دفتر پنجم: حکایت: 134
صید کردن شیر آں خر را و رفتن بآب خوردن۔ و خوردن روباہ دل و جگرِ اور او سوالِ شیر
شیر کا اس گدھے کو شکار کرنا اور پانی پینے جانا اور لومڑی کا اس کے دل و جگر کو کھا جانا اور شیر کا باز پرس کرنا
-1-
بُرد خر را روبہک تا پیشِ شیرپارہ پارہ کردش آں شیرِ دلیر
ترجمہ: (القصہ وہ) حقیر لومڑی گدھے کو شیر کے آگے لے گئی۔ (اور) اس دلیر شیر نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
-2-
تشنہ شد از کوشش آں سلطان ددرفت سوئے چشمہ تا آبے خورد
ترجمہ: (اس) جدوجہد سے اس شاہِ وحوش۔ کو پیاس (محسوس) ہوئی۔ (اس لیے) چشمے کی طرف گیا۔ تاکہ پانی پئے۔
-3-
روبہک خورد آں جگربند و دلشچوں زمانِ فرصتے شد حاصلش
ترجمہ: نالائق لومڑی اس کے جگر کا ٹکڑا اور دل کھا گئی۔ جبکہ اس کو فرصت کا وقت مل گیا۔
-4-
شیر چوں وا گشت از چشمہ بخورجُست دِل از خر نہ دل بُد نے جگر
ترجمہ: شیر جب چشمے سے (اپنی) خوراک کی طرف واپس آیا تو گدھے کا دل تلاش کرنے لگا (مگر وہاں) نہ دل تھا نہ جگر۔
-5-
گفت روبہ را جگر کو؟ دل چہ شد؟کہ نباشد جانور را زیں دو بُد
ترجمہ: لومڑی سے پوچھا۔ جگر کہاں ہے۔ دل کیا ہوا۔ جاندار کو ان دو سے چارہ نہیں۔ (یعنی ہر جاندار میں یہ دو چیز ضرور ہوتی ہیں۔ لہذا اس گدھے میں بھی ضرور ہونی چاہئیں۔)
-6-
گفت گر بودے در اوّل با جگرکے بدینجا آمدے بارِ دگر
ترجمہ: (لومڑی نے) کہا اگر پہلے سے جگر رکھتا۔ (تو غیر مستقل مزاج نہ ہوتا۔ پھر) وہ یہاں دوبارہ کب آتا۔ (جگر ہی تو استقلال اور عزمِ مصمم کا باعثِ ہے)۔ مگر یہ گدھا میرے بہکانے پر اپنے ارادے سے با آسانی پھر گیا۔ معلوم ہوا اس میں جگر نہیں تھا۔
-7-
آں قیامت دیدہ وآں رستخیزواں زِکوہ افتادن و ہَولِ گریز
ترجمہ: وہ (تیرے حملے کی) قیامت دیکھ کر اور وہ حشر اور وہ پہاڑ سے گرنا اور بھاگنے کی دہشت۔
-8-
گر جگر بودے وُرا یا دِل بُدےبار دیگر کے بدینجا آمدے
ترجمہ: اگر اس کا دل یا جگر ہوتا تو یہاں دوبارہ کب آتا۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں)
-9-
چوں ندارد نورِ دل، دل نیست آںچوں نباشد رُوح جز، گِل نیست آں
ترجمہ: جب دل میں نور نہ ہو۔ تو وہ دل نہیں۔ جب (جسم میں) روح نہ ہو تو وہ (جسم) مٹی کے سوا (اور کچھ) نہیں۔
-10-
آں زُجاجے کو ندارد نُورِ جاںبَول قارورہ ست قندیلش مخواں
ترجمہ: وہ شیشہ جس میں (شمع کی) جان کا نور نہیں، پیشاب کی بوتل ہے۔ اس کو قندیل نہ کہو۔ (بول قارورہ میں اضافت مقلوب ہے بمعنی قارورۂ بول)
-11-
نورِ مصباح ست دادِ ذوالجلالصنعتِ خلق ست آں شیشہ و سفال
ترجمہ: چراغ کی روشنی (خداوند) ذوالجلال کا عطیّہ ہے۔ (اور) وہ کانچ اور مٹی کی قندیلیں مخلوق کی بنائی ہوئی ہیں۔
-12-
لاجَرم در ظرف باشد اعتداددر لہب ہا نبود اِلّا اتحاد
ترجمہ: اسی لیے (چراغوں کے) برتنوں میں شمار (اور تفریق ہے۔ اور ان چراغوں کے) شعلوں میں اتحاد ہی ہوتا ہے۔
-13-
نورِ شش قندیل چوں آمیختندنیست اندر نورِ شاں اعداد و چند
ترجمہ: (چنانچہ ان چراغوں کے شعلوں کے اتحاد کا یہ عالم ہے کہ) جب چھ (یا چھ سے زیادہ) قندیلوں کے نور کو ملا دیا جائے تو ان کے نور میں کوئی شمار اور امتیاز نہیں۔
-14-
آں جہود از ظرفہا مشرک شد استنورِ دید آں مومن و مدرک شد است
ترجمہ: یہودی ظروف (ظاہری کو ملحوظ رکھنے) کی وجہ سے مشرک ہو گیا۔ مومن نے وہ نور (وحدت دیکھا جو ان تمام ظروف میں مشترک ہے) اور وہ اصل حقیقت کا شناسا ہو گیا۔
مطلب: اللہ تعالیٰ یہود کے بارے میں فرماتا ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًاأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا (النساء:150-151) "جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے برگشتہ ہیں۔ اور اللہ اور اس کے رسولوں میں جدائی ڈالنا چاہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم بعض (پیغمبروں) کو مانتے ہیں۔ اور بعض کو نہیں مانتے۔ اور چاہتے ہیں کہ پیغمبروں میں مغائرت قرار دے کر کفر و ایمان کے بیچ بیچ میں (کوئی دوسرا) راستہ اختیار کریں۔ ایسے ہی لوگ یقیناً کافر ہیں" اور یہ اس بنا پر فرمایا کہ یہودی لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان کی کتاب توریت پر تو ایمان لائے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب انجیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی کتاب قرآن مجید کا انکار کیا۔ گو ان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ تھا۔ مگر اللہ کے بعض انبیا کو ماننا اور بعض کو نہ ماننا صاف طور پر اللہ کے ساتھ کفر ہے۔ کیونکہ اس کے حکم کو ناقص طور پر ماننا نہ ماننے کے مترادف ہے۔ اسی بناء پر ان کو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے مشرک کہا ہے۔ جس سے کافر مراد ہے۔ یا اس لحاظ سے کہ انہوں نے اللہ کے حکم میں اپنے ارادہ کو شریک کیا۔ مطلب یہ ہے۔ کہ یہود نے انبیا کے تشخصاتِ خصوصیہ ظاہریہ سے دھوکہ کھا کر ان کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا۔ اور پھر کسی کو مانا اور کسی کو نہ مانا۔ حالانکہ انبیا سب کے سب ایک ہی نور ہیں۔ جس میں کوئی افتراق اور انشقاق اور تغائر و تمائز نہیں۔ اس نور کے ایک مظہر پر ایمان لانا، دوسرے مظہر پر ایمان لانے کو متلزم ہے۔ مگر یہود نے اس اتحاد کو نہ سمجھا۔ مومن نے سمجھ لیا۔ اس لیے یہود نے کہا۔ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ (النساء:150) اور مومن نے کہا لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (البقرۃ:136) یہود نے حکم الہیٰ کے جواب میں کہا۔ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا (النساء:46) یعنی ہم نے سنا اور اس کی مخالفت کی۔ مگر مومن نے کہا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (النساء) یعنی ہم نے سنا اور مانا۔ آگے مومن کی اس حق بینی اور یہود کی ظاہر پرستی کی مزید تشریح فرماتے ہیں۔
-15-
چوں نظر بر روح افتد مروراپس یکے بیند خلیل و مصطفےٰ
ترجمہ: جب مرد (مومن) کی نظر روح پر پڑتی ہے۔ تو وہ حضرت خلیل علیہ السلام اور حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دیکھتا ہے۔
-16-
چوں نظر بر ظرف افتد روح راپس دو بیند شیثؑ را و نوحؑ را
ترجمہ: (بخلاف اس کے) جب (کسی ظاہر پرست کی) روح کی نظر ظرف پر پڑتی ہے تو وہ حضرت شیث علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کو دو (جداگانہ ہستیاں) دیکھتی ہے۔
ربط مضمون: لومڑی نے کہا تھا کہ اس گدھے میں دل نہیں تھا اس لیے وہ فریب میں آ گیا۔ اس پر مولانا نے فرمایا کہ وہ دل بھی کس کام کا جس میں نور نہ ہو۔ دل کی مثال مٹی کے چراغ کی سی ہے۔ اور شعلہ نور ہے مٹی کے چراغ متعدّد ہیں۔ شعلوں میں وحدت ہے۔ یہودی اس تعدد کو دیکھ کر گمراہ ہو گئے۔ اور مومن اس وحدت کے ادراک سے ہدایت پا گئے۔ اب پھر وہی مضمون چلتا ہے کہ قلب وہی ہے جو نور رکھتا ہے۔ جس شخص میں ایسا قلب نہیں، وہ نرا گدھا ہے۔
-17-
چونکہ آبش ہست خود جُو آں بودآدمی آنست کو را جاں بود
ترجمہ: جب اس (نہر) میں پانی ہے۔ تو نہر وہی ہوگی۔ (ورنہ خالی نہر ایک خشک گڑھا ہے) آدمی وہ ہے جس میں جان ہو۔ (ورنہ مردہ جسم تو مٹی ہے)
-18-
ایں نہ مردانند اینہا صورتندمردہ نانند کُشتۂ شہوتند
ترجمہ: یہ (لوگ جن کے قلب نور سے خالی ہیں) مرد نہیں ہیں۔ (بلکہ مٹی کی بےجان) مورتیں ہیں (یہ لوگ) روٹی پر مرنے والے اور شہوت سے مغلوب ہیں۔ (آگے ایک حکایت کے ضمن میں بتاتے ہیں کہ دنیا میں ایسا آدمی نایاب ہے جو بمعنی حقیقی آدمی ہو)