دفتر پنجم: حکایت: 133
حکایتِ آں گاوِ حریص کہ ہر روز صحرا را پُر علف بیند بچر دتا فربہ شود و تا فردا ازغمِ روزی لاغر شود
اس حریص بیل کی کہانی جو ہر روز جنگل کو گھاس سے پُر دیکھتا ہے۔ اور چر جاتا ہے۔ حتیٰ کہ فربہ ہو جاتا ہے اور کل تک روزی کے غم میں دبلا ہو جاتا ہے
-1-
یک جزیرہ سبز ہست اندر جہاںاندرو گاوے ست تنہا خوش دہاں
ترجمہ: دنیا میں (نعمتوں کا) ایک سر سبز جزیرہ ہے اس کے اندر ایک بیل اکیلا اور خوب چرنے والا ہے۔
مطلب: گدھا لومڑی کے مکر کا شکار ہو رہا ہے۔ اس کی موت کا باعث یہی امر تھا کہ اس میں حرص کے ساتھ عدم توکل جمع تھا۔ (بقول جامی رحمۃ اللہ علیہ)
اگر پرسی طمع راکت پدر کیستبگو شک در اقدارِ الہیٰ
وگر گوئی کہ کارت چیست گویدبمحنت ہائے حرماں عمر کاہی
اسی مناسبت سے مرید کا قصہ چھڑا جو حریص و غیر متوکل تھا۔ اب اس کی تمثیل میں یہ بیل کا قصہ چلتا ہے۔ جس کی حرص کا یہ حال ہے کہ دن بھر سارے جزیرے کی گھاس چر کر موٹا ہو جاتا ہے۔ اور عدم توکل کی یہ کیفیت ہے پھر رات کو فکرِ فردا میں بےچین ہو کر دبلا ہو جاتا ہے۔ اس کو تنہا اس لحاظ سے کہا۔ کہ حریص آدمی اپنی حرص کی عینک سے صرف اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ اور باقی مخلوق سے وہ چشم بستہ ہوتا ہے۔ گویا دنیا میں ہر حریص آدمی پیٹو بیل ہے جو اپنے زعم میں ساری دنیا کے اندر تنہا ہے۔ غرض۔
-2-
جملہ صحرا را چرد او تا بہ شبتا شود زفت و عظیم و منتخب
ترجمہ: وہ صبح سے شام تک سارے جنگل کو چر جاتا ہے۔ حتیٰ کہ موٹا اور بھاری بھرکم اور ممتاز ہو جاتا ہے۔ بقول سعدی رحمۃ اللہ علیہ:
رو دہ تنگ بیک نانِ تہی پر گردنعمت روئے زمین پر نکند دیدہ تنگ
-3-
شب از اندیشہ کہ فردا چہ خورم؟گردد او چوں تارِ مُو لاغر زِغم
ترجمہ: (پھر) رات کو اس فکر کے سبب سے کہ میں کل کو کیا کھاؤں گا۔ غم کے مارے بال کی تار کی مانند دبلا ہو جاتا ہے۔
-4-
چوں برآید صبح بیند سبز دشتتا میاں رُستہ قصیل و سبز گشت
ترجمہ: جب صبح آتی ہے تو وہ جنگل کو ہرا بھرا دیکھتا ہے۔ خوید کمر تک (اونچی) اُگی ہوئی ہے اور سبز ہو رہی ہے۔
-5-
اندر افتد گاؤ با جُوعُ البقرتا بشب آں را چرد او سر بسر
ترجمہ: وہ بیل شدّت کی بھوک سے (اس سبزہ زار میں) جا پڑتا ہے۔ (اور) شام تک اس کو بالکل چر جاتا ہے۔
-6-
تاکہ زفت و فربہ و لَمتُر شودآں تنش از پیہ و قوت پر شود
ترجمہ: یہاں تک کہ وہ موٹا اور فربہ اور بزرگ جثہ ہو جاتا ہے۔ اس کا جسم چربی اور طاقت سے بھر جاتا ہے۔
-7-
باز شب اندر تپ افتد از فزعتا شود لاغر ز خوفِ منتجع
ترجمہ: پھر رات کو گھبراہٹ سے تپ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ چراگاہ کے (خالی رہ جانے اور اپنے بھوکے مرنے کے) خوف سے لاغر ہو جاتا ہے۔
-8-
کہ چہ خواہم خوردِ فردا وقتِ خورسالہا این ست خوفِ آں بقر
ترجمہ: کہ کل کو چرنے کے وقت میں کیا کھاؤں گا۔ (غرض) اس بیل کا (یہ) خوف برسوں سے (اسی طرح چلا آتا) ہے۔
-9-
ہیچ نندیشد کہ چندیں سالِ منمیخورم زیں سبزہ زا رو ایں چمن
ترجمہ: وہ احمق اتنا نہیں سوچتا کہ میں اتنے سال سے (بلا ناغہ) اس سبزہ زار اس باغ سے چر (چگ) رہا ہوں۔
-10-
ہیچ روزے کم نیامد روزیمچیست ایں ترس و غم و دلسوزیم
ترجمہ: (اس مدّت میں) کسی دن میری روزی میں کمی نہیں آئی۔ (پھر) یہ خوف اور غم اور دلسوزی مجھے کیوں (عارض) ہے۔
-11-
باز چوں سب میشود آں گاؤ زفتمی شود لاغر کہ آوہ رزق رفت
ترجمہ: پھر جب رات (تک چر چُگ کر) وہ بیل موٹا ہوتا ہے۔ تو (اس خیال سے پھر) دبلا ہو جاتا ہے کہ ہائے (گھاس ختم ہو گئی اور میرا) رزق (ہاتھ سے) جاتا رہا۔
مطلب: اسی طرح نفس خزانہ غیب سے متواتر رزق پانے کے باوجود ہر روز متفکر رہتا ہے کہ کل کو کیا کھائیں گے۔ آگے اس تمثیل کو ممثل لہٗ پر چسپاں فرماتے ہیں۔
-12-
نفس آں گاوست وآں دشت ایں جہاںکہ ہمے لاغر شود از خوفِ ناں
ترجمہ: نفس وہ بیل ہے۔ جو روٹی کے خوف سے دبلا ہوا جاتا ہے اور جنگل یہ جہان ہے۔
-13-
کہ چہ خواہم خورد مستقبل عجبلُوتِ فردا از کجا سازم طلب
ترجمہ: (وہ خوف کے مارے کہتا ہے) کہ حیرت ہے میں کل کیا کھاؤں گا۔ کل کی خوراک کہاں سے تلاش کروں گا۔
-14-
سالہا خوردی و کم نامد ز خورترکِ مستقبل کن و ماضی نگر
ترجمہ: (اس احمق سے کوئی اتنا کہہ دے کہ) تو نے برسوں (رزق) کھایا۔ اور (کبھی تیری) خوراک کم نہیں آئی (ارے) آئندہ(کے فکر) کو چھوڑ اور سابقہ (حصولِ روزی) کو دیکھ۔
-15-
لُوت پوتِ خوردہ را ہم یاد آرمنگر اندر غابر و کم باش زار
ترجمہ: عمدہ عمدہ کھانے جو کھائے جا چکے ہیں یاد کر۔ مستقبل کو نہ دیکھ۔ اور (فکر سے) بدحال نہ ہو۔
-16-
قصّہ ایں گاؤ را یک سوئے نِہزاں خر و زاں شیرِ نر پیغام دہ
ترجمہ: اس بیل کے قصہ کو الگ رکھو۔ اب اس گدھے اور شیر نر کا ذکر کرو۔