دفتر 5 حکایت 146: ایاز کی حکایت کی طرف رجوع اور سلطان کا اس سے سوال کرنا

دفتر پنجم: حکایت: 146


رجوع بحکایتِ ایاز و سوالِ سلطان ازو

ایاز کی حکایت کی طرف رجوع اور سلطان کا اس سے سوال کرنا

-1-

اے ایاز ایں مہر ہا بر چارقے چیست آخر ہمچو بر بُت عاشقے

ترجمہ: اے ایاز! آخر ایک (ٹوٹی پھوٹی) جوتی پر یہ محبتیں کیسی ہیں؟ جیسے کوئی بت پر عاشق ہو۔

-2-

ہمچو مجنوں بر رخِ لیلی خویش کردہ تو چارقے را دین و کیش

ترجمہ: تم نے مجنوں کی طرح اپنی لیلیٰ کے سامنے ایک جوتی کو اپنا دین و مذہب بنایا ہے۔

-3-

با دو کہنہ مہر جاں انگیختہ ہر دو را در حجرہ آویختہ

ترجمہ: دو پرانی چیزوں کے ساتھ (دل و) جان سے محبت لگائی۔ دونوں کو ایک حجرہ میں لٹکا رکھا ہے۔

-4-

چند گوئی با دو کہنہ تو سخن در جمادے مے دمی سرِّ کہن

ترجمہ: دو پرانی چیزوں سے تم کہاں تک باتیں کرو گے۔ ایک بےجان چیز میں پرانا راز پھونک رہے ہو۔

-5-

چوں عرب با رَبع و اطلال اے ایاز مے کشی از عشق خود گفتِ دراز

ترجمہ: اے ایاز! تم عرب کی طرح اپنے عشق (کے جوش سے) کھنڈر کے مقام کے ساتھ لمبی گفتگو کر رہے ہو۔

مطلب: اہلِ عرب خانہ بدوش زندگی بسر کرتے تھے۔ ہر قبیلہ بھیڑ بکریاں چراتا اور جہاں پانی اور سبزہ کی خبر پاتا وہاں جا ڈیرہ لگاتا۔ چند ماہ کے بعد وہاں سے کوچ کر کے کسی دوسرے مقام میں جا قیام کرتا۔ اور چھوڑے ہوئے مقام پر خیمہ نصب کرنے کی جگہ اور چولھے کے نشان بطورِ یادگار چھوڑ جاتا۔ کوئی عاشقِ زار جب اس مقام سے گزرتا جس کی معشوقہ اس کوچ کر جانے والے قبیلہ کی کوئی دوشیزہ ہوتی تو وہ گھنٹوں ان نشانات سے اس طرح گفتگو کرتا۔ جس طرح کسی زندہ انسان سے خطاب کیا جاتا ہے۔ گویا وہ مٹے ہوئے نشانات اس معشوقہ کی طرف سے حقِ سفارت ادا کر رہے ہیں۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ایاز کے مذکورہ فعل کو عرب عاشقوں کے اس اظہارِ جذبات کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

-6-

چارقت رَبع کدامیں آصف ست پوستیں گوئی قمیصِ یوسف ست

ترجمہ: تیری جوتی کونسے آصف کا مقام ہے۔ تیری پوستین گویا یوسف کی قمیص ہے (آگے ایاز کے اس فعل کی ایک اور مثال پیش فرماتے ہیں۔(

-7-

ہمچو ترسا کہ شمارد بر کِشش جرم یک سالہ زنا و غل و غش

ترجمہ: جیسے ایک عیسائی جو قسیس (پادری) کے سامنے (اپنے) سال بھر کے گناہ (از قسم) زنا و دغا و فریب شمار کرتا ہے۔

-8-

تا بیا مرزد کِشش زد آں گناہ عفوِ او را عفو داند از الہٰ

ترجمہ: تاکہ پادری اس کا وہ گناہ بخش دے۔ وہ اس کے معاف کر دینے کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے معافی سمجھتا ہے۔

-9-

نیست آگہ آں کِشش از جرم و داد لیک بس جادو است عشق و اعتقاد

ترجمہ: وہ پادری (بےچارہ خود) جرم و انصاف سے واقف نہیں (کہ یہ کن جانوروں کے نام ہیں۔ پھر کسی دوسرے کے اعمال و افعال کی کیا منصفی کر سکتا ہے) مگر عشق و اعتقاد بھی بڑا جادو ہے۔ (جو پتھروں تک کی پوجا کرا دیتا ہے)

مطلب: عیسائیوں کو اپنے پادریوں کے ساتھ اس قدر اعتقاد ہوتا ہے کہ وہ ان کو بمنزلہ خدا سمجھتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار اور بخشش کی تمنا اس طرح کرتے ہیں جس طرح بارگاہِ حق میں کی جاتی ہے اسی بنا پر حق تعالیٰ نے فرمایا: اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ (التوبہ:31) ”یعنی ان لوگوں نے اپنے عالموں اور فقیروں کو اللہ کے سوا پروردگار بنا رکھا ہے“۔ حالانکہ یہ پادری غریب گناہ و ثواب کی کچھ تمیز نہیں رکھتے۔ بلکہ بعض پادری تو خود گرداب معاصی میں غرق ہوتے ہیں۔ پس جس طرح عیسائی کا خطاب ایک ایسی ہستی کے ساتھ ہے۔ اسی طرح ایاز کا خطاب ایسی اشیا سے ہے جو مستحق خطاب نہیں ہیں۔ ان دونوں میں وجہ شبہ محض ایسی ہستی سے خطاب ہے جو سزاوارِ خطاب نہیں۔ ورنہ نوعیت کے لحاظ سے دونوں خطاب متفاوت ہیں۔ چنانچہ عیسائی کا مذکورہ خطاب مذموم ہے اور ایاز کا خطاب ایک امرِ محمود پر مبنی ہے۔ لہٰذا ایاز کی عیسائی کے ساتھ تشبیہ اتفاقاً واقع ہوئی ہے توافقاً نہیں۔ آگے عاشق کے بےجان چیزوں سے خطاب کرنے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:

-10-

دوستی در وَہم صد یوسف تند اَسْحَر از ہاروت و ماروتش کند

ترجمہ: محبت وہم کے اندر سینکڑوں یوسف بنا لیتی ہے وہ اس (وہم) کو ہاروت و ماروت سے بھی زیادہ جادوگر بنا دیتی ہے۔ (محبت کا اثر قوتِ واہمہ پر پڑتا ہے۔ یہ قوت محبوب کو مجسم بنا کر سامنے لا بٹھاتی ہے اور عاشق اس سے مخاطب ہو جاتا ہے)

-11-

صورتے پیدا کنند بر یاد اُو جذب صورت آردت در گفتگو

ترجمہ: (محبت) اس (محبوب) کی یاد پر ایک صورت پیدا کر لیتی ہے (اور اس) صورت کی کشش تم کو گفتگو پر آمادہ کر دیتی ہے۔

-12-

راز گوئی پیشِ صورت صد ہزار آنچنانکہ یار گوید پیشِ یار

ترجمہ: (پھر) تم (اس) صورت کے آگے لاکھوں راز کہنے لگتے ہو۔ جس طرح دوست دوست کے سامنے کہتا ہے۔

–13-

نے بُد آنجا صورتے نے ہیکلے زادہ از وے صد اَلَست و صد بلے

ترجمہ: (حالانکہ) وہاں نہ کوئی صورت ہے نہ شکل (اور لطف یہ کہ) اس سے سینکڑوں الست اور بلے پیدا ہو رہے ہیں (مثلاً محبوب کہتا ہے الست بمحبوبک کیا میں تیرا محبوب نہیں۔ عاشق کہتا ہے بلیکیوں نہیں۔

-14-

آنچنانکہ مادرے دل بُردۂ پیش گورِ بچّہ نو مردۂ

-15-

راز ہا گوید بجد و اجتہاد می نماید زندہ او را آں جماد

ترجمہ: جس طرح ایک ممتا کی ماری ماں (اپنے) بچے کی قبر کے پاس جو تازہ وفات پا چکا ہو۔ خوب کُھل کُھل کر باتیں کرتی ہے۔ اور اس کو وہ بےجان جثہ زندہ معلوم ہوتا ہے۔

-16-

حی و قائم داند او آں خاک را خوش نگر ایں عشق ساحر ناک را

ترجمہ: وہ اس مٹی کو زندہ اور قائم سمجھتی ہے۔ اس عشق موصوف بسحر کو اچھی طرح ملاحظہ کرو۔

-17-

پیشِ او ہر ذرہ زاں خاک گور گوش دارد ہوش دارد وقتِ شور

ترجمہ: اس کے نزدیک اس کی قبر کی مٹی کا ہر ذرّہ اس کی آہ و فغاں کے وقت گوش و ہوش رکھتا ہے۔

-18-

مستمع داند بجد آں خاک را چشم و گوشے داند او خاشاک را

ترجمہ: وہ مٹی کو بخوبی سننے والی سمجھتی ہے۔ وہ (آس پاس کے) گھاس پھوس کو آنکھ اور کان سمجھتی ہے۔

-19-

آں چناں بر خاک گورِ تازہ اُو دمبدم خوش می نہد با اشک رُو

-20-

کہ بوقتِ زندگی ہرگز چناں روئے ننہادے است بر پورِ جواں

ترجمہ: وہ اس تازہ قبر کی خاک پر د مبدم چہرے کے آنسوؤں کے ساتھ اس آمادگی سے منہ رکھتی ہے کہ زندگی کے وقت اس طرح جوان بچے پر ہر گز منہ نہیں رکھا ہوگا۔

-21-

از عزا چوں بگذرد یک چند روز کم شود آں آتش و آں عشق و سوز

ترجمہ: (اس) ماتم کو جب کئی دن گذر جاتے ہیں۔ تو وہ آگ اور وہ عشق و سوز کم ہو جاتا ہے۔

-22-

زانکہ عشق افسونِ خود بر بود و رفت ماند خاکستر چو آتش رفت تفت

ترجمہ: کیونکہ عشق نے (اب) اپنا جادو اٹھا لیا اور چلا گیا۔ جب آگ تیزی کے ساتھ چلی گئی۔ تو راکھ رہ گئی۔

-23-

عشق بر مردہ نباشد پائدار عشق را بر حیّ جاں افزائے وار

ترجمہ: عشق مردہ پر قائم نہیں رہ سکتا عشق کو اس زندہ (جاوید) کے ساتھ (وابستہ) رکھو۔ جو جان کو قوت بخشتا ہے۔

-24-

آنچہ بیند آں جواں در آئینہ پیر اندر خِشت بیند عاینہ

ترجمہ: جو کچھ جوان آئینے میں دیکھتا ہے۔ پیر اس کو صاف طور پر اینٹ کے اندر دیکھ لیتا ہے۔

مطلب: عاینہ بمعنی عیاناً مخفف ہے معائنہ کا۔ پیچھے ذکر تھا کہ ماں مردہ بچے کو زندہ سمجھتی ہے۔ ”ہامے نماید زندہ اورا آں جماد“۔ اب فرماتے ہیں کہ یہ سب عشق کا کرشمہ ہے۔ چنانچہ جس طرح عام آدمی آئینے کے اندر عکوسِ اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔ اور پیر صاحبِ کشف کو ایک اینٹ کے اندر بھی عکوس و صور نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ایک غیر عاشق صرف ذی روح کو زندہ دیکھتا ہے۔ مگر صاحبِ عشق مردہ کو بھی زندہ پاتا ہے۔ پس جوان سے عام آدمی غیر صاحبِ کشف مراد ہے اور پیر سے صاحبِ عشق مقصود ہے (چنانچہ آگے اس کی تصریح فرمائیں گے) آئینہ کے ساتھ ذی روح کو تشبیہ دی ہے اور خشت کے ساتھ غیر ذی روح و مردہ کو مشابہ کیا ہے۔ بعض نے اس توجیہ پر یہ اعتراض کیا ہے۔ کہ مردہ کو زندہ سمجھنا جہلِ محض اور نقصان ہے اور اینٹ میں عکوس اور اشکال کو ملاحظہ کرنا ایک کشف اور کمال ہے۔ پس نقصان کو کمال کے ساتھ کیونکر تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صاحبِ عشق و محبت کا مردہ کو زندہ سمجھنا اگرچہ بر بنائے کشف نہیں بلکہ غلبۂ عشق کے باعث ہے۔ مگر چونکہ کوئی مردہ مطلقاً غیر ذی روح نہیں۔ بلکہ اس کی مردگی حیاتِ دنیویہ کے لحاظ سے ہے اور حیات برزخیہ کے لحاظ سے وہ زندہ اور ذی روح ہے۔ پس صاحبِ عشق اپنے غلبۂ عشق میں جو کچھ اس کو سمجھتا ہے۔ اور جس طرح اس سے خطاب کرتا ہے اگرچہ وہ خلافِ عادت ہے۔ مگر فضولِ محض نہیں کہ اس کو ثمرہ جہل قرار دیا جائے بلکہ وہ زندہ کو ہی زندہ سمجھ رہا ہے اور سننے والے کو ہی کچھ سنا رہا ہے اور یہ بھی ایک طرح کا کمال ہے۔ اعتباری کو ایک کمالِ حقیقی کے ساتھ تشبیہ دینا کوئی بےجا نہیں منہج القوی میں دوسرے مصرعہ میں ”عاینہ“ کی بجائے آں ہماں درج ہے۔ قلمی نسخے میں اس شعر کو یوں لکھا ہے۔ اور یہی بحر العلوم کے متن میں ہے :

ہرچہ اندر آئینہ بیند جوان پیر اندر خشت بیند پیش ازاں

-25-

پیر عشق تست نے موئے سپید دستگیرِ صد ہزاراں ناں امید

ترجمہ: پیر (سے مراد) تمہارا عشق ہے۔ نہ کہ سفید بال (عشق) لاکھوں ناامید لوگوں کا دستگیر ہے۔

-26-

عشق صورتہا بسازد در فراق تا مصوّر سر کشد وقت تلاق

ترجمہ: عشق جدائی (کی حالت) میں محبوب کی مختلف صورتیں (بنا کر) پیش کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ (خود محبوب) جس کی تصوریر بنائی جاتی تھی (اپنے) وصل کے وقت (عاشق کے سامنے) جلوہ گر ہو جاتا ہے۔

-27-

کہ منم اصل اصولِ ہوش مست بر صور عکسے ز حسنِ ما بُدست

ترجمہ: (اور کہتا ہے) کہ ہر (ہوشمند کے) ہوش اور مست (کی مستی) کا اصل اصول میں ہوں یعنی میں ہر چیز کا خالق ہوں (ان تمام) صوتوں میں ہمارے ہی حسن کا عکس (پڑ رہا) تھا (جس سے وہ پسندیدہ نظر آتی تھیں)

-28-

پرد ہا را ایں زماں برداشتیم حسن را بے واسطہ بفراشتیم

ترجمہ: اب ہم نے (صورتوں کے) پردوں کو اٹھا دیا (اور اپنے) حسن کو (صورتوں کے) واسطہ کے بغیر جلوہ گر کردیا۔

-29-

زانکہ بس با عکس من دریافتی قوتِ تجرید ذاتم یافتی

ترجمہ: کیونکہ تم نے مدت تک مجھے عکس (و صورت) کے ذریعہ پایا ہے (اور اب) میری ذات کو (اس معکوس صورت سے منزّہ) سمجھ (کر مشاہدہ کرنے) کی طاقت حاصل کی ہے۔

مطلب: سالک جب تک واصل بمطلوبِ حقیقی نہیں ہوتا۔ تو عبادت وریاضت میں اس کی مختلف صورتوں کو نصب العین رکھتا ہے حتیٰ کہ وہ اس درجہ پر فائز ہو جاتا ہے۔ کہ وہ ذاتِ خاص جس کی صورتوں کو پیشِ نظر رکھتا تھا۔ اس کے سامنے جلوہ فرما ہو جاتی ہے۔ اور وہ کہتی ہے۔ اب تم میں ذات مجردہ کے مشاہدہ کی طاقت آ گئی ہے۔

اَلْاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ اور اس کا ترجمہ عام محدثین کے نزدیک یہ ہے کہ ”احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تم اس کو دیکھتے ہو۔ پس اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تم کو دیکھتا ہے“۔ مگر صوفیاء کے نزدیک ”فَاِنْ لّمْ تَکُن“ میں ”کان“ تامہ ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک ترجمہ یوں ہوگا۔ ”احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ (اپنے خیال میں اس کی صورت کو نصب العین بنا کر) گویا اسے دیکھ رہے ہو۔ پس اگر تم نہ رہو (یعنی اپنی ہستی کو فنا کر دو) تو اسے (صورت سے منزہ) دیکھو گے۔ کیونکہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے “۔(بحر)

آگے پھر محبوبِ حقیقی کہتا ہے۔

-30-

چوں ازیں سو جذبۂ من شد رواں او کِشش را مے نہ بیند درمیاں

ترجمہ: جب اس طرف سے میرا جذبہ چلتا ہے تو وہ (دعا مناجات کرنے والا نصرانی بھی) قسیس کو درمیان نہیں دیکھتا (بلکہ براہِ راست مجھ سے مناجات کرتا ہے اور قسیس کا ذریعہ مرتفع ہو جاتا ہے)

-31-

مغفرت خواہد ز جرم و از خطا از پسِ آں پردہ از لطفِ خُدا

ترجمہ: وہ قسیس کے اس پردہ کے پیچھے سے اپنے جرم و خطا کی معافی لطفِ حق سے چاہتا ہے۔ (اس کی مثال یہ ہے کہ)

-32-

چوں ز سنگے چشمۂ جاری شود سنگ اندر چشمۂ متواری شود

ترجمہ: جب ایک پتھر سے چشمہ جاری ہوتا ہے تو (اس پتھر کا نام ہی چشمہ مشہور ہو جاتا ہے اور) پتھر چشمے میں چھپ جاتا ہے۔

-33-

کس نخواند بعد ازاں آں را حجر زانکہ جاری شد ازاں سنگ آں گہر

ترجمہ: اس کے بعد اس (پتھر) کو کوئی پتھر نہیں کہتا۔ کیونکہ اس پتھر سے وہ موتی (کا سا صاف شفاف پانی) جاری ہوا ہے۔

مطلب: جس طرح چشمہ کے جریانِ آب نے پتھر کو کالعدم کر دیا۔ اسی طرح جذبۂ الہٰیہ تمام صور و عکوس اور ذرائع و وسائل کو نابود کر دیتا ہے۔ جس کی ایک مثال قسیس ہے کہ نصرانی کو جب جذبۂ الہٰیہ کھینچتا ہے تو قسیس کے وسیلہ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ مولانا بحر العلومؒ اس توجیہ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ نصاریٰ کو باوجود مبتلائے کفر ہونے کے مشاہدہ حق حاصل ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ یہ ان نصاریٰ کا ذکر ہو۔ جو نبیِ آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے تھے۔ کیونکہ وہ مبتلائے کفر نہ تھے۔ بلکہ اپنے پیغمبر پر ایمان لانے والے مسلمان تھے۔ یا یہ مراد ہو سکتی ہے کہ ایک نصرانی جو مبتلائے کفر تھا اور مشرکوں کی طرح قسیس کو قاضی الحاجات سمجھتا تھا ناگہاں جذبۂ الہٰیہ نے اس کو اس گردابِ کفر سے نکال کر ساحلِ ایمان پر پہنچا دیا۔ اور وہ مساعدتِ بحت سے دولتِ مشاہدہ کے ساتھ بھی متمتع ہو گیا۔

-34-

کاسَہ ہا داں ایں صور را و اندرو آنچہ حق ریزد بداں گیرد علو

ترجمہ: ان (گونا گوں) صورتوں کو (جو لوگوں کے مدّ نظر رہتی ہیں) پیالے سمجھو اور ان (پیالوں) کے اندر جو کچھ حق تعالیٰ ڈالتا ہے۔ اسی سے وہ بلندی پاتے ہیں۔

مطلب: یہ تمام صورتیں جو محبوبِ حقیقی تک پہنچنے کے ذرائع ہیں پیالوں کی مانند ہیں اور ان کو وسیلہ بنانے والا جس نوعیت سے ان کو وسیلہ بناتا ہے اور جو عقیدہ واردات ان کے متعلق رکھتا ہے وہ گویا ان پیالوں کے اندر کی چیز ہے۔ ان صورتوں کو محض وسیلہ سمجھنے اور مطلوبِ حقیقی پر متوجہ رہنے والا ان سے شرابِ توحید نوش کر رہا ہے اور ان صورتوں کو مطلوبِ حقیقی سمجھنے والا ان سے زہرابِ شرک پی رہا ہے۔ آگے اس کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے۔