دفتر 5 حکایت 140: حکایت اختیار خلق کی تقریر کے بیان میں اور یہ بیان کہ تقدیر اور قضا اختیار کو سلب کرنے والے نہیں

دفتر پنجم: حکایت: 140



حکایت در بیان تقریر اختیار خلق و بیان آنکہ تقدیر و قضا سلب کنندہ اختیار نیست

حکایت اختیار خلق کی تقریر کے بیان میں اور یہ بیان کہ تقدیر اور قضا اختیار کو سلب کرنے والے نہیں

-1-

گفت دزدے شحنہ کاے پادشاہ آنچہ کردم بود آں حکم اِلٰہ

ایک چور نے کوتوال کے سامنے (بطور عذر) کہا حضور! میں نے جو (جرم کا ارتکاب) کیا ہے وہ خدا کا حکم تھا۔

-2-

گفت شحنہ آنچہ من ہم می کنم حکمِ حق ست اے دو چشمِ روشنم

ترجمہ: کوتوال نے کہا۔ میں بھی جو کچھ (سلوک تیرے ساتھ) کر رہا ہوں۔ پیارے (وہ بھی) حق تعالیٰ کا حکم ہے۔ (آنکھ نہایت پیاری چیز ہے۔ اس لیے بطورِ استعارہ پیارے دوست کو اس لفظ سے ندا کی جاتی ہے۔ مگر کوتوال نے یہ خطاب طنزاً کیا ہے)

-3-

از دُکانے گر کسے تُربے بُرد کایں ز حکمِ ایزدست اے باخِرد

ترجمہ: اے عاقل اگر کوئی (چور) کسی دوکان سے مولی (چرا) لے جائے۔ (اور عذر کرے) کہ یہ (فعل) خدا کے حکم سے (سرزد ہوا) ہے۔

-4-

بر سرش کوبی دوسہ مشت اے کِرہ حکم حق ست ایں کہ اینجا باز نہ

ترجمہ: تو اس کے سر پر دو تین گھونسے رسید کرو (اور کہو) اے بدمعاش یہ بھی حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ تجھ سے یہ سلوک کیا جائے۔ تاکہ تو اس مولی کو اس جگہ واپس رکھ دے۔

-5-

دریکے ترّہ چو ایں عذر اے فضول مے نیاید نزد بقالے قبول!

ترجمہ: اے فضول آدمی جب ایک ترکاری کے بارے میں یہ عذر دکاندار کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔

-6-

چوں بدیں عذر اعتمادے مےکنی گردِ مار و اژدہا بر مےکنی

ترجمہ: جب تو اس (لغو و مہمل) عذر پر بھروسہ کرتا ہے تو سانپ اور اژدھے کے گرد پھر رہا ہے (یعنی اس عذر پر بھروسہ کر کے دین و دنیا میں اپنے خسارے کا سامان کر رہا ہے)

-7-

زیں چنیں عذر اے سلیمِ ناسبیل خون و مال و زن ہمہ کردی سبیل

ترجمہ: اے بیوقوف! غیر شریف! اس قسم کے عذر سے تو نے (دشمنوں کے لیے اپنا) خون اور مال اور عورت سب کچھ مباح کر دیا۔ (چنانچہ)

-8-

ہر کسے پس سُبلتِ تو بر کند عذر آرد خویش را مضطر کند

ترجمہ: پھر تو ہر شخص تیری مونچھیں نوچ لے گا۔ (ساتھ ہی اپنے غیر ذی اختیار ہونے کا) عذر کرے گا (اور) اپنے آپ کو (اس فعل پر) مجبور (قرار دے کر بے گناہ) ٹھہرائے گا۔

مطلب: اے جبری! جب تیرا عقیدہ یہ ہے کہ بندہ جو کچھ کرتا ہے بحکمِ خدا کرتا ہے خود بندے کو کچھ بھی اختیار حاصل نہیں۔ اس عقیدے سے تو خود اپنے لیے کانٹے بو رہا ہے۔ پھر کوئی شخص تو تیرا مال چرا لے جائے گا کوئی تیری عورت کو بھگا لے جانے کی کوشش کرے گا۔ اور کوئی تیری جان لینے کا قصد کرے گا۔ اور یہ تمام مجرم خود تیرے عقیدے کی پناہ میں اپنے آپ کو سزا سے محفوظ رکھ سکیں گے۔ اور کہیں گے کہ ہم نے خود یہ افعال نہیں کئے بلکہ خدا نے کرائے ہیں۔ پھر تو عدالت میں ان پر کوئی دعوٰی بھی نہیں کر سکے گا غرض تیرا یہ کہنا کہ بندہ جو کچھ کرتا ہے بحکمِ حق کرتا ہے خود تیرے لیے مضر ہے۔

-9-

حکمِ حق گر عذر مے شاید ترا پس بیاموز و بدہ فتویٰ مرا

ترجمہ: اگر حکم حق تیرے لیے (ارتکاب معاصی میں) عذر بن سکتا ہے۔ تو (مجھے بھی یہ عذر) سکھا دے اور میرے لیے فتوی دے دے (کہ میں بھی معاصی کا ارتکاب کر سکتا ہوں)

-10-

کہ مرا صد آرزو و شہوت ست دستِ من بستہ ز بیم و ہیبت ست

ترجمہ: کیونکہ میں (بھی) سینکڑوں آرزوئیں اور خواہشیں رکھتا ہوں۔ (اور ان کو پورا کرنے سے خدا کا) خوف اور ڈر میرے ہاتھ کو روکے ہوئے ہے۔ (اور جب تیرا فتویٰ ہو جائے گا کہ جو کچھ میں کروں گا وہ بحکمِ خدا ہوگا تو مجھے کوئی خوف نہ رہے گا)

-11-

پس کرم کن عذر را تعلیم دہ برکشا از دست و پائے من گرہ

ترجمہ: پس مہربانی کر کے مجھے یہ عذر سکھا دے (اور) میرے ہاتھ پاؤں سے قید اٹھا دے۔

-12-

اختیارے کردۂ تو پیشۂ کا ختیارے دارم و اندیشۂ

ترجمہ: (ایک اور دلیل سنو) تم نے ایک خاص پیشہ اختیار کر رکھا ہے (اور تم بخوبی جانتے ہو) کہ میں (اپنے لیے ہر پیشہ انتخاب کرنے کا) اختیار رکھتا ہوں اور (اتنی) سمجھ (بھی رکھتا ہوں کہ کونسا پیشہ میرے لیے مناسب ہو گا)

-13-

ورنہ چوں بگزیدہ آں پیش را از میان پیشہ ہا اے کد خدا

ترجمہ: اور اگر (تم کو اپنے اختیار کا یقین) نہیں تو اے صاحب تم نے اس پیشہ کو (تمام مختلف) پیشے میں سے کیونکر انتخاب کر لیا۔

-14-

چونکہ آید نوبتِ نفس و ہوا بیست مردہ اختیار آید ترا

ترجمہ: (یہ عجیب تماشہ ہے کہ) جب نفس اور خواہش (نفس) کی باری آتی ہے تو تم کو (اس خواہش کے پورا کرنے کے لیے) بیس مردوں کے برابر اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔

-15-

چوں برد یک حبہ از تو یار سود اختیارِ جنگ در جانت کشود

ترجمہ: (اور) جب کوئی حریف تم سے (تمہاری مرضی کے خلاف) ایک حبّہ فائدہ اٹھائے تو تمہاری جان میں اختیارِ جنگ (کا سلسلہ) پھیل جاتا ہے۔

-16-

چونکہ آید نوبتِ شکر نعم اختیارت نیست و از سنگے تو کم

ترجمہ: (بخلاف اس کے) جب (خداداد) نعمتوں کے شکریہ (کے لیے طاعت و عبادت بجا لانے) کی نوبت آتی ہے تو (پھر) تم کو (ان کے بجا لانے کا) اختیار (حاصل) نہیں اور تم ایک پتھر سے (بھی) کم رتبہ ہو۔

-17-

دوزخت را عذر ایں باشد یقیں کاندریں سوزش مرا معذور بیں

ترجمہ: (خیر خاطر جمع رکھو کہ اگر تم دنیا کے اندر ترکِ طاعات اور ارتکابِ منہیات میں معذور ہو۔ تو آخرت میں) تمہاری دوزخ کو (بھی) یقیناً یہ عذر ہوگا کہ اس سوزش میں مجھ کو معذور سمجھو۔

-18-

کس بدیں حجت چو معذورت نداشت وز کفِ جلاد ایں دورت نداشت

-19-

چوں بدیں داور جہاں منظوم شد حالِ آں عالم یقیں معلوم شد

ترجمہ: جب کسی نے تم کو اس حجت سے معذور نہیں سمجھا۔ اور (ارتکابِ قتل کی صورت میں) اس (حجت) نے تم کو جلاد کے ہاتھ سے محفوظ نہیں رکھا (اور) جب اس (دنیاوی حاکم) عادل (کے قانون مجازات) سے دنیا کا انتظام قائم ہے تو اگلے عالم کا حال بھی یقیناً معلوم ہو گیا (کہ وہاں بھی مجبوری و معذوری کا بہانہ نہیں چلے گا۔ اور ہر عمل کی سزا و جزا ملے گی)