دفتر 5 حکایت 139: وجدان کے ساتھ احساس کرنا۔ جیسے اختیار اور مجبوری اور غصہ اور صبر اور سیری اور بھوک بمنزلہ حس کے ہے۔ جو زرد کو سرخ سے (الگ) سمجھتی ہے اور فرق کرتی ہے۔ اور چھوٹے کو بڑے سے اور کڑوے کو میٹھے سے اور مشک کو گوبر سے اور سخت کو نرم سے اور گرم کو سرد سے اور تیز گرم کو نیم گرم سے اور تر کو خشک سے اور دیوار کے چھونے کو درخت کے چھونے سے۔ پس وجدان سے انکار کرنے والا، حس کا انکار کرنے والا ہے اور اس سے بھی زیادہ کیونکہ وجدان حِس سے زیادہ ظاہر ہے۔ کیونکہ حس کو بند کر سکتے اور احساس سے روک سکتے ہیں اور وجدانیات کے راستے و دخل کو بند کرنا ممکن نہیں ہے اور عقل مند کو ایک اشارہ کافی ہے

دفتر پنجم: حکایت: 139


درک وجدانی چوں اختیار و اضطرار و خشم و اصطبار و سیری و ناہار بجائے حسّے ست کہ زرداز سرخ بداند و فرق کند۔ و خُرداز بزرگ و تلخ از شیریں، و مشک از سرگیں، و درشت از نرم و گرم از سرد، و سوزاں از شیر گرم، و تراز خشک، و مسّ دیوار از مسّ درخت، پس منکرِ وجدان منکرِ حِس بود، و زیادہ کہ وجدان از حِس ظاہر ترست زیر ا حِس راتواں بستن و منع کردن از احساس و بستن راہ و مدخلِ وجدانیات را ممکن نیست وَالعَاقِلُ تَکفِیہِ الاِشَارَۃُ

وجدان کے ساتھ احساس کرنا۔ جیسے اختیار اور مجبوری اور غصہ اور صبر اور سیری اور بھوک بمنزلہ حس کے ہے۔ جو زرد کو سرخ سے (الگ) سمجھتی ہے اور فرق کرتی ہے۔ اور چھوٹے کو بڑے سے اور کڑوے کو میٹھے سے اور مشک کو گوبر سے اور سخت کو نرم سے اور گرم کو سرد سے اور تیز گرم کو نیم گرم سے اور تر کو خشک سے اور دیوار کے چھونے کو درخت کے چھونے سے۔ پس وجدان سے انکار کرنے والا، حس کا انکار کرنے والا ہے اور اس سے بھی زیادہ کیونکہ وجدان حِس سے زیادہ ظاہر ہے۔ کیونکہ حس کو بند کر سکتے اور احساس سے روک سکتے ہیں اور وجدانیات کے راستے و دخل کو بند کرنا ممکن نہیں ہے اور عقل مند کو ایک اشارہ کافی ہے۔

مطلب: درک کے معنی ہیں معلوم کرنا۔ اس کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک حِس ہے اور وہ یہ ہے کہ دیکھنے یا سننے یا سونگھنے یا چھونے کی طاقت سے کوئی بات محسوس ہو۔ ایک قسم وجدان ہے جو حِس سے زیادہ لطیف ہے اور وہ یہ ہے کہ نفس کو احساس کی مذکورہ طاقتوں کے بغیر مشاہدہ باطن کے ذریعہ کوئی بات محسوس ہو جائے یا یوں کہو کہ نفس پر کوئی ایک خاص کیفیت بن کر طاری ہو جائے۔ جیسے غصہ، صبر، سردی، گرسنگی وغیرہ کی یہ باتیں حواسِ ظاہر سے محسوس نہیں کی جا سکتیں اور باوجود اس کے نفس ان کو بخوبی محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس وجدان کہلاتا ہے۔ بندے کا اختیار بھی وجدانیات سے ہے۔ جبریہ فرقہ جو اختیار کا انکار کرتا ہے تو وہ گویا وجدان کا منکر ہے اور وجدان کا منکر حس کے منکر کے برابر ہے۔ یعنی اس کی وہ مثال ہے جیسے آنکھیں کھول کر سب کچھ دیکھے اور کہے بصارت کوئی چیز نہیں۔ کانوں سے سب کچھ سنے اور کہے سماعت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ بلکہ وجدان کا منکر حس کے منکر سے بھی زیادہ احمق ہے۔ کیونکہ بصارت و سماعت وغیرہ حواس تو کبھی نہ کبھی آلاتِ حواس کو بند کرنے سے مسدود یا ان کے بیکار ہونے سے باطل ہو سکتے ہیں مگر وجدان کبھی معطل نہیں ہوتا۔ جب تک انسان زندہ ہے وجدانی طاقت ہمیشہ اپنا کام کرتی ہے۔ پس ایسی چیز کا انکار جو کبھی معدوم نہیں ہوتی سراسر جہالت ہے۔

-1-

درکِ وجدانی بجائے حس بود ہر دو در یک جدول اے عم میرود

ترجمہ: وجدان کے ذریعہ کچھ معلوم ہونا بمنزلہ حِس کے ہے اے بزرگ (حس اور وجدان) دونوں ایک نہر میں رواں ہیں۔

-2-

نغز مےآید برو کن یا مکن امرونہی و ماجرا یا در سخن

ترجمہ: اسی (اختیار کی بنا) پر کرو یا نہ کرو کا حکم اور نہی اور گفتگو میں تکرار مناسب معلوم ہوتا ہے۔


-3-

اینکہ فردا ایں کنم یا آن کنم ایں دلیل اختیار ست اے صنم

ترجمہ: یہ بات (کہنا) کہ میں کل کو یہ کروں گا یا وہ کروں گا۔ اے محبوب! یہ اختیار کی دلیل ہے۔

-4-

وان پشیمانی کہ خوردی از بدی ز اختیارِ خویش گشتی مُہتدی

ترجمہ: اور وہ پشیمانی (محسوس کر کے) جو تم کو کسی بُری بات (کے ارتکاب) سے پیش آتی ہے اپنے اختیار سے آگاہ ہو گئے ہو۔

-5-

جملہ قرآں امرونہی ست و وعید امر کردن سنگِ مرمر را کہ دید؟

ترجمہ: تمام قرآن حکم اور نہی اور (عذاب کی) دھمکی (پر مشتمل) ہے (جو بندے کو اختیار حاصل ہونے کی دلیل ہے) سنگ مرمر کو (اختیار حاصل نہیں تو اس کو) حکم دیتے (بھی) کس نے دیکھا ہے۔

مطلب: بندے کو حکم اور نہی کی جاتی ہے۔ سنگِ مرمر وغیرہ جمادات کو نہیں کی جاتی۔ جو اس کی ایک روشن دلیل ہے کہ بندہ بااختیار ہے اور جمادات بےاختیار۔

-6-

ہیچ دانا، ہیچ عاقل ایں کند با کلوخ و سنگ خشم و کیں کند

ترجمہ: بھلا کوئی دانا (اور) کوئی عقل مند یہ (فضول حرکت) کرتا ہے کہ ڈھیلے اور پتھر پر (یوں) ناراضگی و خفگی (کا اظہار) کرے۔

-7-

کہ نگفتم کہ چنیں کن یا چُناں چوں نکردید اے موات و عاجزاں

ترجمہ: کہ کیا میں نے (تم کو) یہ نہیں کہا تھا کہ اس طرح کر دیا اُس طرح۔ اے بے جانو اور بیکارو تم نے کیوں نہ مانا۔

-8-

عقل کے حکمے کند بر چوب و سنگ مرد جنگی چوں زند بر نقش جنگ

ترجمہ: عقل لکڑی اور پتھر پر کب حکم کرتی ہے۔ جنگجو آدمی تصویر پر حملہ آور کب ہوتا ہے۔

-9-

کاے غلامِ بستہ دست اشکستہ پا نیزہ برگیرد بیا سوئے وَغا

ترجمہ: (اور یہ کب کہتا ہے) کہ اے (تصویری) غلام جس کے ہاتھ بےکار اور پاؤں ناکارہ ہیں۔ نیزہ پکڑ، اور جنگ کی طرف آ۔

مطلب: ظاہر ہے کہ تصویر کا نقش بے حس و حرکت اور غیر ذی اختیار ہوتا ہے۔ اس لیے وہ غیر مکلّف ہے اسی طرح اگر انسان بھی غیر ذی اختیار ہوتا تو اعمال پر مکلّف نہ ہوتا۔ پھر اس کو طاعت و عبادات بجا لانے اور محرمات و معاصی سے بچنے کا حکم دینا ایسا ہی ہوتا۔ جیسے نقشِ تصویر کو ہتھیار لگانے اور جنگ کرنے کا حکم دیا جائے جب یہ فعل سراسر لغو اور بیہودہ نظر آتا ہے۔ تو حق تعالیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اس نے ایک غیر ذی اختیار مخلوق کو طاعت و عبادت وغیرہ کا حکم دیا ہے۔ معاذ اللہ اس کے ساتھ لغو کام کو منسوب کرنا ہے۔ تعالیٰ اللہ من ذالک علواً کبیراً۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

-10-

خالقے کو اختر و گردوں کند امرونہیِ جاہلانہ چوں کند

ترجمہ: جو خالق (تعالیٰ شانہ ایسی حکمتِ بالغہ سے موصوف ہے کہ وہ) ستارے اور آسمان (جیسی عالیشان مخلوق) پیدا کرنے والا ہے وہ ایسا جاہلانہ امر و نہی کیوں کرنے لگا تھا (کہ غیر ذی اختیار مخلوق کو اس سے خطاب کرتا)

-11-

احتمالِ عجز بر حق را ندی جاہل و گیچ و سفیہش خواندی

ترجمہ: (اگر تیرا یہی خیال ہے تو) تو نے حق تعالیٰ پر (حکمت و تدبیر سے) عاجز آ جانے کا احتمال قائم کیا۔ (اور معاذ اللہ اس کو جاہل و پراگندہ مغز اور سفیہ کہا (توبہ توبہ کسی مسلمان سے ایسی گستاخی متوقع نہیں۔ یہ حصہ نمرود و فرعون جیسے سرکش کفار کا ہی ہو سکتا ہے)

-12-

عجز نبود در قدر در خود شود جاہلی از عاجزی بدتر بود

ترجمہ: (فرقہ) قدریہ (کے عقیدے) میں (حق تعالیٰ کی) عاجزی (لازم) نہیں (آتی) اور اگر (آتی) ہو تو جاہلی عاجزی سے بدتر ہے۔ (جو جبریہ کے عقیدے میں لازم آتی ہے)

مطلب: قدریہ فرقے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ خالقِ خیر حق تعالیٰ اور خالقِ شر نفس و شیطان ہیں۔ جبریہ ان کو الزام دیتے ہیں کہ تم خلقِ شر کو نفسِ شیطان سے منسوب کرتے ہو۔ اس سے لازم آتا ہے کہ حق تعالیٰ شر کو پیدا کرنے سے عاجز ہے۔ وہ جواباً کہتے ہیں کہ اس سے حق تعالیٰ کا عجز لازم نہیں آتا۔ کیونکہ نفس و شیطان بھی اللہ کی مخلوق ہیں تو ان کی پیدا کی ہوئی چیز بھی فی الحقیقت خدا ہی کی مخلوق ہوئی۔ پھر وہ جبریہ کو الزاماً کہتے ہیں کہ اگر بالفرض ہمارے عقیدے میں حق کا عجز لازم آئے بھی تو وہ حق کے جہل سے بدتر نہیں ہے جو تمہارے مذہب میں لازم آتا ہے۔ یعنی تم کہتے ہو کہ بندہ غیر ذی اختیار ہے۔ پس حق تعالیٰ کا کسی غیر ذی اختیار مخلوق کو ایسے اوامر و نواہی سے خطاب کرنا جس کی تعمیل کوئی ذی اختیار ہی کر سکتا ہے صاف جہل ہے۔ آگے جبر کی تردید میں ایک مثال پیش فرماتے ہیں:

-13-

ترک مےگوید قنق را از کرم بےسگ و بےدلق آسوئے درم

ترجمہ: ترک (اپنے) مہمان کو ازراہِ مہربانی کہتا ہے کہ (کسی) کتے (کو ساتھ لیے) اور گڈری (پہنے) بدون میرے دروازے کی طرف (آنا)۔

-14-

وز فلاں سو اندر آہیں با ادب تا سگم بندد ز تو دندان و لب

ترجمہ: اور فلاں دروازے سے شریفانہ انداز میں داخل ہونا۔ تاکہ میرا کتا تم سے اپنے دانت اور لب بند رکھے (اور حملہ آور ہو کر گزندنہ پہنچائے)

مطلب: ترک صحرا نشین قوم ہے۔ اپنی اور اپنے مال کی حفاظت کے لیے بڑے بڑے خونخوار کتے پالتے ہیں اور کتے کا قاعدہ یہ ہے کہ غیر کتے کو یا کسی گڈری پوش کو یا اینڈی بینڈی رفتار والے کو دیکھ کر حملہ کرتا ہے۔ اس لیے ترک اپنے مہمان کو کہتا ہے۔ کہ میاں کوئی کتا ساتھ نہ لانا۔ کسی قسم کا فقیرانہ لباس پہن کر نہ آنا اور چال ڈھال میں کوئی انوکھا انداز اختیار نہ کرنا ورنہ ہمارے کتے بگڑ جائیں گے۔ اسی طرح حق تعالیٰ طالبانِ قرب کو فرماتا ہے۔ کہ طبعِ نفسانی کے کتے کو ہمراہ نہ رکھو۔ منہیات و معاصی کا لباس نہ پہنو اور رفتارِ عمل کو غیر مستقیم نہ ہونے دو۔ پھر شیطان تم پر مسلط نہ ہو سکے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر بندہ مختار نہ ہوتا تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ فہمائشیں کیوں ہوتیں۔ بلکہ بندے کو اختیار حاصل ہے کہ خواہ ان احکام کی تعمیل کر کے شیطان کی گرفت سے بچ جائے یا ان کی خلاف ورزی کر کے شیطان کے قابو میں آ جائے۔ اور شیطان کو اختیار حاصل ہے کہ جس بندے کو ان احکامات کی خلاف ورزی کرتے دیکھے اس کو اپنی گرفت میں لے لے۔ پس بندے پر نہ حق کی طرف سے جبر ہے نہ شیطان کی طرف سے اور نہ شیطان پر جبر ہے۔ مگر بہت سے بندے ان احکام خداوندی کی خلاف ورزی کر کے شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں جو ان کے بااختیار ہونے کی روشن دلیل ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

-15-

تو بعکسِ آں کنی بر در روی لاجرم از زخمِ سگ خستہ شوی

ترجمہ: (مگر) تم اس کے برعکس (عمل) کرتے ہو۔ اور دروازے پر (اسی طرح) چلے جاتے ہو۔ اس لیے کتے کے زخم سے مجروح ہو جاتے ہو۔(آگے مولانا بمناسبت مقام ہدایت فرماتے ہیں۔)

-16-

آنچناں رو کہ غلاماں رفتہ اند تا سگش گردد حلیم و مہرمند

ترجمہ: (پس تم اس درگاہ پر) اس طرح جاؤ (جس طرح) کہ (دوسرے محتاط) بندے جاتے ہیں۔ تاکہ اس کا کتا (شیطان) تمہارے لیے حلیم اور بالحاظ بن جائے۔

-17-

تو سگے با خود بری یا رو بہے سگ بشو رو از بُنِ ہر خر گہے

ترجمہ: (مگر) تم اپنے ساتھ کتا یا لومڑی لیے جاتے ہو (جس کو دیکھ کر) ہر خیمہ کے گوشے سے (کوئی نہ کوئی) کتا بھونکنے لگتا ہے۔ (آگے پھر اثباتِ اختیار کے متعلق فرماتے ہیں)

-18-

غیر حق را گر نباشد اختیار خشم چوں مے آیدت بر جرم دار

ترجمہ: اگر حق تعالیٰ کے سوا کسی اور کو (فعل کا) اختیار نہ ہو۔ تو (اس سے لازم آتا ہے کہ مجرم ارتکابِ جرم بھی اپنے اختیار سے نہیں کرتا) پھر تم کو مجرم پر غصہ کیوں آتا ہے۔

-19-

چوں ہمے خائی تو دنداں بر عدو چوں ہمے بینی گناہ و جرم ازو

ترجمہ: جب تم دشمن سے گناہ و جرم سرزد ہوتا دیکھتے ہو تو اس پر دانت کیوں پیستے ہو۔

-20-

گر زِ سقفِ خانہ چوبے بشکند بر تو افتد سخت مجروحت کند

ترجمہ: اگر گھر کی چھت سے ایک لکڑی ٹوٹ کر تم پر گرے (اور) تم کو زخمی کر دے۔

-21-

ہیچ خشمے آیدت بر چوبِ سقف ہیچ اندر کینِ او باشی تو وقف

ترجمہ: تو کیا تمہیں چھت کی لکڑی پر غصہ آئے گا۔ کیا بھلا اس کی دشمنی پر تم وقف رہوگے۔

-22-

کہ چرا بر من زد و دستم شکست یا چرا بر من فتاد و کرد پست

ترجمہ: کہ وہ میرے کیوں لگی اور میرا ہاتھ توڑ ڈالا۔ یا کیوں مجھ پر گری اور (مجھے) گرا دیا۔

-23-

او عدوّے جان و خصمِ تن بدست قاصداً در بندِ خونِ من بدست

ترجمہ: وہ نالائق لکڑی پہلے سے میری جان کی دشمن اور (میرے) بدن کی بیرن تھی۔ اس لیے قصداً میرے خون کا ارادہ کیا۔

-24-

کودکانِ خورد راچوں مےزنی چوں بزرگاں را منزہ مےکنی

ترجمہ: جب تم بڑے لوگوں کو (حصولِ اختیار سے) مبرّا سمجھتے ہو۔ تو چھوٹے بچوں کو (شرارتوں پر) سزا کیوں دیتے ہو۔ (ان کو بھی بےاختیار سمجھ کر معاف رکھو)

-25-

آں کہ دزد و مالِ تو گوئی بگیر دست و پالیش را ببر سازش اسیر

ترجمہ: جو شخص تمہارا مال چرا لیتا ہے تو (پولیس کے سپاہی سے) کہتے ہو اس کو پکڑ لو۔ اس کے ہاتھ پاؤں (شرعی فیصلے کے موافق) کاٹ ڈالو۔ (اور) اس کو قید کر لو۔ (پس تم چور کو بےاختیار سمجھ کر معاف کیوں نہیں کر دیتے)

-26-

وانکہ قصدِ عورتِ تو مےکند صد ہزاراں خشم از تو سر زند

ترجمہ: اور جو شخص تمہاری عورت پر دست اندازی کرنے لگتا ہے۔ تو (اس کے خلاف) لاکھوں غصے تم سے ظاہر ہوتے ہیں (کیوں جی! بے اختیار پر غصہ کیسا؟)

-27-

ور بیاید سیل و رختِ تو بُرد ہیچ با سیل آورد کینے خرد

ترجمہ: اگر سیلاب آئے اور تمہارے اسباب بہا لے جائے تو کیا کوئی عقل سیلاب سے ناراض ہوگی (ہر گز نہیں پھر تمہارے نزدیک چور اور دست اندازی کرنے والا بھی تو سیلاب کی طرح بے اختیار ہے ان پر کیوں خفا ہوتے ہو)

-28-

گر بیاید باد و دستارت ربود کے ترا با باد دل خشمے نمود

ترجمہ: اگر ہوا آئے اور تمہاری پگڑی کو اڑا لے جائے تو تمہارا دل ہوا پر کب ناراض ہوتا ہے۔ (اسی طرح چور بھی تو تمہارے نزدیک بےاختیار ہے۔ اس پر کیوں ناراض ہوتے ہو)

-29-

خشم در تو شد بیانِ اختیار تا نگوئی جبریانہ اعتذار

ترجمہ: (چور وغیرہ مجرموں کے خلاف) تمہارے اندر غصہ (پیدا ہونا ان مجرموں کے) اختیار کی دلیل ہے۔ تاکہ تم جبری لوگوں کی طرح بہانے نہ کرو۔

-30-

گرشتر بان اشترے را مےزند آں شتر قصدِ زنندہ مےکنند

ترجمہ: اگر ساربان ایک اونٹ کو (لاٹھی سے) مارتا ہے تو وہ اونٹ مارنے والے کا قصد کرتا ہے۔

-31-

خشمِ اشتر نیست با آں چوبِ او پس ز مختاریِ شتر بردست بُو

ترجمہ: اونٹ کو اس کی لاٹھی پر غصہ نہیں آتا۔ پس اونٹ (بھی) مختاری کے راز کو سمجھ گیا۔ (یعنی اگرچہ وہ لاٹھی کی ضرب کو محسوس کرتا ہے۔ مگر اس کو بےاختیار سمجھ کر لاٹھی والے پر حملہ کرتا ہے کہ فاعل مختار وہ ہے)

-32-

ہمچنیں گر بر سگے سنگے زنی بر تو آرد رود گردد مُنثنی

ترجمہ: طرح اگر تم کسی کتے پر پتھر مارو تو تمہاری طرف رُخ کر کے لوٹ پڑے گا۔

-33-

سنگ را گر گیرد از خشم تو است چوں تو دوری و ندارد بر تو دست

ترجمہ: اگر وہ پتھر کو (منہ میں) پکڑتا ہے تو یہ (بھی) تم پر غصہ ظاہر کرنے کی وجہ سے ہے۔ جبکہ تم دور ہو اور وہ تم پر قابو نہیں پا سکتا۔

-34-

عقلِ حیوانی چو دانست اختیار ایں مگو اے عقلِ انساں شرم دار

ترجمہ: جب حیوان کی عقل (بھی) اختیار کو سمجھتی ہے تو اے انسان کی عقل تو اس (جبر) کی قائل نہ ہو شرم کر۔

-35-

روشن ست ایں لیک از طمعِ سحور آں خورند چشم بر بندد ز نور

ترجمہ: یہ (بات) روشن ہے۔ لیکن سحری کی طمع سے وہ (سحری) کھانے والا (صبح کی) روشنی سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

-36-

چونکہ کلی میل آں ناں خوردنے ست رُو بتاریکی کند کہ روز نیست

ترجمہ: چونکہ اس کی پوری خواہش روٹی کھانے کی ہے (اس لیے) وہ تاریکی کی طرف منہ کر لیتا ہے (اور اپنے دل کو تسلی دیتا ہے) کہ دن نہیں (چڑھا)۔

مطلب: جس طرح حریص طعام سحری کھاتے وقت دن چڑھنے اور روزہ فاسد ہونے کی پرواہ نہیں کرتا اور صبح کی روشنی نمودار ہونے کے باوجود کوٹھڑی کے اندھیرے کو رات کی تاریکی قرار دے کر کھاتا پیتا رہتا ہے۔ اسی طرح جبری بھی اختیار اعمال کے اظہر من الشّمس ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اعمال کی ذمہ داری سے سبکدوش رکھنے کی طمع میں یہی رٹ ہانکے جاتا ہے کہ بندہ عدیم الاختیار ہے۔ غرض:

-37-

حرص چوں خورشید را پنہاں کند چہ عجب گر پشت بر بُرہاں کند

ترجمہ: حرص جب سورج (جیسی درخشاں چیز) کو (نظر سے) اوجھل کر سکتی ہے تو کیا تعجب ہے کہ دلیل کی طرف (بھی) پشت کر لے (جو سورج کے برابر روشن نہیں ہو سکتی)

-38-

ایں مثل بشنو مشو منکر بداں اختیارِ خویش را در امتحاں

ترجمہ: یہ مثال سُنو (اور) اس کے باوجود امتحان کے وقت اپنے اختیار سے انکار نہ کرو۔