دفتر پنجم: حکایت: 137
در بیان مثلِ شیطان بردرگاہِ رحمٰن
رحمٰن کی درگاہ پر شیطان کی مثال
-1-
مُلک ملکِ اوست فرماں آنِ اوکمتریں سگ بر درش شیطانِ اُو
ترجمہ: (دنیا کی) بادشاہی اس کی حکومت ہے اور فرمانروائی اس کا حق ہے۔ شیطان اس کے دروازے کا ادنیٰ کتا ہے۔
-2-
ترکماں را گر سگے باشد بدربردرش بنہادہ باشد رُو و سَر
ترجمہ: اگر (کسی) ترکمان کے دروازے پر کتا ہو تو اس کے دروازہ پر منہ اور سر رکھے (پڑا) رہتا ہے۔
-3-
کودکانِ خانہ دُمَش میکشندباشد اندر دستِ طفلاں خوار مند
ترجمہ: گھر کے بچے اس کی دم کھینچتے ہیں (اور) وہ بچوں کے ہاتھ میں خوار و ذلیل ہوتا ہے۔
-4-
باز اگر بیگانۂ معبر کندحملہ بروے ہمچو شیرِ نر کند
ترجمہ: پھر اگر کوئی بیگانہ (ادھر سے) گذرتا ہے۔ تو وہ (کتا) اس پر شیر نر کی طرح حملہ کرتا ہے۔
-5-
کو اَشِدَّآءُ عَلَی الکُفَّار شدبا ولی گل با عدو چوں خار شد
ترجمہ: کیونکہ وہ (کتا) بیگانوں پر سختی کرنے والوں سے ہو گیا۔ دوست کے لیے پھول اور دشمن کے لیے کانٹا بن گیا۔
مطلب: پہلے مصرعہ میں اس آیت سے اقتباس ہے۔ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح:29) اور جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں کافروں کے (حق میں ان کے ایذا سے بچنے کے) لئے(بڑے) سخت (ہیں) مگر آپس میں رحم دل ہیں۔ یہاں اس اقتباس سے محض اس بات کی تقریر مقصود ہے کہ وہ کتا غیروں کے لیے دشمن اور اپنے مربیوں کے لیے دوست ہوتا ہے۔ اس سے تمثیل و تشبیہ کا تصور نہ ہونا چاہیے۔
-6-
زِآب تتماجے کہ دادش ترکماںآں چناں دانی شدست و پاسبان
ترجمہ: اس پتلے حریرے کی وجہ سے جو اسے ترکمان نے پلایا ہے وہ ایسا وفادار اور پہرہ دار بن گیا۔ (آگے اس تتماج خوار کتے کی مثال کو شیطان پر چسپاں کرتا ہے۔)
-7-
پس سگِ شیطاں کہ حق ہستش کنداندرو صد فکرت و حیلت تند
-8-
آبروہا را غذائے او کندتا بُرد اُو آبروئے نیک و بد
ترجمہ: پس کتا شیطان جس کو حق تعالیٰ پیدا کرتا ہے (اور) اس میں سینکڑوں (شیطانی) خیالات اور شرارتیں ڈالتا ہے۔ لوگوں کی آبروؤں کو اس کی غذا بناتا ہے۔ تاکہ وہ ہر بُرے بھلے آدمی کی آبرو کھوئے۔
-9-
آبِ تتماج ست آبِ روئے عامکہ سگِ شیطان ازو یابد طعام
ترجمہ: عام لوگوں کی آبرو پتلا حریرہ ہے۔ جس سے کتا شیطان غذا پاتا ہے۔
-10-
بر درِ خر کاہِ قدرت جانِ اوچوں نباشد حکم را قربانِ او
ترجمہ: (جب شیطان عنایاتِ حق کا پرورش یافتہ کتا ہے تو پھر) اس کی جان (حق تعالیٰ کی) بارگاہ قدرت کے دروازے پر اس کے حکم کے لیے قربان کیوں نہ ہو۔ (آگے یہ بیان ہوگا کہ شیطان کے وجود اور اس کے شیطانی افعال میں حق تعالیٰ کی خاص حکمت ہے۔)
-11-
گلّہ گلّہ از مُرید و از مَریدچوں سگ ذراعے باسطٌ بِالوصید
ترجمہ: مومنوں اور کافروں کی ٹولیوں پر ٹولیاں (اصحابِ کہف کے) کتے کی طرح اس کی بارگاہ پر (رحمت کی امید میں) بیٹھے۔
-12-
بر درِ کہفِ اُلُوہیّت چو سگذرّہ ذرّہ امر جُو، برجستہ رگ
ترجمہ: خدائی غار کے دروازے پر کتے کی طرح (دعواے اطاعت میں) ذرہ ذرہ حکم کے طالب (اور مستعدی میں) تڑپتی رگ والے (بیٹھے ہیں)
-13-
اے سگِ دیو امتحاں مےکن کہ تاچوں دریں رہ مے نہند ایں خلق پا
ترجمہ: اب بارگاہ عزت سے حکم ہوتا ہے کہ) اے کتے شیطان! ذرا امتحان کر کہ یہ لوگ اس (بارگاہ کے) راستے میں کس نیّت سے پاؤں رکھتے ہیں۔
-14-
حملہ مےکن، منع مےکن، مےنگرتاکہ باشد مادہ اندر صدق و نر
ترجمہ: تو ان لوگوں پر جھپٹ کر (اور ان کو) روک کر دیکھ کہ صدق و خلوص میں کون مرد ہے۔ (جو ثابت قدم رہتا ہے) اور (کون) نا مرد (جو بھاگ نکلتا ہے)
مطلب: ہر چند کہ حق تعالیٰ ہر مومن و کافر اور مخلص و منافق کی نیت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ (القصص:69) لیکن لوگوں کی نیتوں کو واشگاف کر دینا اور ان کے خلوص و نفاق کو ظاہر کر کے ان پر حجت قائم کرنا سنت اللہ میں داخل ہے۔ اس لیے شیطان کو لوگوں کے بہکانے کا موقع دیا گیا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ کون قوی الایمان و راسخ العقیدہ ہے جو شیطان کے اغواء اور اضلال سے متاثر ہونے والا نہیں اور کون ضعیف الایمان و ناقص العقیدہ ہے جو ذرا سی نفسانی و شیطان ترغیب سے پھر جاتا ہے۔ اسی لیے شیطان نے بارگاہِ حق میں کہا: رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (الحجر:49- 40) (شیطان نے کہا) اے میرے پروردگار جیسی تو نے میری راہ ماری میں دنیا میں (سامان زندگی کو) انہیں عمدہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا۔ مگر ان میں تیرے خالص بندے۔ چنانچہ حق تعالیٰ کے مخلص و قوی الایمان بندے نفسانی وساوس اور شیطانی خطرات کو محسوس کر کے اعوذ پڑھتے اور ان وساوس پر عمل کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
-15-
پس اعوذ از بہرچہ باشد؟ چو سگگشتہ باشد از ترفّع تیز تگ
-16-
ایں اعوذ آنست کاے ترک خطابانگ برزن بر سگت و رہ بر کشا
ترجمہ: پس اعوذ کس لیے (پڑھی جاتی) ہے (سنیے) جب کتا غلبہ کی وجہ سے (کسی رہر و پر) جھپٹتا ہے تو یہ اعوذ گویا وہ پکار ہے۔ (جو رہر و کرتا ہے) کہ اے (ملکِ) خطا کے ترک اپنے کتے کو آواز دے کر روک لے اور میرے لیے اپنے خیمہ کی طرف راستہ کھول دے۔
-17-
تا بیایم بر درِ خرگاہِ توحاجتے خواہم زِ جود و جاہِ تو
ترجمہ: تاکہ میں تیرے خیمے کے دروازے پر آؤں کیونکہ مجھے تیری بخشش اور سرداری سے ایک کام ہے۔
مطلب: جس طرح بزدل لوگ کتے کی آواز سنتے ہی بھاگ نکلتے ہیں اور اپنا مقصد فوت کر لیتے ہیں۔ مگر ثابت قدم و قوی دل لوگ کھڑے ہو کر صاحبِ خانہ کو پکارتے ہیں کہ میاں ذرا اپنے کتے کو سنبھالو۔ مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ اسی طرح ناقص الایمان لوگ شیطانی ترغیب سے متاثر ہو کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مگر کامل الایمان بندے شیطانی وساوس پر اعوذ پڑھتے ہیں۔ جو گویا جناب باری تعالیٰ میں یہ دعا ہے کہ ہم کو شیطان کی شر سے بچایا جائے۔ جو بارگاہِ احدیت کی طرف جانے سے ہم کو مانع ہے۔ آگے وہ آتش پرست پھر اپنی الزامی تقریر کا اعادہ کرتا ہے:
-18-
چونکہ ترک از سطوتِ سگ عاجز ستایں اعوذ و ایں فغاں ناجائز ست
ترجمہ: (لیکن) جب ترک (بھی) کتے کے حملے سے عاجز ہے۔ تو پھر یہ اعوذ اور یہ فریاد بےسود ہے۔
-19-
ترک ہم گوید اعوذ از سگ کہ منہم زسگ در ماندہ ام اندر وطن
ترجمہ: (پھر تو) ترک بھی کہتا ہے کہ کتے سے میں (خدا کی) پناہ مانگتا ہوں۔ کیونکہ میں بھی (اپنے) وطن میں (اس) کتے سے عاجز (آ گیا) ہوں۔
-20-
تو نمے یاری بدیں در آمدنمن نمے یارم زِ در بیروں شدن
ترجمہ: تو اس دروازے پر نہیں آ سکتا۔ میں دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا (کیونکہ اس کتے نے دروازے پر سب کے لیے آمدورفت کا راستہ بند کر رکھا ہے)
-21-
خاک اکنوں برسرِ ترک و قنقکہ یکے سگ ہر دو را بندد عُنق
ترجمہ: تو اب (ایسے) ترک اور (اس کے) مہمان کے سر پر خاک کہ ایک کتا دونوں کی گردن جکڑ لے۔
-22-
حَاشَ للہِ ترک بانگے بر زندسگ چہ باشد شیرِ نر خوں قے کند
ترجمہ: توبہ توبہ! (بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے۔ بلکہ) ترک ایسی ڈانٹ بتا ئے گا کہ کتے کی تو کیا حقیقت ہے شیر بھی (اس کے خوف سے) خون کی قے کرنے لگے۔
-23-
اے کہ خود را شیرِ یزداں خواندہسالہا شد با سگے درماندہ
ترجمہ: اے (مسلمان بھائی) جو اپنے آپ کو خدا کا شیر بتاتے ہو برسوں گزر گئے کہ تم ایک کتے (شیطان سے) عاجز ہو رہے ہو۔
-24-
چوں کند آں سگ برائے تو شکارچوں شکارِ سگ شدستی آشکار
ترجمہ: تو کتا تمہارے لیے کیا خاک شکار مارے۔ جب تم خود علانیہ کتے کے شکار ہو رہے ہو۔