دفتر 5 حکایت 141: حکایت جبری ہی کے جواب میں اور اختیار کے ثبوت اور امر و نہی کی صحت میں اور اس بات کا بیان کہ جبری کا عذر کسی مذہب اور کسی دین میں مقبول نہیں۔ اور اس کام کی سزا سے خلاصی پانے کا موجب نہیں جس کا وہ مرتکب ہوا ہے۔ جیسا کہ ابلیس جبری اس قول سے جو اس نے کہا تھا خلاصی نہ پا سکا کہ الہیٰ تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اور قلیل زیادہ پر دلالت کرتا ہے۔

دفتر پنجم: حکایت: 141


حکایت ہم در جواب جبری و اثباتِ اختیار و صحتِ امر و نہی و بیاں آنکہ از عذرِ جبری در ہیچ ملتے و در ہیچ دینے مقبول نیست و موجبِ خلاص نیست از سزائے آں کار کہ کردہ است چنانکہ خلاص نیافت ابلیس جبری بدانکہ گفت

بِمَآ اَغوَیتَنِی وَالقَلِیلُ یَدُلُّ عَلَی الکَثِیرِ

حکایت جبری ہی کے جواب میں اور اختیار کے ثبوت اور امر و نہی کی صحت میں اور اس بات کا بیان کہ جبری کا عذر کسی مذہب اور کسی دین میں مقبول نہیں۔ اور اس کام کی سزا سے خلاصی پانے کا موجب نہیں جس کا وہ مرتکب ہوا ہے۔ جیسا کہ ابلیس جبری اس قول سے جو اس نے کہا تھا خلاصی نہ پا سکا کہ الہیٰ تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اور قلیل زیادہ پر دلالت کرتا ہے۔

-1-

آں یکے بر رفت بالائے درخت میفشاند او میوہ را دُزدانۂ سخت

ترجمہ: ایک شخص درخت پر چڑھ گیا۔ اور چوروں کی طرح بےتحاشہ میوہ جھاڑنے لگا۔

-2-

صاحب باغ آمد و گفت اے دَنی از خدا شرمیت کو؟ چہ میکنی؟

ترجمہ: (اتنے میں) باغ کا مالک آ گیا اور کہنے لگا۔ ارے کمینے! خدا سے تیری شرم کہاں گئی۔ (یہ) تو کیا کر رہا ہے۔

-3-

گفت از باغِ خدا بندہ خدا گر خورد خرما کہ حق کردش عطا

-4-

عامیانہ چہ ملامت مےکنی بخل بر خوانِ خداوندِ غنی

ترجمہ: (چور) بولا اگر خدا کے باغ سے خدا کا بندہ کھجوریں کھا لے جو حق تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہیں تو اس پر تم کیوں بازاری لوگوں کی طرح برا بھلا بکنے لگ گئے۔ خداوند غنی کے خوان (کرم) پر یہ کنجوسی (کیا معنی رکھتی ہے)۔

-5-

گفت اے ایبک بیاور آں رسن تا بگویم من جوابِ بوالحسن

ترجمہ: (مالکِ باغ نے اپنے غلام کو آواز دی کہ اے ایبک! وہ رسی اٹھا لاتا کہ میں (اس) بھلے مانس کے ابا (کو اس کی منطق) کا جواب دوں۔

-6-

پس ب بستش سخت آندم بر درخت میزدش بر پشت و پہلو چوبِ سخت

ترجمہ: پھر اُسی وقت اس کو درخت پر کس کر باندھ دیا۔ اور اس کی پیٹھ اور پہلو پر سخت لاٹھیاں مارنی شروع کیں۔ (وہ جبری جبر کے عقیدے کی پختگی کی وجہ سے درخت پر جم کر بیٹھ رہا ہوگا۔ اور باطمینان اپنے آپ کو رسی باندھنے والے کے پیش کر دیا ہوگا۔ پھر آخر میں آنکھیں کھلیں۔ اگر اس کے بجائے کوئی قدریہ ہوتا تو وہ فعلِ فرار کا خالق بن کر درخت سے کود پڑتا۔ اور یہ جا اور وہ جا)

-7-

گفت آخر از خدا شرمے بدار میکشی ایں بیگنہ را زار زار

ترجمہ: (جبری چور) بولا (میاں!) آخر خدا سے کچھ شرم کرو اس بےگناہ کو کیوں بری طرح مار رہے ہو۔

-8-

گفت کز چوب خدا ایں بندہ اش میزند بر پشت دیگر بندہ خوش

ترجمہ: (مالک باغ نے) کہا کہ (گھبراؤ نہیں) خدا کی لکڑی سے یہ خدا کا بندہ دوسرے بندے کی پیٹھ پر بخوبی (ضرب) لگا رہا ہے۔

-9-

چوبِ حق و پشت و پہلو آنِ او من غلام و آلت و فرمانِ او

ترجمہ: خدا کی لکڑی ہے اور یہ پیٹھ اور پہلو اسی کے قبضے میں ہیں میں تو محض اس کے آلہ کار اور حکم کا تابع ہوں۔

-10-

گفت توبہ کردم از جبر اے عیار اختیار است اختیار است اختیار

ترجمہ: (جبری) بولا اے مردِ چالاک! میں نے جبر (کے عقیدے) سے توبہ کی (بیشک مجھے) اختیار (حاصل) ہے۔ اختیار (حاصل) ہے۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں)

-11-

اختیارت اختیارش ہست کرد اختیارش چوں سوارے زیر گرد

ترجمہ: تیرے اختیار کو اس (قادرِ مطلق) کے اختیار نے پیدا کیا ہے۔ اس کا (کلی) اختیار گویا سوار ہے جو (تیرے جزوی اختیار کی) گرد کے نیچے (مخفی) ہے۔

مطلب: بندہ ہر قسم کے اچھے برے اعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ مگر اس اختیار کا حصول اس کے اختیار میں نہیں کیونکہ یہ حق تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ بندے کو اختیار بخشے۔ بندہ حق تعالیٰ کے اختیار میں مطلق دخل نہیں رکھتا۔ چونکہ بندہ کا اختیار خدا کا عطا کیا ہوا ہے۔ لہٰذا جب بندہ باختیارِ خود کوئی کام کرتا ہے تو گویا اس کے جزوی اختیار کے پردے میں خداوند تعالیٰ کا کلی اختیار کام کر رہا ہے)

-12-

اختیارش اختیارِ ما کند امر شد بر اختیار اے مستند

ترجمہ: اس کا اختیار ہمارے اختیار کو (ایجاد) کرتا ہے اور اے معتبر آدمی (ہمارے اسی) اختیار کی بنا پر (ہم کو بجا آوری اعمال کا) حکم ہوا ہے۔

مطلب: یہاں سے دو باتیں ثابت ہوئیں ایک تو یہ کہ ہم کو جو طاعات کے بجا لانے اور معاصی سے باز رہنے کا حکم ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ ہم کو ان باتوں کا اختیار حاصل ہے۔ ورنہ ایسے احکام نہ آتے دوسری بات یہ کہ اختیار خداوند تعالیٰ نے بخشا ہے۔ ہم کو ازخود حاصل نہیں۔ پہلی شق جبریہ کے خلاف ہے اور دوسری قدریہ کے خلاف اسی بنا پر کہا گیا ہے اہلسنت و الجماعت کا مذہب جبریہ اور قدریہ کے مابین ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق سے مروی ہے۔ لَا جَبَرَ وَ لاَ قَدَرَ وَلٰکِنَّ اَمَرُٗ بَینَ اَمرَین یعنی نہ جبر صحیح ہے نہ قدر صحیح ہے بلکہ صحیح بات دونوں کے درمیان ہے۔ وہکذاقیل:

قدر باطل ہے جبر باطل ہے بین الامرین امر حاصل ہے

رفع اشتباہ: مولوی شبلی نعمانی صاحب سوانحِ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ میں لکھتے ہیں۔ مولانا کے زمانے میں جو عقیدہ تمام اسلامی ممالک میں پھیلا ہوا تھا وہ جبریہ تھا۔ کیونکہ اشاعرہ کا عقیدہ در حقیقت جبر ہی کا دوسرا نام ہے چنانچہ امام رازی نے تفسیرِ کبیر میں سینکڑوں جگہ صاف صاف جبر کو ثابت کیا ہے۔ باوجود اس کے مولانا روم کا عام عقیدہ سے الگ روش اختیار کرنا ان کے کمالِ اجتہاد بلکہ قوتِ قدسیہ کی دلیل ہے (انتہیٰ)

اس بیان سے چار سنگین غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ (1) مولانا کے زمانے میں جمہور اہل سنت والجماعت کا عقیدہ کچھ اور تھا اور آج کل کچھ اور ہے۔ جس سے خود مذہب اہل سنت و الجماعت کی عدمِ استقامت کا شبہ ہوتا ہے۔ (2) اشاعرہ کے عقائد جو اہل سنت والجماعت کے نزدیک عموماً اور شوافع کے نزدیک خصوصاً مسلمہ ہیں جبریہ عقائد کے مترادف ہیں جس سے لازم آتا ہے کہ معاذ اللہ اشاعرہ بھی فرق ضالہ سے ہیں اور شوافع بھی (3) امام رازی رحمۃ اللہ علیہ بھی جبر کے قائل تھے۔ اور تفسیر میں سینکڑوں جگہ اسی کو ثابت کیا ہے۔ جس سے لازم آتا ہے کہ امام موصوف اہل سنت سے نہ تھے (4) مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں اہلِ سنت والجماعت کی عام روش کے خلاف چلتے ہیں۔ اور اس سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی مخدوش ہو جاتا ہے۔

یہ دونوں شعر مولوی شبلی کے اس بیان کی تغلیط کے لیے برہانِ قاطع ہیں۔ چنانچہ جب مولانا فرماتے ہیں۔ ”اختیارش اختیار ما کند“ یعنی حق تعالیٰ کا اختیار ہمارے اختیار کو ایجاد کرتا ہے اور یہ عین اہلسنت و الجماعت کا مذہب ہے نہ کہ جبریہ کا۔ جبریہ تو بندے کا اختیار مانتے ہی نہیں اور یہی مذہب قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک مسلّم چلا آتا ہے تو۔

(1) نہ مولانا کے زمانہ کے اہل سنت والجماعت اور آج کل کے اہلِ سنت میں کچھ مذہبی فرق رہا جبکہ یہ شعر وہی مذہب ظاہر کر رہا ہے جو آج بھی مسلّم ہے۔

(2) نہ اشاعرہ شوافع جبریہ فرق میں شامل ہوئے۔ جبکہ وہ بھی خداداد اختیار کے قائل ہیں۔

(3) نہ امام رازی پر جبر کے قائل ہونے کا الزام عائد ہوا۔ جبکہ ان کا نصب العین بھی یہی مذہب ہے۔

(4) نہ مولانا کی طرف سے مخالفتِ اہلِ سنت لازم آئی جب کہ وہ اس شعر میں صاف طور سے ایسے اختیار کے قائل ہیں جو خداوند تعالیٰ نے بخشا ہے۔ کسی کو ازخود حاصل نہیں ہے۔ اور مولانا کا یہ قول جو دفتر سوم میں گزر چکا ہے۔ ہمارے اس بیان کے لیے مہرِ تصدیق ہے۔۔

جنبشِ خلق از قضا و وعدہ است تیزی دنداں ز سوزش معدہ است

حقیقت یہ ہے کہ فرقہ معتزلہ جو قدریہ کی ایک شاخ ہے دنیا سے نابود ہو چکنے کے بعد دوبارہ ہندوستان میں نیچریہ فرقہ کی شکل میں نمودار ہوا، جس کے بانی میاں سر سید احمد خان ہیں۔ فرقہ معتزلہ فلسفہ یونان کی تاثیرات سے پیدا ہوا تھا۔ اور فرقہ نیچریہ کی پیدائش یوروپین خیالات سے پیدا ہوئی ہے۔ دونوں کے عقائد و مزعومات ایک ہی ہیں۔ اور مولانا شبلی نعمانی مذہبی سرگرمیوں اور عملی صحبتوں میں سرسید کے دست و بازو تھے۔ جس کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ مولانا شبلی کا مذاق معتزلہ یا قدریہ مذہب کے سانچہ میں ڈھل گیا۔ اور اپنے اس ماحول کو آج کل کی دنیائے اسلام قرار دے کر کہتے ہیں کہ مولانا کے زمانہ میں جو عقیدہ تمام اسلامی ممالک میں پھیلا ہوا تھا وہ جبریہ تھا۔ گویا اس زمانہ کا اسلامی عقیدہ وہ ہے جو علی گڑھ سے پیدا ہوا ہے اس سے صاف سمجھ سکتے ہیں کہ جو مصنف قدریہ کے ایک طرفہ عقائد کا قائل اور ان کا موید ہو وہ اہلِ سنت والجماعت کے معتدل عقائد کو جو جبریہ و قدریہ کے بین بین ہیں اپنے خیالات کی عینک سے جبریہ کے مترادف نہ دیکھے تو اس سے اور کیا امید ہو سکتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی اچھے نقاد اور مشہور مؤرخ ہیں۔ اردو زبان کو ترقی دینے والی جماعت کے ارکانِ عظمٰی میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ لیکن ان کی جو کتابیں عقائدِ اسلام سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً سوانح مولانا روم، الکلام، علم الکلام وغیرہ وہ ادنےٰ اور متوسط لیاقت کے لوگوں کے لیے خالی از خطر نہیں۔

ہاں مشو مغرور زاں گفتِ نکو زانکہ کارد صد بدن در زیر او

اوپر کے شعر پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مخلوق کو اختیار حاصل ہے تو پھر اس پر حق تعالیٰ کا اختیار ہونے کے کیا معنی؟ کیونکہ جو شخص کسی کے زیر اختیار ہو وہ مجبور ہوتا ہے مختار نہیں ہو سکتا۔ آگے اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں:

-13-

حاکمی بر صورت بےاختیار ہست ہر مخلوق را در اقتدار

ترجمہ: بے اختیار صورت پر قادر ہونے میں ہر مخلوق کو حکومت (حاصل) ہے۔

-14-

تا کشد بے اختیارے صیدرا تا برد بگرفتہ گوش او زید را

ترجمہ: حتیٰ کہ وہ کسی بے اختیار شکار کو کھینچ لے جاتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ (زید و عمر وغیرہ) کو (جن کو اختیار حاصل نہیں) کان سے پکڑ کر لے جاتا ہے۔

-15-

لیک بے ہیچ آلتے صنعِ صمد اختیارش را کمندِ او کند

ترجمہ: لیکن خداوندِ بےنیاز کی قدرت بغیر کسی ذریعہ کے (خود) اسی کے اختیار کو اس کی کمند بنا دیتی ہے (جس میں وہ مقید ہو جاتا ہے)

-16-

اختیارش زید را قیدے کند بے سگ و بے دام چوں صیدے کند

ترجمہ: وہ زید کے لیے اس کے (خود اپنے) اختیار کو قید بنا دیتا ہے۔ شکاری کتے اور جال کے بغیر شکار کی طرح (مقید و مسخر) کر دیتا ہے۔

مطلب: ان چار شعروں میں مذکورہ بالا سوال کا جواب دیا ہے۔ خلاصہ جواب یہ ہے کہ بیشک جو شخص یا چیز کسی کے زیر اختیار ہو وہ مختار نہیں بلکہ مجبور ہوتی ہے۔ مگر یہ کلیہ مخلوق کی مختاری پر صادق آتا ہے حق تعالیٰ کا اختیار کچھ اور رنگ رکھتا ہے۔ مثلاً جب ہم کتاب کو پڑھنے کے لیے اٹھاتے ہیں تو کتاب مجبور ہے مختار نہیں۔ جب سپاہی زید کو گرفتار کر کے لے جاتا ہے تو زید مجبور ہے مختار نہیں بلکہ مختار وہ ہے جو کام کرتا ہے اپنے قصد و ارادہ سے اور اپنی قدرت و اختیار سے کرتا ہے۔ لیکن راز اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اس کے اختیار کو اس کام کی طرف متوجہ فرما دیتا ہے۔ جو حق تعالیٰ کی مشیت میں مقدر ہو چکا ہے اور خود اس بندے کا اختیار اس کے لیے قید بن جاتا ہے۔ وہ اس سمت سے دوسری طرف نہیں جا سکتا۔ ھَذَا ھُوَا الحَقُّ وَلَو کَانَ غَامِضاً شَدِیداً لَا تُدرَکُہ العُقُول آگے جمادات پر مخلوق کے اختیار کی چند مثالیں پیش کر کے فرماتے ہیں کہ یہ اختیارات حق تعالیٰ کے اختیار کے آگے سرافگندہ و مطیع ہیں۔

-17-

آں درو گر حاکمِ چو بےبود واں مصور حاکمِ خو بےبود

ترجمہ: ایک بڑھئی لکڑی پر قدرت رکھتا ہے (کہ اس سے جو چیز چاہے بنا دے) اور مصور کسی حسین پر قدرت رکھتا ہے (کہ جب وہ سامنے بیٹھ جائے تو اس کی تصویر کھینچ دے)

-18-

ہست آہن گر بر آہن قیّمے ہست بنّا ہم بر آلت حاکمے

ترجمہ: لوہار لوہے پر حاکم ہے۔ معمار آلاتِ تعمیر پر حکمران ہے۔

-19-

نادر ایں باشد کہ چندیں اختیار ساجد اندر اختیارش بندہ وار

ترجمہ: عجیب بات یہ ہے کہ (مخلوق کے) اس قدر (بے پایاں) اختیارات اس (خداوند تعالیٰ) کے اختیار کے حضور میں سجدہ (اطاعت) بجا لاتے ہیں۔

مطلب: تمام صناع و حرفت پیشہ لوگ اپنے اپنے آلات صنعت اور مصنوعات پر قادر اور مختار ہیں لیکن تماشہ یہ ہے کہ ان کی یہ قدرت اور اختیار اس قادرِ مطلق کے اختیار کے آگے سر بسجود اور اس کے اشارہ کے تابع ہیں۔ آگے مولانا اسی جواب سے ایک اور استدلال اختیار کے ثبوت میں اخذ فرماتے ہیں:

-20-

قدرتِ تو بر جمادات از نبرد کے جمادی را از آنہا نفی کرد

ترجمہ: (اے صناع! آلاتِ صناعی وغیرہ) جمادی اشیا پر تیری قدرت ازراہِ خصوصیت ان جمادات سے جمادیت کو سلب کب کر سکی تو۔

-21-

قدرتش بر اختیارات آنچناں نفی نکند اختیارے را ازاں

ترجمہ: تو اسی طرح اس قادر مطلق کی قدرت (بھی) جو اسے (مخلوق کے) اختیارات پر ہے۔ اس (مخلوق) سے اختیار کو سلب نہیں کرتی۔

مطلب: جمادات کے لیے جمادیت ان کی ذاتیات سے ہے اور انسان کے لیے قوت اختیاری اس کی ذاتیات سے ہے اور کسی چیز کا ذاتی وصف اس سے کسی حالت میں منفک نہیں ہو سکتا۔ صناع جب کسی آلہ سے کام لیتا ہے تو ہر چند بظاہر نظر وہ آلہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر در حقیقت یہ صناع کی قوت فاعلہ ہی کام کر رہی ہے جو آلہ کو استعمال کر رہی ہے وہ آلہ سے جمادیت کو سلب نہیں کر سکتی کہ آلہ کو باختیارِ خود کام کرنے والا بنا دے۔ اسی طرح انسان جب کوئی اچھا یا برا عمل کرتا ہے تو ہر چند حق تعالیٰ اس کے فعل پر قادر ہے۔ مگر در حقیقت بندہ اپنے اختیار سے کام کر رہا ہے۔ حق تعالیٰ کی قدرت اس کے اختیار کو سلب نہیں کرتی کہ وہ جمادات کی طرح مجبورِ محض بن کر کام کر رہا ہو۔ کیونکہ اختیار اس کی ذاتیات سے ہے جو اس سے مسلوب نہیں کیا جاتا۔ اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ قدرتش پر اختیارات کے لفظ سے انسان کے مجبور من وجہ ہونے کو تسلیم کرتے ہیں۔ یعنی انسان ایک حیثیت سے مجبور اور ایک حیثیت سے مختار ہے۔ پس مولانا شبلی نعمانی کا یہ کہنا کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے عام عقیدہ سے الگ روش اختیار کی ہے۔ جس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ مولانا اشاعرہ کے خلاف قدریہ فرقہ کی روش پر چلتے ہیں صاف افترا ہے۔ کیونکہ قدریہ فرقہ بندے کو کسی حیثیت سے بھی مجبور نہیں مانتا۔ آگے مولانا اس متوسط و معتدل اور حق عقیدے کی اس سے زیادہ وضاحت فرماتے ہیں جس سے ان پر قدرت کا گمان اور بھی ھَبَآء منثوراً ہو جاتا ہے۔

-22-

خواستش مے گوئے بر وجہِ کمال کہ نباشد نسبتِ جبر و ضلال

ترجمہ: (بندے کو مجبور محض نہ سمجھو ہاں) اس (قادرِ مطلق) کی کامل مشیت (کے مطابق باختیار خود عمل کرنے والا کہو) تاکہ جبر اور گمراہی کی نسبت (لازم) نہ آئے۔

مطلب: اگر کہوگے کہ بندہ جو کچھ کرتا ہے اپنے مطلق اختیار سے کرتا ہے تو یہ قدریہ کا ہذیان ہے۔ اور اگر کہوگے کہ بندہ جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے کراتا ہے تو یہ جبریہ کی بکواس ہے۔ بلکہ یوں کہو کہ بندہ جو کچھ کرتا ہے۔ اپنے جزوی اختیار سے کرتا ہے جو اللہ کی مشیت کے تابع ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا اختیار حاوی ہے۔ یہی مذہب حق ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللّٰهُ (التکویر:29) اس پر شاہد ہے آگے پھر مومن سنی اپنے حریف کافر جبری کو کہتا ہے:

-23-

چونکہ گفتی کفرِ من خواہِ ویست خواہِ خود را نیز ہم میداں کہ ہست

ترجمہ: (اے کافر) جب تو کہتا ہے کہ میرا کفر اس (باری تعالیٰ) کی خواہش (پر مبنی) ہے تو تجھے اپنی خواہش (اور ارادہ) کو بھی ماننا پڑے گا۔ جو (تجھے حاصل) ہے۔

مطلب: ثبوتِ اختیار کے لیے یہ ایک عجیب اور پرلطف استدلال ہے۔ یعنی جب تو جبر کے اثبات میں کہتا ہے کہ میں جو کفر کا مرتکب ہوتا ہوں تو اس کی محرک اللہ کی خواہش ہے۔ اس میں کم از کم اپنے ارتکاب کفر کا اقرار تو کرتا ہے۔ اور کفر کرنا کفر کا مرتکب ہونا کفر عمل میں لانا وغیرہ تمام محاورات ایسے ہیں جن میں اپنے اختیار کا اقرار ٹپک رہا ہے اور وہ کفر بھی کیا کفر ہو سکتا ہے جس میں اپنے ارادے کا دخل نہ ہو۔ بلا ارادہ کسی کے منہ سے کفر نکل جائے اور جبر و تشدد سے کفریہ اعمال پر کسی کو مجبور کیا جائے تو اس سے آدمی کافر نہیں ہوتا پس یہ کہنا کہ میں کفر کرتا ہوں اور ساتھ ہی یہ کہنا کہ میرا کفر میرے اختیار اور ارادے سے نہیں بلکہ اللہ کے اختیار اور ارادہ سے ہے۔ دو متضاد باتیں ہیں۔ آگے یہی فرماتے ہیں:

-24-

زانکہ بےخواہِ تو خود کفرِ تو نیست کفرِ بےخواہش تناقض گفتنی ست

ترجمہ: کیونکہ (اگر) تیری خواہش کے بغیر (کوئی فعل کفر تجھ سے سرزد ہو جائے تو وہ) تیرا کفر ہی نہیں (ہو سکتا) کفر (ماننا اور) خواہش کے بغیر (ماننا) متناقض باتیں کرنا ہے۔

-25-

امر عاجز را قبیح ست و ذمیم خشم بدتر خاصہ از ربّ رحیم

ترجمہ: (اگر بندے کو اختیار نہ ہوتا تو اعمال بجا لانے کا حکم کیوں آتا) عاجز و مجبور کو حکم (دینا تو) بُرا اور ناپسند ہے (اور عاجز و مجبور کے اعمال بجا نہ لانے پر) غضبناک ہونا (اس سے بھی) زیادہ برا ہے۔ خصوصاً پروردگار رحیم سے (جس کی صفت رحمت ہے اور وہ بےموقع کام کرنے کی تہمت سے منزہ ہے)

-26-

گاؤ گر یوغے نگیرد می زنند ہیچ گاوے کے نپرّد شد نژند

ترجمہ: بیل اگر جوا، نہ لے تو اس کو مارتے ہیں (کیونکہ یہ کام اس کے امکان میں ہے۔ بخلاف اس کے جو بیل پرواز نہ کر سکے (اسے کچھ نہیں کہتے کیونکہ) وہ (اس سے) عاجز ہے۔

-27-

گاؤ چوں معذور نبود در فضول صاحبِ گاو از چہ معذورست ڈول

ترجمہ: جب بیل (بھی) ناروا کام میں معذور و قابل عفو نہیں (سمجھا جاتا) تو بیل کا مالک بےحیا (جو عاقل و مکلّف ہے) کیونکر معذور (ہو سکتا) ہے۔

-28-

چوں نہ رنجور سر را بر مبند اختیارات ہست بر سُبلت مخند

ترجمہ: جب تو بیمار نہیں تو (بیماروں کی طرح اپنے) سر کو نہ باندھ (یعنی جب تو مجبور نہیں تو خواہ مخواہ مجبور نہ بن) تجھے اختیار (حاصل) ہے (بےاختیار بن کر اپنا۔ مضحکہ نہ اڑا۔ آگے فرماتے ہیں کہ اگر مجبور و بےاختیار بننا چاہتے ہو تو جبریہ کے گمراہ فرقے کی طرح نہ بنو جو سراسر جہالت ہے۔ بلکہ فنا فی اللہ کے مقام پر فائز ہو کر حقیقی معنی میں اپنے اختیار کو کلیۃً اختیارِ حق میں فنا کرو اور کَالمَیتِ فِی یَدِا الغَسَّالِ بن جاؤ)

-29-

جہد کن کز جامِ حق یابی نوی بیخود و بے اختیار آنگہ شوی

ترجمہ: کوشش کرو کہ تم حق (کی معرفت) کے پیالے سے تازگی حاصل کرو اور اس وقت تم بےخود و بےاختیار ہو جاؤ گے۔ (یہی سلبِ اختیار صحیح اور مبارک ہے)

-30-

انگہ آں مے را بود کل اختیار تو شوی معذور و مطلق مست وار

ترجمہ: اس وقت اس شراب کو کلی اختیار ہوگا۔ (جو تم نے پی رکھی ہے۔ اور) تم ایک مست کی طرح معذور و غیر مکلّف ہوگے۔

-31-

ہرچہ گوئی گفتۂ مَے باشد آں ہرچہ روبی رُفتۂ مَے باشد آں

ترجمہ: (پھر) تم جو کچھ کہو گے وہ شراب کی گفتگو ہوگی (اور تم اپنی گفتگو کے ساتھ عوام کے قلوب سے) جس (عقیدے) کا صفایا کروگے وہ اس شراب کا فعل ہوگا۔

-32-

کے کند آں مست جز عدل و صواب کہ ز جامِ حق چشیدہ است او شراب

ترجمہ: ایسا مست جس نے حق تعالیٰ کے جام سے شراب پی ہے۔ عدل و صواب وہی تو کرے گا اس) کے سوا اور کیا کرے گا۔

-33-

جادواں فرعون را گفتند بیست مست را پروئے دست و پائے چیست

ترجمہ: (چنانچہ) جادوگروں نے فرعون کو کہا ٹھہر جا۔ مست کو اپنے ہاتھ پاؤں کی پروا نہیں۔

مطلب: جب فرعون کے حکم سے جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے تو وہ موسیؑ کے معجزے کے آگے اپنے جادو کو بیکار پا کر اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے۔ فرعون نے ان کو دھمکی دی۔ کہ تم میرے حکم کا انتظار کئے بدون موسیؑ پر ایمان لائے ہو۔ میں اس جرم کی سزا میں تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا۔ اور تم کو سولی پر چڑھا دوں گا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا لَا ضَيْرَ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ (الشعراء:50) کچھ حرج (کی بات) نہیں۔ ہم کو (تو بہرحال) اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

-34-

دست و پائے ما مئے آں واحد ست دستِ ظاہر سایہ است و کاسد ست

ترجمہ: ہمارے ہاتھ پاؤں تو اسی (خدائے) واحد کی شراب (محبت) ہے (پس یہ) ظاہری ہاتھ (پاؤں اگر کٹ جائیں تو پروا نہیں۔ کیونکہ یہ اعضا ایک سایہ (بے بود) ہیں اور بےسود ہیں۔ (آگے مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں)

-35-

چوں بسر پُر شد ز جامِ اُو مدام خانۂ دل را فرو گیرد تمام

ترجمہ: (غرض) جب اس کے پیالے کی شراب (محبت) سر میں بھر جائے تو وہ دل گے گھر پر پوری طرح حاوی ہو جاتی ہے۔

انتباہ: یہاں تک ثبوتِ اختیار کے دلائل تھے۔ آگے مولانا منکرینِ اختیار کے بعض عقلی دلائل کا جواب ارشاد فرماتے ہیں: