دفتر 5 حکایت 128: مخلوق کے دل کی بات کو معلوم کرنے کے سبب کے بیان میں

دفتر پنجم: حکایت: 128


در بیان سبب دانستن ضمیر ہائے خلق

مخلوق کے دل کی بات کو معلوم کرنے کے سبب کے بیان میں

-1-

چوں دلِ آں آب ازانہا خالی است عکس روہا از بروں در آب جَست

ترجمہ: جب اس دریا (سے قلب) کی تہ ان (کدورتوں) سے خالی ہے۔ تو چہروں کا عکس باہر سے پانی کے اندر جا پڑا۔

-2-

پس مصفّا کن درونِ خویش را تا بدانی سِرّ ہر درویش را

ترجمہ: تم اپنے باطن کو صاف کرو۔ تاکہ ہر درویش کے راز (دِل) کو معلوم کر سکو۔

-3-

پس تُرا باطن مصفّا ناشدہ خانہ پُر از دیو و نسناس و دَدَہ

-4-

اے خر از استیزہ ماندہ در خری کے زِ اَرواحِ مسیحاؑ بُو بری

ترجمہ: تو اے گدھے جو (اپنی) ضد سے گدھے پن میں (مقید) رہ گیا۔ تیرا باطن صاف نہیں ہوا (اور تیرے قلب کا) گھر دیو اور بن مانس اور درندے (کی مانند وحشت ناک خیالات) سے پُر ہے (پھر) تو حضرت مسیح علیہ السلام کی (سی) پاک ارواح کی کیا ریس کر سکتا ہے۔

مطلب: عارفین و کاملین کے قلوب نزہت و پاکیزگی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قلب سے مشابہ ہوتے ہیں جو ماسوی اللہ کے خیالات سے پاک تھا۔ جس شخص کا دل دنیا کے گاؤخر کی جولان گاہ ہو اس کا یہ رتبہ نہیں اس لیے وہ کشفِ خواطر اور ادراکِ ضمائر پر بھی قادر نہیں۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:

-5-

کے شناسی گر خیالے سر کند کز کدامیں مَکْمنے سر بر زند

ترجمہ: (پس) اگر (کسی شخص کے قلب سے) کوئی خیال پیدا ہو تو تُو کب پہچان سکتا ہے کہ وہ کس نہاں خانے سے نکلا ہے۔

-6-

چوں خیالے میشود در زہُد تن تا خیالات از درونہ روفتن

ترجمہ: (مگر تصفیہ قلب کوئی آسان کام نہیں۔ کیونکہ) باطن سے (ماسویٰ کے) خیالات کے صاف کرتے کرتے بدن زہد کی وجہ سے ایسا (مضمحل) ہو جاتا ہے۔ جیسے خیال (کہ ایک نہایت لطیف چیز ہے)

مطلب: زہد کے معنی ہیں خواہشاتِ نفس اور لذّاتِ جسمانیہ سے دست بردار ہو جانا۔ جو تزکیہ قلب و تصفیہ باطن کے لیے ضروری ہے۔ فرماتے ہیں کہ تصفیہ باطن کے لیے زہد ضروری ہے۔ اور زہد سے بدن نہایت ضعیف و نحیف ہو جاتا ہے۔ اس لیے تصفیہ باطن کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ بعض نسخوں میں خیالے کے بجائے خلالے درج ہے جس کے ساتھ جسم لاغر کی تشبیہ متعارف ہے۔ اس لیے یہ لفظ زیادہ چسپاں ہے۔ مگر خیالے کے لفظ کی صنعت مشاکلہ بھی اس کو ترجیح دے رہی ہے۔