دفتر پنجم: حکایت: 127
دانستنِ شیخ ضمیرِ سائل را بے گفتن و دانستن وامِ وام داراں بے گفتن کہ نشانِ ایشانِ ایں باشد اُخرُج بِصِفَآئِیِ اِلیٰ خَلقِی
شیخ کا سوالیوں کے ضمیر کو (منہ سے) کہے بدون معلوم کر لینا۔ اور قرض داروں کے قرض کو بتائے بغیر سمجھ جانا۔ کیونکہ ان (بزرگوں) کا نشان یہ ہوتا ہے کہ میری مخلوق کی طرف میری پاکیزگی کے ساتھ نکلو
مطلب: شیخ سائلوں کے ارادے و نیت اور ان کی احتیاج و ضرورت کو جو معلوم کر لیتے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حق تعالیٰ کے تقدس و تنزّہ کا پر تو اُن پر پڑ چکا تھا۔ اور فقراء کے حال و خیال کے انکشاف کے لیے یہی سر رشتہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اس لیے وہ اپنے باطن کی صفائی سے لوگوں کا حال اس طرح دیکھ لیتے تھے جس طرح آئینے کے اندر ہر چیز کا عکس نظر آ جاتا ہے۔ چنانچہ عنوان کی حدیثِ قدسی میں یہی اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندے کو فرماتا ہے کہ تم میرے بندوں سے جب ملو تو اس صفائی کے ساتھ ملو جو میری صفت ہے۔
-1-
پیشِ او روشن ضمیرِ ہر کسےاز فقیر و وام دار و مفلسے
ترجمہ: محتاج، قرض دار اور مفلس میں سے ہر شخص کے دل کی بات ان پر روشن تھی۔
-2-
ہرچہ در دل داشتے آں پُشت خمقدر آں دادے نہ بسیار و نہ کم
ترجمہ: اگر کوئی کبڑی پیٹھ والا (جس کی یہ حالت قرض کے بوجھ سے ہو گئی ہو) جو کچھ (آرزو) دل میں رکھتا اس کی مقدار کے موافق دے دیتے۔ نہ کم نہ زیادہ۔
-3-
پس بگفتندش چہ دانستی کہ اُوایں قدر اندیشہ دارد اے عُمو
ترجمہ: پس لوگوں نے ان سے کہا چچا جان! آپ کو یہ کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سوالی اس قدر آرزو رکھتا ہے۔
-4-
اُو بگفتے خانۂ دل خلوت استخالی از گدیہ مثالِ جنّت ست
ترجمہ: وہ (ان لوگوں کے جواب میں) کہتے کہ (اہم اہل اللہ کا) دل فراغت کا مقام ہے بہشت کی طرح آرزو مندی (کے خیال) سے خالی ہے۔ (بہشت میں محتاجی و سوال کا نام نہ ہوگا۔ اور کوئی آرزو ایسی نہ ہوگی جو پوری نہ ہو)
-5-
اندراں جز عشقِ یزداں کار نیستجُز خیالِ وصل او دیّار نیست
ترجمہ: اس (دل) میں خدا کے عشق کے سوا کوئی کام نہیں۔ اس کے وصل کے خیال کے سوا کوئی مالکِ خانہ نہیں۔ بقول صائب رحمۃ اللہ علیہ
غیر حق کردم فرامش ہر چہ در دل داشتمطاقِ نسیاں از دو عالم قبلہ گا ہے شد مرا
-6-
خانہ را من روفتم از نیک و بدخانہ ام پر گشت از نورِ احد
ترجمہ: میں نے گھر کو ہر نیک و بد سے صاف کر لیا۔ میرا گھر خداوندِ یکتا کے نور سے بھر گیا۔ (بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ
حافظ در دل تنگت چو فرود آمد یارخانہ از غیر نپر داختہ یعنی چہ
-7-
ہرچہ بینم اندر و غیرِ خداآنِ من نبود، بود عکسِ گدا
ترجمہ: میں اس (خانہ دل) میں حق کے سوا جو کچھ دیکھتا ہوں وہ میرا (عکس خیال) نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی فقیر (سائل) کا عکس ہوتا ہے۔
مطلب:میرا قلب غیر خدا کے خیال سے بالکل پاک ہو چکا ہے (اس لیے جب کبھی میرے دل میں کوئی خیال آتا ہے تو وہ مجھ سے ناشی نہیں ہوتا بلکہ کسی سائل کا خیال ہوتا ہے۔ اور میں فوراً سمجھ جاتا ہوں کہ یہ فلاں سائل کے دل کا خیال ہے۔ جو میرے قلبِ صافی پر منعکس ہو گیا ہے اور پھر میں اس پر عمل کرتا ہوں۔ آگے عارف کے قلبِ صافی کو آبِ صافی سے تشبیہ بطور دلیل فرماتے ہیں:
-8-
گردر آبے نخل یا عُرجوں نمودجز زِعکسِ نخلہ بیروں نبُود
ترجمہ: اگر کسی (صاف) پانی میں کھجور یا (کھجور کی) شاخ نظر آئے تو (وہ کسی) بیرونی کھجور کے عکس کے سوا (اور کچھ) نہیں۔
مطلب: ظاہر ہے کہ صاف پانی کے اندر نظر آنے والے درخت کا زیر آب کوئی وجود نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ باہر کے درخت کا عکس ہے۔ اسی طرح عارف کے دل کا خیال ماسوا اس کے باطن سے پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی دوسرے شخص کے خیال کا عکس ہے۔ آگے پھر تائید فرماتے ہیں:
-9-
در تگِ آب ار بہ بینی صُورتےعکس بیروں باشد آں نقش اے فتے
ترجمہ: اے جوان! اگر تم پانی کی تہ میں کوئی صورت دیکھو تو وہ نقش باہر کا عکس ہوگا۔ (آگے بتاتے ہیں کہ قلب میں یہ کیفیت کیونکر پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کے خیالات کو محسوس کرنے لگے)
-10-
لیک تا آب از قِذر خالی شدنتنقیہ شرط ست در جوئے بدن
ترجمہ: لیکن (اس طرح غیروں کے خیالات کو ادراک کرنے کے لیے) دریائے (قلب) کے کدورات (ماسوی اللہ) اچھی طرح پاک ہونے تک (ریاضت و مجاہدات کے ذریعے) نہر بدن میں تصفیہ (کا عمل جاری رکھنا) شرط ہے۔
-11-
تا نماند تیرگی و خس دروتا امیں گردد نماید عکس رُو
ترجمہ: تاکہ اس میں (خیالات غیر کی) کدورت اور تنکا (باقی) نہ رہے۔ حتیٰ کہ وہ (بیرونی عکوس کا) امانت دار ہوجائے۔ (اور اس میں ہر) چہرے کا عکس نظر آنے لگے۔
-12-
جز گِلِ آبہ در تنت کو اے مُقِلآب صافی کُن تو زود اے خصمِ دل
ترجمہ: اے مفلس تیرے بدن میں (دنیوی خیالات کی) کیچڑ کے سوا اور ہے ہی کیا؟ اے دشمنِ دل جلدی دریائے قلب کو صاف کر۔ (آگے فرماتے ہیں کہ قلب کن چیزوں سے مکدّر ہوتا ہے۔)
-13-
تو برانی ہر دمے کز خواب و خورخاک ریزی اندریں جو بیشتر
ترجمہ: تو ہر وقت اس (بات) پر آمادہ ہے کہ سونے اور کھانے کی کثرت سے اس نہرِ قلب میں زیادہ سے زیادہ مٹی ملائے (اور اس کو مکدّر کرے)۔