دفتر 5 حکایت 144: اس درویش کی کہانی جس نے ہرات (دار السلطنت خراسان) میں خراسانی سردار کے غلاموں کو آراستہ دیکھا۔ پوچھا یہ کون (امرا) ہیں۔ جب معلوم کیا کہ (عمید کے) غلام ہیں تو آسمان کی طرف منہ کر کے بولا۔ (الہٰی) غلام کی پرورش کرنا عمید سے دیکھا

دفتر پنجم: حکایت: 144


حکایتِ آں درویش کہ در ہری غلامانِ عمید خراسانی را آراستہ دید پرسید کیا نند چوں دریافت کہ بندہ اند رُوئے بآسمان کردہ بندہ پروری از عمید بیاموز

اس درویش کی کہانی جس نے ہرات (دار السلطنت خراسان) میں خراسانی سردار کے غلاموں کو آراستہ دیکھا۔ پوچھا یہ کون (امرا) ہیں۔ جب معلوم کیا کہ (عمید کے) غلام ہیں تو آسمان کی طرف منہ کر کے بولا۔ (الہٰی) غلام کی پرورش کرنا عمید سے دیکھا

توضیحات: ہِرِی (بکسرتین) ہرات کا قدیمی نام ہے جو خراسان کا ایک مشہور شہر ہے اور کبھی اس ملک کا دار السلطنت تھا۔ عمید کے معنی غیاث میں سالارِ قوم لکھے ہیں۔ منہج القویٰ میں لکھا ہے کہ عمید عربی میں مستوفی کو۔ بلادِروم میں دفتر دار کو اور بلادِ عجم میں عماد الملک کو کہتے ہیں۔ بظاہر قیاس عمید بادشاہ خراسان کا کوئی اہلکار تھا۔ اس کہانی سے مقصود یہ ہے کہ کمالِ صدق سے ہی بندہ قرب حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس درویش نے جو یہ گستاخانہ کلمہ کہا اے خدا! عمید سے غلام پروری سیکھ لے۔ تو آگے چل کر بیان ہوگا کہ ہاتف نے اس کا جواب دیا کہ تو بھی تو عمید کے غلاموں کا سا صدق و صفا کا نمونہ پیش کر کے دکھا۔

-1-

آں یکے گستاخ رو اندر ہِرِی چوں بدید او خود غلامِ مہتری

ترجمہ: ایک منہ پھٹ (درویش) نے ہرات میں جب ایک سردار کے غلام کو دیکھا۔

-2-

جامہ اطلس کمر زریں رواں روئے کرد او سوئے قبلہ آسماں

ترجمہ: کہ اطلس کی پوشاک (پہنے اور) سنہری کمر بند (باندھے) جا رہا ہے۔ تو اس (درویش) نے قبلہ آسمان کی طرف منہ کیا (اور دعا کی)

-3-

کاے خدا زیں خواجہ صاحب منن چوں نیاموزی تو بندہ داشتن

ترجمہ: کہ اے خدا! تو اس صاحبِ احسانات سردار سے غلام رکھنا کیوں نہیں سیکھ لیتا۔

-4-

بندہ پروردن بیاموز اے خدا زیں رئیس و اختیارِ شہر ما

ترجمہ: اے خدا! اس رئیس اور ہمارے شہر کے بااختیار افسر سے بندہ پروری سیکھ لے۔

-5-

بود محتاج و برہنہ بے نوا در زمستاں لرز لرزاں از ہوا

ترجمہ: وہ (درویش) محتاج اور ننگا (اور) بےسامان تھا۔ سردی میں (ٹھنڈی) ہوا سے کانپتا لرزتا تھا۔

-6-

انبساطے کرد آں از خود بری جراتے بنمود او از لمتری

ترجمہ: (اس لیے) اس بےخود نے بےتکلفی کی۔ (اور) پھکڑپن سے جرات کر لی۔

-7-

اعتمادش بر ہزاران موہبت کہ ندیمِ حق شد اہلِ معرفت

ترجمہ: اس کو (اس گستاخی اور جرات میں بھی حق تعالیٰ کی) ہزاروں بخششوں پر بھروسہ (تھا) کہ اہلِ معرفت حق کے ہم نشین ہوتے ہیں۔ (جو کچھ کہہ دیں روا ہے)

–8-

گر ندیمِ شاہ گستاخی کند تو مکن چوں تو نداری آں سند

ترجمہ: اگر حق تعالیٰ کا مقرب کوئی گستاخی کرے (تو اس کو روا ہے) تم (ہر گز کوئی گستاخی) نہ کرنا جبکہ تم وہ سہارا نہیں رکھتے (جو اس ندیمِ حضرت کو حاصل ہے)

-9-

حق میاں داد و میاں بہ از کمر گر کسے تاجے دہد او داد سر

ترجمہ: (تم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ) حق تعالیٰ نے کمر بخشی ہے اور کمربند سے کمر بہتر ہے۔ اگر کوئی تاج دیتا ہے تو اس نے سر دیا ہے۔ (اور سر تاج سے افضل ہے)

مطلب: تم بھی کہیں اس بےتکلف درویش کی تقلید میں اپنی ضروریات و حوائج کو گستاخانہ لہجہ میں خدا کے سامنے پیش نہ کرنے لگنا۔ بلکہ اس نے جو نعمتیں دے رکھی ہیں غور کرو تو ہم تم ان کے شکر سے بھی عہدہ بر آ نہیں ہو سکے۔

-10-

تا یکے روزے کہ شاہ آں خواجہ را متہم کرد و بہ بستش دست و پا

ترجمہ: یہاں تک کہ ایک دن (خراسان کے) بادشاہ نے اس سردار پر (غبن و خیانت کی) تہمت لگائی اور اس کے ہاتھ پاؤں (ہتھکڑیوں بیڑیوں میں) جکڑ دیے۔

-11-

واں غلاماں را شکنجہ مے نمود کہ دفینہ خواجہ بنمائید زود

ترجمہ: اور (اس کے) غلاموں کو جن کا ذکر پیچھے گذرا، عذاب دیتا تھا کہ اپنے آقا کا خزانہ جلدی دکھاؤ جو اس نے سرکاری غبن سے جمع کر رکھا ہے۔

-12-

سرِّ او با من بگوید اے خساں ورنہ بُرّم از شما دست و لساں

ترجمہ: ارے کمینو! اس کا راز مجھے بتاؤ۔ ورنہ میں تمہارے ہاتھ اور زبان کاٹ ڈالوں گا۔

-13-

مدّتِ یک ماہ شاں تعذیب کرد روز و شب اشکنجہ و افشار و درد

ترجمہ: ایک مہینہ بھر ان کو عذاب دیا دن رات شکنجہ اور (شکنجے کا) دباؤ اور درد تھا۔

-14-

پارہ پارہ کرد شان و یک غلام رازِ خواجہ وا نگفت از اہتمام

ترجمہ: (حتیٰ کہ) اس بادشاہ نے ان سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اور ان کے صدق کا یہ عالم تھا کہ ایک غلام نے (بھی اپنی) ہمت (بلند) کی وجہ سے آقا کا راز نہ بتایا۔

-15-

گفتش اندر خواب ہاتف کاے کیا بندہ بودن ہم بیاموز و بیا

ترجمہ: (آخر) ایک پکارنے والے نے خواب میں اس (درویش) کو کہا۔ میاں! تم بھی (عمید کے غلاموں سے) بندہ (صادق) بننا سیکھو اور چلے آؤ۔ (تاکہ ہماری بندہ پروری دیکھ لو خود حق غلامی ادا نہ کرنا اور آقا سے غلام پروری کی امید رکھنا نا انصافی ہے)

-16-

اے دریدہ پوستینِ یوسفاں گر بدرّد گرگت آں از خویش داں

ترجمہ: اے حضرت یوسف (علیہ السلام) جیسے اہلِ جمال کی پوستین پھاڑ ڈالنے والے! اگر تجھ کو بھیڑیا پھاڑ ڈالے تو اس کو اپنا ہی سلوک سمجھ۔

مطلب: حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کی طرف تلمیح ہے جس میں بھیڑئیے کا ذکر آتا ہے۔ یعنی جب تم سے کوئی بدسلوکی کرے تو اس کو اپنی ہی کسی بدسلوکی کا عوض سمجھو جو تم نے کسی کے ساتھ کی ہوگی وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (الشوری:30) ”تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے“

-17-

زانچہ مے بافی ہمہ روزہ بپوش زانچہ می کاری ہمہ سالہ بنوش

ترجمہ: جو کچھ تو سارا دن بنتا رہتا ہے (اب اسی کو) پہن جو کچھ تو سال بھر بوتا رہا ہے (اسی کے عرق کو) نوش کر۔

-18-

فعلِ تست ایں غضب ہائے دم بدم ایں بود معنیِ قَدْ جَفَّ الْقَلَم

ترجمہ: یہ بار بار کے غصے (جو تجھے متواتر مصائب پر آ رہے ہیں۔ خود) تیرے فعل (کا نتیجہ) ہیں۔ جَفَّ الْقَلَم کے معنی یہی ہیں کہ۔

-19-

کہ نگردد سنتِ ما از رشد نیک نیکی را بود بد را است بد

ترجمہ: کہ ہمارا دستور باقاعدگی سے منحرف ہونا نہیں ہوتا (چنانچہ) نیک کے لیے نیکی ہوگی بد کے لیے بدی۔

مطلب: اشارہ بآیت: سُنَّةَ اللَّـهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب:62) ”جو لوگ پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے اور (اے پیغمبر!) خدا کے دستور میں ہر گز (کسی طرح کا) ردّ و بدل نہ پاؤ گے“ اگر کہا جائے کہ جب جزائے اعمال خداوند تعالیٰ کی سنت ہے۔ اور اس کی سنت مبتدل نہیں ہو سکتی تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اعمالِ بد کی سزا ضرور ملتی ہے۔ وہ معاف نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا غفور ہونا مسلم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا جزائے اعمال اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اسی طرح بعض مجرموں کو معاف کر دینا بھی اس کی سنت ہے۔ اور معافی سے تبدیلِ سنت لازم نہیں آتی۔ بلکہ ایک سنت کے بجائے دوسری سنت کا عمل لازم آتا ہے۔ تبدیلِ سنت اس صورت میں لازم آتی کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو سزائے اعمال دینا چاہتا تو کوئی امر خارجی اس سے مانع ہوتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام موانع خارجیہ کی نفی فرما دی ہے۔ کَمَا قاَلَ وَاتَّقُوْايَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ (البقرۃ:48) آگے اتیانِ اعمالِ حسنہ کی تاکید اور جبر کے خیال سے اعمالِ حسنہ کو چھوڑ بیٹھنے پر تہدید فرماتے ہیں۔

-20-

کار کن دیوا سلیماں زندہ است تا تو دیوی تیغِ او برّندہ است

ترجمہ: اے دیو (کی طرح سرکشی کرنے والے آدمی اطاعت و عبادت کا) کام کئے جا۔ کیونکہ سلیمان (حقیقی تعالیٰ شانہ) زندہ (جاوید اور حی لا یموت) ہے جب تک تو (سرکشی میں مثل) دیو ہے۔ اس کی تیغِ سیاست (تیرا سر) قلم کر دینے والی ہے۔

مطلب: اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ کی طرف تلمیح ہے۔ جنّات و عفاریت ان کے زیرِ حکم بڑی بڑی خدماتِ شاقہ بجا لاتے تھے۔ اور یہ لازمی امر تھا۔ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کے بعد وہ ان خدمات کو بجا لانے سے دست کش ہو جاتے۔ مگر خدا کی قدرت سے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو موت آئی تو نماز میں بحالتِ قیام آئی۔ اور ان کا لاشہ سال بھر تک اسی طرح لاٹھی کے سہارے کھڑا رہا۔ جنات نے سمجھا کہ زندہ ہیں۔ اور مشغول بہ نماز ہیں۔ اس لیے وہ بے چون و چرا خدمات بجا لاتے رہے۔ آخر دیمک نے لاٹھی کو کھا لیا اور لاش زمین پر گر پڑی تو پھر جنات کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت سے آگاہ ہو کر ان کی خدمات سے سبکدوش ہونے کا موقع ملا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ حَیُّ لَا یَمُوتُ ہے۔ تم اس کی طاعت و عبادت بجا لاتے رہو۔ اگر جنات کی طرح سرکشی کروگے تو سزا پاؤ گے۔

-21-

چوں فرشتہ گشت از تیغ ایمن است وز سلیماں ایمن و از خوف رست

ترجمہ: جب (بندہ جناتی سرکشی چھوڑ دے اور) فرشتہ بن جائے تو اس کی تیغ (سیاست) سے امن میں ہے اور سلیمان (حقیقی تعالیٰ شانہ) کی طرف سے مطمئن اور خوف سے رست گار ہے۔

-22-

از سلیماں ہیچ او را خوف نیست دشمنِ دیو است از وے ایمنی است

ترجمہ: سلیمان سے اس کو کوئی خطرہ نہیں۔ کیونکہ وہ دیو کا دشمن ہے اور اس سے (فرشتہ کو) امن ہے۔ (یہ شعر معتبر نسخوں میں نہیں ہے۔ الحاقی معلوم ہوتا ہے)

-23-

حکمِ او بر دیو باشد نے ملک رنج در خاک است نے فوقِ فلک

ترجمہ: اس کی طرف سے (سزا کا) حکم دیو (یا دیو سیرت انسان) کے خلاف ہوتا ہے نہ کہ فرشتے کے خلاف (سزا کی) تکلیف خاک (کی مخلوق) میں جاری ہوتی ہے نہ کہ آسمان کے اوپر کی مخلوق یعنی ملائکہ میں کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتے ہی نہیں۔

-24-

ترک کن ایں جبر را کہ بس تہی ست تا بدانی سرّ سرّ جبر چیست

ترجمہ: (اے جبری) اس جبر (کے عقیدے) چھوڑ دے جو بالکل بیہودہ ہے تاکہ تجھے معلوم ہو جائے کہ جبر کے راز کا راز کیا ہے۔

مطلب: جبر کا یہ عقیدہ کہ جو کچھ کرنا تھا اللہ تعالیٰ کر چکا۔ اب ہمارے اعمال سے اس میں تغیر نہیں آ سکتا۔ بالکل فضول و مہمل عقیدہ ہے۔ جس سے بندے کا تعطل لازم آتا ہے۔ البتہ جبر کا ایک راز ہے اور وہ یہ کہ کوئی امر اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار سے باہر نہیں۔ بندہ جو کچھ باختیارِ خود کرتا ہے وہ بھی حق تعالیٰ کے احاطہ اختیار میں ہوتا ہے۔ پھر اس راز کا راز یہ ہے کہ بندہ مقامِ فنا حاصل کر کے اپنے اختیار کو بالکلیہ مسلوب و منعدم سمجھے اور ہر بات کا منجانب اللہ پتا پائے مگر یہ درجہ بھی طاعت و عبادت کی بجا آوری سے حاصل ہوتا ہےنہ کہ تعطل و بطالت سے۔ اگلے شعر کا بھی یہی مطلب ہے۔

-25-

ترک کن ایں جبر جمع منبلاں تاخیر یابی ازاں جبرِ چو جاں

ترجمہ: ان سست (اور نکمے )لوگوں کے جبر کو چھوڑ دے تاکہ تو اس جبر سے خبر پائے جو روح کی طرح (لطیف و پاکیزہ) ہے (چونکہ جبر و قدر کے مباحث کا منشا محض تعصب و سخن پروری ہے اور اس سے مقصود نام آوری ہوتی ہے اس لیے آگے بطور ہدایت ارشاد فرماتے ہیں:

-26-

ترک کن معشوقی و کن عاشقی اے گماں بردہ کہ خوب و فائقی

ترجمہ: اے (یہ) گمان کرنے والے! کہ تو خوب (مناظر) اور حریفوں پر فائق ہے (لوگوں کی نظر میں) محبوب بننا چھوڑ دے۔ اللہ کا عاشق بن جا (نام آوری کا خیال چھوڑ کر اللہ کے عشق میں سرشار ہو جا)

-27-

اے کہ در معنی ز شب خامش تری گفتِ خود را چند جوئی مشتری

ترجمہ: اے وہ جو معنی میں رات سے بھی زیادہ خاموش ہے۔ اپنی تقریروں کے قدردانوں کی تلاش کہاں تک کرے گا۔ (اہلِ مناظرہ کو ملامت کرتے ہیں کہ تمہاری تقریروں میں خالی لفظ ہی لفظ ہیں معنی نہیں ہیں۔ جس طرح رات چپ چپ اور گفتگو سے خالی ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ تقریریں معنی سے خالی ہیں)

-28-

سر بَجنبانند پیشَت بہرِ تو رفت در سودائے ایشاں دہرِ تو

ترجمہ: (یہ تیری تقریر سننے والے) تیرے (حوصلہ کو بڑھانے کے) لیے تیرے آگے سر ہلاتے ہیں انہی (سامعین کا دل لبھانے) کے شوق میں تیری عمر گزر گئی۔

-29-

تو مرا گوئی حسد اندر مپیچ چہ حسد آرد کسے برفوت ہیچ

ترجمہ: تو مجھ کو کہے گا (کہ میری حسنِ تقریر اور شہرتِ مناظرہ سے) حسد نہ کر (ارے بھائی! تو اس مناظرہ بازی میں فضول وقت ضائع کر رہا ہے بھلا) کوئی شخص کسی چیز کے ضائع جانے پر کیا حسد کرے گا؟ (آگے فرماتے ہیں کہ اس بحث بازی سے سامعین کو فائدہ نہیں ہوتا)

-30-

ہست تعلیمِ خساں اے چشم شوخ ہمچو نقشِ خُرد کردن بر کلوخ

ترجمہ: اے شوخ چشم! کمینے لوگوں کو تعلیم دینا ایسا ہے جیسے مٹی کے ڈھیلے پر باریک نقاشی کرنا (بعض نسخوں میں نقش خوب درج ہے پہلی تقدیر پر یہ کام دشوار ہے۔ دوسری تقدیر پر نازیبا۔

-31-

خویش را تعلیم کن عشق و نظر کاں بود کاَلنَّقشِ فِی جَرمِ الحَجَر

ترجمہ: (کمینوں کو چھوڑ کر) اپنے آپ کو عشق و نظر کی تعلیم دو جو ایسی (مؤثر) ہوگی جیسے پتھر کے جسم پر نقش (جوانمٹ) ہوتا ہے۔

-32-

نفس تو با تست شاگردِ وفا غیر شد فانی، کجا جوئی کجا؟

ترجمہ: تمہارا نفس تمہارے ساتھ وفادار شاگرد ہے (اسی کو تعلیم دو اور اسی کا تزکیہ و تصفیہ کرو جب تم اس کی اصلاح میں مشغول ہو گئے۔ تو پھر غیر (تمہاری نظر میں) منعدم ہو گیا۔ (اب غیر کو) کہاں ڈھونڈتے ہو۔ کہاں۔

-33-

تا کنی مر غیر را جبر و سنی خویش را بدخو و خالی مے کنی

ترجمہ: جب تک تم دوسرے کو فاضل و قابل بنا رہے ہو۔ اپنے آپ کو بداخلاق اور بےکار کرتے جاتے ہو۔

مطلب: جب اپنے آپ کو جان و تن سے شاگرد کی تربیت پر متوجہ کروگے تو خود اپنے نفس کو جواہرِ کمالات کے ساتھ متجلی کرنے سے غافل ہو جاؤ گے۔ اسی بنا پر عام طور پر مشہور ہے کہ بچوں کو پڑھانے والا خود بچہ اور نرا کچارہ جاتا ہے مدرسی کا پیشہ ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ یہ دوسرے کے لیے زینہ کمال اور اپنے لیے مایۂ ملال ہے۔ مدرس کی مثال ٹھیک اس ملاح کی سی ہے جو لوگوں کو دریا عبور کرا کر کمالات کی نئی سے نئی سرزمین میں جا پہنچنے کے قابل بنا دیا کرے اور خود ساری عمر اسی ساحل پر پڑا رہے۔ راقم بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح عرصہ دراز تک مدرس رہا۔ شاگردوں کی ایک کثیر جماعت جو سال بسال کامیاب ہو کر نکلتی علی قدرِ استعداد اور حسبِ مساعد اسباب بڑے بڑے مراتب کو پہنچتی گئی۔ مگر استاد اپنی مدرسی کی مسند سے ایک انچ آگے نہ سرک سکا۔ آخر اس پیشہ سے نفرت ہوگئی۔ استعفیٰ دے دیا اور تصنیف و تالیف کا قلم اٹھا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس شغل میں دل کے ولولے نکالنے کا بخوبی موقع ملا۔ غرض فرماتے ہیں کہ تم اپنے دریائے علم کو شاگردوں پر بہاتے رہو گے ایک دن یہاں خاک اڑنے لگے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اپنے آپ کو دریائے احدیت سے ملا دو۔

-34-

متصل چوں شد دلت با آں عدن ہیں بگو مہراس از خالی شدن

ترجمہ: جب تمہارا دل اس دریائے احدیت سے مل گیا تو دل کو کہ دو کہہ خبردور خالی ہونے سے اندیشہ نہ کرے (فیضانِ غیب کی انتہا نہیں)

-35-

امرِ قُلْ زاں آمدَست اے راستیں کم نمے خواہد بگو دریاست ایں

ترجمہ: اے راست رواسی لیے تو قُل کا حکم آیا ہے کہ کہہ دو یہ (کلماتِ الہٰیہ) ایک دریا ہے جو کم نہ ہوگا۔

مطلب: اشارہ بآیت: قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الکھف:109) ”(اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہو کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے) لیے سمندر (کا پانی) سیاہی (کی جگہ) ہوتو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر رنبڑ جائے۔ اگرچہ ہم ویسا ہی اور سمندر اس کی مدد کو لائیں“۔

-36-

اَنصِتُوا یعنی کہ آبت را بلاغ ہیں تلف کم کن لبِ خشک ست باغ

ترجمہ: اور پھر حکم آیا ہے کہ خاموش رہو یعنی خبردار اپنے فیضانِ غیب کے پانی کو فضول ضائع نہ کرو۔ کیونکہ (تمہارے نفس کا) باغ خشک ہے (اس کو سرسبز کرنے کے لیے اس پانی کی ضرورت ہے)

مطلب: اشارہ بآیت: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف:204) ”اور جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اس کو سنو اور خاموش رہو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے“۔

-37-

ایں سخن پایاں ندارد اے پدر ایں سخن را ترک کن پایاں نگر

ترجمہ: اے بزرگوار! اس بحث کی تو انتہا نہیں۔ اس بحث کو چھوڑو۔ نتیجہ دیکھو۔

-38-

غیرتم آید کہ پیشت بیستند برتو مے خندند و عاشق نیستند

ترجمہ: (غرض) مجھے غیرت آتی ہے کہ (تمہاری تقریر سننے والے) تمہارے سامنے (استہزاءً) کھڑے ہو جاتے ہیں تم پر ہنستے ہیں وہ تمہارے مشتاق نہیں ہیں۔ (بس تم اس شغل کو چھوڑو۔ کیوں ناحق جگ ہنسائی کراتے ہو)

-39-

عاشقانت در پسِ پردہ کرم بہرِ تو نعرہ زناں بیں دم بدم

ترجمہ: تیرے مشتاق و شفیق تو وہ ہیں جو رحم و کرم کے پردے کے پیچھے (ہیں) تم ان کو اپنے لیے (دمبدم نعرہ مارنے اور رونے والے دیکھ لو۔ تم عام تماشائیوں کو اپنے خیرخواہ نہ سمجھو۔ بلکہ تمہارے خیرخواہ وہ ہیں جو تمہاری اس حالت پر متاسف ہیں۔)

-40-

عاشقِ آں عاشقانِ غیب باش عاشقانِ پنج روزہ کم تراش

ترجمہ: تم ان غیبی عاشقوں کے عاشق بنو۔ پانچ دن کے لیے (عارضی) عاشق پیدا نہ کرو۔

-41-

کہ بخوردندت بخُدعہ جذبۂ سالہا ز ایشاں ندیدی حَبَّۂ

ترجمہ: جو ایک کشش کے فریب سے تم کو چر گئے (اور) برسوں تم نے ان سے ذرہ بھر کوئی ظاہر و معنوی فائدہ نہ دیکھا۔

-42-

چند ہنگامہ نہی بر راہِ عام کام جستی بر نیاید ہیچ کام

ترجمہ: تم کہاں تک عوام کے راستے (اپنے حسنِ بیان اور خوبی تقریر کے) ہنگامے برپا کروگے۔ تم نے اس سے مراد طلب کی (مگر) کوئی مراد بر نہ آئی۔

-43-

وقتِ صحت جملہ یارند و حریف وقت درد و غم بجز حق کو اَلیف

ترجمہ: تندرستی میں سب دوست اور یار ہیں۔ درد و غم کے وقت حق تعالیٰ کے سوا کون الفت رکھتا ہے۔

-44-

وقتِ درد و غم بجز حق ہیچ کس خُود نباشد مر ترا فریاد رس

ترجمہ: درد و غم کے وقت حق تعالیٰ کے سوائے کوئی بھی تمہارا فریاد رس نہ ہوگا۔

-45-

پس ہماں درد و مرض را یاد دار چوں ایازِ پوستیں گیر اعتبار

ترجمہ: پس تم اسی دردِ بیماری کو یاد رکھو! جس میں تمہارا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ تازہ رہا ایاز کی طرح پوستین سے عبرت حاصل کرو۔

-46-

پوستیں آں حالتِ دردِ تو است کہ گرفتہ است آں ایاز آنرا بدست

ترجمہ: پوستیں وہ تمہارے درد کی حالت ہے جس کو ایاز نے ہاتھ میں لیا ہے (جس طرح ایاز پوستین کو ہاتھ میں اٹھا کر اپنی سابقہ حالت کو یاد کرتا تھا۔ اسی طرح تم بھی اس درد کو یاد کر کے اپنے تعلق باللہ کو یاد تازہ کرو۔)