دفتر پنجم: حکایت: 147
حکایت تسلی کردنِ خویشانِ مجنون، مجنوں را از عشقِ لیلیٰ
حکایت مجنوں کے اقارب کا مجنوں کو لیلیٰ کے عاشق سے روکنا
-1-
ابلہاں گفتند مجنوں را زِ جہلحسنِ لیلیٰ نیست چنداں ہست سہل
ترجمہ: (قبیلے کے چند) بےوقوفوں نے بیوقوفی سے مجنوں کو کہا۔ لیلیٰ کا حسن کچھ نہیں معمولی ہے (ان لوگوں کو بےوقوف اس بنا پر کہا کہ عشق نصیحت سے کم ہونے کے بجائے الٹا ترقی کرتا ہے۔ پس نصیحت کے ذریعہ اس کو روکنے کی کوشش کرنا سراسر جہالت ہے)
-2-
بہتر از وے صد ہزاراں دلرباہست ہمچوں ماہ اندر شہر ما
ترجمہ: اے صاحب ہمارے شہر میں اس سے بہتر لاکھوں معشوقہ چاند کی سی (موجود) ہیں۔
-3-
نازنیں تر زو ہزاراں حور وَشہست بگزیں زاں ہمہ یکبار خوش
ترجمہ: ہزاروں حور کی سی (خوبصورت عورتیں) اس سے زیادہ نازنین (موجود) ہیں۔ ان میں سے ایک مرتبہ بخوشی (کسی کو) انتخاب کر لو۔
-4-
وارہاں خود را و ما را نیز ہماز چنیں سودائے زشتِ متہم
ترجمہ: ایسے برے اور بدنام عشق سے اپنے آپ کو بچاؤ، اور ہم کو بھی (اس بدنامی کے داغ سے نجات دلاؤ)
-5-
گفت صورت کوزہ است و حسن مےمے خدایم میدہد از ظرفِ وے
ترجمہ: (مجنوں نے) کہا صورت کوزہ ہے اور حسن شراب ہے۔ خداوند تعالیٰ اس کی طرف (صورت) سے مجھے (یہ) شراب پلاتا ہے۔
مطلب: یعنی یہ متعین خاص مثلِ کوزہ ہے جس میں حسنِ حق کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ مگر یہ اس شخص کا حصہ ہے جس کی نظر عشق کی وجہ سے حق بین ہو جائے۔ (بحر)
-6-
مر شما را سرکہ داد از کوزہ اشتا نباشد عشقِ او تاں گوش کش
ترجمہ: تم کو اس کے کوزہ (صورت) سے سرکہ دیا ہے تاکہ اس کا عشق تمہارے کان نہ پکڑے (یعنی تم کو اس کے حسن کی پرکھ پہچان نہیں ہے۔ اسی لیے اس کا عشق تم پر غلبہ نہیں پاتا)
-7-
از یکے کوزہ دہد زہر و عسلہر یکے را دست حقِ عز و جل
ترجمہ: خداوند عزوجل کا ہاتھ ایک ہی کوزہ سے ہر ایک کو زہر اور شہد دیتا ہے (کیونکہ یہ متعین دو چیزوں پر مشتمل ہیں۔ ایک حسنِ ذات دوسری زشتیِ متعین۔ (بحر)
-8-
کوزہ مے بینی و لیکن آں شرابروئے ننماید بچشمِ نا صواب
ترجمہ: تم کوزہ کو دیکھتے ہو۔ لیکن وہ شراب نا درست آنکھ سے نظر نہیں آتا (کیونکہ کوزہ متعین نظر آتا ہے مگر حسنِ ذات عاشق کے سوا کسی کو نظر نہیں آ سکتا۔ (بحر)
-9-
قاصرات الطرف باشد ذوقِ جانجز بخصمِ خویش ننماید نشاں
ترجمہ: روحانی ذوق (اپنی) نگاہ کو محفوظ رکھنے والا ہوتا ہے۔ سوائے اپنے اہل کے (اور کسی کو) یہ نشان نہیں دکھاتا۔ (بعض شراح کے نزدیک یہ شعر الحاقی ہے۔ بحر)
مطلب: قاصرات الطرف کا لفظ اس آیت سے ماخوذ ہے۔ جو بہشت کی عورتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ (الرحمٰن:56) ”ان میں پاکدامن حوریں ہوں گی (جو غیر کی طرف) آنکھ اٹھا کر کبھی نہیں دیکھیں گی۔ اور جنتیوں سے پہلے نہ تو کسی انسان نے ان پر ہاتھ ڈالا ہوگا۔ نہ کسی جن نے۔“
-10-
قاصرات الطرف باشد آں مدامویں حجاب طرفہا ہمچوں خیام
ترجمہ: وہ شراب نگاہ (اغیار سے) روکنے والی ہے اور یہ پیالوں کے حجاب خیموں کے مانند ہیں۔ (جن میں پردہ نشین عورتیں چھپی ہوتی ہیں)
مطلب: چنانچہ فرمایا: حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ (الرحمٰن:72) (وہ عورتیں) حوریں (ہوں گی) جو (اپنے رہنے کے) خیموں میں بند (بیٹھی) ہیں۔
آگے فرماتے ہیں کہ جس طرح لیلیٰ کا حسن ایک کے لیے جالبِ محبت اور دوسرے کے لیے باعثِ نفرت ہے۔ اسی طرح یہ شرابِ ذوق ایک کے لیے تریاق اور دوسرے کے لیے زہر ہے۔ اور اس کی چند مثالیں پیش فرماتے ہیں:
-11-
ہست دریا خیمہ، در وے حیاتبط را، لیکن کلاغاں را ممات
ترجمہ: (مثلاً) دریا ایک چشمہ ہے۔ جس میں بطخ کے لیے زندگی ہے اور کووں کے لیے موت۔
-12-
زہر باشد مار را ہم قوت و برگغیر او را زہرِ او در دست و مرگ
ترجمہ: (مثلاً) زہر سانپ کے لیے روزی اور سامان ہے۔ دوسرے کے لیے اس کا زہر مرض و موت ہے۔
-13-
صورتِ ہر نعمتے و محنتےہست ایں را دوزخ آنرا جنتے
ترجمہ: (دنیا کی) ہر نعمت اور محنت (بظاہر سب کے لیے یکساں اثر رکھتی ہے۔ مگر اپنی باطنی کیفیت کے لحاظ سے) اس (ایک) کے لیے دوزخ ہے اور (اس) دوسرے کے لیے بہشت (مثلاً نعمت بظاہر سب کے لیے خوشگوار اور محنت سب کے لیے ناگوار ہے۔ مگر اپنی باطنی کیفیت کے لیے نعمت زاہد کے لیے دوزخ اور حریص کے لیے جنت ہے اور محنت اہلِ ریاضت کے لیے بہشت اور عیش پسند کے لیے دوزخ ہے)
-14-
پس ہمہ اجسام اشیا تُبصِرُوناندرو قوت ست و سم لاتُبصِرُون
ترجمہ: پس تمام اشیا کے (ظاہری) اجسام کو تم دیکھتے ہو (اور) ان میں (جو) غذا اور زہر (مخفی) ہے اس کو نہیں دیکھتے۔
-15-
ہست ہر جسمے چو کاسہ و کوزۂاندرو ہم قُوت و ہم دِل سوزۂ
ترجمہ: ہر جسم پیالے اور کوزے کی مثل ہے۔ اس میں غذا بھی ہے اور دل کو پھونک ڈالنے والا (زہر) بھی
-16-
کاسہ پیدا و اندراں پنہاں رغدطاعمش داند کزاں چہ می خورد
ترجمہ: پیالہ ظاہر ہے اور اس میں خوشگوار (غذا) مخفی ہے۔ اس کو کھانے والا جانتا ہے کہ کیا کھاتا ہے۔
مطلب: خلاصہ ان ابیات کا یہ ہے کہ ایک متعین کسی متعین کی نسبت سے اچھا ہے اور دوسرے متعین کی نسبت سے بُرا ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ اسمائے حسنیٰ باہم تقابل رکھتے ہیں اور ذاتِ حق اسمائے متقابلہ کے ساتھ تعینات خاصہ میں ظاہر ہوئی ہے۔ پس وہی تضاد ہر متعین میں ظاہر ہوا ہے۔ چنانچہ متناسب اسماء کے مظاہر میں مناسبت و محبت بلکہ عشق پیدا ہو جاتا ہے اور متضاد اسماء کے مظاہر میں منافرت اورعداوت پیدا ہو جاتی ہے۔ (بحر)
-17-
صورتِ یوسفؑ چوں جامے بود خوبزاں پدر مے خورد صد بادہ طروب
ترجمہ: حضرت یوسف علیہ السلام کی صورت ایک خوب صورت پیالے کی مانند تھی جس سے (ان کے) والد (حضرت یعقوب علیہ السلام) سینکڑوں قسم کی نشاط فزا شراب نوش فرماتے تھے۔
-18-
باز اخواں را ازاں زہراب بودکاندر ایشاں زہرِ کینہ مے فزود
ترجمہ: پھر بھائیوں کا حصہ اس (پیالہ) سے زہر آب تھا۔ جو ان میں کینے کے زہر کو بڑھاتا تھا۔
-19-
باز از وے مر زلیخا را شکرمے کشید از عشق افیونِ دگر
ترجمہ: پھر اس (کاسۂ صورتِ یوسفؑ) سے زلیخا کو ایک شیرینی عشق کے باعث اور ہی افیون پلاتی تھی۔
-20-
غیر آنچہ بود مر یعقوب رابود از یوسف غذا آں خوب را
ترجمہ: اس حسینہ کو حضرت یوسف علیہ السلام (کی صورت) سے ایک غذا اس (غذا) سے جداگانہ (حاصل) تھی جو حضرت یعقوبؑ حاصل کرتے تھے۔
مطلب: حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن حضرت یعقوب علیہ السلام کو ایک اور حیثیت سے اور زلیخا کو دوسری حیثیت سے مشہود ہوتا تھا۔ چنانچہ زلیخا اس حسن کو حسنِ متعین دیکھتی تھی۔ اس لیے اس سے تلذ ذِ نفسانی چاہتی تھی اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس متعین میں حسنِ ذات مع جمیع اسماء و صفات مشہود ہوتا تھا (اس لیے وہ اس سے علوم و معارف کی غذا پاتے تھے)۔ (بحر)
-21-
گونہ گونہ شربت و کوزہ یکےتا نماند در مئے غیبت شکے
ترجمہ: غرض طرح طرح کے شربت ہیں اور کوزہ ایک ہے تاکہ شرابِ غیب میں تم کو کوئی شک نہ رہے۔
-22-
بادہ از غیب ست و کوزہ زیں جہاںکوزہ پیدا بادہ در وے بس نہاں
ترجمہ: شراب عالمِ غیب سے ہے اور کوزہ اس جہاں سے کوزہ ظاہر ہے (اور) شراب اس میں نہایت مخفی ہے۔
-23-
بس نہاں از دیدہ نامحرماںلیک بر محرم ہویدا و عیاں
ترجمہ: وہ (شرابِ غیب) نامحرم لوگوں کی نظر سے نہایت مخفی ہے۔ لیکن محرم پر ظاہر اور نمایاں ہے۔
-24-
یَآ اِلٰھی سُکِّرَت اَبصَارُنَافَاعفُ عَنَّا اَثقَلَتْ اَوزَارُنَا
ترجمہ: الہیٰ ہماری (قلوب کی) بینائیاں بند کر دی گئی ہیں۔ بس ہم کو معاف فرما ہمارے (گناہوں کے بوجھ بھاری ہوگئے)
-25-
یَا خَفِیاً قَد مَلَاتَ الخافِقَینِقَد عَلوتَ فَوقَ نُورِ المَشَرِقَینِ
ترجمہ: اے (وہ جو ہماری نگاہوں سے) مخفی (ہے) تو نے مشرق و مغرب کو پُر کر دیا (یعنی مشرق و مغرب کی تمام کائنات تیری شیونات ہیں) تو (موسم) گرما سرما کی دونوں مشرقوں کے نُور سے اعلیٰ ہے کیونکر تیرا نور تمام انوارِ متعینہ سے بالا تر ہے)
-26-
اَنتَ سِرٌّ کَاشِفُ اَسرارِنَااَنْتَ فَجْرٌ مُفْجِرُ اَنھَارِنَا
ترجمہ: تو راز ہے (اور ہر شے کا باطن ہے اور باوجود اس بطون کے ہمارے اسرار کو عیاں کرنے والا ہے۔ تو نورِ مطلق ہے) (اور) ہماری (مرادات) کی نہروں کو جاری کرنے والا ہے۔
-27-
یَا خَفِیَّ الذَّاتِ مَحسُوسَ العَطَااَنتَ کَالمَآءِ وَ نَحنُ کَالرُّحٰی
ترجمہ: اے چھپی ذات والے (اور) محسوس عطا والے تو گویا پانی ہے اور ہم چکی کی مانند ہیں۔
مطلب: تیری ذات ہماری ابصار و عقول سے مخفی ہے۔ کسی کے حواس اور عقل تیری ذات کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے۔ اور تیری عطا اور انعام مشہور و معلوم ہیں۔ اس عطا سے معطی پر استدلال کر سکتے ہیں۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے۔ تَفَکّرُو فِی آلآئِہِ وَ لاَ تَفَکَّرُو فِی ذَاتِہِ یعنی اس کی بخششوں میں غور کیا کرو اور اس کی ذات میں غور نہ کرو۔ جس کی مثال سے مقصود یہ ہے کہ ہم تیرے تصرف میں ہیں۔ جدھر تو چاہتا ہے ہم کو پھیر دیتا ہے۔ (بحر)
-28-
اَنتَ کالرّیحِ وَنَحنُ کَالغُبَارِیَختَفِی الرّیحُ وَغَبَرَاہُ جِھَارِ
ترجمہ: تو ہوا کی مانند ہے اور ہم غبار کی مثل ہیں۔ ہوا مخفی ہے اور اس کا غبار ظاہر ہے۔
-29-
تو بہاری، ما چو باغِ سبز و خوشاو نہان و آشکارا بخششش
ترجمہ: تو بہار ہے ہم (تیری بدولت) سرسبز و شاداب باغ کی مانند ہیں۔ وہ پوشیدہ ہے اور اس کی بخشش ظاہر ہے۔
-30-
تو چو جانی، ما مثالِ دست و پاقبض و بسطِ دست از جاں شُد روا
ترجمہ: تو جان کی مانند ہے (اور) ہم ہاتھ پاؤں کی مثل ہیں۔ ہاتھ کا سکڑنا اور پھیلنا جان کی بدولت ہی ہے۔
-31-
تو چو عقلی، ما مثالِ ایں زباںایں زباں از عقل مے باید بیاں
ترجمہ: تو عقل کی مانند ہے (اور) ہم اس زبان کی مثل ہیں۔ یہ زبان عقل کی بدولت بیان (کی توفیق) پاتی ہے۔
-32-
تو مثالِ شادی و ما خندہ ایمکہ نتیجۂ شادیِ فرخندہ ایم
ترجمہ: تو خوشی کی مانند ہے اور ہم ہنسی ہیں۔ جو مبارک خوشی کا نتیجہ ہیں (خوشی سے ہی ہنسی آتی ہے)
-33-
جنبشِ ما ہر دمے خود اَشْہَدْ ستکہ گواہِ ذوالجلالِ سرمد ست
ترجمہ: ہماری حرکت ہی ہر وقت بہت بڑی گواہ ہے جو خداوندِ ذوالجلال ہمیشہ رہنے والے (کے وجود) پر گواہی دیتی ہے۔ (بقول نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ:
بلے در طبع ہر دانندہ ہستکہ با گردندہ گردانندہ ہست
ازاں چرخہ کہ گرداند زنے پیرقیاسِ چرخ گرداں را ازاں گیر
-34-
گردشِ سنگ آسیا در اضطراباَشْہَدْ آمد برد جودِ جوئے آب
ترجمہ: پتھر کی چکی کا بےقراری میں گردش کرنا پانی کی نہر کے وجود پر بڑا گواہ ہے۔
-35-
اے بُروں از وہم و قال و قیل منخاک بر فرقِ من و تمثیلِ من
ترجمہ: اے وہ جو میرے وہم اور گفتگو کے احاطہ سے باہر ہے، میرے اور میری تمثیل کے سر پر خاک (تو میری تمثیل سے برتر ہے(
-36-
بندہ نہ نشکیبد ز تصویرِ خوشتہر دمے گوید کہ جانم مفرشت
ترجمہ: (مگر کیا کریں کہ) کہ بندہ تیرے اچھے تصور سے صبر نہیں کر سکتا (اور تصور کے لیے تمثیل لازم ہے۔ اس لیے تیری تمثیل بیان کرتا ہے۔ چنانچہ وہ شدتِ اشتیاق سے) ہر دم (یہی) کہتا ہے کہ میری جان تیرا فرش ہو۔
-37-
ہمچوں آں چوپاں کہ می گفت اے خداپیشِ چوپانِ محبّ خود بیا
ترجمہ: جیسے وہ گڈریا کہتا تھا کہ اے خدا تو اپنے عاشق گڈرئیے کے پاس آ۔
-38-
تا شپش جویم من از پیراہنتچارقت دوزم ببوسم دامنت
ترجمہ: تاکہ میں تیرے پیراہن سے جوئیں نکالوں۔ تیری جوتی گانٹھ دوں اور تیرا دامن چوموں (اس چوپان کا مفصل قصہ دفتر دوم کے اواخر میں مذکور ہے۔ جو مفتاح العلوم کی جلد ہفتم کے آغاز میں واقع ہوا ہے)
-39-
کس نبودش در ہوا و عشق جفتلیک قاصر بود از تسبیح و گفت
ترجمہ: (خدا کی) محبت اور عشق میں کوئی اس کا ثانی نہیں تھا۔ لیکن وہ (بےچارہ) خدا کی پاکی بیان کرنے اور (حمد و ثنا کے کلمات) بولنے سے قاصر تھا۔
-40-
عِشقِ او خر گاہ بر گردوں زدہچوں سگِ خرگاہ آں چوپاں شدہ
ترجمہ: اس کے عشق نے (اس کا) خیمہ آسمان پر جا لگایا۔ وہ گڈریا (مراتبِ قرب میں) خیمہ کے کتے کی طرح (مقرب) ہو گیا۔ (قرب حاصل کرنے والا کتا غیر مقرب انسان سے بدر جہا افضل و اعلیٰ ہے۔ گڈرئیے کو کتے سے اس لیے تشبیہ دی کہ وہ زبان حمد و تسبیح سے معذور ہونے کی وجہ سے گویا بے زبان جانور تھا(
-41-
چونکہ بحرِ عشقِ یزداں جوش زدبر دلِ او زد ترا برگوش زد
ترجمہ: جب خداوند تعالیٰ کے دریائے عشق نے جوش مارا تو (وہ دریا) اس (گڈرئیے) کے دل سے جا ٹکرایا (اور) تیرے (صرف) کان کے ساتھ ٹکراتا ہے (دل تک نہیں پہنچتا(۔
انتباہ: آگے دل پر اثر نہ ہونے اور اثر کے بیرونِ دل رہ جانے کی تائید میں جو جی کی ایک ظریفانہ حکایت ارشاد فرماتے ہیں۔ جوجی ایک مسخرا تھا۔ جس کا تمسخر اور استہزا ضرب المثل ہے۔ یہ حکایت بھی مثنوی کی چند دیگر حکایات کی طرح اس زمانہ کے ادعائی ادب و تہذیب کے لیے نہایت نا ملائم واقع ہوئی ہے۔ امید ہے کہ ناظرینِ کرام مترجم کی مجبوری کو ملحوظ رکھ کر معاف فرمائیں گے۔