دفتر 5 حکایت 131: صبر و قناعت کی مثال

دفتر پنجم: حکایت: 131


تمثیل در صبر و قناعت

صبر و قناعت کی مثال

-1-

آں یکے میخورد نانِ فخفرہ گفت سائل چوں بدیں داری شرہ

ترجمہ: ایک شخص جَو کی روٹی کھا رہا تھا۔ کسی پوچھنے والے نے کہا۔ تم کو اس کا شوق کیوں ہے؟

-2-

گُفت جُوع از صبر چوں دو تا شود نانِ جَو در پیشِ من حلوا شود

ترجمہ: وہ بولا جب (کھانے سے) صبر کرتے کرتے بھوک دوگنی ہو جائے تو میرے لیے جو کی روٹی حلوا بن جاتی ہے۔

-3-

پس توانم کہ ہمہ حلوا خورم چوں کنم صبرے صبورم لا جرم

ترجمہ: پس یہ بات میرے اختیار میں ہے کہ جب میں صبر کروں تو ہمیشہ حلوا کھاؤں اس لیے میں صابر ہوں۔

مطلب: ہمیشہ حلوا کھانا اچھے اچھے مالداروں کو بھی میسر نہیں۔ مگر اس تنگدستی و افلاس میں بھی ہمیشہ حلوا اڑاتا ہوں۔ جس کی ترکیب یہ ہے کہ جب خوب بھوک لگتی ہے تو کھاتا ہوں۔ بس پھر تو جو کی روٹی بھی حلوا بن جاتی ہے۔

-4-

خود نباشد جُوع ہر کس را زبوں کاں علف زارے ست زِ اندازہ بروں

ترجمہ: بھوک (وہ اعلیٰ ریاضت ہے) کہ ہر شخص کے قابو میں آنے والی نہیں۔ کیونکہ یہ (دنیا لذیذ چیزیں چرنے چگنے کا مقام ہے اور) اندازہ سے زیادہ (وسیع) ہے (اس سے بچنا اور بھوکے رہنا آسان نہیں)

-5-

جوع مر خاصانِ حق را دادہ اند تا شوند از جوع شیرِِ زور مند

ترجمہ: بھوک (کی فضیلت) صرف اللہ کے خاص بندوں کی عطا کو گئی ہے تاکہ وہ بھوک کی بدولت (قوتِ روحانی سے) طاقتور شیر بن جائیں۔

-6-

جُوع ہر جلفِ گدا را کے دہند چوں علَف کم نیست پیشِ او نہند

ترجمہ: (بھوک کی فضیلت) ہر کمینے بھکاری کو کب دی جاتی ہے۔ جب دنیا میں لذائذ کی گھاس کی کمی نہیں (اس لیے یہ گھاس) اس کے آگے رکھ دی جاتی ہے۔

-7-

کہ بخور ہم تو بدیں ارزانئے تو نہ مرغاب مرغ نانئے

ترجمہ: (اور اسے کہا جاتا) کہ (اے حیوان سیرت لے یہ گھاس) چر۔ تو اسی لائق ہے۔ تو دریائے معرفت کا پرندہ نہیں روٹی (کھانے) والا پرندہ ہے۔

-8-

نبود اندر سر ترا جز فکرِ ناں ناید اندر خاطرت جُز ذکر آں

ترجمہ: تیرے دماغ میں سوائے روٹی کے فکر کے اور کچھ (متصور) نہیں ہوتا۔ تیرے دل میں سوائے اس کے ذکر کے (اور کچھ) نہیں آتا۔

-9-

بعد چندیں سال حاصل چیستت جُوعِ مُردن بہ بود زیں زیستت

ترجمہ: اتنے برسوں کے بعد (شکم پُری سے تجھے کیا ملا)۔ (سوائے اس کے کہ کھا لیا اور ہگ دیا) تیری اس (حرصِ طعام کی) زندگی سے موت کی (لذّت چکھا دینے والی) بھوک اچھی۔