دفتر 5 حکایت 135: اس درویش کی کہانی جو دن دہاڑے شمع لے کر آدمی کی تلاش میں پھرتا تھا۔

دفتر پنجم: حکایت: 135


حکایت آں راہب کہ بروزِ روشن با شمع در طلب آدمی میگشت

اس درویش کی کہانی جو دن دہاڑے شمع لے کر آدمی کی تلاش میں پھرتا تھا۔

-1-

آں یکے با شمع بر مےگشت روز گرد ہر بازار دِل پر عشق و سوز

ترجمہ: ایک شخص دن کو چراغ لے کر ہر بازار کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ (اور) دل عشق و سوز سے پر تھا۔

-2-

بُوالفضولے گفت اورا کاے فلاں ہیں چہ می جوئی بہ پیشِ ہر دکاں

ترجمہ: ایک بےہودہ آدمی نے (اس کو) کہا کہ اے بھائی! تم ہر دکان پر کیا تلاش کرتے ہو۔

-3-

ہیں چہ میجوئی تو ہرسو با چراغ درمیانِ روزِ روشن چیست لاغ

ترجمہ: ہاں (ذرا بتاؤ کہ) تم ہر طرف چراغ لے کر دن دہاڑے کیا ڈھونڈتے ہو۔ (اور یہ) کیا دل لگی (مقرر کی) ہے۔

-4-

گفت می جویم بہر سُو آدمے کو بود حَیّ از حیاتِ آں دمے

ترجمہ: وہ بولا میں ہر طرف ایسے آدمی کو ڈھونڈتا ہوں جو اس (رحمانی) سانس کی زندگی کے ساتھ زندہ ہو (جو عہدِ الست میں ہے)

مطلب: ایسا شخص مطلوب ہے جس نے حق تعالیٰ کے قول اَلَستُ بِرَبِکُم کے جواب میں بَلیٰ کہہ کر اس کو فراموش نہیں کیا۔ بلکہ اس کو یاد رکھ کر ہمیشہ اس پر عامل رہا جیسے کہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنّی لَاجِدُ نَفسَ الرَّحمٰنِ مِن قِبَل الیَمَنِ یعنی مجھے یمن کی طرف سے رحمانی دم محسوس ہوتا ہے۔ (انتہیٰ) اس شعر میں آں دم سے یہی نفس الرحمٰن مراد ہے (کذا فی المنہج واللہ تعالیٰ اعلم)

-5-

گفت من جویائے انساں گشتہ ام مےنیابم ہیچ و حیراں گشتہ ام

ترجمہ: (یعنی) اس نے کہا میں انسان (بمعنی حقیقی) کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ اور حیران ہو رہا ہوں مجھے (ایسا) کوئی (انسان) نہیں ملتا۔

-6-

ہست مردے؟ گفت ایں بازار پُر مردمانند آخر اے دانائے حُر

ترجمہ: کیا کوئی مرد ہے؟ (بوالفضول نے) کہا: اے دانائے آزاد! آخر یہ بازار مردوں ہی سے تو بھرے پڑے ہیں۔

-7-

گفت خواہم مرد بر جادہ دورہ در رہِ خشم و بہنگام شرہ

ترجمہ: (درویش نے) کہا (نہیں مجھے ایسے ویسے لوگ درکار نہیں۔ بلکہ) میں دوراہوں کی سڑک پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے والا) جوانمرد چاہتا ہوں (یعنی) غصّے کے راستے میں اور حرص کے وقت۔

-8-

وقتِ خشم و وقتِ شہوت مرد کو طالبِ مردے دوانم کُو بکُو

ترجمہ: غصے کے وقت اور شہوت کے وقت مرد کون ہے۔ میں ایسے مرد کی تلاش میں گلی گلی دوڑا پھرتا ہوں۔

-9-

کو دریں دو حال مردے در جہاں تا فدائے او کنم امروز جاں

ترجمہ: دنیا میں ان دو حالتوں کے اندر ثابت قدم رہنے والا مرد کہاں ہے۔ تاکہ آج میں اس پر (اپنی) جان قربان کر دوں۔

-10-

گفت نادر چیز می جوئی و لیک غافل از حکمِ خدائی نیک نیک

ترجمہ: (بوالفضول نے) کہا تو ایک انوکھی چیز ڈھونڈتا ہے۔ لیکن خدا کے حکم سے بالکل غافل ہے۔

-11-

ناظرِ فرعی ز اصلی بے خبر فرع مایم، اصل احکامِ قدر

ترجمہ: تو شاخ کو دیکھتا ہے اور جڑ سے بےخبر ہے۔ ہم شاخ ہیں اور تقدیر کے حکم جڑ ہیں۔

مطلب: یہ بو الفضول جبریہ مذہب رکھتا تھا۔ اس لیے اس کی تمام جوابی تقریر عقیدہ جبر کی تائید میں ہے۔ راہب نے کہا تھا کہ مجھے ایسا آدمی مطلوب ہے جو غضب و شہوت میں مردانہ وار ثابت قدم رہے۔ بو الفضول نے اس کا جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسے آدمی کو تلاش کرنا تمہاری محض پست نظری ہے۔ ذرا نظر کو بلند کرو اور دیکھو کہ غصہ و شہوت کو وجود میں لانے والا اور انسان میں یہ طاقتیں ودیعت کرنے والا کون ہے۔ حق تعالیٰ۔ اگر کوئی بدکار ان قوتوں کے مقتضا پر عمل کرے گا تو یہ اسی قادرِ مطلق کی مشیّت ہے۔ اور اگر کوئی پارسا اس سے بچے گا تو یہ بھی اس کی قدرت سے ہے۔ پس ایسا آدمی تم کو مل گیا۔ تو کیا اور نہ ملا تو کیا۔ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اسی قادرِ مطلق کے فعل و قدرت کا ظہور ہے۔ کسی انسان کو اچھا سمجھ کر تلاش کرنا اور دوسرے لوگوں کو برے سمجھ کر ناقابل اعتبار ٹھہرانا فضول ہے۔ واضح رہے کہ اس بو الفضول نے ہر چند جبر کے عقیدہ باطل کی تائید کی ہے۔ مگر مولانا نے اس کی تقریر کو ایسے پرزور پیرایہ میں نقل کیا ہے جس سے مولانا کا جذبۂ توحید مہک رہا ہے۔ اور یہی بات ساری مثنوی کی جان ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

-12-

چرخ گرداں را قضا گمرہ کند صد عطارد را قضا ابلہ کند

ترجمہ: قضائے الہیٰ آسمان کو جو (باقاعدہ) چکر لگانے والا ہے گمراہ (اور بےقاعدگی میں مبتلا) کر دے سینکڑوں عطارد (کے سے اہل علم و عقل) کو بے وقوف بنا دے۔

-13-

تنگ گرداند جہانِ چارہ را آب گرداند حدید و خارہ را

ترجمہ: وہ تدبیر کے جہان کو تنگ کر دے۔ لوہے اور پتھر کو پانی بنا دے۔

-14-

اے قرارے دادہ رہ را گام گام خامِ خامی، خامِ خامی، خام خام

ترجمہ: اے وہ شخص جو (زندگی کے) راستے کو (اپنے اختیار کے ساتھ) قدم بقدم (طے کرنے کے قابل) سمجھنا ہے۔ تو اب تک کچّے کا کچّا ہے۔ کچّے کا کچّا ہے۔ کچّے کا کچّا۔

مطلب: قلمی نسخے کے حاشیے پر لکھا ہے۔ کہ یہ اس شخص پر طعن ہے جو اپنے آپ کو فاعل باختیار کلی سمجھتا ہے اور اسے زعم ہے کہ میں خود اپنے عمل سے منازل طے کر سکتا ہوں۔ حالانکہ اس کو حصول مطلب کا اختیار کلی حاصل نہیں ہے۔ حق تعالیٰ بے نیاز ہے۔ خواہ اس کے عملِ مقترن بہ عمرہ کرے یا نہ کرے۔ پس سالک کو چاہیے۔ کہ مشیت حق سبحانہ و تعالیٰ پر نظر رکھے۔ نہ کہ عمل پر (انتہیٰ)

-15-

چوں بدیدی گردشِ سنگ آسیا آبِجو راہم ببیں آخر بیا

ترجمہ: جب تم پن چکی کے پتھر کی گردش دیکھتے ہو تو آخر آؤ۔ (اور) نہر کے پانی کو بھی دیکھ لو۔ (تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ پتھر کی حرکت اختیاری نہ تھی)

-16-

خاک را دیدی برآمد بر ہوا درمیانِ خاک بیں گر باد را

ترجمہ: تم مٹی کو ہوا پر بلند دیکھتے ہو۔ مٹی کے اندر ہوا کو بھی دیکھ لو۔ (جو اس کو اڑائے لیے جاتی ہے)

-17-

دیگ ہائے فکر مےبینی بجوش اندر آتش ہم نظر مےکن بہوش

ترجمہ: تم فکر کی دیگوں کو جوش زن دیکھتے ہو۔ جن سے مضامینِ عالیہ نمودار ہو رہے ہیں۔ ذرا ہوش کے ساتھ ان تصرفاتِ غیب کی آگ پر بھی نظر کرو۔ (جو ان فکری دیگوں کو جو شا رہے ہیں)

-18-

گفتِ حق ایّوب را در مکرمت من بہر مُوئے تو صبرے دادمت

ترجمہ: حق تعالیٰ نے حضرت ایّوب علیہ السلام کو براہِ کرم فرمایا۔ میں نے تم کو ہر بال کے برابر (یعنی بکثرت) صبر بخشا ہے۔

-19-

ہیں بصبرِ خود مکن چندیں نظر صبر دیدی، صبر دادن را نگر

ترجمہ: خبردار! اپنے صبر پر زیادہ نظر نہ کرنا۔ تم نے صبر کو دیکھ لیا۔ (اب میرے) صبر عطا کرنے کو دیکھو۔

-20-

چند بینی گردشِ دُولاب را سر بروں کن ہم ببیں تیز آب را

ترجمہ: تم رہٹ کی گردش کو کب تک دیکھو گے (ذرا) سر نکالو (اور اس) تیز پانی کو بھی دیکھو (جو رہٹ کو چلا رہا ہے)

-21-

تو ہمے گوئی کہ مےبینم و لیک دید آں را بس علامت ہاست نیک

ترجمہ: تم کہتے ہو کہ میں دیکھ رہا ہوں (مگر) اس کے دیکھنے کی تو بہت سی عجیب نشانیاں ہیں۔ (اور اس قسم کی کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔ جس سے تمہارا دیکھنا ثابت ہو۔

مطلب: اس میں اس شخص کی تردید ہے۔ جو سعی بے توکل پر عامل ہونے کے باوجود یہ دعوے کرے کہ میں مسبب الاسباب پر نظر رکھتا ہوں۔ کیونکہ مسبب الاسباب پر نظر رکھنے والے کو ایک طمانیت روحانی اور ایک صبر و سکون حاصل ہوتا ہے۔ جو توکل کی خاص علامات سے ہے۔ مگر جو شخص اپنی جدوجہد میں نہایت بے صبر و مضطرب اور غیر مطمئن ہے۔ در حقیقت وہ اپنے آپ کو فاعلِ مختار اور متصرفِ امور سمجھتا ہے۔ اور اسے اپنے فاعلِ حقیقی پر نظر رکھنے کا جھوٹا دعویٰ ہے۔

-22-

گردشِ کف را چو دیدی مختصر حیرتت باید بدریا در نگر

ترجمہ: جب تم نے مجملاً جھاگ کی حرکت کو دیکھا ہے (پس اگر) تمہیں حیرت (کا مقام) مطلوب ہے تو دریا کو دیکھو (جس کی رفتار سے جھاگ حرکت کرتی ہے۔)

مطلب: کف دریا سے تعینات کثیرہ مراد ہیں۔ اور دریا سے ذات حق کی طرف اشارہ ہے۔ جو سب پر غالب و قاہر ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم نے مخلوق کے جو افعال دیکھے ہیں۔ وہ محدود و مختصر ہیں۔ اگر حیرت مطلوب ہے تو ذاتِ حق پر نظر کرو کہ اس کی تجلیات غیر محدود اور بےپایاں ہیں۔ (بقول عراقی:

اے حسن تو بےپایاں آخر چہ جمال است ایں درد صفِ توام حیراں آخر چہ کمال است ایں

-23-

آنکہ کف را دید سر کوباں بود وانکہ دریا دید او حیراں بود

ترجمہ: جس شخص نے (تعینات کثیرہ کے) جھاگ دیکھے ہیں۔ وہ حیرت مذمومہ سے اپنا) سر پیٹتا ہے اور جس نے (ذاتِ احدیت کے) دریا کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ (حیرت محمودہ کے ساتھ) حیران ہے۔

مطلب: جب کوئی شخص عجائبات قدرت کے لاینحل عقدوں میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس کی نظر قادر مطلق پر نہیں ہوتی وہ ان اشکالات کے حل سے عاجز آ کر اپنا سر پیٹنے لگتا ہے۔ بعض نسخوں میں سر کو باں کے بجائے سرگرداں درج ہے، سرکوب محاورہ میں حریفوں پر فائق ہونے والے کو بھی کہتے ہیں۔ اس صورت میں یہ مطلب ہوگا۔ کہ جو شخص علوم ظاہری تک رسائی رکھتا ہے جب وہ خودنمائی میں طبلِ بلند بانگ بنا ہوا ہے۔ بخلاف اس کے حقیقت تک پہنچنے والا محوِ حیرت ہے۔ منہج القوی میں اس کلمے کے بجائے سرِ گویاں لکھا ہے۔ جس کے معنی ہیں راز بیان کرنے والا یعنی جو شخص صنعِ حق تک اپنی نظر محدود رکھتا ہے۔ وہ اسرارِ صنع بیان کرنے میں مشغول ہے مگر جس شخص کو مشاہدہ صانع میسر ہو گیا وہ دریائے حیرت میں غرق ہو گیا۔ اس کو کچھ کہنے اور بولنے کی طاقت نہیں۔

ع آں را کہ خبر شد خبرش باز نیامد

-24-

آنکہ کف را دید نیت ہا کند وانکہ دریا دید دل دریا کند

ترجمہ: جس شخص کی نظر مخلوق پر ہے وہ (اپنے اعمال میں مختلف) نیتیں کرتا ہے۔ اور جس نے (دریائے احدیت) کو دیکھا وہ (اپنے) دل کو دریا بنا لیتا ہے۔

مطلب: مخلوق کے ساتھ وابستگی رکھنے والا اپنے اعمال و افعال میں خالص نیت نہیں کر سکتا۔ اس کی نیتوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اگر وہ خدا کے لیے نیت کرتا ہے تو اس میں بھی کم از کم اپنی نجات اور حصولِ جنت کی نیت مضمر ہوگی۔ بخلاف اس کے جو بندہ مخلوقاتِ عالم۔ دنیا و آخرت و بہشت و دوزخ وغیرہ سب سے آنکھیں بند کر کے محض خداوند تعالیٰ پر نظر رکھے۔ وہ اپنے دل کو دریائے احدیت کا ایک قطرہ پاتا ہے اور پھر اس کے تمام افعال حق کے افعال ہوتے ہیں۔ جیسے کہ قرب فرائض میں ہوتا ہے اور اس سے افعال کی نیت کا خالص ہونا ظاہر ہے۔

-25-

آنکہ کف را دید باشد در شمار وانکہ دریا دید شد بےاختیار

ترجمہ: جس شخص نے کثرت کے ساتھ جھاگ کو دیکھا ہے۔ وہ (اپنی ہستی اور حق کی ہستی کو الگ) شمار (کرنے) میں (مبتلا) ہوتا ہے۔ (اور اپنے بعض افعال کو اختیاری اور بعض کو اضطراری سمجھتا ہے) اور جس نے دریائے احدیت پر نظر کی وہ اپنے آپ کو مسلوب الاختیار پاتا ہے۔

-26-

آنکہ کف را دید در گردش بود وانکہ دریا دید او بے غش بود

ترجمہ: جس نے (مخلوق کے) جھاگ کو دیکھا وہ (اختیارِ اسباب کی) سرگردانی میں رہتا ہے۔ اور جس نے دریائے احدیت کو دیکھا وہ (اس) شائبہ سے پاک ہے۔

-27-

وانکہ کف را دید بیکارش کُند وانکہ دریا دید بر دارش کُند

ترجمہ: جس نے (صرف معاملات دنیویہ کے) جھاگ کو دیکھا (اس دیکھنے نے) اس کو کسی مصرف کا نہ چھوڑا (اس کی ساری عمر فضول جھگڑوں میں گذر گئی) اور جس نے دریائے احدیت کو دیکھا اس کو (اس مشاہدہ نے منصور کی طرح )دار پر چڑھا دیا۔ (قلمی نسخے میں بردار کو ترمیم کر کے بیدار بنا دیا گیا ہے۔)

-28-

آنکہ کف را دید گرد د مست اُو وانکہ دریا دید باشد غرق ھُو

ترجمہ: جس نے جھاگ کو دیکھا (وہ دعویٰ اور خود نمائی کی) باتیں کرتا ہے اور جس نے دریائے احدیت کو دیکھا وہ خودی و انانیت سے پاک ہو گیا۔

-29-

آنکہ کف را دید آید در سخن وانکہ دریا دید شد بے ما و من

ترجمہ: جس نے جھاگ کو دیکھا (وہ دعویٰ اور خودنمائی کی) باتیں کرتا ہے اور جس نے دریائے (احدیت) کو دیکھا وہ خودی اور انانیت سے پاک ہو گیا۔

-30-

آنکہ کف را دید پالودہ شود وانکہ دریا دید آسودہ شود

ترجمہ: نے (دینا کی) جھاگ کو دیکھا وہ (آخر ریاضتِ شاقہ کے ذریعہ اس پست نظری سے) صاف کیا جاتا ہے اور جس نے دریائے (احدیت) کو دیکھ لیا وہ ان تکالیف سے فارغ و آسودہ ہے۔

انتباہ: آگے جبر کی تائید میں ایک آتش پرست کی مغالطہ آمیز تقریر مذکور ہے۔ اور مسلمان اس کے جواب میں بتائے گا۔ کہ حق تعالیٰ کی تقدیر اور بندے کے اختیار میں منافات نہیں۔