دفتر 5 حکایت 143: اور اسی طرح (حدیث جف القلم (کی تاویل ہے) یعنی قلم خشک ہو گیا۔ اور اس نے لکھ دیا کہ طاعت اور معصیت برابر نہیں اور امانت اور چوری برابر نہیں ہو سکتی۔ قلم خشک ہو گیا کہ شکر اور ناشکری برابر نہیں ہو سکتی۔ قلم خشک ہوگیا۔ اللہ نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

دفتر پنجم: حکایت: 143


وھمچنیں جَفَّ القَلَمُ یَعنِی جَفَّ القَلَمُ و کَتَبَ لَا تَستَوی الطَّاعَۃُ وَالَمعصِیَۃُ وَلَا تَستَوی الاَمَانَۃُ وَالسَّرَقَۃُ جَفَّ القَلَمُ اَن لَّا یَستَوِی الشُّکرُ وَالکُفرَانُ جَفَّ القَلَمُ اَنَّ اللہَ لَا یُضِیعُ اَجرَ المُحسِنِینَ

اور اسی طرح (حدیث جف القلم (کی تاویل ہے) یعنی قلم خشک ہو گیا۔ اور اس نے لکھ دیا کہ طاعت اور معصیت برابر نہیں اور امانت اور چوری برابر نہیں ہو سکتی۔ قلم خشک ہو گیا کہ شکر اور ناشکری برابر نہیں ہو سکتی۔ قلم خشک ہوگیا۔ اللہ نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

مطلب: اس حدیث کا مفاد یہ ہے کہ یہ طے ہو چکا کہ ہر عمل کا خاص نتیجہ اور ثمرہ مقرر ہے۔ یہ طے ہو چکا کہ ہر چیز کا سبب ہے۔ یہ طے ہو چکا کہ نیکی و بدی یکساں نہیں ہیں۔ یہ طے ہو چکا کہ نیکی کا ثمرہ نیک ہے اور بدی کا پھل بد۔

-1-

ہمچنیں تاویل قَد جَفَّ القَلَم بہرِ تحریض ست بر شغلِ اہم

ترجمہ: اسی طرح (حدیث) قد جف القلم کی تاویل (ہے کہ یہ حدیث) فرائضِ اعمال پر برانگیختہ کرنے کے لیے (آئی) ہے۔

-2-

پس قلم بنوشت کہ ہر کار را لائقِ آں ہست تاثیر و جزا

ترجمہ: پس قلم نے لکھ دیا کہ ہر کام کے لائق تاثیر اور جزا (مقرر) ہے۔

-3-

کژ روی جفّ القلم کژ آیدت راستی آری سعادت ز آیدت

ترجمہ: (اگر) تم ٹیڑھے چلو گے تو ٹیڑھا (نتیجہ) تمہارے پیش آئے گا۔ راستی (کو عمل میں) لاؤ گے۔ تو تمہارے لیے سعادت پیدا ہوگی۔

-4-

چوں بدُزدَدْ دست شد جف القلم خورد بادہ مست شد جفّ القلم

ترجمہ: جب (کوئی) چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کٹ جاتا ہے (اور اسی نتیجہ کو لکھ کر) قلم خشک ہو گیا کوئی شراب پیتا ہے تو مست ہو جاتا ہے (اور اسی پر) قلم خشک ہو گیا۔

-5-

ظلم آری مُد بری جفّ القلم عدل آری بر خوری جفّ القلم

ترجمہ: تم ظلم کروگے تو تم بدبخت ہو۔ (اس کو لکھ کر) قلم خشک ہو چکا۔ عدل کروگے تو (اس کا) ثمرہ کھاؤ گے (اس تحریر پر) قلم خشک ہو چکا جف القلم کے جو معنی عام مشہور ہیں کہ حق تعالیٰ کو جو کچھ کرنا تھا وہ لکھ چکا اس کے متعلق فرماتے ہیں:

-6-

تو روا داری؟ روا باشد؟ کہ حق ہمچو معزول آید از حکمِ سبق

ترجمہ: کیا تو (یہ بات) جائز رکھتا ہے (اور) کیا (فی الحقیقت) جائز (ہو سکتی) ہے کہ حق تعالیٰ (اپنے) ازل کے حکم سے فارغ ہو کر) گویا مزید احکام دینے سے بےکار سا ہوگیا۔

-7-

کہ زِ دستِ من بروں رفت ست کار پیش من چندیں میا چندیں مزار

ترجمہ: (اور وہ کہتا ہے) کہ کام میرے ہاتھ سے نکل چکا۔ اب میرے حضور میں اس قدر (بار بار) مت آؤ اتنی زاری نہ کرو (کہ اس بار بار کی حاضری اور زاری سے اب کچھ نہ ہوگا۔)

-8-

بلکہ معنی آں بود جفّ القلم نیست یکساں پیشِ من عدل و ستم

ترجمہ: (پس وہ معنی درست نہیں) بلکہ (صحیح) معنی یہ ہے کہ (عدل کی خوبی اور ستم کی خرابی لکھ کر) قلم خشک ہوگیا میرے نزدیک عدل اور ستم یکساں نہیں ہیں۔

-9-

فرق بنہادم میانِ خیر و شر فرق بنہادم ز بد ہم از بتر

ترجمہ: میں نے بھلائی اور برائی میں فرق رکھا ہے۔ میں نے بری اور زیادہ بری چیز میں بھی فرق رکھا ہے (اور حق تعالیٰ کے نزدیک مخلوقات میں یہاں تک فرقِ مراتب ملحوظ ہے کہ)

-10-

ذرّہ گر در تو افزونی ادب باشد از یارت بداند فضلِ رب

ترجمہ: اگر تم میں تمہارے دوست کی نسبت ذرہ بھر ادب زیادہ ہو تو پروردگار کا فضل اس کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔(فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃ خیراً یَّرَہ)

-11-

قدرِ آں ذرہ ترا افزوں دہد ذرّہ چوں کوہے قدم بیروں نہد

ترجمہ: وہ خداوند تعالیٰ اس ذرہ (بھر ادب) کے مطابق تم کو زیادہ (اجر) دے گا۔ اور وہ ذرّہ (اپنی عظمت کے لحاظ سے) پہاڑ کی طرح نمایاں ہوگا۔

مطلب: جیسے حدیث میں اس شخص کے اجر کے متعلق آیا ہے جو مسلمانوں کے جنازہ اور نماز اور دفن میں ساتھ رہے کہ فَاِنَّہُ یَرجِعُ مِنَ الَاجرِ بقیرَ اطَینِ کُلَّ قیراطِ مِثلِ احُد الخ یعنی وہ دو قیراط کے برابر اجر لے کر آتا ہے۔ ہر قیراط کوہِ احد کے برابر ہے۔ (مشکوٰۃ) قیراط کا وزن چار عدد جو متوسط کے برابر ہوتا ہے۔ (غیاث)

-12-

پادشاہے کہ بہ پیشِ تختِ اُو فرق نبود از امین و ظلم جُو

ترجمہ: جس بادشاہ کے تخت کے سامنے ایک امانت دار اور ظالم میں فرق نہ ہو۔

-13-

آنکہ می لرزد زبیمِ ردّ او وانکہ طعنہ میزند بر جَدِّ اوُ

-14-

فرق نکند ہر دو یک باشد بَرش شاہ نبود خاکِ تیرہ بر سرش

ترجمہ: (اور) جو شخص اس (بادشاہ) کے جواب کے خوف سے کانپتا ہو۔ اور جو شخص اس (بادشاہ) کے دادا پر طعنہ زنی کرتا ہو۔ وہ (دونوں میں) فرق نہ کرے (بلکہ) دونوں اس کے نزدیک یکساں ہوں (وہ) بادشاہ نہیں (بلکہ کوئی پاجی ہے) اس کے سر پر کالی مٹی (ڈالو)

-15-

ذرّہ گر جہدِ تو افزوں شود در ترازوئے خدا موزوں شود

ترجمہ: (حق تعالیٰ ایسی بے اصولی سے منزّہ ہے۔ اس کے عدل کا تو یہ عالم ہے کہ) اگر تمہاری کوشش ذرّہ بھر بھی زیادہ ہو تو وہ بھی خداوند تعالیٰ کی میزان (عدل) میں تولی جاتی ہے۔ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ (النساء:40)

-16-

پیشِ ایں شاہاں ہمیشہ جان کنی بے خبر ایشاں ز عذر و روشنی

ترجمہ: ان (دنیوی) بادشاہوں (کا تو یہ بےڈھنگا کام ہے۔ کہ ان) کے آگے تم ہمیشہ (ادائے خدمت) میں جان کھپاتے ہو۔ (اور) یہ (عذار کے) عذر (باطن) اور وفادار کے نورِ قلب سے بےخبر ہیں۔

-17-

گفت غمّازے کہ بد گوید تُرا ضائع آرد خدمتِ تو سالہا

ترجمہ: حتیٰ کہ کسی چغل خور کی بات جو بادشاہ کے کان میں تمہاری بارئی کرتا ہے تمہاری برسوں کی خدمت کو ضائع کر دے۔

-18-

پیشِ شاہے کو سمیع است و بصیر گفتِ غمّازاں نباشد جائےگیر

ترجمہ: (مگر) اس بادشاہ (حقیقی) کے حضور میں جو سمیع و بصیر ہے۔ چغل خوروں کی بات مؤثر نہیں ہو سکتی (جب وہ اصلی حالات کو خود دیکھتا اور سنتا ہے تو پھر چغل خوروں کی وہاں کیا پیش جاتی ہے)

-19-

جملہ غمّازاں از و آیس شوند سوئے ما آیند و افزایند بند

ترجمہ: (آخر) تمام چغل خور اس سے ناامید ہو جاتے ہیں (کہ ہماری برائی اس کے سامنے نہیں کر سکتے پھر) وہ ہماری طرف آتے ہیں اور (ہمارے سامنے اس خداوندِ پاک کی برائی کر کے گناہِ سماعت کی) قید (ہم پر) زیادہ کر دیتے ہیں۔

-20-

بد ہمے گویند شہ را پیشِ ما کہ برو جف القلم کم کن وفا

ترجمہ: وہ شاہ (حقیقی) کی برائی ہمارے سامنے کرتے ہیں کہ جاؤ (اس کا) قلم (تقدیر تمام بُرے بھلے اعمال کو جو لوگوں سے سرزد ہونے والے ہیں لکھ کر) خشک ہو چکا (اب) تم وفا (و طاعت) مت کرو کہ یہ فضول ہے۔ اور ایسا کہنا ہی حق تعالیٰ کی برائی کرنا ہے۔

-21-

معنیِ جف القلم کے ایں بود کہ جفاہا باوفا یکساں شود

ترجمہ: (ارے بھلے مانسو) جف القلم کے یہ معنی کہاں ہیں کہ جفائیں وفا کے ساتھ یکساں ہیں۔

مطلب: چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (ص:28) یعنی کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے۔ ان لوگوں کے برابر بنا دیں جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں۔ یا ہم پرہیزگار لوگوں کو فاسق لوگوں کے برابر کر دیں۔

-22-

بل جفا را ہم جفا جَفَّ القلم واں وفا را ہم وفا جفّ القلم

ترجمہ: بلکہ ظلم کے لیے ظلم ہی عوض ہے (اور اس پر) قلم (تقدیر) خشک ہو چکا۔ اور اس وفا کے لیے وفا ہی (عوض) ہے (اور اس پر) قلم (تقدیر) خشک ہو چکا۔

مطلب: جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (الزلزلۃ:7-8) ”پس جو شخص ذرہ بھر نیکی کرتا ہے وہ اس کا عوض پائے گا۔ اور جو شخص ذرّہ بھر بدی کرتا ہے۔ وہ اس کا عوض پائے گا“ یہاں جبری کو لاجواب کرنے کے لیے جو حق تعالیٰ کی سنتِ امکانات اور دستور مجازات پر زور دیا گیا ہے تو اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید آخرت میں رحم و کرم اور عفوِ غفران سے کوئی بھی بہرہ مند نہ ہوگا۔ آگے اس شبہ کو رفع فرماتے ہیں۔

-23-

عفو باشد لیک کو فرِّ امید کہ بود بندہ ز تقویٰ رُو سپید

ترجمہ: بیشک مجرموں کو قیامت کے دن معافی بھی ملے گی لیکن (معافی کی صورت میں) وہ پر تو امید کہاں جو کسی (متقی) بندہ کا چہرہ جو تقویٰ کی بدولت پرنور ہوتا ہے۔ (متقی کی مغفرت ترقیِ مدارج کا باعث ہوگی۔ اور مجرم کی مغفرت صرف عذاب سے نجات دلائے گی۔ موجب ترقی نہ ہوگی۔ چنانچہ)

-24-

دُزد را گر عفو باشد جاں برد کے وزیر و خازنِ مخزن شود

ترجمہ: چور کو اگر معافی مل جائے تو وہ اپنی جان بخشی کرا لیتا ہے (پھر) وہ وزیر اور خزانچی کہاں ہو سکتا ہے۔

-25-

اے امین الدّین ربّانی بیا کز امانت رُست ہر تاج ولوا

ترجمہ: (ہاں جن حضرات نے امانتِ الٰہیہ کا حق ادا کیا ہے انہی کو یہ خطاب ہوگا کہ) اے امین الدین ربّانی آؤ (اور مقربِ حق بن جاؤ) کیونکہ امانت کے بدولت ہی (قربِ حق کا) ہر تاج اور جھنڈا میسر ہوتا ہے (اور خائن و سارق کو زیادہ سے زیادہ معافی ہی مل سکتی ہے۔ قرب حاصل نہیں ہو سکتا)

مطلب: مراتبِ ولایت میں سے ایک مرتبہ امانتِ شریعت کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ والوں کو اُمنائے شریعت بنایا ہے اور وہ اس امت کے مجتہد ہیں۔ جن کا حشر زمرہ مرسلین میں ہوگا۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ و امثالہم اور بعید نہیں کہ امین الدین سے یہاں مراد اسی مرتبہ والا بزرگ ہو۔ کیونکہ یہاں طاعت و معصیت کا بیان ہو رہا ہے۔ اور طاعت و معصیت کی تعیین مجتہدوں کے اقوال سے ہوتی ہے (بحرالعلوم)

-26-

پورِ سلطاں گر برو خائن شود آں سرش از تن بداں بائن شود

ترجمہ: بادشاہ کا فرزند (بھی) اگر اس کی خیانت کرے تو اس کی سزا میں اس کا سر بدن سے جدا ہو جاتا ہے۔ (انصاف میں شفقتِ پدری بھی حارج نہیں ہو سکتی۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے فرزند ابوشخمہ کو مے نوشی کی سزا میں درّے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا)

-27-

ور غلام ہندوئے آرد وفا دولت اورا میزند طَالَ بَقَا

ترجمہ: اور (بخلاف اس کے) اگر کوئی ہندو غلام وفا (کا حق) بجا لائے تو دولت و اقبال اس کے لیے زندہ باد کاغل مچا دے۔

-28-

چہ غلام! ار بر درے سگ باوفا ست در دلِ سالار اورا صد رضاست

ترجمہ: (بلکہ) غلام تو کیا! اگر کسی دروازے پر کتا باوفا ہے تو اس کے آقا کے دل میں (اس کی طرف سے بھی) سینکڑوں خوشنودیاں ہیں۔

-29-

زیں چوسگ را بوسہ بر پُوزش زند گر بود شیرے چہ فیروزش کند

ترجمہ: جب اس (وفا کی) وجہ سے (آقا) کتے کے منہ کو چومتا ہے تو (خیال کیجئے) اگر وہ شیر ہو (اور پھر وہ وفا بجا لائے) تو اس کو کس قدر کامیابی بخشے گا۔

مطلب: اطاعت و وفاداری ادنیٰ کو اعلیٰ بنا دیتی ہے۔ معصیت و بےوفائی اعلیٰ کو ادنیٰ بنا کر چھوڑتی ہے۔ اور اگرچہ اس کا عصیاں و کفران معاف ہو سکتا ہے مگر اسے رفعت و علا کے مدارج نہیں مل سکتے۔ چونکہ اس بیان سے ان لوگوں کی دل شکنی کا احتمال تھا جو غفلت و نادانی اور جہل جوانی میں مرتکب معاصی ہوتے رہے۔ پھر تنبیہ کے بعد بخلوصِ قلب تائب ہوئے۔ اور قربِ حق کے طالب ہوئے۔ لہٰذا اب ان کے تسلی کے لیے فرماتے ہیں:

-30-

جُز مگر دزدے کہ خدمت ہا کند صدقِ او بیخِ جفا را برکند

ترجمہ: مگر وہ چور (اس کلیہ سے) مستثنی ہے۔ جو (جیسے خلوص قلب اور صدقِ نیت سے) عبادات بجا لائے۔ (کہ) اس کا صدق (سابقہ جُورو) جفا کو (جو اس سے سرزد ہو چکا ہے) جڑ سے اکھاڑ پھینکے إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (ھود:114) ”نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں“۔

-31-

چوں فضیلِ رہزنے کو راست باخت زانکہ دہ مردہ بسوئے توبہ تاخت

ترجمہ: جیسے فضیل (بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ) جنہوں نے سچ پر بازی لگا دی۔ اس لیے کہ وہ دس مردوں کی رفتار سے توبہ کی طرف دوڑے۔

مطلب: حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ ہارون رشید کے عہد میں ایک ولی کامل گذرے ہیں جو کئی سلاسلِ طریقت کے مورثِ اعلیٰ ہیں۔ پہلے ان کا پیشہ رہزنی تھا۔ پھر اس معصیت سے توبہ کی۔ اور توبہ بھی اس خلوص اور صدق سے کی کہ عامہ مسلمین سے گذر کر اولیاء اللہ میں شامل ہوئے۔ اور زمرہ میں بھی وہ رتبہ ملا کہ سرتاجِ اولیا بن گئے۔ ان کا دلچسپ اور پُر عبرت حال مفتاح العلوم کی جلد ششم میں مفصل گذر چکا ہے۔

-32-

واں چناں کہ ساحراں فرعون را رو سیہ کردند از صبر و وفا

ترجمہ: اور جیسے جادوگروں نے صبر و وفا سے (ایمان پر قائم رہ کر) فرعون کو رو سیاہ کر دیا (جو ان کو ایمان لانے سے منع کرتا تھا۔ اور ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالنے کی دھمکی دیتا تھا۔

-33-

دست و پا دادند در جرمِ قود آں بصد سالہ عبادت کے شود

ترجمہ: انہوں نے قصاص کی سزا میں (اپنے) ہاتھ پاؤں کٹوا لیے۔ وہ (خلوص و صدق جو ان جادوگروں میں پیدا ہو گیا تھا) سو سال کی عبادت سے بھی کہاں (پیدا) ہوتا ہے۔

مطلب: قود قصاص کو کہتے ہیں۔ جس سے جرمِ قتل میں سزائے موت دینا مراد ہوتا ہے۔ مگر یہاں مطلق سزا مراد ہے جو فرعون کے حکم سے ترکِ مذہب پر ان کو دی گئی۔

-34-

تو کہ پنجہ سالہ خدمت کردۂ کے چنیں صدقے بدست آوردۂ

ترجمہ: تو جو پچاس سال سے عبادت کر چکا ہے۔ ایسا صدق تجھے کہاں حاصل ہے (آگے مولانا صدقِ نیت و خلوصِ عقیدت کے متعلق ایک حکایت ارشاد فرماتے ہیں: