ جبکہ ایسی تقریر اس کے دل پر اثر کر گئی۔
-14-
گفت نی، بر دل نہ زد، بردست زد
وای اگر بر دل زند، ای بی خرد
ترجمہ: (جوحی مسخرا) بولا۔ دل پر اثر نہیں ہوا۔ ہاتھ پر ہوا ہے۔ ارے احمق (واعظ) اگر دل پر اثر ہوتا تو غضب ہی ہو جاتا۔
مطلب: جوحی نے یہ بات مزاحاً کہی مگر مولانا کا اس سے مقصود یہ نکتہ ارشاد ہے کہ ہاتھ کے ایک جسمانی و شہوانی احساس نے عورت کے لیے یہ قیامت برپا کر دی تو اگر کسی کے قلب پر جذبہ رحمانیہ وارد ہو جائے تو اس روحانی احساس سے اس کا کیا ہوگا۔ چنانچہ آگے خود فرماتے ہیں:
-15-
بردلِ آن ساحران زد اندکی
شد عصا و دست ایشان را یکی
ترجمہ: (دیکھو) ان جادوگروں کے دل پر (جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کو بلائے گئے تھے) کس قدر (جذبہ رحمانیہ) وارد ہوا تھا تو (غلبہ عشق سے ان کا یہ حال ہوا) کہ ان کے نزدیک لکڑی اور ہاتھ یکساں ہو گئے (بلکہ ان کی نظر میں ہاتھ و پاؤں کی قدر لکڑی سے بھی کم تھی)
-16-
گر ز پیری در ربائی تو عصا
بیش رنجد کان گروه از دست و پا
ترجمہ: چنانچہ اگر تم کسی بوڑھے سے (اس کی) لکڑی چھین لو تو اس کا رنج (جادوگروں کی) مذکورہ جماعت (کے اس رنج) سے زیادہ ہوگا۔ جو انہیں ہاتھ پاؤں (کے کٹنے) پر پہنچا۔
-17-
نعرہ لَاضَیرَ بر گردون رسید
هین ببر چون جان ز جان کندن رسید
ترجمہ: (یہی وجہ تھی کہ جادوگروں کا) نعرہ لَاضَیرَ (یعنی ہم کو کچھ پروا نہیں) آسمان تک جا پہنچا (جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ) ہاں (اے فرعون! ہمارے ہاتھ پاؤں کاٹتا ہے) کاٹ ڈال (ہمیں اس کے متعلق پروا نہیں) جبکہ (ہماری) جان (کفر کی) جانکنی سے نجات پا گئی۔
مطلب: جب فرعون نے جادوگروں کے ایمان لانے پر ان کو ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالنے کی دھمکی دی تھی تو انہوں نے جواباً کہا تھا: (لَا ضَيْرَ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ) (آیت 50) (الشعراء) "کچھ پروا نہیں۔ ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والے ہیں"۔
-18-
ما بدانستیم ما این تن نہ ایم
از ورای تن به یزدان مے زئیم
ترجمہ: ہم کو معلوم ہو گیا کہ ہم (محض) یہ جسم (عنصری) نہیں ہیں بلکہ یہ بدن تو ہمارا ایک آلہ کار ہے اور بدن سے ماوراء ہم حق تعالیٰ کے ساتھ زندہ ہیں۔
مطلب: اے فرعون! تیری تیغ و خنجر کا اثر ہمارے جسم پر ہو سکتا ہے اور جسم کو ہم پہلے ہی فانی و ہیچ سمجھتے ہیں۔ ہماری زندگی حق تعالیٰ کے ساتھ ہے جو حی لا یموت ہے۔ پس تیری قطع و برید سے ہماری زندگی منقطع نہیں ہو سکتی (آگے مولانا فرماتے ہیں)
-19-
ای خنک آن را که ذات خود شناخت
اندر امنِ سرمدی قصری بساخت
ترجمہ: مبارک ہے وہ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا۔ (اور ابدی) امن کے اندر (اپنے لیے) ایک محل (تعمیر) کر لیا۔
-20-
کودکی گرید پی جوز و مویز
پیشِ عاقل، باشد آن بس سھل چیز
ترجمہ: ایک بچہ اخروٹ اور کشمش کے لیے مچلتا ہے (مگر) عقلمند کے نزدیک یہ نہایت ادنی چیز ہیں۔
-21-
پیشِ دل، جوز و مویز آمد جسد
طفل کی دردانشِ مردان رسد؟
ترجمہ: قلب کے نزدیک جسم (بمنزلہ) جوز و کشمش ہے (جو بچوں کے سے خام کار لوگوں کو مطلوب ہے اور) بچہ مردوں کی عقل کو کب پہنچ سکتا ہے۔ و نعم ما قال اسمٰعیل میرٹھی مرحوم ٗ
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے
چھوڑی نہیں جس نے حبّ دنیا دل سے
گو ریش سفید ہو مگر بچہ ہے
-22-
ھر کہ محجوب ست او خود کودکی ست
مرد آن باشد که بیرون از شکست
ترجمہ: جو شخص (غفلت کے) حجاب میں ہے وہ (ایک طرح سے) بچہ ہی تو ہے۔ مرد وہ ہوتا ہے جو شک سے باہر ہو (یہاں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ڈاڑھی مونچھ والے کو تم بچہ کیوں کر کہتے ہو۔ آگے اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں:
-23-
گر بریش و خایہ مردستی کسی
هر بزی را ریش و مو باشد بسی
ترجمہ: اگر کوئی شخص (محض) داڑھی اور خصیئے کی بدولت مرد ہو سکتا ہے تو بکرے کی بھی داڑھی اور بال بکثرت ہوتے ہیں۔ (پس اس کو بھی مرد کہنا چاہیے)۔
-24-
پیشوائی بد، بود آن بز، شتاب
می برد اصحاب را پیش قصاب
ترجمہ: (بس خام کار آدمی، آدمی نہیں بلکہ بکرا ہے۔ اور) ایسا بکرا ایک برا پیشوا ہوتا ہے جو اپنے ساتھیوں کو جلدی قصائی کی طرف لے جاتا ہے (یعنی غافل و بد اعمال آدمی ساتھیوں کو بھی تباہ کر دیتا ہے)
-25-
ریش را شانه زدی که سابقم
سابقی لیکن بسوی درد و غم
ترجمہ: (اجی پیشوا صاحب) تم (تو اس گھمنڈ میں اپنی) داڑھی کو کنگھی کرتے (اور تیل ملتے) رہو گے کہ میں لوگوں کا رہبر ہوں (بیشک) تم رہبر ہو۔ لیکن (ان کو) درد و غم کی طرف (لے جاتے ہو۔ نہ کہ ابدی مسرت کی طرف)
-26-
ھین روش بگزین، و ترکِ ریش کن
ترکِ این ما و من، و تشویش کن
ترجمہ: خبردار! راہ روی اختیار کرو اور ڈاڑھی (وغیرہ کی آراستگی) کو چھوڑ دو (اور) اس خود نمائی و خود ستائی اور (ہر قسم کے) جھگڑوں کو ترک کر دو۔
-27-
ریشِ خود را خنده زاری کرده ای
نازکم کن چون که ریش آورده ای
ترجمہ: تم نے اپنی ڈاڑھی کو مضحکہ بنا لیا ہے۔ جب تمہاری ڈاڑھی نکل آئی تو ناز نہ کرو۔ (بلکہ اپنی داڑھی کی لاج رکھو اور بالغ و عاقل بنو)
-28-
تا شوی چون بوی گل بر عاشقان
پیشوا، و راھنمای گلستان
ترجمہ: تاکہ تم پھول کی خوشبو کی طرح عاشقوں کے پیشوا اور باغ (کی طرف ان) کے رہنما بن جاؤ (پھول کی مہک باغ کا سراغ بتاتی ہے۔ اس لیے پیشوا کو اس کے ساتھ تشبیہ دی)
-29-
چیست بوی گل؟ دمِ عقل و خرد
خوش قلاؤوزِ رہِ باغِ ابد
ترجمہ: بوئے گل (سے ہماری) ایک (مراد) ہے۔ عقل و دانش کی بات (مراد ہے) جو ابدی (زندگی کے) باغ کے راستے کی طرف لے جانے والی ہے۔