دفتر پنجم: حکایت: 132
حکایت مریدے کہ شیخ از حرصِ اُو آگاہ شد و نصیحت کرد
ایک مرید کی کہانی جس کا شیخ اس کی حرص سے آگاہ ہو گیا اور اسے نصیحت کی
-1-
شیخ مےشد با مریدے بیدرنگسوئے شہرے ناں در آنجاں بود تنگ
ترجمہ: ایک شیخ (اپنے) ایک مرید کے ساتھ بلا توقف ایک شہر کی طرف جا رہا تھا۔ جہاں روٹی (بہت) گراں (اور کم یاب) تھی۔ (روٹی کی گرانی قحط کے سبب سے ہوگی یا اس نواح میں جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے)
-2-
ترسِ جوع و قحط در جانِ مریدہر دمے میگشت از غفلت مزید
ترجمہ: مرید کی جان میں (توکل سے) غافل ہونے کی وجہ سے ہر لمحے بھوک اور گرانی کا خوف بڑھ رہا ہے۔
-3-
شیخ واقف بود و آگاہِ ضمیرگفت اورا چند باشی در زحیر
ترجمہ: شیخ (اس حال سے) واقف اور (اس کے) ضمیر سے آگاہ تھا۔ (اس سے) کہنے لگا۔ ارے تو کب تک (اس) پیچ و تاب میں رہے گا۔ (بقول صائب)
کے پیچ و خم از طبعِ ہوسناک برایدایں ریشہ محال ست کہ از خاک بر آید
-4-
از برائے غصّہ ناں سوختیدیدہ از صبر و توکل دوختی
ترجمہ: تو روٹی کے فکر میں مرا جاتا ہے۔ صبر و توکل سے آنکھ ہی بند کر لی۔
-5-
تو نہ زاں نازنینانِ عزیزکہ تُرا دارند بے جوز و مویز
ترجمہ: تو کچھ فکر نہ کر کیونکہ تو خدا کے ان لاڈلے محبوبوں میں سے نہیں ہے (جن کے حصہ میں) دولتِ جوع آچکی ہے کہ تجھے (بھی ان کی طرح لذائذِ جسمانیہ کے) اخروٹ اور کشمش سے برطرف رکھیں۔
-6-
جوعِ رزقِ جانِ خاصانِ خداستکے زبُونِ ہمچو تو کیچِ گداست
ترجمہ: بھوک خاصانِ خدا کی روح کا رزق ہے۔ تجھ سے نالائق بھکاری کی تابع کب ہے۔
-7-
باش فارغ تو ازانہا نیستیکاندریں مطبخ تو بےناں بایستی
ترجمہ: خاطر جمع رکھ۔ تو ان حضرات سے نہیں ہے کہ اس لنگر خانے میں روٹی سے محروم کھڑا رہے۔
-8-
کاسہ بر کاسہ است خواں بر خواں مداماز برائے ایں شکم خوارانِ عام
ترجمہ: ان عام پیٹوں لوگوں کے لیے (اس لنگر خانے میں) پیالے پر پیالہ اور خوان پر خوان (حاضر) ہے۔
-9-
چوں بمیری میدود ناں پیش پیشکائے زبیمِ بینوائی کشتہ خویش
-10-
تو بمردی ماند ناں، برخیز گیراے بگشتہ خویش را اندر زحیر
ترجمہ: (بلکہ) جب تو مرے گا (تو بھی) روٹی تیرے جنازے کے آگے آگے دوڑی جائے گی (اور لوگ تجھ سے کہیں گے) کہ اے تہی د ستی کے خوف سے خودکشی کرنے والے تو مر گیا روٹی (پیچھے) رہ گئی۔ اے بینوائی کی پریشانی میں خودکشی کرنے والے اٹھ کھڑا ہو۔ اور (روٹی) لے۔
مطلب: ہر زندہ مخلوق ضرور رزق پاتی ہے۔ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا (ھود:6) بلکہ انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کی قبر تک روٹی ساتھ جاتی ہے۔ شاید اس میں توشہ کے طعام کی طرف اشارہ ہو۔ جو اہلِ بدعت نے جنازہ کے ساتھ قبرستان میں لے جانا مقرر کر رکھا ہے۔ جس کا شرع میں کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ احادیث میں قبرستان کے اندر کھانا پینا ممنوع ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ ادھر میت سپرد خاک ہو رہی ہے اور دنیا کی بےثباتی کا عبرتناک نقشہ نظر کے سامنے ہے اور ادھر یار لوگ قبر کے گرد بیٹھے نان و حلوا مزے لے لے کر کھا رہے ہیں۔ مردہ جائے جہنم میں۔ ان کو حلوے مانڈے کی پڑی ہے۔
-11-
برسرِ ہر لقمہ بنوشتہ عیاںکز فلاں ابن الفلاں ابن الفلاں
ترجمہ: (ارے) ہر لقمہ کے اوپر لکھا ہوا ہے کہ (یہ) فلاں کے لیے ہے۔ جو فلاں کا فرزند ہے اور وہ فلاں کا بیٹا ہے۔
-12-
ہیں توکل کن ملرزاں پا و دسترزق تو بر تو زِتو عاشق ترست
ترجمہ: خبردار توکل کر۔ (خوف کے مارے) ہاتھ پاؤں کو لرزاں نہ کر۔ تیرا رزق تجھ پر تجھ سے زیادہ عاشق ہے۔
-13-
عاشق ست و میزند او مول مولکو زِبےصبریت داند اے فضول
ترجمہ: وہ (خود تجھ پر) عاشق ہے اور (تجھے) ٹھیرو ٹھیرو کی آواز دے رہا ہے۔ کیونکہ اے فضول آدمی وہ تیری بےصبری کو جانتا ہے۔
-14-
گر تُرا صبرِے بُدے رزق آمدےخویش را چوں عاشقاں بر تو زَدے
ترجمہ: اگر تجھ کو صبر ہوتا تو (بھی) رزق کہیں نہیں گیا تھا بلکہ وہ آ کر عاشقوں کی طرح اپنے آپ کو تجھ پر گرا دیتا۔
-15-
ایں تپ و لرزہ ز خوفِ جوع چیستدر توکل سیر مےتانید زیست
ترجمہ: (پھر) بھوک کے خوف سے تپ اور لرزہ (تجھے) کیوں (عارض) ہے۔ توکل میں سیر (رہ کر) زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
مطلب: یہاں توکل سے مراد یہ نہیں کہ آدمی کسب معاش کی کوئی تدبیر کرے۔ اور محض توکل کے دعوے میں بےکار و فارغ رہ کر رزق کے لیے روبآسمان ہو بیٹھے۔ بلکہ اس وعض و نصیحت سے مقصد یہ ہے کہ رزق کے فکر میں گھلنا اور بےچین ہونا اچھا نہیں۔ بلکہ خدا پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اور یہ بھروسہ طلبِ رزق اور سعی کسب کے منافی نہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ رزق کے اسباب بھی اختیار کرے اور ان اسباب کے منجربہ خیر ہونے کی توقع خدا سے رکھے۔ یہ نہ سمجھے کہ میں جو کوشش کر رہا ہوں اس سے خاطر خواہ نتیجہ حاصل کر لینا میرے اختیار میں ہے۔ مولانا کا مسلک اس مسئلہ میں ہر جگہ یہی رہا ہے۔ چنانچہ پہلے دفتر میں فرما چکے ہیں۔
گر تو کل مے کنی در کار کنکسب کن بس تکیہ بر جبار کن
آگے حریص و غیر متوکل آدمی کو ایک بیل سے تشبیہ دیتے ہوئے ایک تمثیل میں ارشاد فرماتے ہیں: