دفتر پنجم: حکایت: 125
گریاں شدن امیر از نصیحتِ شیخ و عکسِ صدقِ او و ایثار کردن مخزن بعد ازاں گستاخی و استعصامِ شیخ و قبول نکردن و گفتن من بے اشارت نیارم تصرفے کردن
امیر کا شیخ کا نصیحت اور اس کی سچائی کے عکس سے رو دینا اور اس گستاخی کے بعد (اپنا) خزانہ (شیخ کے) پیش کرنا اور شیخ کا اس سے پرہیز کرنا اور قبول نہ کرنا اور کہنا کہ غیبی اشارہ کے بغیر میں اس پر قبضہ نہیں کر سکتا
-1-
ایں بگفت و گریہ در شد ہائے ہائےاشک غلطاں بر رخ او جائے جائے
ترجمہ: (شیخ نے) اتنا کہا اور ہائے ہائے کر کے رونے لگے۔ ان کے چہرے پر جا بجا آنسو بہ رہے تھے۔
-2-
صدقِ اوہم بر ضمیرِ میر زدعشق ہر دم طرفہ دیگے می پزد
ترجمہ: ان کی سچائی نے امیر کے دل پر بھی اثر کیا۔ عشق ہر وقت عجیب دیگ پکاتا ہے۔
-3-
صدقِ احمدؐ بر جمالِ ماہ زدبلکہ بر خورشید رخشاں راہ زد
ترجمہ: (جس طرح) حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی نے چاند کے جمال پر اثر کیا۔ (اور وہ دو پارہ ہو گیا) بلکہ آفتابِ درخشاں کا راستہ بند کر دیا۔ (اور وہ غروب کے بعد پھر نکل آیا)
مطلب: پہلے مصرعہ میں معجزہ شق القمر کی طرف اشارہ ہے۔ جس کا مفصل ذکر مع دلائل شرح ہذا کی جلد دوم میں گذر چکا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں معجزہ رد الشّمس کا اشارہ مضمر ہے۔ چنانچہ کتب احادیث میں فاطمہ بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا سر مبارک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی آغوش میں تھا۔ اور آپﷺپر اس وقت وحی نازل ہو رہی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابھی عصر نہیں پڑھی تھی۔ کہ آفتاب غروب ہونے لگا۔ جب وحی کی حالت ختم ہو چکی تو آنحضرت ﷺ نے دعا کی اے خدا! اگر علیؓ تیرے حکم اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے تو آفتاب کو واپس کر دے۔ اسماء کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سورج بعد اس کے کہ غروب ہو چکا تھا پھر طلوع ہو گیا اور اس کی دھوپ پہاڑ اور زمین پر پڑنے لگی۔ ثِقہ محدثین اس حدیث کی اسناد پر بھی معترض ہیں اور بلحاظ ظاہر بھی اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک تو جب نماز اپنے وقت سے نکل چکی تو وہ فوت ہو گئی۔ اب دوبارہ سورج کے طلوع ہونے سے وہ وقت واپس نہیں آ سکتا۔ نہ فائتہ نماز ادا ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس کا طلوع لاحاصل تھا۔ دوسرے اس صورت میں گویا ایک نماز کی ادا کے لیے دو وقت ہوئے اور یہ غیر مشروع ہے (بحر)
-4-
صدقِ عاشق بر جمادے می تندچہ عجب گر بر دلِ دانا زند
ترجمہ: (جب) عاشق کی سچائی کسی جمادی چیز پر اثر کرتی ہے تو کیا تعجب ہے اگر کسی ذی عقل کے دل پر اثر کر جائے۔
-5-
صدقِ موسیٰ ؑ بر عصا و کوہ زدبلکہ بر دریائے پر اشکوہ زد
ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی عصا اور پہاڑ پر مؤثر ہو گئی۔ بلکہ ایک ہیبت ناک دریا پر اثر کر گئی۔ (چنانچہ عصاء اژدہا بن گیا۔ کوہِ طور پارہ پارہ ہو گیا۔ دریائے نیل پھٹ گیا۔
-6-
روبرو آوردہ ہر دو در نفیرگشتہ گریاں ہم امیر و ہم فقیر
ترجمہ: (غرض) وہ امیر اور فقیر دونوں آمنے سامنے ہو کر زار و قطار رونے لگے۔
-7-
ساعتے بسیار چوں بگریستندگفت میر او را کہ خیز اے ارجمند
-8-
ہر چہ خواہی از خزینہ بر گزیںگرچہ استحقاق داری صد چنیں
ترجمہ: جب بڑی دیر تک روتے رہے (اور آخر خاموش ہو گئے) تو امیر نے اُن (شیخ) نے کہا ارجمند (شیخ اٹھو اور) جس قدر (مال) چاہتے ہو خزانے میں سے اٹھا لو۔ اگرچہ تم اس سے سو گنے (مال) کے حقدار ہو۔
-9-
خانہ زانِ تُست ہر چت میل ہستبر گزیں خود ہر دو عالم اندک ست
ترجمہ: (یہ) گھر تمہارا ہے۔ جس چیز کی تم کو خواہش ہے لے لو۔ (اگرچہ تمہارے لیے) دونوں جہان بھی کم ہیں۔
-10-
گفت دستوری ندادَندم چنیںکہ بدستِ خویش چیزے بر گزیں
ترجمہ: (شیخ نے) کہا مجھ کو ایسی اجازت نہیں دی گئی کہ اپنے ہاتھ سے کچھ لے لوں۔
-11-
من ز خود نتوانم ایں کردن فضولکہ کنم من ایں دَخیلانہ دخول
ترجمہ: میں یہ فضول کام اپنے (اختیار) سے نہیں کر سکتا۔ کہ دخل رکھنے والوں کی طرح (تمہارے خزانے میں) یہ دخل دوں۔
-12-
ایں بہانہ کرد و مہرہ در ربودمانع آں بُد کہ عطا صادق نبود
ترجمہ: (غرض شیخ نے) یہ بہانہ کیا اور وہ ایک چال چل گئے۔ (کیونکہ ان کو اس عطّیہ کے قبول کرنے سے) یہ بات مانع تھی کہ وہ عطیہ خلوص کے ساتھ (پیش) نہیں (کیا گیا) تھا۔
مطلب: امیر نے پہلے تو شیخ کو کچھ دینے سے انکار کیا اور اب اُن کا کمال ظاہر ہونے پر آمادہ عطا ہو گیا۔ تو گویا یہ عطا بوجہ اللہ نہیں بلکہ غیر اللہ ہوئی۔ اتنے سے شائبہ غیریت کو شیخ نے خلافِ خلوص سمجھا۔ اگرچہ اہل اللہ کے کمال کی قدر کرنا بھی اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ امیر اپنی عطا میں صادق و مخلص ہی تھا۔ چونکہ فرماتے ہیں:
-13-
گرچہ صادق بود و بےغِل بود و خشمشیخ را ہر صدق مےناید بچشم
ترجمہ: اگرچہ وہ (امیر اپنی نیت میں) سچّا اور مخلص تھا اور کھوٹ و غصے سے پاک (تھا مگر) شیخ کو ہر سچائی نہیں بھاتی۔
-14-
گفت فرمانم چنیں دادہ است اِلٰہکہ گدایا نہ برو، چیزے بخواہ
ترجمہ: (شیخ نے کہا) مجھ کو خداوند تعالیٰ نے یوں حکم دیا ہے کہ (ہر جگہ) بھکاریوں کی طرح جاؤ اور کچھ مانگو۔
-15-
ما گدایانہ ازاں درخواستیمورنہ از اموال بےپرواستیم
ترجمہ: اس لیے بھکاریوں کی طرح ہم سوال کرتے ہیں۔ ورنہ اموال سے ہم بے پروا ہیں۔