دفتر 5 حکایت 126: شیخ کی طرف غیب سے اشارہ آنا کہ اس دو سال کی مدت بھر تم نے ہمارے حکم سے لیا دیا ہے اس کے بعد دیا کرو اور لیا نہ کرو۔ چٹائی کے نیچے ہاتھ ڈالو۔ کیونکہ اس کو ہم نے تمہارے حق میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تھیلے کی مانند بنا دیا ہے۔ جو کچھ چاہوگے (اس سے) پاؤ گے۔ تاکہ اہلِ عالم کو معلوم ہو جائے کہ اس عالم سے ماورا ایک اور عالم ہے۔ اگر تم اس عالم کی خاک ہاتھ میں اٹھا لو تو سونا بن جائے کوئی مردہ اس میں آ جائے تو زندہ ہو جائے۔ نحسِ اکبر آ جائے تو سعدِ اکبر بن جائے۔ کفر اس میں آ جائے تو ایمان ہو جائے۔ زہر اس میں آئے تو تریاق بن جائے۔ وہ (عالم) نہ اس عالم میں داخل ہے نہ اس عالم سے باہر ہے۔ نہ اس عالم کے اوپر نہ اس سے نیچے نہ جڑا ہوا نہ الگ۔ اس کی کوئی کیفیت اور حالت قابلِ بیان نہیں۔ ہر وقت اس سے ہزاروں نشانیاں بطور نمونہ ظاہر ہوتی ہیں۔ جس طرح ہاتھ کی کاری گری ہاتھ کی صورت کے ساتھ اور آنکھ کا اشارہ آنکھ کی صورت کے ساتھ۔ اور زبان کی فصاحت زبان کی ساتھ نہ داخل ہے نہ اس سے خارج۔ نہ جڑی ہوئی نہ الگ ہے۔ اور عاقل کو اشارہ کافی ہے۔

دفتر پنجم: حکایت: 126


اشارت آمدن از غیب بشیخ کہ ایں دو سال بفرمانِ ما بستدی و بدادی بعد ازیں بدہ و مستان۔ دست در زیرِ حصیر میکن کہ آنرا چوں انبانِ ابو ہریرہ کردہ ایم در حقِ تو۔ ہرچہ بخواہی بیابی۔ تا یقیں شود عالمیاں را کہ ورائے ایں عالم عالمے ست کہ اگر خاکِ ایں عالم بکف گیری زر شود۔ مردہ درد آید زندہ شود۔ نحسِ اکبر در آید سعدِ اکبر شود کفر در و آید ایمان شود۔ زہر در و آید تریاق شود۔ نہ داخل ایں عالم ست نہ خارجِ ایں عالم۔ نہ فوقِ ایں عالم نہ تحت نہ متصل نہ منفصل بے چون و بے چگونہ۔ ہر دم از و ہزاراں اثر نمونہ ظاہر مے شود چنانکہ صنعتِ دست با صورتِ دست و غمزہ چشم با صورتِ چشم۔ و فصاحتِ زبان با صورتِ زبان نہ داخل ست و نہ خارج او ست نہ متصل و نہ منفصل وَالعَاقِلُ تَکفِیہِ الِاَشَارَۃُ

شیخ کی طرف غیب سے اشارہ آنا کہ اس دو سال کی مدت بھر تم نے ہمارے حکم سے لیا دیا ہے اس کے بعد دیا کرو اور لیا نہ کرو۔ چٹائی کے نیچے ہاتھ ڈالو۔ کیونکہ اس کو ہم نے تمہارے حق میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تھیلے کی مانند بنا دیا ہے۔ جو کچھ چاہوگے (اس سے) پاؤ گے۔ تاکہ اہلِ عالم کو معلوم ہو جائے کہ اس عالم سے ماورا ایک اور عالم ہے۔ اگر تم اس عالم کی خاک ہاتھ میں اٹھا لو تو سونا بن جائے کوئی مردہ اس میں آ جائے تو زندہ ہو جائے۔ نحسِ اکبر آ جائے تو سعدِ اکبر بن جائے۔ کفر اس میں آ جائے تو ایمان ہو جائے۔ زہر اس میں آئے تو تریاق بن جائے۔ وہ (عالم) نہ اس عالم میں داخل ہے نہ اس عالم سے باہر ہے۔ نہ اس عالم کے اوپر نہ اس سے نیچے نہ جڑا ہوا نہ الگ۔ اس کی کوئی کیفیت اور حالت قابلِ بیان نہیں۔ ہر وقت اس سے ہزاروں نشانیاں بطور نمونہ ظاہر ہوتی ہیں۔ جس طرح ہاتھ کی کاری گری ہاتھ کی صورت کے ساتھ اور آنکھ کا اشارہ آنکھ کی صورت کے ساتھ۔ اور زبان کی فصاحت زبان کی ساتھ نہ داخل ہے نہ اس سے خارج۔ نہ جڑی ہوئی نہ الگ ہے۔ اور عاقل کو اشارہ کافی ہے۔

توضیحات:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ: رسول اللہ ﷺ کے اصحابِ خاص میں سے تھے۔ واقعہ خیبر میں اسلام لائے۔ گھر بار چھوڑ کے ہمیشہ اور ہر وقت کے لیے رسول اللہ ﷺ کے رفیق بن گئے قوتِ لایموت پر قانع رہ کر حصولِ علم اور روایتِ حدیث اپنا مطمحِ نظر بنایا۔ اس لیے تمام صحابہ سے زیادہ روایات ان سے مروی ہیں۔ وہ علمِ ظاہر اور علمِ باطن دونوں کے خازن تھے۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے علم کی دو بھرتیاں بھری ہیں۔ ایک کو تم میں شائع کر دیا۔ دوسری کو اگر شائع کروں تو میرا گلا کاٹ ڈالا جائے اور اس سے غالباً اسرارِ باطن مراد ہیں۔ جن کی عام اشاعت موجبِ فساد سمجھی گئی ہے۔ انہی سے ایک اور روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ میں حضور سے بہت سی احادیث سنتا ہوں جو مجھے یاد نہیں رہتی۔ آپ ﷺنے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ۔ میں نے چادر پھیلا دی تو رسول اللہ ﷺنے بہت کچھ ارشادات فرمائے جس کے بعد میں نے کسی حدیث کو فراموش نہیں کیا۔ اسلام میں جو فرقے حدیث کے منکر یا حدیث کے بدیں وجہ مخالف ہیں۔ کہ اس پر مذہب حق اہلسنت و الجماعت کی تعمیر قائم ہے۔ وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خصوصیت سے دشمن ہیں۔ مقدم الذکر کی مثال اس زمانہ کے دلدادگانِ افرنجیت ہیں جو اپنے عقائد باطلہ کی ترویج کے لیے عمل بالقرآن کو آڑ بنا کر حدیث کا انکار کر رہے ہیں اور موخرالذکر کی مثال فرقہ رافضیہ ہے۔ یہ دونوں گمراہ جماعتیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخت مخالف ہیں۔ جس سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حدیث میں بلند پایہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ ان کا اصلی نام عبدالرحمٰن ہے۔ مگر نام پر کنیت کی شہرت غالب آ گئی۔ اور کنیت کی شہرت اس بنا پر ہو گئی۔ کہ ہریرہ کے معنی ہیں چھوٹی سی بلی۔ وہ ایک چھوٹی بلّی کو ہر وقت اپنی آغوش میں رکھتے تھے۔

عنوان کے اندر انبانِ ابو ہریرہ سے مراد شاید ان کی وہ چادر ہو جس کے پھیلا دینے سے ان کو اس قدر حدیثیں یاد ہو گئیں کہ جب کسی واقعہ میں حکمِ شرع کی ضرورت ہوتی تو اس کے متعلق ان کے پاس کوئی نہ کوئی روایت موجود ہوتی تھی۔ یا شاید علم کے وہ ظرف مراد ہوں جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبتِ مبارک میں علم ظاہر و باطن سے پُر کئے تھے۔ اور اس سے علوم و معارف کے گونا گوں عجائبات مل سکتے تھے۔ 57 ہجری میں وفات پائی نحسِ اکبر کے ستارے زحل اور سعدِ اکبر سے ستارہ مشتری مراد ہے۔ منجمین کا خیال ہے کہ جن ستاروں میں سعادت و نحوست کی تاثیر موجود ہے ان میں سے یہ دو ستارے سب سے زیادہ اثر پذیر ہیں۔ مولانا نے ان ستاروں کی نحوست و سعادت کا ذکر بناء علی المشہور کر دیا ورنہ عقائدِ اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں۔

ورائے ایں عالم عالمے ست: اس سے مراد وہ عالم ہے۔ جس میں قدرتِ حق اسباب و علل کے بدون کام کرتی ہے۔ عالمِ حق کے اسباب پر تمام امور مترتب ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک بچہ کے پیدا ہونے کا سبب استقرارِ حمل ہے۔ اور استقرارِ حمل کا سبب جماع۔ اور جماع کا سبب شہوت ہے۔ اور شہوت کا سبب قوتِ رجولیت ہے۔ وَھلُمَّ جَراًّ۔ان اسباب کا پیدا کرنا اور مسببات کو ان کا نتیجہ بنانا قدرت ہی کا کام ہے مگر اس کے دوش بدوش ایک عالم ہے۔ جس میں قدرتِ حق سلسلہ اسباب کے بغیر کام کرتی ہے۔ وہاں اسباب و علل کا دخل نہیں۔ قدرت کو جو امر مطلوب ہوتا ہے وہ بلا سبب وجود میں آ جاتا ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مذکورہ بالا اسباب کے بغیر پیدا ہوئے۔

نہ داخل ایں عالم ست نہ خارج ازیں عالم: یہ ضروری نہیں کہ وہ عالم اس عالم سے جداگانہ اور بہت دور واقع ہو۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ موجود ہے۔ ہاں جب دیکھتے ہیں کہ اس عالم کے واقعات مثلاً پہاڑ کی چٹان سے روشنی کا نکل پڑنا، آگ کا گلزار بن جانا، عصا کا اژدہا کی صورت اختیار کرنا، مردہ آدمی کا زندہ ہو جانا، زمین پر پاؤں مارنے سے چشمہ نکل پڑنا، ایک پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ پڑنا، دریا کے پاٹ کا پھٹ کر خشک زمین نکل آنا وغیرہ اس عالمِ اسباب کے اندر ظہور پذیر ہوئے ہیں تو کہنا پڑتا ہے کہ وہ عالم اس عالم سے خارج نہیں۔ اور جب دیکھتے ہیں کہ اس عالم کے احکام اس عالم سے جداگانہ ہیں۔ اس عالم کی ایک روٹی سے لشکر کا لشکر سیر ہو جاتا ہے۔ اور اس عالم میں ایک روٹی سے ایک آدمی کا پیٹ بھی نہیں بھرتا تو ماننا پڑتا ہے وہ عالم اس عالم میں داخل بھی نہیں۔ وہ جدا ہے یہ جدا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے۔ جیسے دنیا میں عالم انسان، عالمِ جنات، عالمِ نسواں مختلف عوالم موجود ہیں۔ جن کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ عالم نہ ایک دوسرے کے اندر ہیں نہ ایک دوسرے سے باہر ہیں۔ بلکہ اپنی اپنی حیثیت کے امتیاز سے دوش بدوش واقع ہیں آگے مولانا نے خود اس کی چند مثالیں پیش فرما دی ہیں:

-1-

تا دو سال ایں کار کرد آں مردِ کار بعد ازاں امر آمدش از کِردگار

ترجمہ: دو سال تک اس کام کے دھنی شیخ نے وہ بھیک مانگنے کا، کام کیا۔ اس کے بعد ان کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ:

-2-

بعد ازیں مےدِہ ولے از کس مخواہ ما بدادیمت زِ غیب ایں دستگاہ

ترجمہ: اس کے بعد تم (محتاجوں کو نقد و جنس) کیا کرو۔ لیکن (خود) کسی سے نہ مانگو۔ ہم نے غیب سے تم کو یہ مقدور بخش دیا ہے۔

-3-

ہر کہ خواہد از تو از یک تا ہزار دست در زیر حصیرت کن برار

ترجمہ: جو کوئی (محتاج) تم سے ایک (روپیہ) سے (لے کر) ہزار (روپے) تک مانگے۔ تم اپنے بورئیے کے نیچے ہاتھ ڈالو۔ (اور اتنی نقدی) نکالو اور دے دو۔

-4-

ہیں ز گنج رحمتِ بےمر بدہ در کفِ تو خاک گردد زر بدہ

ترجمہ: ہاں ہاں! رحمت کے خزانہ بے پایاں سے دیتے جاؤ۔ تمہارے ہاتھ میں مٹی (بھی) سونا ہو جائے گی۔ دیتے چلو۔

-5-

ہر چہ خواہندت بدہ مندیش ازاں دادنِ یزداں تو بیش از پیش داں

ترجمہ: (محتاج و فقیر) جو کچھ تم سے مانگیں دیتے جاؤ۔ (اور) اس (داد و دہش) سے اندیشہ نہ کرو۔ حق تعالیٰ کی عطا کو ہر لمحہ پہلے سے زیادہ سمجھو۔

-6-

در عطائے ما نہ تخسیر و نہ کم نہ پشیمانی نہ حسرت نہ ندم

ترجمہ: ہماری عطا میں نہ ٹوٹا ہے نہ کمی۔ نہ پشیمانی نہ حسرت (اور نہ شرمندگی)

-7-

دست زیرِ بوریا کن اے سند از برائے روئے پوشِ چشم بد

ترجمہ: اے معتمد! بوریے کے نیچے ہاتھ ڈالو اور نقدی نکال کر دے دیا کرو۔ یہ (بوریے کا حجاب) نظر بد سے پردہ رکھنے کے لیے ہے۔

مطلب: چشم بد سے مراد عوام ہے کیونکہ عوام میں عجائباتِ قدرت کو اصلی شکل میں دیکھنے کی قابلیت نہیں۔ اس لیے سنت اللہ اس بات کی متقاضی ہے کہ ان عجائبات کی اصلیت ان کی نظر سے مخفی رہے۔ اور وہ اس کو کسی نہ کسی حجاب میں دیکھیں۔ عوام کی اسی عدم قابلیت کو نظرِ بد سے تعبیر کیا ہے۔ دفترِ سوم کے اواخر میں مولانا نے ایک حکایت لکھی ہے اور وہ مقام مفتاح العلوم کی جلد دہم میں واقع ہوا ہے کہ ایک قافلہ شدّتِ اشتہا سے تڑٌپ رہا تھا۔ اتفاق سے رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے گئے۔ تو اہلِ قافلہ نے آپ ﷺکی خدمت میں فریاد کی۔ آپ ﷺنے فرمایا جاؤ فلاں مقام میں ایک غلام پانی کی دو مشکیں اونٹ پر لادے لے جا رہا ہے۔ اس کو یہاں لے آؤ۔ لوگ گئے اور اس غلام کو مشکوں سمیت پکڑ لائے۔ آپ ﷺنے ان مشکوں سے تمام قافلہ کے آدمیوں اور جانوروں کو سیراب کر دیا۔ اور اب بھی وہ مشکیں پانی سے پُر تھیں اس مقام پر مولانا فرماتے ہیں:

مشک خود روپوش بود و موج فضل میر سید از امر او از بحر اصل

آب از جوشش ہمے گردد ہوا واں ہوا گرد و ز سردی آب ہا

یعنی یہ مشک کرشمۂ قدرت اور ظہورِ معجزہ کا ایک پردہ تھی۔ ورنہ پانی کی موجیں غیب سے چلی آ رہی تھی۔ اور اس کی یہ صورت عقل و قیاس میں بھی ممکن ہے کہ کسی دریا یا چشمہ کا پانی آناً فاناً ہوا میں مستحیل ہوتا ہوگا اور وہ ہوا لگاتار یہاں پہنچ کر پانی بنتی جاتی ہوگی۔ مگر استحالہ عنصرین کا یہ تماشا عوام کو بےنقاب دکھانا سنت اللہ کے خلاف ہے۔ اس لیے مشک کو اس کا پردہ بنا دیا گیا۔ مشک پہلے ہی پانی سے پُر تھا جب اس کا وہ اندرونی پانی نکلنا شروع ہوا۔ تو وہ غیبی پانی کی موجیں اس کے ساتھ آ ملیں۔ اور لوگوں کو یہی دکھائی دیتا تھا کہ پانی مشک ہی سے آرہا ہے۔ مشکوٰۃ کے باب المعجزات میں اس سے ملتی جلتی ایک روایت مندرج ہے۔

عَن عَوفِ عن اَبِی رِجَاءِ عَن عِمرآن بِن حَصیَن قَالَ کُنا فِی سَفر مَعَ النَّبیِ صَل اللہ علیہ وسلم فاشتکی الیہ النّاس مِنَ العَطشِ فَنَزَلَ فَدَعَا فلانا کَانَ یُسَمیہ اَبُورِ جَاءِ وَنسیہ عوَف وَدَعَا عَلَیا فَقَالَ اذھَبَا فَابتغیَا المآءَ فَاَن طَلَقَا فَتَلقیا امراۃ بَینَ فَرَا دَینن اوَ سَطِیحَتین مِن مّاءِ فَجَآءَ بِھَا اِلی النَّبِی فَاستَتَرُ نُوھَا مَن بَغَیرِھَا وَدَّعَا النَّبیُ بانآءِ فَضَرَّخَ فِیہِ مِن اَفوَاہِ الَمَزَادَ تَینِ وَلُو ذِی فِی النّاسِ اسقُو افَاستَقُوا قَالَ فَشِرِبنَا عِطَا اَربَعِینَ رَجُلا حَتی دَوَینا فَمَلاءَ نَا کُلّ قَریَۃ مَعَنَا وَاِدَ اوَ ۃً وَ ایمَ اللہُ لَقَد اُقلِعَ عَنھَا وَاِنَّہُ یُخیلُ اِلینآ اِنَّھَا اَشدُّ مِلنَۃً مِنھا حِینَ اَبتَدِی مُتفق علیہ۔

عوف سے روایت ہے وہ ابو رجاء سے روایت کرتے ہیں اور ابو رجاء عمران بن حصین سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ لوگوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فلاں شخص کو بلایا۔ ابو رجاء نے اس شخص کا نام بتایا ہے اور عوف اسے بھول گئے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلایا۔ اور فرمایا پانی تلاش کرو۔ وہ دونوں گئے تو ان کو ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں لیے جا رہی تھی۔ وہ اس کو نبی ﷺ کے پاس لائے۔ پس اس کو اونٹ سے اتارا اور نبی ﷺ نے ایک برتن منگایا اور دونوں پکھالوں سے اس میں پانی ڈالا۔ اور منادی کی گئی کہ پانی پی لو۔ تو لوگ پانی پینے لگے۔ راوی کہتا ہے کہ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے پانی پیا۔ حتیٰ کہ ہم سیراب ہو گئے۔ پھر اپنے ساتھ کی تمام مشکیں اور لوٹے بھر لیے۔ اور بخدا جب مشکوں کو چھوڑا تو ہمیں یہ معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ پہلے سے زیادہ پُر ہیں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں نے روایت کی ہے۔ (انتہیٰ) جب وہ پکھالیں پانی سے جوں کی توں پُر رہیں تو ظاہر ہے کہ چالیس آدمیوں نے جو پانی پیا اور اسی قدر پانی جو برتنوں میں بھر لیا تو وہ غیب سے آیا تھا۔ اور غیب سے پانی مشک اور پکھال کے بدون بھی تو آ سکتا تھا۔ مگر سنت اللہ یہی ہے کہ اس قسم کا ظہور قدرت بلا حجاب نہ دکھایا جائے۔ اِسی لیے حضور ﷺ نے طلب آب کے لیے دو صحابیوں کو بھیجا اور پانی آنے تک انتظار فرمایا۔ پھر جب وہ عورت آئی تو اس کی پکھالوں کو پانی کے برتن میں ڈالا۔ تاکہ اس پانی کے پردے میں قدرت کا ظہور ہو۔ ورنہ اگر اس قسم کے افعال الہیہ کا ظہور بلا حجاب و بے بہانہ عوام کی نظر میں لانا منافی مصلحت نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی شان اور خدا کی قدرت سے کیا بعید تھا کہ آپ ﷺ کے ایک ارشاد پر آسمان سے پانی برس پڑتا۔ اسی طرح مقام حدیبیہ میں صحابہ کی جماعتِ کثیرہ پیاس سے تنگ آئی تو آپ رسول اللہ ﷺ نے ایک طشت میں پانی بھر کر دست مبارک اس کے اندر رکھ دیا اور انگشت ہائے مبارک سے پانی کی ندی بہ نکلی (کذا فی المشکوٰۃ باب المعجزات) پھر اسی مقام پر آپ نے ایک خشک کنوئیں میں اپنے وضو کا پانی گرایا اور فرمایا تھوڑی دیر ٹھہرو تو دیکھتے دیکھتے وہ کنواں پانی سے بھر گیا۔ ان دونوں واقعات میں بھی ظہورِ قدرت کا حجاب پانی ہے۔ جنگِ احزاب میں ام سلیم نے آنحضرت ﷺ کی بھوک کا حال معلوم کیا تو جو کی چند روٹیاں آپ رسول ﷺ کے لیے بھیجیں۔ آپ نے ان کو ریزہ ریزہ کر کے ایک پیالہ میں ڈلوایا۔ اور دس دس آدمیوں کو باری باری بلا کر کھانے کو ارشاد فرمایا تو اسّی 80 آدمی جو اس وقت موجود تھے سیر ہو گئے۔ اور ابھی وہ روٹیوں کے ٹکڑے جوں کے توں موجود تھے۔ یہاں وہ روٹیاں حجابِ معجزہ تھیں۔ غرض خدا کی قدرت کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ شیخ کے لیے نقد و زر آسمان سے برس پڑتا۔ مگر سنتِ الٰہیہ کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو یہ انعام اور عطا حجابِ حصیر کے ذریعہ ملے چنانچہ ان کو جناب باری سے ارشاد ہوا:

-8-

پس ز زیرِ بوریا پُر کن تو مُشت دہ بدستِ سائلِ اشکستہ پُشت

ترجمہ: پس تم بوریا کے نیچے سے مٹھی بھر لو۔ (اور) سائلِ شکستہ پشت کو دے دو۔

-9-

بعد ازیں از اجرِ ناممنوں بدہ ہر کہ خواہد گوہرِ مکنوں بدہ

ترجمہ: (المختصر) آج کے بعد تم (فقراء و مساکین کو) غیر منقطع انعام دیتے رہو۔ جو (سوالی) سوال کرے اس کو (خیرات کا) چھپا کر رکھا ہوا موتی دے دو۔

-10-

رَو یَدُ اللّٰہِ فَوقَ اَیدِیھم تو باش ہمچو دستِ حق گزافہ رزق باش

ترجمہ: جاؤ (ان مساکین کے حق میں) اس طرح (فیض رساں) بن جاؤ کہ گویا اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے۔ اللہ کے ہاتھ کی طرح مفت رزق لٹاؤ۔

مطلب: پہلے مصرعہ میں بیعت رضوان کے قصّہ کی طرف تلمیح ہے اور یہ بیعت مقامِ حدیبیہ میں واقع ہوئی تھی۔ جس کا تذکرہ پیچھے کسی حصہ میں بہ تفصیل گذر چکا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس مقام پر رسول اللہ ﷺ نے کفّار مکہ کے ساتھ جہاد کرنے پر صحابہ سے بیعت لی تھی۔ جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں اظہار فرمایا ہے کہ۔ ﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) (الفتح:18) اس لیے اس بیعت کا نام بیعت رضوان قرار پایا۔ اور بیعت کرنے والوں کی فضیلت کا ذکر یوں فرمایا۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـهَ يَدُ اللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح:10) یعنی جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ یہاں اس سے یہ مراد ہے کہ تم اپنے وستِ عطا سے ان کے دستِ سوال پر اس طرح نقد و زر رکھو کہ گویا خود خداوند تعالیٰ ان کو دے رہا ہے۔

-11-

وام داراں را ز عہدہ وا رہاں ہمچوں باراں سبز کن فرشِ جہاں

ترجمہ: قرض داروں کو ذمہ داری سے سبکدوش کرو۔ دنیا کے فرش کو بارش کی طرح سر سبز کر دو۔

-12-

بود یک سالِ دگر کارش ہمیں کہ بدادے زر کیسہ ربّ دیں

ترجمہ: ایک سال ان کا یہی کام رہا کہ پروردگارِ دین کی (بخشی ہوئی) تھیلی سے نقدی دیتے جاتے۔

-13-

زر شدے خاکِ سیہ اندر کفش حاتمِ طائی گدائے در صفش

ترجمہ: (ان کی برکت و کرامت کا یہ عالم تھا کہ) سیاہ مٹی (بھی) ان کے ہاتھ میں سونا بن جاتی (اور ان کی سخاوت کا دامن اس قدر وسیع تھا کہ حاتم طائی کا سا مشہور سخی بھی) ان (کے سوالیوں) کی صف میں سوالی (تھا)۔

-14-

حاجت خود گر نگفتے آں فقیر او بدانستے و دادے از حصیر

ترجمہ: اگر کوئی فقیر اپنی حاجت بھی بیان نہ کرتا تو بھی وہ (خود اس کی حاجت کو) سمجھ جاتے اور (اس کی ضرورت کے مطابق نقدی) بورئیے سے (نکال کر) دے دیتے۔