دفتر 5 حکایت 145: پھر کافر جبری کا مومن سنی کو جواب دینا اور (مولانا کا) بار بار جواب و سوال کرنے سے منع کرنا کیونکہ شبہات کے مادہ کو صرف عشق ہی زائل کر سکتا ہے۔ اور یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے اسے دیتا ہے۔

دفتر پنجم: حکایت: 145


باز جوابِ کافرِ جبری مومنِ سنی را ومنع کردن از اصرار کہ مادہ اشکال رانبُردْ اِلّا عشق

ذَالِکَ فَضلُ اللہِ یُوتِیہِ مَن یَّشَآءُ

پھر کافر جبری کا مومن سنی کو جواب دینا اور (مولانا کا) بار بار جواب و سوال کرنے سے منع کرنا کیونکہ شبہات کے مادہ کو صرف عشق ہی زائل کر سکتا ہے۔ اور یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے اسے دیتا ہے۔

-1-

کافرِ جبری جواب آغاز کرد کہ ازاں عاجز شد آں بیچارہ مرد

ترجمہ: کافر جبری نے جواب دینا شروع کیا۔ جس سے وہ بےچارہ مرد (سنی) عاجز آ گیا۔

-2-

لیک گر من آں جوابات و سوال جملہ وا گویم بمانم زیں مقال

ترجمہ: لیکن اگر میں وہ تمام سوالات و جوابات بیان کرنے لگوں تو اس تقریر سے قاصر رہ جاؤں، (جو میری اصل مقصود ہے)

-3-

زاں مہم تر گفتنی ہا ہست ماں کہ بداں فہمِ تو، بِہ یابد نشاں

ترجمہ: (کیونکہ) ہمارے پاس اس (جبری کے جوابات) سے زیادہ اہم باتیں ہیں جن کی بدولت تمہارا فہم (تحقیقِ حق کی طرف) بخوشی نشان پائے گا (لہٰذا ہم جبری کی بحث چھوڑ کر انہی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں)

-4-

اندکے گفتیم زاں بحث اے عُتُلّ ز ٍ اندکے پیدا شود قانونِ کل

ترجمہ: اے (حریف) ستمگار! اس بحث سے کسی قدر بیان کر دیا ہے۔ اور قدر قلیل سے کل کا اندازہ معلوم ہو جاتا ہے۔ (بس سمجھ لو کہ جبری اسی طرح بک بک کرتا جائے گا۔ اور اسی قسم کے جواب اس کو دیے جائیں گے)

-5-

درمیانِ جبری و اہلِ قدر ہمچنیں بحث ست تا حشر اے پسر

ترجمہ: اے عزیز! جبری اور قدری کے مابین اسی طرح قیامت تک بحث (جاری رہنے والی ہے)

-6-

گر فرو ماندے ز دفعِ خصمِ خویش مذہبِ ایشاں بر اُفتادے ز پیش

ترجمہ: اگر (ایک فریق) اپنے حریف کے مقابل میں عاجز آ جاتا ہے تو ان کا مذہب دیکھتے دیکھتے ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔

-7-

چوں بروں شوشاں نبودے در جواب پس رمیدندے ازاں راہِ تباب

ترجمہ: جب اُن کو (اپنے حریف کے) جواب میں (بحث کے پھندے سے) باہر نکلنے کی راہ نہ ملتی تو اس ہلاکت کے راستے سے بھاگ جاتے (اور اپنے مذہب کا نام نہ لیتے)

-8-

چونکہ مَقضی بُد رواجِ آں روش میدہد شاں از دلائل پرورش

ترجمہ: چونکہ اس (گمراہانہ) روش کا رواج (پانا تقدیر الہٰی میں) فیصل شدہ ہے۔ اس لیے حق تعالیٰ اس روش کو دلائل سے پرورش دیتا رہتا ہے۔ (یعنی ان گمراہ فرقوں کے قلوب میں دلائل القا فرما دیتا ہے)

-9-

تا نگردد ملزم از اشکالِ خصم تا بود محبوب از اقبال خصم

ترجمہ: تاکہ وہ حریف کے شبہات پیش کرنے سے لاجواب نہ ہوتا کہ وہ حریف کے مقابل (میں ڈٹ جانے) سے (حق سے) محبوب و محروم رہ جائے (القائے دلائل میں یہ حکمت ہے کہ وہ اپنے مذہب باطل پر قائم رہے اور اس میں یہ مشیت ہے کہ قبول حق سے محروم رہے) (کذا یفہم)

-10-

تاکہ ایں ہفتاد و دو ملت مدام در جہاں مانَد اِلٰی یَومِ القِیَام

ترجمہ: تاکہ یہ بہتر (72)فرقے قیامت تک ہمیشہ جہان میں قائم رہیں (آگے کثرت مذاہب میں جو حکمت ہے اس کو بیان فرماتے ہیں)

-11-

عزتِ مخزن بود اندر بہا کہ برو بسیار باشد قفلہا

ترجمہ: قیامت کے لحاظ سے خزانے کی عزت (اسی صورت میں) ہوتی ہے کہ اس پر بہت سے قفل (چڑھے) ہوں۔

مطلب: جس طرح کھلا خزانہ چنداں قابلِ قدر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہی خزانہ زیادہ مغتنم سمجھا جاتا ہے جو بہت سے قفل کھولنے یا توڑ ڈالنے سے ہاتھ لگے۔ اسی طرح اگر حقیقی مذہبب شبہات و اعتراضات و اختلافات کے بغیر نمایاں ہوتا تو وہ چنداں اہم نہ سمجھا جاتا۔ اب جو بہت سے گمراہ فرقوں کے دلائل سن کر اور ان کی تردید کر کے امرِ حق سمجھ میں آ جاتا ہے۔ تو وہ بڑا مغتنم معلوم ہوتا ہے۔ آگے دوسری حکمت بیان فرماتے ہیں:

-12-

چوں جہانِ ظلمت ست و عیب ایں از برائے سایہ مے باید زمیں

ترجمہ: جب (یہ جہاں) تاریکی اور اخفائے حقیقت کا عالم ہے (پس تاریک سایہ کے لیے زمین ہی چاہیے (دنیا گمراہی اور اخفائے حقائق کا مقام ہے۔ اس لیے کثرتِ مذاہب کے لیے یہ عالم موزوں ہے۔ بخلاف اس کے عقبیٰ میں ایک امرِ حق ہی نمایاں ہو گا)

-13-

تا قیامت ماند ایں ہفتاد و دو کم نیاید مبتدع را گفتگو

ترجمہ: (انہی حکمتوں کے بنا پر) یہ ستر اور دو (بہتر فرقے قائم) رہیں گے۔ اور اسی لیے بدعتی بھی بحث و جدل میں گفتگو سے بند نہیں ہوتا۔ (آگے پھر حکمتِ مذکورہ اولیٰ کا اعادہ فرماتے ہیں)

–14-

عزتِ مقصد بود اے ممتحن پیچ پیچِ راہ و عقبہ راہزن

ترجمہ: اے محنت کش! (منزل) مقصود کی قدر اس صورت میں ہوتی ہے (کہ) راستہ پیچیدہ و دشوار گزار ہو اور رہزن کا خطرہ (در پیش ہو)

-15-

عزتِ کعبہ بود آں ناحیہ دُزْدی اَعراب و طولِ بادیہ

ترجمہ: (حاجی کو زیارتِ) کعبہ کی قدر (اسی صورت میں) ہوتی ہے (کہ) وہ (حاجی کے وطن سے دور اس) کنارہ (زمین ہو اور) عربوں کی چوری اور بیابان کی درازی (کی تکالیف کا سامنا ہو) اس حکمت کو تمثیلاً بیان کرنے کے بعد اب تمثیل کو ممثل لہ پر چسپاں فرماتے ہیں)

-16-

ہر روش ہر رہ کہ آں محمود نیست عَقَبہ و مانعے و رہزنے ست

ترجمہ: جو مذہب (اور) جو طریقہ اچھا نہیں ہے وہ (مذہب کی راہ میں) ایک گھاٹی اور ایک مانع اور ایک رہزن ہے۔

-17-

ایں روش خصم و حقودِ آں شدہ تا مقلّد در دو رہ حیراں شدہ

ترجمہ: یہ (باطل) مذہب اس (حق مذہب) کا حریف اور دشمن بن گیا۔ حتٰی کہ ظاہر بین (ان) دو راستوں میں حیران (کہ کس پر چلے اور کس پر نہ چلے)

نکتہ عجیبہ: مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی شریف کے بہت سے مقامات میں تقلید اور مقلد کی مذمت بڑے شد و مد کے ساتھ کی ہے اور ہر جگہ سیاق و سباق کو دیکھ کر اور خود مولانا کے مقلد امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہونے کو ملحوظ رکھ کر ایک ادنیٰ بصیرت کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہاں تقلید سے ریس ،بھیڑیا چال، ظاہر پرستی، بے بصیرتی ونقالی مراد ہے۔ جس کو تقلیدِ مصطلح سے کوئی نسبت نہیں۔ مگر بعض دیدہ دلیر غیر مقلدین ان اشعار کو خواہ مخواہ تقلید مصطلح کی تردید میں پیش کر دیا کرتے ہیں۔ یہ شعر اس بات کے لیے بمنزلہ قطعی ہے کہ تقلید سے مولانا کی مراد ظاہر پرستی ہے اور مقلد سے ظاہر پرست۔ کیونکہ تقلید مصطلح کے معنی میں اس شعر کا مطلب قائم ہونا دشوار ہے اور جب اس کے معنی ظاہر پرست کے تسلیم کئے جائیں جیسے کہ ہم نے اختیار کئے تو اس شعر کا مضمون من و عن غیر مقلدین پر صادق آتا ہے۔ نہ کہ مقلدین بہ تقلید مصطلح پر۔ اب سنئے اس شعر کا تاویلی ترجمہ یوں ہوگا۔ اہل سنت و الجماعت کے مذاہب میں سے ایک مذہب فروعات میں دوسرے مذہب کا حریف ہوگیا۔ حتی کہ ظاہربین (غیر مقلد جو صرف روایت پر نظر رکھتا ہے اور تفقہ و روایت سے عاری ہے) ان دو مذہبوں میں حیران ہے کہ کس پر عمل کرے۔ (انتہیٰ) بخلاف اس کے مقلدین امام پر یہ مضمون صادق نہیں آ سکتا۔ وہ اپنے مذہب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب پر نظر ہی نہیں کرتے۔ پھر وہ دو مذہبوں میں کیوں حیران ہونے لگے۔ یہ حیرانی و سرگردانی اور یہ تذبذب انہی لوگوں کا حصہ ہے جو کسی امام کی تقلید نہیں کرتے۔ فَافْہَمْ وَ تَبَصَّرْ۔

-18-

صدق ہر دو رہ بہ بیند در روِش ہر فریقے در رہِ خود خوش منش

ترجمہ: وہ عمل کرنے میں دونوں طریقوں کو درست پاتا ہے۔ ہر فریق اپنے طریقہ کا پورا معتقد ہے (یہی حال فروعات میں ان لوگوں کا ہے جو کسی امام کے مقلد نہیں)

-19-

گر جوابش نیست مے بندد ستیز بر ہماندم تا بروزِ رستٰخیز!

ترجمہ: اگر وہ فریق لاجواب ہو جائے تو اسی وقت قیامت تک کے لیے جھگڑا مٹ جائے۔

-20-

کہ مہانِ ما بدانند ایں جواب گرچہ از ما شد نہاں وجہ صواب

ترجمہ: (اور اس فریق کو یہ بہانہ کر کے پیچھا چھڑانا پڑے) کہ ہمارے بزرگ یہ جواب جانتے ہیں۔ اگرچہ ٹھیک بات ہم سے مخفی رہ گئی (اس نزاعِ مذہبی اور اختلافِ عقاید میں جو شبہات اور وساوس پیدا ہوتے ہیں۔ آگے ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کا انسداد بحث و مباحثہ سے نہیں ہوتا۔ بلکہ عشق ان کا واحد علاج ہے)

-21-

پوز بندِ وسوسہ عشق ست و بس ورنہ کے وسواس را بست است کس

ترجمہ: وسوسہ کا منہ بند کرنے والا عشق ہے۔ ورنہ کوئی وسوسہ کو کب روک سکتا ہے۔

-22-

عاشقے شو شاہدِ خوبی بجو صید مُرغابے ہمے کن جُو بَجو

ترجمہ: (پس) تم عاشق بن جاؤ (اور اس) شاہد (حقیقی تعالیٰ شانہ) کی جستجو کرو۔ جو (سب سے زیادہ) جمیل ہے (اور کسی مرشد کامل کو جو دریائے احدیت کی شناوری میں) مرغ آب (ہو) نہر بہ نہر دستیاب کرتے پھرو۔

مطلب: صید سے مطلوب کو حاصل کرنا، پالینا، ملاقی ہونا مراد ہے۔ اسی لحاظ سے تاویلی ترجمہ کیا گیا ہے ورنہ لفظی ترجمہ غیر مقصود اور مخلِ ادب تھا۔ مرغابی کا ٹھکانا نہر میں ہوتا ہے۔ اس لیے نہر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مراد اس سے بلا دو امصار ہیں۔ یعنی مرشد کامل کی تلاش کے لیے شہروں میں سیر و گردش کرو۔ فرماتے ہیں کہ وساوس کا واحد علاج عشقِ الہیٰ ہے اور عشق میں مرشد کی رہنمائی ضروری ہے۔ ورنہ یہ مقام خطرہ سے خالی نہیں ولنعم ماقیل:

طریق عشق پر آشوب و فتنہ است اے دل بمرد آنکہ دریں رہ بر سرے نرسید

قطع ایں مرحلہ بے ہمر ہی خضر مکن ظلمات ست بر تس از خطر گمراہی

-23-

کے بری زاں آبِ کابت را برد کے کنی زاں فہم کہ فہمت خورد

ترجمہ: ان (الفاظِ فکریہ اور مباحث عقلیہ) سے (جو گمراہ فرقوں کے مشاغل ہیں) تم کیا آب حاصل کر سکتے ہو۔ کیونکہ وہ (تو خود) تمہارے آب (ایمان) کو تلف کر رہے ہیں۔ تم ان سے کیا مفہوم کر سکتے ہو جو (خود) تمہارے فہم کو چر رہے ہیں۔

-24-

غیر ایں معقولہا، معقولہا یابی اندر عشق با فرّ و بہا

ترجمہ: ان معقولات (فلسفیہ) کے ماورا (جو گمراہ فرقوں کا دستور العمل ہیں) تم عشق کے اندر (ایک اور ہی قسم کے) با شان و شوکت معقولات پاؤ گے۔

-25-

غیر ایں عقلِ تو حق را عقلہا ست کہ بداں تدبیر اسبابِ سما ست

ترجمہ: تمہاری اس عقل کے سوا (جس کو عقلِ معاش کہتے ہیں) حق تعالیٰ کی (پیدا کی ہوئی اور بہت سی) عقلیں ہیں جن کا نام عقلِ معاد ہے (اور) جن کے ساتھ آخرت کے اسباب کی تدبیر وابستہ ہے۔

–26-

تا بدیں عقل آوری ارزاق را زاں دگر مفرش کنی اطباق را

ترجمہ: یہاں تک کہ اس عقل (معاش) سے تم (دنیاوی) رزق و روزی کماتے ہو۔ اور اس دوسری (عقلِ معاد) سے آسمانوں (کے اوپر عالمِ آخرت) میں (اپنے سود و بہبود کا) فرش بچھاتے ہو۔

-27-

عشر امثالت دہد تا ہفت صد چوں ببازی عقل در عشقِ صمد

ترجمہ: جب تم (خداوند) بے نیاز کے عشق میں اپنی عقل کی بازی لگا دو (یعنی عقلِ معاش کو اس کی راہ میں قربان کر دو۔ اور عقلِ معاد کو اپنی رہنما بنا لو) تو تم کو (اس کا اجر) دس گنا دے گا۔ سات سو تک۔

مطلب: چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (الانعام:160) ”جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس گناہ اجر ملے گا“ اور فرمایا: مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَ اللّٰهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ (البقرۃ:261)”جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ اس کی مثال ایک دانہ کی سی ہے۔ جس سے سات بالیں اگتی ہیں۔ ہر بال میں ایک سو دانہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے دو گنا کر دیتا ہے“،پہلی آیت سے دس گنا اور دوسری آیت سے سات سو گنا اجر ثابت ہوتا ہے۔ اس اعداد و شمار کا ذکر اس حدیث میں بھی ہے۔ کُلُّ عَمَلِ بَنِی آدَمَ یُجْزٰی بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا اِلیٰ سَبْعِ مِائَة یعنی بنی آدم کے ہر عمل پر دس گنے سے سات سو گنے تک جزا ملتی ہے۔

-28-

آں زناں چوں عقلہا در باختند بر رواقِ عشق یوسفؑ تاختند

ترجمہ: (دیکھو مصر کی) عورتوں نے (جب) حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ دیدارِ حسن پر اپنی عقلوں کی بازی لگا دی تو (اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے عشق کے بالا خانہ پر عروج کر گئیں۔

مطلب: پہلے کسی جگہ بیان ہو چکا ہے کہ زلیخا نے زنانِ مصر کو ضیافت پر مدعو کر کے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے لا کھڑا کیا تو وہ ان کے پر تو جمال کی تاب نہ لا کر حواس باختہ ہوگئیں۔ اور ان کے دلوں میں عشق پیدا ہوگیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ عشق کی دولت عقل کا سرمایہ کھو کر ملتی ہے۔

-29-

عقلِ شاں یکدم ستد ساقی عمر سیر گشتند از خرد باقی عمر

ترجمہ: عمر کے ساقی (یعنی عشق) نے یکدم ان (عورتوں) کی عقل چھین لی۔ اور باقی عمر کے لیے وہ عقل سے سیر ہوگئیں۔

-30-

اصلِ صد یوسف جمالی ذو الجلال اے کم از زن شو فدائے آں جمال

ترجمہ: سینکڑوں یوسف (جیسے حسینوں کے حسن) کا سرچشمہ (خداوندِ) ذوالجلال کا جمال ہے۔ اے (بےحس آدمی! جو) عورت سے (بھی) کم رتبہ (ہے) اس کے جمال پر فدا ہو جا۔

مطلب: زنانِ مصر نے عشقِ مجازی کے حصول میں اپنی عقل کی پروا نہیں کی۔ تو عشقِ حقیقی کے حصول میں جو مجازی سے بدر جہا افضل و اعلیٰ ہے۔ کوتاہی روا رکھتے ہو۔ اس لیے تم عورتوں سے زیادہ پست ہمت ہو۔ پس لازم ہے کہ عشقِ حقیقی اختیار کرو، کہ وساوس اور خطرات کا انسداد اسی سے ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

-31-

عشق بُرَّد بحث را اے جان و بس کوز گفت و گو شود فریاد رس

ترجمہ: اے جان! (مذہبی) بحث کا فیصلہ صرف عشق کرتا ہے۔ جو گفتگو (کے ضرر) سے فریاد رس بن جاتا ہے (کثرتِ کلام سے جو روحانی و قلبی نقصان پہنچتا ہے۔ عشق زبان بندی کر کے اس نقصان سے بچا دیتا ہے)

-32-

حیرتے آید ز عشق آں نطق را زہرہ نبود کہ کند او ماجرا

ترجمہ: قوتِ گویائی کو عشق سے ایک حیرت عارض ہو جاتی ہے (پھر) اس کو (یہ) تاب نہیں رہتی کہ گفتگو کر سکے۔

-33-

کو بترسد گر جوابے وا دہد گوہرے از کامِ او بیروں جہد

ترجمہ: کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر کوئی جواب دیا تو (رازِ عشق کا) کوئی موتی اس کے منہ سے جھڑ پڑے گا ونعم ماقیل:

حیراں ترا لب بہ سخن وا شدنی نیست چوں بلبلِ تصویر کہ گویا شدنی نیست

-34-

لب بہ بندِد سخت او از خیر و شر تا مبادا از دہاں افتد گہر

ترجمہ: وہ ہر برے بھلے معاملے میں سختی کے ساتھ لب بند رکھتا ہے کہ مبادا (رازِ عشق کا) کوئی موتی گر جائے (حافظ :

غیرت عِشق زبانِ ہمہ خاصاں ببرید از کجا سرِّ غمش در دہن عام افتاد

آگے اس خاموشی کی ایک نظیر بیان فرماتے ہیں:

-35-

ہمچناں کہ گفت آں یارِ رسولﷺ چوں نبی بر خواندے بر ما فصول

ترجمہ: جیسے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ جب آپ ﷺ ہمارے سامنے مسائل بیان فرماتے ہیں تو: -

-36-

آں رسولِ مجتبےٰﷺ وقتِ نثار خواستے از ما حضور و صد وقار

ترجمہ: تو وہ رسولِ برگزیدہ علیہ الصلوٰۃ والسلام (مسائل کے موتی) بکھیرتے وقت ہم سے (دل کی) حضوری اور سو طرح سے سکون چاہتے ہیں (تاکہ ہم توجہ سے ان مسائل کو سنیں)

-37-

آنچناں کہ برسرت مرغے بود کز فواتش جانِ تو لرزاں شود

ترجمہ: (اور ہمارے خاموشی کا یہ عالم ہوتا) جیسے تمہارے سر پر ایک پرندہ (بیٹھا) ہو۔ جس کے اڑ جانے سے تمہاری جان خائف ہو۔

-38-

پس نیاری ہیچ جنبیدن زِ جا تا نگیرد مرغ خوبِ تو ہوا

ترجمہ: تو تم بالکل اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرو گے۔ تاکہ تمہارا خوبصورت پرندہ پر بہ ہوا نہ ہو جائے۔

-39-

دم نیاری زد بہ بندی سرفہ را تا نباید ناگہاں پرّد ہما

ترجمہ: تم دم نہ مار سکو گے۔ کھانسی کو روک لوگے۔ مبادا اچانک ہما اڑ جائے۔

-40-

وَر کست شیریں بگوید یا ترش بر لب انگشتے نہی یعنی خمش

ترجمہ: اور اگر کوئی تم کو خوشگوار بات کہے یا ناگوار۔ تو تم لب پر انگلی رکھ دو گے۔ یعنی خاموش رہو (میں کوئی جواب نہیں دے سکتا)

مطلب: اوپر یہ ذکر تھا کہ عاشقانِ الہیٰ پر ایک حیرت طاری ہوتی ہے جو ان کو گفتگو سے باز رکھتی ہے۔ اور ان کی عدم گفتگو سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی رازِ عشق زبان سے نہ نکل جائے۔ پھر اس کی نظیر میں یہ روایت بیان فرمائی جس کے اصل الفاظ بخاری شریف میں یوں مروی ہیں: کَاَنَّھُم عَلی رَوُسِھِمُ الطَیر (گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں) اس نظیر سے یہ مراد نہیں کہ صحابہ پر کوئی حیرت طاری ہوتی تھی۔ بلکہ وجہ تنظیر یہ ہے کہ جس طرح صحابہ بالکل خاموش رہتے تھے اسی طرح عاشق چپ ہوتا ہے۔ جس طرح صحابہ کو اپنے تکلم سے رسول اللہ ﷺ کے بعض کلمات کی سماعت سے محروم رہنے کا اندیشہ ہوتا تھا اسی طرح عاشقانِ الہیٰ کو اپنی گفتگو سے اسرارِ عشق کے افشا کا خوف ہوتا ہے۔ اور جس طرح صحابہ کو آنحضرت ﷺ کے کلماتِ طیبہ سننے کا شوق جس کو طیر سے تشبیہ دی ہے، ان کے سکوت کا باعث تھا۔ اسی طرح عاشق کی حیرت سببِ خاموشی ہے۔ اسی بنا پر فرماتے ہیں: -

-41-

حیرت آں مرغ ست خاموشت کند بر نہد سر پوش و پُر جوشت کند

ترجمہ: (اے عاشقِ حق) حیرت وہ مرغ ہے جو تجھے خاموش کرتا ہے (ایک دیگ کی طرح تیرے اوپر) سرپوش رکھ دیتا ہے اور تجھے پرجوش کر دیتا ہے۔