دفتر پنجم: حکایت: 136
دعوت کردنِ مسلمانے مُغ را بدینِ اسلام و جواب گفتنِ اُو
ایک مسلمان کا کسی آتش پرست کو دینِ اسلام کی دعوت دینا اور اس کا جواب دینا
-1-
مرمغے را گفت مردے کاے فلاںہیں مسلماں شو بباش از مومناں
ترجمہ: ایک (مسلمان) آدمی نے کسی آتش پرست کو کہا اے شخص! تو مسلمان بن جا (اور) اہلِ ایمان میں شامل ہو جا۔
-2-
گفت اگر خواہد خدا مومن شومور فزاید فضل ہم موقِن شوم
ترجمہ: (آتش پرست نے) کہا۔ اگر خدا چاہے تو میں مسلمان ہو جاؤں۔ اور اگر (اس کا) زیادہ فضل و کرم ہو تو میں اہلِ یقین بھی بن جاؤں۔
-3-
گفت می خواہد خدا ایمانِ توتا رہد از دستِ دوزخ جانِ تو
ترجمہ: (مسلمان نے) کہا خدا تیرے ایمان کا خواہاں ہے۔ تاکہ تیری جان دوزخ سے نجات پائے۔
-4-
لیک نفسِ زشت و شیطانِ لعینمےکشندت جانبِ کفران و کین
ترجمہ: لیکن بدکار نفس اور ملعون شیطان (دونوں) تجھے کفر اور عداوتِ (دین) کی طرف لے جاتے ہیں۔
-5-
گفت اے منصف! چو ایشاں غالب اندیارِ او باشم کہ باشد زور مند
ترجمہ: (آتش پرست نے کہا) اے باانصاف (مسلمان) جب یہ شیطان اور نفس دونوں (خدا پر) غالب ہیں تو میں اس کے ساتھ رہوں گا جو طاقتور ہو۔ (آتش پرست نے یہ بات الزامی طور سے کہی ہے ورنہ اس کا اپنا عقیدہ یہی ہے کہ خدا نے مجھ کو کافر بنا رکھا ہے)
-6-
یارِ او خواہم بُدن کو غالب ستآں طرف رفتم کہ غالب جاذب است
ترجمہ: میں اسی کا ساتھ دوں گا جو غالب ہے۔ میں اسی کے طرف رہوں گا۔ جس طرف غالب لے جائے گا۔
-7-
چوں خدا میخواست از من صدقِ زفتخواستش چہ سود چوں پیشش نرفت
ترجمہ: جب خدا مجھ سے پختہ صدق چاہتا ہے تو اس کے چاہنے سے کیا فائدہ۔ جبکہ (شیطان و نفس کے آگے) اس کی پیش نہیں جاتی۔
-8-
نفس و شیطان خواہشِ خود پیش بُردواں عنایت قہر گشت و خُرد مُرد
ترجمہ: نفس و شیطان نے (مجھے گمراہ کرنے میں) اپنی خواہش پوری کر لی۔ اور (خدا کی) وہ عنایت (جو میری ہدایت کی متقاضی تھی) مغلوب اور ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئی۔
مطلب: آتش پرست نے حق تعالیٰ کی یہ تنقیص الزاماً کی ہے۔ یعنی تم جو کہتے ہو کہ خدا تم کو مسلمان رکھنا چاہتا ہے۔ مگر شیطان تم کو کافر بنا رہا ہے تو پھر شیطان ہی زبردست ہوا۔ اب انصاف سے کہو کہ مجھے طاقتور کی پناہ میں آنا چاہیے یا کمزور کی حمایت میں۔ مگر مطلب آتش پرست کا یہ ہے کہ خدا ہی مجھے مسلمان کرنا نہیں چاہتا۔ ورنہ وہ مختارِ مطلق ہے۔ جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے۔
انتباہ: آتش پرست کی یہ دلیل اکثر جاہلوں کے زیرِ استعمال رہتی ہے۔ اور وہ اسی کو اپنی بےدینی و گمراہی کے عذر میں پیش کیا کرتے ہیں۔ ہر چند سطحی خیال کے لوگوں کے لیے یہ دلیل کسی حد تک حیران کن ہے۔ لیکن جو لوگ اسلام کے عقائد صحیحہ سے واقف اور کسی قدر علمی استعداد سے بہرہ مند ہیں۔ ان کے سامنے یہ دلیل پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی اول تو مُغ کا یہ کہنا سراسر جہالت پر مبنی ہے کہ اگر خدا چاہتا تو میں ایمان لے آتا ”گفت اگر خواہد خدا مومن شوم“۔ جس میں اس نے خدائے تعالیٰ کی مشیت کو اپنے ایمان اور انبانِ اعمال سے سبکدوش ہونے کا بہانہ بنایا۔ حالانکہ حق تعالیٰ نے بندے کو نیک و بد اعمال بجا لانے کا اختیار بخشا ہے اور اسی اختیار کی بنا پر بندہ ثواب و عذاب کا سزاوار ہوتا ہے۔ اگر خداوند تعالیٰ کی مشیت کے آگے وہ مسلوب الاختیار اور مجبور محض مثلِ جمادات ہوتا تو پھر بیشک اس کو اس ذمہ داری سے سبکدوش سمجھا جا سکتا تھا۔ جیسے کہ اس مغ نے دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ پھر مومن نے جو کہا ”می خواہد خدا ایمان تو“ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خداوند تعالیٰ تجھ کو مومن بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مگر شیطان اس کے اس ارادے میں مزاحم ہے۔ جس پر مُغ کا اعتراض وارد ہوا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ تیرے ایمان لانے کو پسند کرتا ہے۔ یعنی اگر تو مومن ہو جائے۔ تو یہ بات اس کو محبوب ہے۔ مگر چونکہ اس نے تجھ کو ایمان لانے اور نہ لانے کا اختیار دے رکھا ہے اس لیے شیطان کو تجھے بہکانے اور تیرے اختیار کی دونوں شقوں سے آخری شق پر تجھ کو آمادہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور اس سے ہر گز یہ لازم نہیں آتا کہ معاذ اللہ شیطان حق تعالیٰ کے ارادے کا مزاحم ہے۔ اور اس پر غالب آ سکتا ہے۔ اس لیے مغ کا نفس و شیطان کے بارے میں کہنا کہ ”ایشاں غالب اند“ بناءالفاسد علی الفاسد ہے۔ یعنی جب نفس و شیطان کا ارادۂ الہٰیہ سے مزاحم ہونا غلط ہے۔ تو اس مزاحمت میں اس کا غالب آنا بھی غلط ہوا۔ اسی طرح مُغ کی باقی تقریر بھی غلط، بیہودہ و بے بنیاد ہے۔ اب آگے وہ جبر کے اثبات میں کہتا ہے:
-9-
تو یکے قصر و سرائے ساختیو اندرو صد نقش خوش افراختی
ترجمہ: (فرض کرو کہ) تم نے ایک محل اور گھر تعمیر کیا۔ اور اس میں سینکڑوں اچھے نقش بنائے۔
-10-
خواستی مسجد بُود آں جائے خیردیگرے آمد مرو را ساخت دَیر
ترجمہ: تم نے چاہا کہ وہ اچھی جگہ مسجد بنے (مگر) دوسرا شخص آیا (اور) اس نے اس کو مندر بنا دیا۔
مطلب: گھر کی اس میں کیا پیش جاتی ہے۔ وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ مجھے مندر بننا منظور نہیں۔ میں تو مسجد قرار پا چکا ہوں۔ اسی طرح میں خدا کے ارادہ کے موافق مومن کیونکر ہو سکتا ہے۔ جبکہ شیطان یا اَہرمن کی زبردست طاقت مجھے کافر رکھنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس میں بھی وہی مغالطہ ہے۔ جس کی تقریر اوپر گذر چکی ہے۔ یعنی کسی مکان کو مسجد بنانے والے اور مندر بنانے والے کی مثال مشیتِ حق اور اغوائے شیطان پر صادق نہیں آتی۔ کیونکہ مسجد و مندر جمادات سے ہیں۔ جن کو کسی حالت کے اختیار کرنے یا رد کرنے کی قدرت نہیں بخلاف اس کے بندہ کو قوتِ ارادی اور قوت اجتنابی عطا کی گئی ہے۔ مسجد و مندر تو بنانے سے بلا اظہار رضا بن جاتے ہیں۔ اور ڈھانے سے بلا عذر ڈھے جاتے ہیں۔ مگر بندہ اپنی حالت کے بننے پر خوش اور بگڑنے پر ناخوش ہوتا ہے۔ اور ناملائم سلوک کرنے والے کا تابمقدور سختی کے ساتھ مزاحم ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مسجد بنانے والا اور مندر بنانے والا ذاتاً دونوں مساوی اور ایک نوع کے دو فرد ہیں۔ اگر ایک کو دوسرے پر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے۔ تو خارجی حالات کے ایک کے لیے مساعد اور دوسرے کے لیے نا مساعد ہونے سے ہوتا ہے ورنہ ذاتاً دونوں مساوی و متوازن ہیں۔ بخلاف اس کے حق تعالیٰ خالقِ کل اور قادر مطلق ہے اور شیطان اس کی ایک ادنیٰ مخلوق ہے۔ پس وہ شیطان سے جو اس کی ایک مخلوق ہے کیونکر مغلوب ہو سکتا ہے۔ بے شک اس مجوسی کے نزدیک یزدان اور اہرمن کی طاقتیں مساوی ہیں مگر اس وقت وہ مجوسی جو حجّت پیش کر رہا ہے تو اس کی بنا اس مسلمان مخاطب کے عقائد پر قائم ہے۔ ورنہ مجوسی کے اپنے مجوسانہ عقائد مسلمان پر حجت کیونکر ہو سکتے تھے۔ اور عقائدِ اسلام میں اہرمن یا شیطان کو حق تعالیٰ کے مقابلہ میں کچھ بھی قدرت و اختیار حاصل نہیں۔ بلکہ وہ حق تعالیٰ کی قدرتِ بےپایاں کے سامنے ایک مکھی اور مچھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہاں بندوں کو جودہ بہکاتا اور گمراہ کرتا ہے۔ تو اس کا خود حق تعالیٰ کی طرف سے اس کو موقع دیا گیا ہے۔ قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ (الاعراف:14 - 15) ورنہ محال تھا کہ حق تعالیٰ ایک شخص کو راہِ ہدایت پر لانے کا ارادہ کرتا اور شیطان اس کو زبردستی گمراہ کر دیتا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے کسی کو نہ جبراً ہدایت دی جاتی ہے اور نہ اسے جبراً گمراہ کیا جاتا ہے۔ بلکہ دونوں باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی بندے کو قدرت بخشی ہے۔ بندہ خود یا عقلِ سلیم کے مشورے سے راہِ ہدایت اختیار کرتا ہے۔ یا شیطان کے بہکانے سے گمراہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سے مغالطہ اگلی دلیل میں ہے۔
-11-
یا تو بافیدی یکے کرباس تاخوش بسازی بہرِ پوشیدن قبا
ترجمہ: یا (مثلاً) تم ایک کپڑا بنواؤ۔ تاکہ (اس سے) ایک اچھی قبا پہننے کے لیے سلاؤ۔
-12-
تو قبا می خواستی خصم از نبردرغم تو کرباس را شلوار کرد
ترجمہ: تم تو قبا چاہتے تھے۔ ادھر حریف نے ضد کی وجہ سے تمہارے خلافِ مرضی (اسی) کپڑے کا پاجامہ بنا لیا۔
-13-
چارۂ کرباس چہ بود جانِ منجز زبونِ رائے آں غالب شدن
ترجمہ: اے میری جان سے پیارے دوست! تم بتاؤ کہ اب کپڑے کا چارہ کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اس غالب کی رائے کے آگے مغلوب ہو جائے۔
-14-
گر زبوں شد جرمِ آں کرباس چیستآنکہ او مغلوب غالب نیست کیست
ترجمہ: اگر وہ مغلوب ہو گیا تو اس کپڑے کا کیا قصور ہے (بتاؤ) ایسا کون ہے جو زبردست کے آگے مغلوب نہیں ہو جاتا۔ (اسی طرح میں شیطان کے آگے مغلوب ہو کر کفر کا مرتکب ہوں۔ تو میرا کیا قصور ہے۔ مغ کی اس دلیل کی رکاکت بھی اس کے بیان سے ظاہر ہے)
-15-
چوں کسے ناخواہِ وَے بروَے براندخار بن در باغِ ملکِ او نشاند
ترجمہ: جب کوئی اس کی خواہش کے خلاف اس پر حملہ آور ہوا تو اس نے اس ملک کے باغ میں کانٹوں بھری جھاڑی لگا دی۔
مطلب: مالکِ باغ تو طرح طرح کے پھولوں اور میووں کے درخت لگانا چاہتا ہے۔ مگر دشمن نے اس کے باغ میں جھاڑیاں لگا دیں۔ یہ مثال اس کم بخت مجوسی نے حق تعالیٰ اور شیطان کے لیے دی ہے۔ یعنی حق تعالیٰ تو ایمان و اسلام کے بیل بوٹے لگانا چاہے۔ مگر شیطان کفر و شرک کے کانٹے بچھائے تو (معاذ اللہ) خدا کی کیا طاقت رہی (نقلِ کفر، کفر نباشد)۔ پھر وہ حق تعالیٰ کو صاحب خانہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کہتا ہے۔
-16-
صاحبِ خانہ بدیں خواری بوداینچنیں بروے خلاقت میرود
ترجمہ: (جب) گھر کا مالک ایسا ناچیز ہو کہ اس کے ساتھ یہ توہین (آمیز سلوک) ہو۔
خلاقت بقاف بمعنی کہنگی۔ یہاں توہین و ہتک مراد ہے۔
-17-
من حفق گردم من ار تازہ و نومچونکہ یار این چنیں خوارے شوم
ترجمہ: تو اگر میں ایسے کمزور (خدا) کے ساتھ رہوں تو میں بھی اگرچہ تازہ اور نیا ہوں (آخر) بودا (اور ضعیف متصور ہوں گا۔)
-18-
چونکہ خواہِ نفس آمد مستعانتسخر آمد اَیشَ شآءَ اللّٰہُ کان
ترجمہ: جب نفس کی خواہش سے ہی مدد طلب کی جاتی ہے تو پھر یہ کہنا تو ایک تمسخر ہوا کہ جو بات اللہ چاہے ہو جاتی ہے۔
(ایش مخفف ہے۔ اَیُّ شَیْءٍکا بمعنی چیز یکہ)
-19-
من اگر ننگِ مغاں یا کافرمآں نیم کہ بر خدا ایں ظن برم
ترجمہ: اگر آتش پرستوں میں سب سے زیادہ حقیر یا کافر ہوں (تاہم) وہ نہیں جو خدا پر ایسی بدگمانی کروں (جیسی کہ تم مسلمانوں کو ہے)
مطلب: مسلمان غریب نے اتنا کہہ دیا تھا کہ شیطان تم کو بہکاتا ہے۔ بس اتنا سنتے ہی پھکڑ آتش پرست برس پڑا۔ اور تابڑ توڑ کئی نظائر ایسے پیش کئے کہ جن سے اس کا مقصد یہ تھا کہ پھر تو خدا شیطان کے مقابلے میں کمزور ہوا اور مجھے کمزور کی رفاقت سے دست بردار ہو کر طاقتور کی اطاعت میں کافر رہنا لازم ٹھہرا۔ اور اس کی یہ ساری تقریر الزامی تھی۔ اب تحقیقاً کہتا ہے کہ ہم خدا کو ایسا کمزور نہیں سمجھتے۔ جیسے کہ تم سمجھتے ہو بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ کلی اختیار حق تعالیٰ کا ہے جس کو چاہے مومن بنائے اور جسے چاہے کافر رکھے۔ شیطان کی کیا حقیقت جو حق تعالیٰ کے خلافِ ارادہ کسی کو گمراہ کر سکے۔ یہ تم مسلمانوں کا گمان غلط ہے۔ جو شیطان کو گمراہ کرنے والا سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ مجوسی نے مسلمان کے قول کو جو اس نے شیطان کے اغوا کے متعلق کہا تھا۔ غلط معنی پر محمول کر لیا۔ در حقیقت اسلام کا یہ عقیدہ نہیں جو اس نے سمجھا ہے۔ اور اس کی توضیح ہم پیچھے کر چکے ہیں۔ غرض وہ مجوسی کہتا ہے کہ ہم خدا پر ظن نہیں رکھتے کہ:
-20-
کہ کسے ناخواہِ او و رَغمِ اوگردد اندر ملکتِ او حکم جو
ترجمہ: کہ کوئی اس کی خواہش کے بغیر اس کے خلاف ارادہ اس کے ملک میں حکم چلائے۔
-21-
مُلکتِ اورا فرو گیرد چنیںکہ نیارد دم زدن دم آفریں
ترجمہ: (اور) اس کے ملک پر اس طرح چھا جائے کہ (وہ) دم کا پیدا کرنے والا (خدا) دم نہ مار سکے۔
-22-
دفعِ او می خواہد و مےبایدشدیو ہر دم غصہ می افزایدش
ترجمہ: (حتیٰ کہ) وہ اس (شیطان) کو دفع کرنا چاہے اور (آخر) اسے (ایسا کرنا ہی) چاہیے (مگر) شیطان (اس سے دفع نہ ہو سکے۔ بلکہ ہر دم اس کے غصہ کو بڑھائے۔ (یہاں تک اس بدگمانی کی تقریر بھی جس سے وہ آتش پرست اپنی برّیت کا اظہار کرتا ہے۔ آگے وہ پھر الزاماً کہتا ہے۔)
-23-
بندہ آں دیو مےباید شدنچونکہ غالب اوست در ہر انجمن
ترجمہ: تو (مجھے) اس شیطان کا تابعدار ہونا چاہے۔ جبکہ وہ ہر مجلس میں غالب ہے۔
-24-
تا مبادا کیں شد شیطان زِ مَنپس چہ دستم گیرد ایں جا ذوالمنن
ترجمہ: تاکہ مبادا شیطان مجھ سے کینہ کشی کرے۔ پھر (خداوند) ذوالمنن میری کیا دستگیری کر لے گا۔
-25-
آنکہ او خواہد مرادِ او شوداز کہ کارِ من دِگر نیکو شود
ترجمہ: جو کچھ وہ (شیطان) چاہتا ہے۔ اس کی مراد (پوری) ہو جاتی ہے۔ پھر کسی دوسرے سے میرا کام کیا درست ہوگا۔ (یہاں تک آتش پرست کی تقریر الزامی تھی۔ اب وہ تحقیقاً کہتا ہے۔)
-26-
حَاشَ لِلّٰہِ، اَیشَ شَاءَ اللّٰہُ کَانحاکم آمد در مکان و لامکان
ترجمہ: (توبہ توبہ!) اللہ (ان باتوں سے) پاک ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ وہ مکان و لا مکاں کا حاکم ہے۔
-27-
ہیچ کس در مُلکِ اُو بےاَمر اُودر نیفزاید شریکِ تارِ مو
ترجمہ: کوئی شخص اس کی حکومت میں اس کے حکم کے بغیر ایک بال کے سرے کے برابر زیادتی نہیں کر سکتا۔ (مسلمان نے جو کہا تھا کہ شیطان تجھ کو بہکاتا ہے اس کے جواب میں آتش پرست ایک مثال کے ضمن میں کہتا ہے کہ شیطان کی کیا مجال ہے جو باختیار خود کسی کو بہکائے)