دفتر پنجم: حکایت: 129
غالب شدنِ مَکرِ روباہ و زبوں شدنِ خراز حرص
لومڑی کے مکر کا غالب آنا اور گدھے کا حرص سے مغلوب ہو جانا
-1-
خَر بسے کوشید و او را دفع گفتلیک جوع الکلب با خر بود جفت
ترجمہ: گدھے نے (لومڑی کے مکر سے بچنے کی) بہتیری کوشش کی اور اس کو ٹالتا رہا۔ مگر (چونکہ) گدھے کو شدّت کی بھوک لگ رہی تھی (اس لیے)
-2-
غالب آمد حرص و صبرش شد ضعیفبس گلوہا را بُرد عشقِ رغیف
ترجمہ: حرص (اس پر) غالب آ گئی اور اس کا صبر بےبس (ہو گیا) چنانچہ وہ ہلاکت کے جال میں جا ہی پڑا اور روٹی کی حرص بہتیرے گلے کاٹ دیتی ہے۔
-3-
زاں رسُولے کش حقائق داد دستکَادَ فَقرًا اَنْ یَّکُنْ کُفْرٌ آمدست
ترجمہ: (اسی لیے) ان رسول (برحق صلی اللہ علیہ السلام) سے جن کو حقائق کی آگاہی حاصل تھی یہ حدیث مروی ہے کہ فقر کفر بن جانے کے قریب ہوتا ہے۔
مطلب: حدیث کَادَ الفَقَر اَن یَّکُونَ کُفراً حلیہ ابو نعیم میں اور شعب الایمان بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے (تمییز الطیب) فقر کے قریب بکفر ہونے کی وجہ یہ ہے بعض حریص الطبع لوگ جو فقر پر صبر نہیں کر سکتے محتاجی سے بےبس ہو کر غضب، سرقہ، خیانت اور قتل وغیرہ جرائم بلکہ ترکِ مذہب پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ (بقول سعدی رحمۃ اللہ علیہ
با گرسنگی قوت پرہیز نماندافلاس عناں از کفِ تقویٰ بستاند
لیکن اگر حرص غالب نہ ہو اور صبر کی ہمت ہو تو پھر فقر مایہ فخر ہے۔ رسول ﷺ نے دعا کی ہے۔ اَلّلھُمَ اَحیِنیِ مِسکِیناً وَاَمِتْنی مِسکِیناً وَّاحْشُرْنِی فِی زمُرۃِ المَساکِینَ۔ یعنی الہیٰ مجھے فقیرانہ زندگی دے۔ فقیرانہ حالت میں میری دنیوی زندگی کا خاتمہ کر اور فقراء کی جماعت کے ساتھ مجھے دوبارہ اٹھا (مشکوٰۃ) اور فرمایا۔ فُقَرَاءُ المُھَاجِرِین یَدخُلُونَ الجَنَّۃَ قَبل اَغنِیَآءِ ھم خَمسَ مائۃِ عَاماً یعنی مہاجرین کے فقیر اُن کے غنیوں سے پانچ سو برس پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ (جامع صغیر سیوطی)
-4-
گشتہ بود آں خر مجاعت را اسیرگفت اگر مکرست یکرہ مُردہ گیر
ترجمہ: (چونکہ) وہ گدھا بھوک میں گرفتار تھا۔ (اس لیے اپنے جی میں) کہنے لگا۔ اگر (یہ لومڑی کا) مکر (ہی) ہے تو فرض کرو کہ (اس سے میں) ایک بارگی ہلاک ہو جاؤں گا تو۔
-5-
زیں عذابِ جوع یکرہ وارہمگر حیات این ست من مُردہ بہم
ترجمہ: بھوک کے اس عذاب سے تو میں چھوٹ جاؤں گا۔ اگر (میری قسمت میں) یہی زندگی ہے تو میرا مر جانا اچھا ہے۔
-6-
خر کز اوّل توبہ و سوگند خوردعاقبت ہم از خری خبطے بکرد
ترجمہ: گدھے نے جو پہلے (دور اندیشی کے بغیر) توبہ کی اور قسم کھائی تھی آخر (اب) بھی گدھا ہی تھا جو بدتمیزی کر بیٹھا۔
-7-
حرص کور و احمق و ناداں کندمرگ را بر احمقاں آساں کند
ترجمہ: حرص (لوگوں کو) اندھے اور بےوقوف و نادان بنا دیتی ہے۔ احمق لوگوں پر موت کو آسان کر دیتی ہے۔
-8-
نیست آساں مرگ بر جانِ خراںکہ ندارند آبِ جانِ جاوداں
ترجمہ: (حالانکہ) گدھوں کی جان پر موت (کا وارد ہونا) کوئی آسان نہیں۔ کیونکہ ان کو ابدی روح کی عزّت حاصل نہیں۔
-9-
چوں ندارد جانِ جاویداں شقی ستجراتِ او بر اجل از احمقی ست
ترجمہ: جب وہ (گدھا) ابدی روح نہیں رکھتا تو بدبخت ہے۔ (اور) اس کا موت پر جرات کرنا بےوقوفی ہے۔
مطلب: انسان کی روح موت سے فنا نہیں ہوتی کیونکہ وہ ابدی ہے۔ بخلاف اس کے گدھے، گھوڑے بیل وغیرہ تمام حیوانات کی روحیں فانی ہیں۔ قیامت میں تمام وحوش و بہائم ایک دوسرے سے ظلم کا بدلہ لے کر ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائیں گے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ گدھے کا ایسی معرفت پر جرات کرنا جو اُسے فنائے ابدی کی طرف لے جاتی ہے بڑی حماقت تھی۔ ہاں انسان کی روح کو معرفت سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ وہ اگر موت پر جرات کرے تو بعید نہیں۔ گدھے کے ذکر میں ان لوگوں کی طرف تعریض ہے جو حماقت و جہالت اور ناعاقبت اندیشی میں نرے گدھے ہیں۔ کیونکہ وہ اگر عذاب آخرت میں زندہ رہیں گے تو ان کی وہ زندگی موت سے بدتر ہوگی۔ آگے آخرت کی اچھی زندگی حاصل کرنے کی ترغیب فرماتے ہیں:
-10-
جہد کُن تا جاں مُخلّد گرددتتا بروزِ مرگ برگے باشدت
ترجمہ: کوشش کرو کہ تمہاری روح ہمیشہ (زندہ) رہے۔ تاکہ موت کے دن تم باسامان ہو۔
-11-
اعتمادش نیز بر رازق نبودکہ بر افشاند برو از غیب جُود
ترجمہ: اس (گدھے) کو (بےصبری کے علاوہ) رزق بخشنے والے (خدا) پر بھروسہ بھی نہ تھا جو اس غیب سے بخشش (کا مینہ) برساتا ٗ
جس نے یہ منہ دیا ہے کھانے کو دانت جس نے دیے چبانے کو
جس نے بخشا نگلنے کو ہے گلاہضم کرنے کو ہے دیا معدہ
کیا وہ کھانے کو کچھ نہیں دے گاکیوں نہیں دے گا بالیقین دے گا
-12-
تا کنونش فضلِ بےروزی نداشتگرچہ گہ گہ برسرش جوعے گماشت
ترجمہ: (چنانچہ) اب تک (اس خداوند رزاق کے) فضل نے اس کو رزق سے محروم نہیں رکھا۔ اگرچہ کبھی کبھی اس پر (ازراہِ مصلحت) بھوک کو (بھی) مسلّط کر دیا۔
مطلب: وہ گدھا جو لومڑی کے دام مکر میں گرفتار ہونے لگا ہے تو اس کی محرک دو باتیں ہیں۔ ایک تو اس پر حرص غالب ہے۔ دوسرے اس کو خداوند تعالیٰ کی رزق رسانی پر اعتماد نہیں۔ اگر صرف حرص غالب ہوتی لیکن خدا پر اعتماد ہوتا تو وہ لومڑی کے سبز باغ کی پروا نہ کرتا۔ بلکہ اپنی حرص کے تقاضے پر خدا ہی سے رزق مزید وروزی کثیر کا امیدوار رہتا۔ اور اگر اس میں حرص نہ ہوتی، صرف بےاعتمادی ہوتی تو اس کا یہ نتیجہ ہوتا کہ وہ بےاعتمادی کی وجہ سے فکرِ فردا میں اسی جگہ گھومتا پھرتا۔ لومڑی کے باغ و بستان کی طمع میں اس کے ساتھ نہ جاتا مگر حرص کے ساتھ اس بےاعتمادی کے اجتماع نے اس کو شیر کے دہانِ آز کا لقمہ بنایا۔ حالانکہ حق تعالیٰ کا فضل ہمیشہ اس کو روزی بخشتا رہا۔ اور اگر کبھی اس کو بھوک برداشت بھی کرنی پڑتی تو یہ اس کے فضل کی کمی پر دلیل نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھوک میں اس کے لیے صحت جسم کی پائیداری اور مرض کی آفتوں سے نجات مضمر تھی۔ اور یہ بھی داخلِ فضل و کرم ہے۔
آگے اس کا ذکر فرماتے ہیں: