دفتر 5 حکایت 142: حدیث ماشاء اللہ کان کے معنی میں۔ یعنی (صحیح) خواہش اسی کی خواہش ہے۔ اور (سچی) رضا اسی کی رضا ہے۔ اور دوسرے لوگوں کے غصہ سے تنگدل نہ ہو۔ (لفظ) کَانَ اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے۔ لیکن خدا کے فعل میں ماضی و مستقبل نہیں ہوتے۔ ہمارے پروردگار کے نزدیک صبح و شام نہیں ہے

دفتر پنجم: حکایت: 142


دَر معنی مَاشَاءَ اللہ کَانَ یعنے خواست خواستِ اوست و رضا رضائے اوواز خشمِ دیگراں تنگ دل نبا شید۔ کَانَ اگرچہ لفظ ماضی ست لیکن در فعلِ خدا ماضی و مستقبل نباشد لَیسَ عِندَ رَبّنَا صَبَاح وَّمَسَآء

حدیث ماشاء اللہ کان کے معنی میں۔ یعنی (صحیح) خواہش اسی کی خواہش ہے۔ اور (سچی) رضا اسی کی رضا ہے۔ اور دوسرے لوگوں کے غصہ سے تنگدل نہ ہو۔ (لفظ) کَانَ اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے۔ لیکن خدا کے فعل میں ماضی و مستقبل نہیں ہوتے۔ ہمارے پروردگار کے نزدیک صبح و شام نہیں ہے۔

یہ ایک حدیث کے کلمات ہیں جو جبر کی دلیل میں پیش کی جاتی ہے۔ پوری حدیث یہ ہے ماشَاء اللہَ کَانَ وَمَالَم یَشآءلَم یَکُن۔ جس کے لفظی معنی یہ ہے کہ اللہ نے جو چاہا ہو گیا۔ اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ مقصد نہیں کہ جو کچھ ہونا تھا اللہ کی تقدیر میں ہو چکا۔ اب ہماری طاعات و عبادات کی کوشش فضول ہے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اعمالِ حسنہ کی ترغیب دی جائے کیونکہ مہمات امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اسی کی رضا کے خواہاں اور اسی کے غضب سے ترساں رہنا چاہیے۔ تاکہ وہ ہمارے حق میں اچھا ارادہ رکھے۔ باقی رہی یہ بات کہ حدیث میں کَانَ کا لفظ آیا ہے جو صیغہ ماضی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے جو چاہا وہ ہو چکا۔ اب ہمارے ایتانِ اعمال سے کیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جو کچھ ہونا تھا وہ نوشتہ تقدیر بن چکا۔ جس میں اب تغیر ناممکن ہے۔ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ اللہ کے معاملات میں ماضی و مستقبل کو دخل نہیں۔ اس کے کام قید زمان سے مبرّا ہیں۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا کوئی کام ماضی سے مخصوص ہو چکا۔ اس کے لیے ماضی و مستقبل یکساں ہیں۔

انتباہ: جبر و اختیار کے مسئلہ میں اہلِ سنت والجماعت کا جو مسلک ہے وہ ایک سّرِ الہیٰ ہے جس کے کشف سے عقلِ انسانی عاجز ہے۔ ہاں قوتِ ایمانی اس کو بآسانی قبول کر لیتی ہے۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی جبر و قدر کے متعلق فرماتے ہیں۔

”ایں ہر دو مذہب باطل اند و افراط و تفریط ست۔ مذہبِ حق توسط است میانِ این و آں۔ ولیکن عقل در دریافت ایں امر متوسط حیران و سرگردان ست و فی الحقیقت ایں حیرانی و سرگردانی اہلِ عبث وجدال رابا شد کہ خواہند کہ معتقدات را بعقل ثابت کنند و ناچیزے کہ بعقلِ ایشاں راست نیاید و معقول ایشاں تنقید تصدیق آن نکتہ۔ و ایمان بداں نیارند و ما ایمانیاں را دلیل قطعی بر ثبوت ایں مدعائے شریعت و قرآن ست کہ ناطق ست بایں کہ ہمہ بقدرت وارادتِ اوست و باوجود آں طاعات و معاصی رابہ بندگان نسبت مے کندومی فرماید کہ خدا ہر گز ظلم نہ کند۔ ایشاں خود ظلم کردند وَمَا کَانَ اللہُ لِیَظلِمَ ھم وَلَکِن کَانُوا اَنفُسَھم یَظلِمُونَ و فرمود اللہُ خَلَقَکُم وَمَا تَعمَلُونَ (تکمیل الایمان)

اس مشکل مسئلے میں جو خاص پر پیچ عقیدہ ہے۔ شیخ موصوف اس کی تقریر یوں فرماتے ہیں۔

” و لیکن اشکال در آں آنست کہ آیا بعد از شمول و احاطہ علم وارادت ازلی و قضا و تقدیر الہیٰ متصور باشد کہ ایں فعل از آدمی بوجود نیاید۔ ووے آنرا نباشد زیرا کہ خدا تعالیٰ اگر درازں دانستہ و خواستہ کہ از بندہ ایں فعل بوجود آید البتہ باید آں فعل بوجود آید خواہ بےاختیار۔ چنانچہ در حرکتِ اضطراری وخواہ باختیار اگر فعلِ اختیاری است پس اور ادر اختیار کردن وبو جود آوردن آں فعل اختیارے نباشد۔ مگر بہماں کہ اول تصور کردہ باشد۔ و نیز آدمی را اگرچہ در فعل اختیارے ہست و لیکن در مبادی آں اختیار ندارند۔ چنانچہ اگر یکے چشم کشادہ باشد و نہ بیند۔ صورت ندارد و بعد از دید و ادراک کردن اگر آں مرئی مطلوب اوست انبعاثِ شوق و خواہش لازم است و وجود حرکت بعد از وے واجب ہر چند با اختیار او باشد تا ایں اختیار اورا واجب و لازم گردد۔ ووجوب و لزدم منافیِ حقیقت اختیار ست۔ بس آدمی اختیار دارد۔ لیکن در اختیار خود اختیار ندارد۔ وہماں سخن آمد کہ گفتہ اند مُختَار فِی فِعلِہِ وَمَجبور فِی اِختِیِارِہِ و بعبارت دیگر اختیار بالصورۃ و جبر بالمعنی و بحقیقت ایں مسئلہ قضا و قدر با قوال باختیار بندہ مقام حیرت و اعتراف بعجز و سکوت ست۔“

اس اشکال کی بنا یہ ہے کہ اہلِ حق کے مذکورہ عقیدہ پر جبر کا الزام وارد ہوتا تھا۔ حالانکہ اہل حق جبر کے عقیدے سے اسی طرح بری ہیں جس طرح قدریت سے۔ اور یہ اشکال اس وقت زیادہ قوی ہو جاتا ہے جب جبریہ کی طرف سے بعض ایسی احادیث جبر کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں۔ جو اہل حق کے نزدیک مسلمہ ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث مَاشَاءَ اللہ کَانَ الخ ہے اور دوسری جَفّ القَلَم بِمَا ھُوَ کَآئِنُ ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ یہاں ان دونوں حدیثوں کی تاویل اس انداز سے فرمائیں گے کہ اہل حق کے عقیدے پر جو جبر کا الزام لگایا گیا ہے وہ رفع ہو جاتا ہے۔ اور اس انداز کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مولانا قدریہ کو جبریہ پر ترجیح دے رہے ہیں۔ جیسے کہ مولوی شبلی نعمانی صاحب مؤلف سوانح مولانا روم کو شبہ ہوا ہے بلکہ ان تاویلات سے مقصود محض رفعِ اشکال و دفعِ الزام ہے۔ اور تاویل و توجیہ کا دروازہ وسیع ہے۔ جب اکابر مفسرین کو آیات کی تفسیر میں بہت سے مقامات پر تاویل سے کام لینا پڑ جاتا ہے۔ تو احادیث میں تاویل کرنا کونسا مستغرب ہے۔ آگے مولانا خود ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ تاویل ہے اور تاویل حق ہے۔

اشعارِ ذیل میں احادیث مذکور کی جو تاویل کی گئی ہے اس کا ملخص یہ ہے کہ یہ حدیث جدوجہد کی ترغیب کے لیے ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی ملازم شاہی سے کہے کہ جو کچھ وزیر چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وزیر کو خوش رکھنے کے لیے جہاں تک ہو سکے ہر طرح کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ کامیابی اور حصول مقصد تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جب چاہو گے اور جس طرح چاہو گے حاصل ہو جائے گا۔ بلکہ اس کا سر رشتہ دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے بغیر سعی اور کوشش کے کام نہیں چل سکتا اسی طرح جب یہ کہا گیا کہ خدا جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ نجات اور حصول مقاصد تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جب چاہو حاصل کر لوگے بلکہ اس کے لیے نہایت جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اب اشعار کا مطلب خود بخود حل ہوتا جائے گا۔

-1-

قولِ بندہ اَیشَ شَآءَ اللّٰہ کَانَ بہر آں نبود کہ منبل شو ازاں

ترجمہ: بندہ کا یہ کہنا کہ اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ تم اس (قول) کی بنا پر (اعمالِ حسنہ کی بجاآوری سے) سست ہو جاؤ (یا اس لیے نہیں کہ تم اس قول کی بنا پر (اعمالِ حسنہ سے ٹلنے کا) حیلہ نکالو۔

-2-

بہرِ تحریض ست بر اخلاص و جِد کاندراں خدمت فزوں شو مستعد

ترجمہ: (بلکہ) اخلاص اور سعی پر برانگیختہ کرنے کے لیے ہے کہ اس خدمت میں تم (پہلے سے) بھی زیادہ مستعد ہو جاؤ۔ (تحریص بصاد مہملہ بھی صحیح ہے۔ بمعنی ترغیب)

-3-

گر بگویند آنچہ میخواہی تو راد کار کارِ تست بر حسبِ مراد

-4-

انگہ ار منبل شوی جائز بود کانچہ خواہی و آنچہ جوئی آں شود

ترجمہ: (ہاں) اگر کہا جائے کہ اے بہادر آدمی! جو کچھ تم چاہتے ہو (وہی ہوگا) یہ معاملہ تمہاری مراد کے مطابق طے ہوگا تو اس وقت اگر تم (بجا آوری اعمالِ حسنہ سے) سست ہو جاؤ تو جائز ہوگا۔ کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو اور جو کچھ طلب کرتے ہو وہی ہو جائے گا۔

–5-

چوں بگویند اَیشَ شَاءَ اللّٰہُ کَان حکم حکمِ اوست مطلق جاوداں

ترجمہ: جب کہا جائے گا کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ حکم دینا مطلق اور ہمیشہ اسی کا حق ہے تو۔

-6-

پس چرا صد مردہ اندر وِرد او بر نگردی بندگانہ گردِ او

ترجمہ: پھر تم کیوں نہ سو مردوں کی طاقت کے ساتھ اس (کے فضل و کرم) کے گھاٹ میں غلاموں کی طرح اس کے گرد نہ پھرو (جب خداوند تعالیٰ کے لیے ہی سب کچھ ہوتا ہے تو پھر تم کو ہزار جان سے عبادات بجا لا کر اس کو خوش کرنا چاہیے۔

-7-

گر بگویند آنچہ مے خواہد وزیر خواست آنِ اوست اندر دار و گیر

ترجمہ: (دیکھو) اگر کہا جائے کہ جو کچھ وزیر چاہتا ہے (ملکی) نظم و نسق میں اس کی تجویز (چلتی) ہے تو۔

-8-

گردِ او گرداں شوی صد مردہ زُود تا بریزد برسرت احسان وجُود

ترجمہ: تو (تم ہی بتاؤ کہ) تم فوراً سو جوں مردوں کی طاقت سے اس کی بارگاہ میں آمدورفت شروع کرو گے۔ تاکہ وہ تمہارے سر پر احسان و بخشش (کا مینہ) برسا دے۔

-9-

یا گریزی از وزیر و قصرِ او ایں نباشد جُست و جُوئے نصرِ اُو

ترجمہ: یا تم وزیر سے اور اس کے محل سے گریز کروگے (لیکن اگر ایسا کروگے۔ تو) یہ اس کی مدد کی طلب و تلاش نہ ہوگی (بلکہ اس سے اجتناب و بیزاری ہو گی)

-10-

باز گونہ زیں سخن کاہل شدی منعکس ادراک و خاطر آمدی

ترجمہ: (لیکن اے جبری) تو اس بات سے (جو اعمالِ حسنہ پر اکسانے والی ہے) الٹا سست ہو گیا تو اُلٹی سمجھ اور رائے والا نکلا۔

-11-

امر امرِ آں فلاں خواجہ ست ہیں چیست یعنی با جز او کمتر نشیں

ترجمہ: (یہ تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی کہے کہ) فلاں رئیس کا حکم ہی چلتا ہے۔ (پس اس کے سوا اور) کون مقصود ہو سکتا ہے (لہٰذا) تم اس کے غیر کے پاس مت بیٹھو۔

-12-

گردِ خواجہ گردِ چو امر آنِ اوست کو کُشد دشمن رہاند جانِ دوست

ترجمہ: (اسی) رئیس کی طرف آمدورفت رکھو جب حکم دینا اُسی کا حق ہے کہ وہی دشمن کو قتل کرنے والا اور دوست کی جان بخشی کرنے والا ہے۔

-13-

ہرچہ او خواہد ہماں خواہی یقین یا وہ کم رو خدمتِ او بر گزیں

ترجمہ: کچھ وہ پسند کرتا ہے۔ تم (پورے) یقین سے اسی کا قصد کرو بیہودہ نہ چلو۔ اس کی اطاعت اختیار کرو۔

-14-

نے چوں حاکم اوست گردِ او مگرد تا شوی نامہ سیاہ و روئے زرد

ترجمہ: نہ کہ (یہ کہا جائے گا کہ) جب وہ حاکم ہیں تو اس کے پاس نہ پھٹکو۔ تاکہ تمہارا اعمالنامہ (تفصیلِ معاصی سے) سیاہ اور تمہارا چہرہ (شدتِ یاس سے) زرد ہو جائے۔

مطلب: جبری کا یہ کہنا کہ خداوند تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اب ہماری اطاعت و عبادت بجا لانا فضول ہے۔ یہ معنی رکھتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کی قدرت اور قوت کو مانتے ہوئے اس کی کچھ پروا نہ کی جائے اور اپنی نجات و بہبودی کا راستہ دیکھتے ہوئے عمداً اس سے کجروی اختیار کی جائے۔ بریں عقل و دانش بباید گریست۔

-15-

چونکہ حاکم اوست او را گیر و بس غیرِ او را نیست حکم و دسترس

ترجمہ: (غرض اس حدیث کا مفاد یہ ہے کہ) جب وہ حاکم ہے تو صرف اسی کی اطاعت اختیار کرو۔ اس کے سوا اور کسی کو حکم اور قدرت نہیں۔

-16-

حق بود تاویل کاں گرمت کند پُر اُمید و چُست و باشرمت کند

ترجمہ: (آیات و احادیث کی وہ) تاویل حق ہوتی ہے جو تم کو (طاعات و عبادات میں) سرگرم کر دے (اور) پرامید و مستعد اور باحیا بنا دے۔

-17-

ور کند سردت حقیقت ایں بداں ہست تبدیل و نہ تاویل ست آں

ترجمہ: اور اگر وہ (تاویل الٹا) تم کو (بجا آوری اعمال سے) سرد (اور نجاتِ آخرت سے ناامید) کردے تو یہ سچ سمجھو کہ وہ (آیت و حدیث کی) تبدیل (و تحریف) ہے تاویل نہیں۔

-18-

ایں برائے گرم کردن آمد ست تا بگیرد ناامید آنرا دو دست

ترجمہ: (غرض) یہ (حدیث تم کو) سرگرم کرنے کے لیے آئی ہے۔ تاکہ ناامید اس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لے (یعنی اس پر پوری طرح عمل کرے)

-19-

معنیِ قرآں ز قرآں پُرس و بس وز کسے آتش زدہ است اندر ہوس

ترجمہ: قرآن کے معنی صرف قرآن سے پوچھو۔ اور اس بزرگ سے جس نے خواہشِ نفسانی میں آگ لگا دی ہو۔

مطلب: قرآن مجید کے بارے میں وارد ہے۔ یُفَسِّرُ بَعضَہُ بَعضاً یعنی قرآن کریم کی آیاتِ کریمہ دیگر آیاتِ کریمہ کی تفسیر و توضیح کرتی ہیں۔ اس لیے مولانا فرماتے ہیں کہ قرآن کی جن آیات سے تم کو جبر کا شبہ ہوتا ہے ان کے معنی پر دیگر آیات کی روشنی میں غور کرو۔ تو سارے شبہات رفع ہو جائیں گے۔ چنانچہ آیت: لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (النجم:39) اور آیہ مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ (فصلت:46) اور آیہ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم (آل عمران:195) وغیرہ بےشمار آیات سے اعمال و طاعات کا مفید ہونا اور جبر کے عقیدہ کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ غرض جن آیات سے جبر کا شبہ ہوتا ہے ان کی تاویل کی جائے گی تاکہ مضامینِ آیات میں تعارض لازم نہ آئے یا ایسے عالم باعمل اور بزرگِ پاک نفس سے ان آیات کا مطلب پوچھو جس کے قول و فعل میں ہوائے نفس کا دخل نہ ہو کیونکہ ہوائے نفس ہی اکثر کجروی اور غلط بیانی پر آمادہ کرتی ہے خواہ کتنا ہی علم و فضل حاصل ہو۔ استقامت و حق پسندی کا مدار کثرتِ علم پر نہیں بلکہ تزکیہ نفس و تصفیہ باطن پر ہے اور وہ بزرگ اس شان کا ہو کہ۔

-20-

پیشِ قرآں گشت قربانے و پست تاکہ عینِ روح آں قرآں شداست

ترجمہ: وہ قرآن کے آگے قربان اور فنا ہو گیا ہو۔ حتیٰ کہ اس کی روح بالکل قرآن بن گئی ہو۔ (جس بزرگ کی روح بمنزلہ قرآن بن جائے اس سے قرآن کے معنی پوچھنا گویا قرآن ہی سے پوچھنا ہے۔ جس کی مثال یہ ہے کہ)

-21-

روغنے کو شد فدائے کُل بہ گُل خواہ روغن بوئے کن خواہی تو گل

ترجمہ: وہ تیل جو گلاب کے پھول پر بالکل فدا ہو (اور عطرِ گلاب بن) گیا ہو۔ خواہ (اس) تیل کو سونگھ لو یا پھول کو (یکساں خوشبو آئے گی)

انتباہ: حدیث مَاشَاءَ اللہ کَانَ کی تاویل ہو چکی۔ اب آگے دوسری حدیث جَفَّ القَلَم بمَا ھُوَ کَآئِن کی تاویل فرماتے ہیں جس کے مشہور معنی یہ ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے ہی دن لوحِ محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔ منکرینِ اختیار اس کو بھی بڑی شد و مد کے ساتھ اپنے مذہب کے ثبوت میں پیش کیا کرتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں: