دفتر پنجم: حکایت: 138
جواب مومنِ سنی کافرِ جبری رادر اثباتِ اختیارِ بندہ و دلیل گفتن کہ سنت را ہے ست کو فتہ اقدامِ انبیاء و بر یمینِ آں راہِ بیابانِ جبرست کہ خود را اختیار نہ بیندو امر ونہی را منکر شود و تاویل کند از منکر شدنِ امر و نہی لازم آید انکارِ بہشت و دوزخ کہ بہشت جزائے مطیعان ست و دوزخ جزائے مخالفاں و دیگر نگویم بچہ انجامد وَالعَاقِلُ تَکفِیہِ الِاشَارَۃُ و بریسار آں راہِ بیابان قدرست کہ قدرتِ خالق را مغلوبِ قدرتِ خلق داند
مومن سنی کا کافر جبری کو جواب دینا۔ بندہ کا اختیار ثابت کرنے میں اور دلیل بیان کرنا کہ سنت انبیاء علیہم السلام کا استعمالی راستہ ہے اور اس راستے کے دائیں طرف جبر کا جنگل ہے جو اپنا اختیار نہیں دیکھتا اور امر و نواہی کا انکار کرتا ہے اور تاویل کرتا ہے (اور) امر و نہی کے انکار سے بہشت و دوزخ کا انکار لازم آتا ہے۔ کہ (جن میں سے) بہشت اہلِ طاعات کی جزا ہے۔ اور دوزخ مخالفوں کی سزا ہے۔ اور اس سے آگے میں نہیں کہتا کہ کیا انجام ہوگا۔ اور عاقل کو اشارہ کافی ہے۔ اور اس راستہ سے بائیں طرف قدر کا جنگل ہے۔ جو خالق کی قدرت کو مخلوق کی قدرت سے مغلوب جانتا ہے۔
مطلب: یہ بحث ایک مومن اور آتش پرست کافر کے مابین جاری ہے۔ مومن کے ساتھ سُنی کی قید اس لیے لگائی ہے کہ فرقہ جبریہ دراصل اسلام کے گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے۔ لہٰذا جبریہ بھی اپنے آپ کو مومن و مسلم کہتے ہیں۔ پس سنی کے الفاظ سے یہ توضیح ہو گئی کہ وہ مسلمان آدمی اسلام کے ناجی فرقہ سے تھا۔ جس کو اہلِ سنت و الجماعت کہتے ہیں۔ اور وہ جبریہ، قدریہ اباضیہ، باطنیہ، رافضیہ، خارجیہ وغیرہ تمام گمراہ فرقوں کے ناپاک عقائد کی آلائش سے پاک ایک مقبول فرقہ ہے۔ کافر کے ساتھ جبری کا لفظ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس آتش پرست کا عقیدہ اسلام کے فرقہ جبریہ کے مشابہ تھا اور اس وقت وہ مسئلہ جبر کی تائید میں ہی گفتگو کر رہا ہے۔ مطلق کافر سے یہ شبہ ہوتا تھا کہ شاید وہ کسی دوسرے کفریہ عقیدے میں بحث کر رہا ہے اور مطلق جبری کہنے میں یہ اشتباہ تھا کہ شاید وہ اسلام کے جبریہ فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔
-1-
گفت مومن بشنو اے جبری خطابآنِ خود گفتی نِک آوردم جواب
ترجمہ: مومن نے کہا اے جبری (اب میری) بات سن۔ تو نے تو اپنی کہہ لی۔ دیکھ اب میں جواب دیتا ہوں۔
-2-
بازیِ خود کردی اے شطرنج بازبازیِ خصمت ببیں پہن و دراز
ترجمہ: اے (بحث و مباحثہ کے) شطرنج باز تو نے اپنی بازی دکھا دی (اب) اپنے حریف کی لمبی چوڑی بازی بھی دیکھ۔
-3-
نامہ عذرِ خودت بر خواندینامہ سنّی بخواں چہ ماندی
ترجمہ: تو نے اپنی عذر کی کتاب پڑھ (کر سنا) لی۔ اب سنی کی کتاب بھی پڑھ (پھر تیری آنکھ کھلے گی کہ تو) کیسا (گمراہی میں) مبتلا ہے۔
-4-
آنچہ گفتی جبریانہ، در قضاسرِّ آں بشنو زِ من در ماجرا
ترجمہ: جو کچھ تو نے جبری مذہب والوں کی طرح قضا کے بارے میں کہا ہے۔ اس کا راز (اس) بحث میں مجھ سے سن لے۔
-5-
اختیارے ہست ما را در جہاںحسِّ را منگر نتانی شد عیاں
ترجمہ: ہم کو جہان میں اختیار حاصل ہے۔ تو ایسی ظاہری محسوس کا انکار نہیں کر سکتا۔
-6-
اختیارِ خود ببیں جبری مشورہ رہا کردی، برہ آ، کج مرو
ترجمہ: تو اپنے اختیار کو دیکھ (جو تجھے اپنے افعال میں حاصل ہے) جبری نہ بن تو نے (سیدھا) راستہ چھوڑ دیا (اب) راستے پر آ۔ ٹیڑھا نہ چل۔
-7-
سنگ را ہرگز نگوید کس بیاوز کلوخے کس کجا جوید وفا
ترجمہ: پتھر کو ہر گز کوئی (یہ) حکم نہیں دیتا کہ ادھر آ۔ اور مٹی کے ڈھیلے سے کوئی حکم بجا لانے کا طالب کب ہے۔ (کیونکہ اس کو اختیار حاصل نہیں۔ لیکن انسان کو جو حکم دیا گیا ہے کہ نیک اعمال کرے اور برے اعمال سے بچے تو معلوم ہوا اس کو اعمال کا اختیار حاصل ہے)
-8-
آدمی را کس کجا گوید بپریا بیا اے کور و در من در نگر
ترجمہ: (ہاں جن امور میں) آدمی کو (اختیار حاصل نہیں۔ ان کا حکم بھی نہیں دیا جاتا۔ چنانچہ اسے) کب کوئی کہتا ہے کہ پرواز کرو یا یوں کون کہتا ہے کہ اندھے آ اور مجھے دیکھ۔
-9-
گفت یزداں مَا عَلیَ الاَعمٰی حَرَجکے نہد بر ما حرج رب الفرج
ترجمہ: (چنانچہ) حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اندھے پر کوئی تنگی نہیں (اور یہ معذور کے غیر مامور ہونے کی دلیل ہے پس) وہ کشایشوں کا پروردگار ہم پر تنگی کیوں ڈالنے لگا ہے۔
مطلب: یعنی اگر ہم غیر مختار اور مجبور ہوتے تو حق تعالیٰ ہم کو اعمال پر مکلّف و مامور کیوں کرتا پہلے مصرعہ میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے: لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ (النور:61) نہ اندھے کے لیے کچھ مضائقہ ہے اور نہ لنگڑے کے لیے کچھ مضائقہ ہے اور نہ بیمار کے لیے کچھ مضائقہ ہے اور نہ (عموماً) تم مسلمانوں کے لیے کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے ماں باپ کے گھر سے یا اپنی ماں کے گھر سے۔ اس آیت سے یہ تعلیم مقصود ہے کہ اگر کوئی معذور و محتاج روٹی کا گزارہ اپنے اقارب کے گھر میں کر سکے یا اہلِ قرابت ازد یادِ محبت کے لیے باہم دعوت و ضیافت کریں کرائیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔ مگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود شروع کے کلمات سے ظاہری مفہوم ہے۔
-9-
کس نگوید سنگ را دیر آمدییا کہ چوبا! تو چرا بر من زدی
ترجمہ: (کوئی مجبور و غیر مختار چیز جس طرح مامور نہیں مسئول بھی نہیں چناچہ) پتھر کو کوئی نہیں کہتا کہ تو دیر سے آیا۔ (بلکہ یہ جواب دہی پتھر کو لانے والے کے ذمہ ہے) یا لکڑی کو کوئی نہیں کہتا کہ اے لکڑی تو نے میرے (چوٹ) کیوں ماری۔ (یہ سوال لکڑی مارنے والے سے ہو گا)
-10-
ایں چنیں وا جُست ہا مجبور راکس نگوید یا زند معذور را
ترجمہ: ایسی جواب طلبیاں مجبور سے کوئی نہیں کرتا۔ یا معذور کو کوئی (اس بات پر) نہیں مارتا (کہ اس نے فلاں کام نہیں کیا) جس میں وہ معذور تھا۔
-11-
امر و نہی و خشم و تشریف و عتیبنیست جز مختار را اے پاک جیب
ترجمہ: (غرض) اے پاک دل! حکم اور ممانعت اور ناراضگی اور انعام اور عتاب اہلِ اختیار کے سوا اور کسی کے لیے نہیں (اور جب بندے کے لیے یہ تمام وعدہ وعید مسلم ہیں تو ثابت ہوا کہ وہ با اختیار ہے)
-12-
اختیارت ہست در ظلم و ستممن ازیں شیطاں و نفس ایں خواستم
ترجمہ: تجھ کو ظلم و ستم (کرنے) میں اختیار حاصل ہے (خواہ تو اس کا مرتکب ہو یا اس سے بچے) میری مراد اس نفس و شیطان سے یہی (تیرے اختیار کی طاقت) تھی۔
-13-
اختیار اندر درونت ساکن ستتا ندید او یوسفے کف را نخست
ترجمہ: (کسی کام کے کرنے یا اس سے بچنے کا) اختیار تیرے باطن میں قائم ہے۔ جب تک وہ کسی یوسف کو نہ دیکھے۔ ہاتھ کو زخمی نہیں کرتا۔
مطلب: زلیخا نے زنانِ مصر میں اپنی عشق بازی کا چرچا سنا تو ان پر اپنی مجبوری ظاہر کرنا چاہی اور اس کے لیے ان کو ایک ضیافت دی۔ قسم قسم کے مکلّف کھانے کھلائے۔ آخر میں حسبِ دستور تقویتِ ہاضمہ کے لیے ان کے آگے ایک ایک ترنج اور ایک ایک چھری لا رکھی کہ کاٹیں اور کھائیں۔ ادھر انہوں نے چھریاں ترنجوں پر چلانے کے لیے اٹھائی تھیں کہ ادھر حضرت یوسف علیہ السلام کو اشارہ ہوا کہ ان عورتوں کے سامنے جا کھڑے ہوں۔ جو اسی غرض سے پوری آراستگی کےساتھ اندر بٹھائے گئے تھے۔ اس آفتابِ جمال کا دلربائی کی پوری قوتوں کے ساتھ سامنے آنا تھا کہ عورتیں بیخود ہو گئیں اور چھریاں ترنجوں کے بجائے ان کے ہاتھوں پر چل گئیں۔ قرآن مجید میں اس واقعہ کا ذکر یوں آیا ہے۔ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هَـٰذَا بَشَرًا (یوسف:31) اس روایت کی تلمیح سے یہاں مقصود یہ ہے کہ ان عورتوں کی سرشت میں حسن پسندی کا جذبہ ودیعت تھا۔ جو ایک حسین کے سامنے آنے سے نمودار ہو گیا۔ جب تک حسن کا کوئی اعلیٰ نمونہ سامنے نہیں آجاتا وہ جذبہ بروئے کار نہیں آتا۔ لیکن اس حالت میں اس جذبے کے وجود سے انکار نہیں ہو سکتا۔ وہ جذبہ ہے اور ضرور ہے۔ لیکن وہ کسی محرکِ تحریک سے ظہور کرتا ہے۔
-14-
اختیار و داعیہ در نفس بودرُوش دید آنگہ پر و بالے کشود
ترجمہ: (حسن کو) قبول کرنے اور چاہنے کی طاقت (ان عورتوں کے) نفس میں (پہلے سے موجود) تھی جونہی اس (آفتابِ جمال) کا چہرہ دیکھا۔ اسی وقت (اس طاقت نے) پر اور بازو کھول دیے۔
مطلب: اختیار و اجتناب کی طاقتیں ہر شخص میں ودیعت ہیں جو اپنے وقت پر ظہور کرتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص کسی چور کو دیکھتا ہے کہ وہ ایک رات کی تگ و دو سے ایک ہزار روپیہ کہیں سے اڑا لایا۔ اور اتنی دولت سال بھر کی محنت و مشقت سے بھی میسر نہیں آتی۔ اب اس شخص کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اور اس کے اختیار کی طاقت جوش میں آئی۔ چنانچہ وہ چوری کا مرتکب ہو گیا۔ پس چوری کا میلان و رجحان اس شخص کی طبیعت میں قدرتاً ودیعت تھا۔ جس نے ایک خارجی تحریک سے ظہور کیا۔ جب تک وہ خارجی تحریک برسرِ کار نہیں آئی تھی۔ اس نے اس فعل کو اختیار نہیں کیا تھا۔ لیکن ایسی حالت میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی سرشت میں اختیارِ سرقہ کی صلاحیت موجود نہیں۔ بخلاف اس کے جن لوگوں میں اجتناب کی قوت غالب ہے وہ خوفِ آخرت، احتمالِ گرفتاری اور اندیشہ فضیحت کی وجہ سے کبھی یہ کام اختیار نہیں کرتے۔ خواہ صد ہا خارجی تحریکات ان کے سامنے موجود ہوں۔ غرض قوتِ اختیاری ہی ایک طرح کا شیطان ہے جو موقع پا کر اپنا کام کرتا ہے۔ آگے اسی مضمون کے مختلف نظائر پیش فرماتے ہیں:
-15-
سگ بخفتہ اختیارش گشتہ گمچوں شکنبہ دید جنباں کرد دُم
ترجمہ: کتا سو رہا ہے اور اس کا اختیار پردہ خفا میں ہے۔ جب اس نے (بحالتِ بیداری کسی جانور کا) معدہ دیکھا تو (اس کو کھا جانے کے شوق میں) دم ہلانے لگا۔
مطلب: کتا سوتا ہے تو اس کی خواہشات کا ظہور نہیں ہوتا۔ مگر جب اُس کی نظر گوشت پر پڑتی ہے تو بیتابانہ اپنے شوق کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ یہاں کتے سے نفس و شیطان مراد ہیں۔ جن کے دواعی ان کے مطالب کے سامنے آنے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی طرح:
-16-
اسپ ہم جَو جَو کند چوں دید جَوچوں بہ بیند گوشت گُربہ کرد مو
ترجمہ: گھوڑا بھی (جو اب تک خاموش کھڑا تھا) جب غلہ جو دیکھتا ہے تو (ہنہنانے اور بزبانِ حال) جو جو رٹنے لگتا ہے۔ بلی (جو چپ چاپ بیٹھی تھی) جب گوشت دیکھتی ہے تو میاؤں میاؤں کرنے لگتی ہے۔
-17-
دیدن آمد جنبشِ آں اختیارہمچو نفخے ز آتش انگیزد شرار
ترجمہ: (مطلوب و مرغوب کا) دیکھنا۔ اس اختیار (کی طاقت) کا محرک بن گیا۔ جیسے پھونک کہ آگ سے چنگاریاں اٹھا دیتی ہے۔
-18-
پس بجنبد اختیارت چوں بلیسشد دلالہ آردت پیغامِ ویس
ترجمہ: جب شیطان دلالہ بن جاتا ہے۔ اور (تیری) مرغوباتِ (نفسانیہ) کا پیغام تجھے پہنچا دیتا ہے تو تیرے اختیار کی طاقت حرکت میں آتی ہے۔
-19-
چونکہ مطلوبے بریں کس عرضہ کرداختیارِ خفتہ بکشاید نبرد
ترجمہ: جب (شیطان نے) اس شخص پر کوئی مطلوب پیش کیا۔ تو (اس کا) سویا ہوا اختیار (اس کے حصول کی) جدوجہد کا آغاز کر دیتا ہے۔ (بعض نسخوں میں نبرد کے بجائے نورد درج ہے۔ پھر ترجمہ یوں ہوگا کہ سویا ہوا اختیار اپنے بل کھولنے لگتا ہے(
-20-
واں فرشتہ خیرہا بر رغمِ دیوعرضہ دارد می کند در دل غریو
ترجمہ: اور (ادھر) وہ فرشتہ شیطان کے مقابلے میں نیکیاں پیش کرتا ہے اور دل کے اندر (اپنا) غلغلہ (بلند کرتا رہتا ہے(
-21-
تا بجنبد اختیارِ خیرِ توزانکہ پیش از عرضہ خفت ست ایں دوخُو
ترجمہ: تاکہ تمہارا نیکی اختیار کرنے کا جذبہ حرکت میں آئے کیونکہ (نیکی و بدی کو) پیش کرنے سے پہلے یہ دونوں خصلتیں سو رہی ہیں۔
مطلب: یہ اس حدیث سے اور اسی قسم کی دیگر احادیث سے ماخوذ ہے۔ عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان شیطان لمہ ابنِ آٰدم وَلِلمَلَک لَمۃً فَاَمّا لمَّۃُ الشیطانِ فَاِیْعَادُ بِالبَشَرِ وَتَکذِیبُ بِالحَق وَاَمَّا لَمۃُ الملکِ فَاِیْعَادُ بِالخَیرِ وَتَصدِیقِ بِالحَقِّ فَمَن وَجَدَ ذَالِکَ فَلیعلَمَ اَنَّہُ مِنَ اللہِ فَلیَحمَدِ اللہَ وَمَن وَجَدَ الاُخرٰی فَلَیتعوَّذُ بِاللہِ مِنَ الشَیطَانِ الرَّجِیمِ ثُمَّ قَرَأ:الشَّیطَانُ یَعِدُکُم الفَقَرَ وَیامُرُکُم بِالفَحشاء حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرزند آدم پر ایک تصرف شیطان کا ہے اور ایک تصرف فرشتے کا ہے پس شیطان کا تصرف بدی کا وعدہ دینا اور حق کی تکذیب کرنا ہے۔ اور فرشتے کا تصرف نیکی کا وعدہ دینا اور حق کی تصدیق کرنا ہے۔ پس جو شخص یہ آخری بات پائے تو یہ سمجھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس اللہ کا شکر کرے۔ اور جو شخص دوسری بات محسوس کرے تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے۔ پھر آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)نے یہ آیت پڑھی کہ شیطان تم سے محتاجی کا وعدہ کرتا ہے اور گناہوں پر آمادہ کرتا ہے۔
-22-
پس فرشتہ و دیو گشتہ عرضہ داربہرِ تحریکِ عروقِ اختیار
ترجمہ: غرض فرشتہ اور شیطان اختیار کی رگوں کو حرکت میں لانے کے لیے (نیکی اور بدی کو) پیش کرتے رہتے ہیں۔
-23-
مے شود زِ الہامہا و وسوسہاختیارِ خیر و شرت دہ کسہ
ترجمہ: (چنانچہ ملائکہ کے) الہامات اور (شیاطین کے) وسوسہ سے تیرا نیکی و بدی کا اختیار دس مردوں (کے اختیار) کے برابر (قوی) ہو جاتا ہے۔
-24-
وقتِ تحلیلِ نماز اے با نمکزاں سلام آورد باید با ملک
ترجمہ: اسی لیے تو اے جوانِ ملیح! نماز کو ختم کرتے وقت فرشتوں کو سلام کرنا چاہیے۔
-25-
کہ ز الہام و دعائے خوب تاںاختیارِ ایں نمازم شد رواں
ترجمہ: (جس میں یہ اشارہ ہے) کہ (اے ملائکہ) تمہارے الہام اور نیک دعا سے اس نماز (کو تکمیل تک پہنچانے) پر میرا اختیار جاری رہا۔
مطلب: نماز سے سلام پھیرتے وقت مردوں، عورتوں اور محافظ فرشتوں کو سلام کرنے کی نیت کی جائے۔ مبسوط میں لکھا ہے کہ محافظ فرشتوں کی نیت مقدم ہونی چاہیے۔ کیونکہ وہ افضل ہیں۔ جامع صغیر میں ہے کہ بنی آدم کی نیت مقدم ہے۔ کیونکہ وہ نظر آتے ہیں۔ اور ملائکہ کی نیت کسی خاص تعداد میں نہ ہو۔ کیونکہ ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر مومن کے ساتھ پانچ محافظ ہوتے ہیں۔ ایک دائیں طرف جو نیکیاں لکھتا ہے۔ ایک بائیں طرف جو بدیاں تحریر کرتا ہے۔ ایک سامنے جو نیکیوں کی ترغیب دیتا ہے ایک پیچھے جو اس سے آفات کو دور کرتا ہے۔ اور ایک اس کی پیشانی کے پاس جو اس کے درود کو لکھتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے اور بعض احادیث سے ثابت ہے کہ ہر بندے کے ساتھ ساٹھ فرشتے مامور ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے زیادہ ہیں۔ جو اس سے آفات کو دور کرتے ہیں۔ چنانچہ بندہ اگر ایک لمحہ کے لیے بھی کھلا چھوڑ دیا جائے تو اس کو شیاطین لے جائیں (جوہر نیرّہ)
-26-
باز از بعدِ گنہ لعنت کنیبر بلیس ایرا ازوئی منحنی
ترجمہ: پھر گناہ کے بعد تم کو شیطان پر لعنت کرنی چاہیے۔ کیونکہ اسی کی وجہ سے ناراست (بن رہے) ہو۔ (یا گناہوں کے بوجھ سے جھکے جا رہے ہو(
مطلب: محرکِ خیر کے سلام و شکرانہ کے مقابلے میں شریر پر لعنت و نفرین بھی لازم ہے۔ جس کا اشارہ مذکورہ بالا حدیث کے آخری کلمات میں پایا جاتا ہے۔
-27-
ایں دو ضِد عرضہ کنندہ در سراردر حجابِ غیب آمد عرضہ دار
ترجمہ: یہ دو متضاد طاقتیں جو پنہاں طور پر (نیکی و بدی کو بندے کے سامنے) پیش کرنے والی ہیں غیب کے پردہ میں پیش کرتی ہیں۔
-28-
چونکہ پردہ غیب بر خیزد زِِپیشتوبہ بینی روئے دلّالانِ خویش
ترجمہ: جب غیب کا پردہ سامنے سے اٹھ جائے گا تو تم اپنے دلالوں کی صورت دیکھ لوگے۔
-29-
وز سخن شاں را شناسی بے گزندکاں سخن گو در حجاب اینہا بُدند
ترجمہ: اور تم بلا تکلیف ان کی گفتگو پہچان لوگے کہ وہ بولنے والے پردے کے اندر یہی تھے۔
-30-
دیو گوید اے اسیرِ طبع و تنعرضہ می کردم نکردم زور من
ترجمہ: شیطان کہے گا۔ اے طبیعت اور بدن کے قیدی! میں (تو محض لذاتِ جسمانیہ کا خیال) پیش کر دیتا تھا (ان پر) مجبور نہیں کرتا تھا۔
مطلب: شیطان بندے پر الزام لگائے گا کہ تو خود مقتضائے طبع کا غلام اور مشتہیاتِ جسم کا دلدادہ تھا۔ میں ان باتوں پر تجھ کو مجبور تھوڑا کرتا تھا۔ البتہ میں ذرا یاد دہانی کرا دیتا تھا۔ پھر تو خود ان باتوں پر آمادہ ہو جاتا تھا۔ کما قیل:
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرتِ انسان پر کارِ بد تو خود کرے لعنت کرے شیطان پر
اس معاملے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے: وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم (ابراھیم:22) اور جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہے گا کہ خدا نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اور وعدہ تم سے میں نے بھی کیا تھا۔ مگر میں نے تمہارے ساتھ وعدہ خلافی کی اور تم پر میری کچھ زبردستی تو تھی نہیں۔ بات تو اتنی ہی تھی کہ میں نے تم کو بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا۔ تو اب مجھے الزام نہ دو۔ بلکہ اپنے تیئں الزام دو۔
-31-
واں فرشتہ گویدت من گفتمتکہ ازیں شادی فزوں گردد غمت
ترجمہ: اور فرشتہ تم سے کہے گا میں نے تم کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس خوشی سے (جو تم کو لذائذِ نفسانیہ سے حاصل ہوتی ہے) تمہارا غم ترقی کرے گا۔
-32-
ایں فلاں روزت نگفتم من چناںکہ ازاں سویست رہ سوئے جناں
ترجمہ: کیا یہ (بات) فلاں روز میں نے تم سے یوں نہیں کہی تھی کہ جنت کی طرف راستہ (ادھر نہیں جدھر تم جا رہے ہو۔ بلکہ) ادھر ہے۔
ع۔ کیں راہ کہ تو میروی بہ ترکستان ست
-33-
ما محبِّ جان روح افزائے توساجدانِ مخلصِ بابائے تو
ترجمہ: ہم تمہاری جان کے خیر خواہ ہیں۔ جو کائنات کی روح کو تازگی بخشنے والی ہے۔ اور تمہارے باوا (حضرت آدم علیہ السلام) کے با اخلاص سجدہ گزار ہیں۔
مطلب: یہ فرشتے کا قول ہے وہ انسان کو کائنات کے لیے روح افزا بدیں لحاظ کہتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ ”ساجدانِ مخلصِ بابائے تو“ میں ملائکہ کے اس سجدہ کا ذکر ہے جو انہوں نے بحکمِ خداوند تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے کیا تھا۔
-34-
ایں زمانت خدمتے ہم مے کنمسوئے مخدومی صلایت می کنم
ترجمہ: اب میں تیری بھی خدمت بجا لاتا ہوں۔ اور مخدوم بننے کی طرف تجھے بلا رہا ہوں۔
مطلب: حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے ہمارا سجدہ کرنے کا واقعہ اگرچہ پرانا ہو گیا۔ مگر ہمارا اخلاص بدستور پرانا ہے اور ہم ہر وقت انسان کی خیر اندیشی میں ساعی ہیں۔ یہ کلمات فرشتہ قیامت میں نہیں بلکہ دنیا میں انسان کو کہہ رہا ہے۔ یعنی یہ کلمات ”واں فرشتہ گویدت من گفتمت“ میں سے گویدت کے مقولہ میں شامل نہیں ہیں بلکہ ”گفتمت“میں شامل ہیں۔
-35-
ایں گرہ بابات را بودہ عِداوز خطابِ اُسجُدُوا کردہ ابا
ترجمہ: (بخلاف اس کے) یہ (شیاطین کا) گروہ تمہارے باوا (آدم علیہ السلام) کا دشمن تھا۔ اور حق تعالیٰ کے حکم اُسْجُدُْوا کا انکار کر چکا ہے۔
مطلب: یہ اس آیت کے مضمون کی طرف اشارہ ہے: وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرۃ:34) اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو۔ تو انہوں نے سجدہ کیا۔ مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبّر کیا۔ اور کافر ہو گیا۔ ابلیس چونکہ اپنی تمام ذرّیات کا پیشوا ہے۔ اس کا انکار گویا حکماً تمام شیاطین کا انکار ہے۔ اس لیے یہاں ابا کی نسبت تمام گروہ شیاطین کے ساتھ کی گئی ہے۔
-36-
آں گرفتی وآں ما انداختیحقِّ خدمت ہائے ما نشناختی
ترجمہ: وہ (بات جو شیاطین نے کہی) تو نے قبول کر لی۔ اور ہماری بات رد کر دی۔ ہماری خدمات کا حق نہ پہچانا۔
-37-
ایں زماں مارا و ایشاں را عیاںدر نگر بشناس از لحن و بیاں
ترجمہ: اس وقت ہم کو اور ان کو ظاہر دیکھ لے (اور) آواز گفتگو سے پہچان لے۔
-38-
نیم شب چوں بشنوی زاریِّ دوستچو سخن گوید سحر دانی کہ اوست
ترجمہ: آدھی رات کو جو تم دوست کی زاری سنتے ہو (تو فوراً معلوم نہیں کر سکتے کہ یہ فلاں دوست کی آواز ہے مگر) جب وہ صبح کو (تمہارے سامنے) گفتگو کرتا ہے تو (پھر) سمجھ جاتے ہو کہ وہی ہے۔ (اسی طرح ملائکہ خیر اندیش کو دنیا میں نہ پہچانا۔ پھر آخرت میں ان کی گفتگو سے پتہ چلے گا کہ یہی حضرات تھے جو مجھ کو یوں سمجھاتے تھے)
-39-
ور دو کس در شب خبر آرد تراروز از گفتن شناسی ہر دو را
ترجمہ: اور اگر دو آدمی رات کو دو متضاد خبریں تم کو پہنچائیں تو دن کے وقت (ان کی) گفتگو سے تم دونوں کو پہچان لو گے (کہ کس نے کونسی خبر دی تھی)
-40-
بانگِ شیر و بانگِ سگ شب در رسیدصورت ہر دو زِ تاری نا پدید
ترجمہ: رات کو شیر کی آواز اور کتے کی آواز ایک ساتھ پہنچی (مگر) تاریکی کی وجہ سے دونوں کی صورت غیر ظاہر (تھی)۔
-41-
روز شد چوں باز در بانگ آمدندپس شناسد شاں ز بانگِ آں ہوشمند
ترجمہ: (حتیٰ کہ) دن چڑھ گیا۔ پھر جب دونوں بولنے لگے تو وہ دانا ان کو آواز سے پہچان لیتا ہے۔
-42-
مخلص آنکہ دیو و روحِ عرضہ دارہر دو ہستند از تتمہ اختیار
ترجمہ: خلاصہ یہ کہ شیطان اور فرشتہ (جو نیکی و بدی کو) پیش کرنے والے (ہیں) دونوں (انسان کے) اختیار (افعال) کی تکمیل کرنے والے ہیں۔
مطلب: تتمہ کے معنی ہیں کسی چیز کا باقی ماندہ حصہ جس کی شمولیت سے وہ چیز مکمل ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ گو انسان کو اچھے یا برے افعال کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مگر صدورِ افعال کا مدار فرشتہ و شیطان کی تحریکات پر ہے اور جب تک کوئی محرک نہ ہو۔ انسان کا اختیار افعال کے عدم صدور کی وجہ سے ظاہراً معدوم ہے۔ اگرچہ حقیقتاً حاصل ہے اور جب فرشتہ و شیطان اپنی اپنی تحریکات کرتے ہیں تو انسان کا اختیار ظاہراً بھی عمل میں آکر ہر پہلو سے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔
-43-
اختیارے ہست در ما ناپَدیدچوں دو مطلب دید آید در مزید
ترجمہ: (پس) ہمارے اندر اختیار (کی طاقت) مخفی طور پر (موجود) ہے۔ جب وہ طاقت دو (طرح کے اچھے اور بُرے) مطلب (کو) دیکھتی ہے تو (ان میں سے ایک کو عمل میں لانے کے لیے) جوش مارتی ہے انسان کو اختیار حاصل ہونے کی بدیہی دلیل یہ ہے کہ:
-44-
اوستاداں کودکاں را مےزنندآں ادب سنگِ سیہ را کے کنند
ترجمہ: استاد بچوں کو (غیر حاضر رہنے یا سبق یاد نہ کرنے یا کوئی شرارت کرنے پر) سزا دیتے ہیں۔ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو حاضر باش رہنے، سبق یاد کرنے اور شرارت سے باز آنے کا اختیار حاصل ہے۔ بخلاف اس کے) تادیب کالے پتھر کی کب کی جاتی ہے۔ (کیونکہ اس کو کسی بات کا بھی اختیار حاصل نہیں سنگ کے ساتھ سیاہ کی قید اتفاقی ہے۔ ورنہ ہر رنگ کا پتھر مسلوب الاختیار ہے)
-45-
ہیچ گوئی سنگ را فردا بیاور نیائی من دہم بد را سزا
ترجمہ: بھلا کبھی تم پتھر کو حکم دیتے ہو کہ کل کو حاضر ہو اور اگر نہیں آئے گا تو میں (ایسے) بُرے شخص کو سزا دوں گا (جو حکم عدولی کرے)
-46-
ہیچ عاقل مر کلوخے را زندہیچ با سنگے عتابے کس کند
ترجمہ: کیا کوئی عقلمند کسی ڈھیلے کو مارتا ہے۔ کیا کوئی آدمی کسی پتھر کو ملامت کرتا ہے (ہر گز نہیں)
مطلب: یہ معلوم ہوا کہ سزا و ملامت کا مدار اختیار پر ہے۔ پس جب انسان کو بُرے کام پر سزا ملتی ہے اور ملامت کی جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کام کے کرنے اور نہ کرنے کا اختیار اس کو ضرور حاصل ہے۔ شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر ایک تقریر اپنے رسالہ تکمیل الایمان میں خوب لکھی ہے۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ یہاں اس کا ترجمہ اُردو میں بااحتیاط کر دیں۔ فرماتے ہیں:
”واضح ہو کہ آدمی سے افعال کا صدور دو طرح ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ کسی چیز کا تصور کرے۔ پھر اگر وہ چیز اس کی طبیعت کو مرغوب و ملائم ہے تو اس کے باطن سے اس چیز کی خواہش اور طلب پیدا ہو اور وہ اس خواہش کی پیروی اور اس چیز کی طرف حرکت کرے اور اگر وہ اس کی طبیعت کے منافی و مخالف ہو تو اس کے دل میں نفرت پیدا ہونے سے پہلے اس کی نسبت اس چیز کے حصول اور ترک کے ساتھ یکساں تھی اور یہ دونوں باتیں ممکن تھیں کہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا یا اس سے اجتناب کرنا۔ خواہ مرتبہ تصور میں جو فعل کے قریب قریب قوت رکھتا ہے یا تصور سے پہلے جو مرتبہ فعل سے دور تر ہے۔ آدمی کی اس حرکت کو حرکتِ اختیاری کہتے ہیں۔ اور جو فعل اس حرکت پر مترتب ہوتا ہے وہ فعل اختیاری کہلاتا ہے"۔
"”وسری صورت یہ ہے کہ یہ تصور اور یہ شوق و خواہش کی انگیخت نہ ہو اور اس سے بلا خواہش کوئی حرکت صادر ہو جیسا کہ مریضِ رعشہ کی حرکت۔ ایسی حرکت کو جبری و اضطراری کہتے ہیں۔ اگر یہاں اختیار سے مراد وہی ہے جو بیان ہوا ہے تو اس کا انکار ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ آدمی سمع نہیں رکھتا اور بصر نہیں رکھتا اور اس کی پیدائش اجبار پر واقع ہوئی ہے اور اگر کوئی کہے کہ آدمی کی تمام حرکات اور افعال دوسری قسم سے ہیں تو یہ حس کا انکار ہے، جسے کوئی عقلمند قبول نہیں کر سکتا“۔ آگے چل کر جبر و قدر کے متعلق فرماتے ہیں :”جبر فرقہ جبریہ کا مذہب ہے جو کہتے ہیں کہ آدمی کو بالکل اختیار نہیں اور اس کی حرکت جمادات کی حرکت کے مثل ہے اور قدر فرقہ قدریہ کا مذہب ہے جو کہتے ہیں کہ سب کچھ آدمی کے اختیار میں ہے اور آدمی اپنے کاروبار پر مستقل اور باختیار ہے اور اس کے افعال خود اس کے پیدا کردہ ہیں“۔ (انتہیٰ)
جبر و قدر دونوں عقیدے باطل ہیں اور دونوں فرقے جو ان معتقدات کے قائل ہیں گمراہ ہیں۔ مگر جب ان دونوں فرقوں کو توازن کی نظر سے دیکھا جائے تو قدریہ کی خرابی زیادہ سخت نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ جبریہ اگر اختیار عہد کے انکار سے بداہت کی مخالفت کر رہے ہیں تو ان کا قصور صرف اس قدر ہے کہ وہ عقل و قیاس کو ٹھکرا رہے ہیں اور اس قصور میں بھی ان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ اختیار و قدرت کے تمام مراتب حق تعالیٰ کے لیے مخصوص مانتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ حق تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ میں کسی قسم کی تنقیص روا نہیں رکھتے۔ بخلاف اس کے قدریہ بندے کو فاعلِ مختار اور خالقِ افعال مان کر علانیہ حق تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ کی تنقیص کرتے ہیں۔ اسی لیے احادیث میں قدریہ کی مذمت زیادہ شد و مد کے ساتھ وارد ہے۔ فرمایا: اَلْقَدْرِیَّۃُ مَجُوْسُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِنْ مَرِضُوْا فَلَاتَعُوُْدُوْھُمْ وَ اِنْ مَّاتُوْا فَلَا تَشْھَدُوْھُمْ یعنی قدریہ اس امت کے مجوس ہیں اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی خبر نہ لو اور اگر مر جائیں تو شریکِ جنازہ نہ ہو (مشکوٰۃ) اور فرمایا: لَاتُجَالِسُوْا اَھْلَ الْقَدْرِ وَ لَاتُفَاتِحُوْھُمْ یعنی قدریہ کے پاس نہ بیٹھو اور نہ اس سے سلام و کلام کرو اور وہ احادیث کثیرہ جو مکذبین تقدیر کے خلاف وارد ہیں۔ ان سب کا روئے سخن بھی قدریہ کی طرف ہے۔ مگر آگے مولانا فرماتے ہیں کہ فرقہ جبریہ قدریہ سے زیادہ رسوا ہے۔ تو یہ ارشاد ہمارے بیانِ بالا سے معارض نہیں۔ کیونکہ ایک فرقہ کا کسی دوسرے فرقہ سے زیادہ رسوا ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ اس سے زیادہ گمراہ اور مستوجب عذاب بھی ہو۔ بلکہ ممکن ہے کہ ایک فرقہ کم گنہگار ہونے کے باوجود اپنے ضعفِ قیاس اور رکاکت استدلال کی بنا پر زیادہ بدنام ہو اور دوسرا فرقہ اپنی شدتِ گمراہی اور بدترین عقیدے کے باوجود اپنے زورِ استدلال اور قوتِ قیاس کی بدولت نام پا گیا ہو۔ بالکل یہی حال جبریہ و قدریہ کا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
-47-
در خِرد جبر از قدر رُسوا ترستزانکہ جبری حِسِ خود را منکرست
ترجمہ: عقل (و دانش) میں جبریہ قدریہ سے زیادہ ذلیل ہے۔ کیونکہ جبری اپنی حس کا منکر ہے۔
مطلب: ”در خرد“ میں یا تو جبری و قدری کی عقل مراد ہے کہ جبری اپنی عقل ناقص میں زیادہ رسوا ہے یا عقل عامہ مراد ہے۔ یعنی عقل کی میزان میں جبریہ پست تر نظر آتے ہیں اور عقل کے لفظ میں یہ اشارہ مرکوز ہے کہ ممکن ہے میزانِ شرع میں معاملہ برعکس ہو۔ یعنی شاید شرعی اعتبار سے قدریہ جبریہ سے زیادہ مجرم ہوں۔ غرض انسان کا باختیار ہونا ایک حسّی امر ہے۔ جس میں انکار کی گنجائش نہیں۔ پس جبری نے اختیار کے انکار سے گویا اپنی حس کا انکار کر دیا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے رسالہ تکمیل الایمان میں جبریہ کا عقیدہ بیان کر کے فرماتے ہیں ”ایں انکار حس ست ہیچ عاقل را قبول ندارد“۔
-48-
منکرِ حِس نیست آں مردِ قدرفعلِ حق حسّی نباشد اے پسر
ترجمہ: (بخلاف اس کے) وہ شخص جو قدریہ مذہب رکھتا ہے حس کا منکر نہیں (کیونکہ وہ خدا کا بندے کو اختیار بخشنے کا منکر ہے اور) اے عزیر خدا کا فعل (امرِ نظری ہے) حسّی نہیں (اور اس کا انکار حِس کا انکار نہیں)۔
-49-
منکرِ فعلِ خداوندِ جلیلہست در انکارِ مدلولِ دلیل
ترجمہ: خداوند بزرگ کے (اس) فعل کا انکار کرنے والا (کہ اس نے بندے کو اختیار بخشا ہے گویا ایک نظری) دلیل کے نتیجے کا انکار کر رہا ہے۔ (جو چنداں تعجب کی بات نہیں)
مطلب: مولانا اس مقام پر جو قدریہ کو جبریہ پر ترجیح دے رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان دونوں فرقوں کا مقابلہ مذہبی و اعتقادی حیثیت سے نہیں کر رہے ہیں۔ ورنہ اس پہلو میں بلاشبہ قدریہ کی شناعت جبریہ سے بدتر ہے۔ بلکہ یہ توازن ان کے ذہنی و عقلی درجوں کے لحاظ سے ہو رہا ہے اور اس پہلو میں یقیناً جبریہ گر جاتے ہیں۔ پس مولانا کا مقصودِ بیان یہ ہے کہ جبریہ بالکل بےوقوف اور عقل کے اندھے ہیں۔ جو اختیارِ عبد کے منکر ہیں۔ حالانکہ یہ اختیار ایک بدیہی امر ہے۔ ان کے مقابلے میں قدریہ کا دعویٰ بھی ہر چند غلط ہے مگر جبریہ کے عقیدہ کی طرح مضحکہ خیز نہیں۔ کیونکہ جس طرح خداوند تعالیٰ کی ذات کو موجود ماننا ایک امرِ نظری ہے اسی طرح اس کا بندے کو اختیار دینا بھی ایک نظری مسئلہ ہے۔ پس اگر قدریہ اس کے منکر ہوئے تو وہ جبریہ کی طرح کسی امرِ بد یہی کے منکر نہیں ہوئے۔ آگے اسی کی تائید میں متعدد نظائر پیش فرماتے ہیں:
-50-
آں بگوید دود ہست و نار نےنورِ شمعی نے زِ شمع روشنے
ترجمہ: وہ (قدریہ تو یہ) کہتا ہے کہ دھواں ہے اور آگ نہیں ہے۔ شمع کا نور (ہے مگر) کسی روشن شمع سے نہیں (بلکہ خود بخود ہے)
مطلب: بندے کے اختیار کو ماننا اور اختیار بخشنے والے کو نہ ماننا ایسا ہے۔ جیسے دھوئیں کو تسلیم کرنا اور آگ کے وجود کا اقرار نہ کرنا۔ جس سے دھواں نکلتا ہے۔ اسی طرح دوسری مثال میں اختیار گویا شمع کی روشنی ہے اور اختیار بخشنے والا (بلا تشبیہ) شمع ہے۔ پس معطی اختیار کو نہ ماننے کے معنی یہ ہوئے کہ روشنی ہو، شمع نہ ہو تو یہ قدریہ کا عقیدہ ہے۔ اور جبریہ کا عقیدہ اس سے زیادہ بعید از عقل ہے۔ چنانچہ:
-51-
ویں ہمے بیند معین نار رانیست مے گوید پئے انکار را
ترجمہ: اور یہ (جبری) آگ کو موجود دیکھتا ہے (اور پھر) انکار کے لیے کہتا ہے (کہ آگ موجود) نہیں ہے (جبری ہر لمحہ اپنے اختیار کو بروئے کار دیکھتا ہوا اس کا انکار کرتا ہے)
-52-
دامنش سوزد بگوید نار نیستجامہ اش دوزد بگوید تار نیست
ترجمہ: اس کا دامن (بھی) جل جاتا ہے (جو آگ کے موجود ہونے کی ایک بین دلیل ہے) پھر کہتا ہے آگ (موجود) نہیں۔ اس کا کپڑا سیا جاتا ہے پھر کہتا ہے دھاگا نہیں۔
مطلب: یہ انکارِ ہدایت کے نظائر ہیں جو جبری کے عقیدہ پر چسپاں ہوتے ہیں۔ بعض نسخوں میں تار کی بجائے یار (بیائے تحتانی درج ہے یعنی وہ کہتا ہے۔ میرا کپڑا سینے والا دوست موجود نہیں اور بعض نسخوں میں سارا مصرعہ یوں ہے ”جامعہ اش درّد بگوید بار نیست“ یعنی اس کا کپڑا بوجھ کے مارے پھٹ جاتا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ بوجھ نہیں ہے۔
-53-
پس تَسَفْسُطْ آمد ایں دعوٰی جبرلاجرم بد تر بود زیں رُوزگبر
ترجمہ: پس یہ جبر کا دعوٰی سو فسطائیانہ عقیدہ ہے۔ اس لیے وہ بدیں لحاظ دہریہ (کے عقیدے) سے بھی بدتر ہے۔ (آگے اس کی دلیل ارشاد ہے)
-54-
گبر گوید ہست عالم نیست ربیا ربے گوید کہ نبود مُستَحب
ترجمہ: (چنانچہ) دہریہ قائل ہے کہ عالم (موجود ہے مگر پروردگار موجود) نہیں۔ وہ یا رب (یا رب) کہہ کر دعا کرتا ہے جو قبول نہیں ہوتی۔ (جب جان کے لالے پڑ جائیں تو دہری کو بھی پروردگار کی طرف رجوع کیے بدون چارہ نہیں سوجھتا۔ مگر بے سود)
-55-
ایں ہمے گوید جہاں خود نیست ہیچہست سوفسطائی اندر پیچ پیچ
ترجمہ: (اور) یہ (سو فسطائی) کہتا ہے جہان ہی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ سو فسطائی (فضول) پیچ و تاب میں (مبتلا) ہے۔ (اسی طرح جبری کہتا ہے کہ بندے کے اختیار کی کوئی حقیقت نہیں۔ پس وہ بھی سو فسطائی کا بھائی ہے۔ حالانکہ)
-56-
جملہ عالم مُقِر در اختیارامر و نہی ایں میار و آں بیار
ترجمہ: تمام جہان اختیار (سے کام لینے) میں (اس قسم کے) امر و نہی کا اقرار کرنے والا ہے کہ یہ لاؤ اور وہ نہ لاؤ۔ (جب اس قسم کے امر و نہی کا ایک دوسرے کو خطاب کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مخاطبوں کو با اختیار مانتے ہیں)
-57-
او ہمے گوید کہ امر و نہیِ لاستاختیارے نیست ویں جملہ خطاست
ترجمہ: (مگر) وہ (احمق جبری) کہتا ہے کہ امر و نہی کالعدم ہے (کسی کو) کوئی اختیار (حاصل) نہیں اور یہ تمام (خیالات) غلط ہیں۔
-58-
حسّ را حیواں مُقِرَّست اے رفیقلیک ادراکِ دلیل آمد دقیق
ترجمہ: اے دوست حس کا اقرار تو حیوانات تک کرتے ہیں (انسان اس کا اقرار کیوں نہ کرے) لیکن دلیل (عقلی) کا ادراک (ذرا) باریک ہے (جو ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں)
مطلب: قدریہ نے جو غلطی کی ہے تو دلیلِ عقلی کے ادراک میں کی ہے۔ جو ہر انسان سے ممکن الوقوع ہے مگر جبریہ کی غلطی حس سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں انسان تو رہے الگ حیوانات بھی غلطی نہیں کرتے۔
-59-
زانکہ محسوس ست مارا اختیارخوب مے آید برو تکلیف کار
ترجمہ: کیونکہ ہم کو اپنا اختیار (صاف) نظر آ رہا ہے۔ (اور) اس (بنا) پر اعمال کا مکلّف ہونا مناسب دکھائی دیتا ہے۔