دفتر پنجم: حکایت: 124
رفتنِ شیخ درخانہ امیرے بہرِ گدیہ روزے چہار بار با زنبیل باشارتِ غیبی و عتاب کردنِ امیر اورا بداں وقاحت و عذر گفتن او امیر را
شیخ کا غیبی اشارے سے ایک امیر کے گھر میں چار مرتبہ کشکول کے ساتھ بھیک کے لیے جانا اور امیر کا ان کو اس بےباکی پر ملامت کرنا اور ان کا امیر سے عذر کرنا
-1-
شیخ روزے چار کرّت چوں فقیربہرِ گدیہ رفت بر قصرِ امیر
ترجمہ: شیخ صاحب ایک دن چار مرتبہ بھکاری کی طرح (ایک) امیر کے محل پر بھیک مانگنے گئے۔
-2-
در کفش زنبیل شَیئاً للّٰہ بر زبانخالق جاں مے بجوید تائے ناں
ترجمہ: اُن کے ہاتھوں میں کشکول (تھی) اللہ کے لیے کچھ (دو) صدا لگا رہے تھے۔ یعنی روح کے پیدا کرنے والا (خداوند تعالیٰ ایک روٹی مانگتا ہے)
مطلب: اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے منزہ و بے نیاز ہے۔ مگر اس کے مقربین کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس کو رابطۂ قرب کی وجہ سے مجازاً حق تعالیٰ کے ساتھ سلوک سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کہ حدیث میں آیا ہے۔ اِنَّ اللہَ تَعالیٰ یَقُولُ یَومَ القِیَمَۃِ یَا ابنَ اٰدَمَ مَرِضتُ فَلَم تَعَدنِی قَالَ یَا رَبّ اَعُودَکَ وَاَنتَ رَبُّ الَعٰلِمیَنَ۔ قَالَ اَمَّا عَلِمتَ اَنَّ عَبدِی فَلاَناً مَرِضَ فَلَم تَعُدہ اَمَا عَلِمتَ اِنَّکَ لَو عُدَّتہ لَوَجدَتنی عِندَہ الحَدِیث۔ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا۔ اے فرزند آدم! میں بیمار ہوا۔ پس تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے پروردگار میں تیری عیادت کیونکر کر سکتا ہوں۔ بحالیکہ تو پروردگار عالم ہے۔ حق تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تو نے اس کی عیادت نہ کی کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا۔ تو مجھے (اس کے پاس پاتا الخ (مشکوٰۃ)
چونکہ حق تعالیٰ کی طرف ان ضروریات انسانیہ کا منسوب ہونا ایک پیچیدہ بات ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں:
-3-
نعلہائے باز گونہ ست اے پسرعقلِ کلی را کند ہم خیرہ سر
ترجمہ: اے عزیز! (یہ باتیں گویا) الٹے نعل ہیں۔ جو (اپنے سمجھنے میں) بڑی سے بڑی عقل کو بھی سرگرداں کر دیتے ہیں۔
-4-
چوں امیرش دید گفتش کائے وقیحگویمت چیزے، منہ نامم شحیح
ترجمہ: جب ان کو امیر نے دیکھا تو ان سے کہا اے بے حیا! میں تجھے ایک بات کہتا ہوں۔ میرا نام بخیل نہ رکھنا۔ (یعنی میں جو کچھ کہوں گا۔ وہ ازراہِ بخل نہیں بلکہ بروئے انصاف کہوں گا۔)
-5-
اے خسِ بے شرم چند ایں گفتگوتاکے و تاچند ایں رزق دو تو
ترجمہ: ارے کمینے بے شرم! یہ گفتگو کہاں تک یہ دوسری (بلکہ) تگنی چوگنی (بھیک مانگ کر) روزی (کمانا) کب تک اور کہاں تک۔
-6-
ایں چہ سَفری و چہ روئے ست و چہ کارکہ بروزے اندر آئی چار بار
ترجمہ: یہ کیا بے حیائی ہے۔ اور کیا منہ ہے اور کیا کام ہے کہ تو دن میں چار مرتبہ گھر کے اندر (مانگنے) آتا ہے۔
-7-
کیست اینجا شیخ اندر بند تومن ندیدم نر گدا مانند تو
ترجمہ: اے بڈھے! یہاں کون تیری قید میں (اسیر) ہے (کہ تو جب چاہتا ہے۔ آ کر سر پر سوار ہو جاتا ہے) میں نے تجھ سا کوئی ہٹا کٹا بھکاری نہیں دیکھا۔
-8-
حرمت و آبِ گدایاں بردۂایں چہ عباسیِ زشت آور دۂ
ترجمہ: تو نے (سارے) بھکاریوں کی عزت و آبرو برباد کر دی ہے۔ یہ کیا بدترین عباسیت نکالی ہے (عباس دبس ایک بھکاری کا نام ہے جو بھیک مانگنے کے فن میں ماہر تھا۔ کما مرّ)
-9-
غاشیہ بر دوش تو عباسِ دبسہیچ ملحد را مباد ایں نفس نحس
ترجمہ: عباس دبس تو تیرا (ایک ادنےٰ) خادم ہے۔ ایسا منحوس نفس کسی بے دین کا نہ ہو۔
-10-
گفت امیرا بندہ فرمانم خموشزِ آتشم آگہ نہ چندیں مجوش
ترجمہ: شیخ نے کہا اے امیر! خاموش رہو۔ میں (جو کچھ کر رہا ہوں، اس میں حق تعالیٰ کے) حکم کا غلام ہوں تو میری (قلب کی) آگ سے آگاہ نہیں ہے۔ اس قدر جوش میں نہ آ۔
-11-
بہرِ ناں در خویش حرص ار دیدمےاشکمِ نانخواہ را بدریدمے
ترجمہ: اگر میں روٹی کے لیے اپنے اندر حرص دیکھتا تو روٹی مانگنے والے پیٹ کو پھاڑ ڈالتا۔
-12-
ہفت سال از سوزِ عشقِ جسم پزدر بیاباں خوردہ ام من برگ رز
ترجمہ: میں نے سات سال تک جسم کو پکا دینے والی عشق کو سوزش سے جنگل کے اندر انگور کے پتے کھائے ہیں۔
-13-
تا زِ برگِ خشک و تازہ خوردنمسبز گشتہ بود ایں رنگِ تنم
ترجمہ: یہاں تک کہ میرے سوکھے اور ہرے پتے کھانے سے میرے بدن کا یہ رنگ سبز ہو گیا تھا۔
مطلب: بدن کا رنگ سبز ہو جانا یا تو بمعنی حقیقی مراد ہے۔ یعنی ہرے پتے۔ اس کثرت سے کھائے کہ ان کا ہرا رنگ میرے بدن پر مؤثر ہو گیا۔ یا اس سے مجازاً خوشحالی مراد ہے۔ یعنی میرا بدن اس قناعت و صبر اور ریاضت و مجاہدہ سے بظاہر لاغر مگر حقیقت میں خوشحال تھا۔ پیچھے سوال کیا تھا کہ شیخ کا بھیک مانگنے سے مقصد یہ تھا کہ نفس ذلیل ہو اور یہ تذلیلِ نفس حکمِ حق سے عمل میں آئی تھی۔ مگر جب شیخ نے اس کا اظہار کر دیا کہ میں یہ کام بحکمِ حق کر رہا ہوں جو ان کے ولی اور مقرب ہونے کی نمایاں دلیل ہے تو اس سے نفس کو ذلت نہیں بلکہ عزت حاصل ہو گئی اور مقصود فوت ہو گیا اس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ شیخ نے اپنے اس مقصد کا اظہار خاص خاص لوگوں پر کیا ہوگا۔ عوام کو اس راز سے آگاہی نہیں ہوئی ہوگی۔ جس کی دلیل اس امیر کی بےخبری ہے۔ جو شیخ کی اس جلالتِ شان کے باوجود ان کو یوں تو بیخ و تشنیع کر رہا ہے۔ اب شیخ جو اس کو اپنے حال سے آگاہ کر رہے ہیں۔ تو اس سے بھی مقصد کے فوت ہونے کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس اکیلے امیر کی تنبیہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیخ کا حال مشہورِ عام ہو جائے۔ آگے پھر وہ شیخ امیر سے کہتے ہیں۔
-14-
تا تو باشی در حجابِ بوالبشرسرسری در عاشقاں کمتر نگر
ترجمہ: جب تک تم بشریت کے حجاب میں ہو (اور احوال باطن کی تم کو خبر نہیں۔ اس وقت تک (حق تعالیٰ کے) عاشقوں کو سرسری نظر سے نہ دیکھو۔
مطلب: جو شخص ایک عاشقِ الہیٰ کو عام انسان کی شکل میں دیکھتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر اس عاشق کی بشریت کاحجاب چھا رہا ہے جو اس کے کمالاتِ باطن کو دیکھنے سے مانع ہے۔ ایسی حالت میں اسے زیبا نہیں کہ اس عاشق کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ کیا تعجب ہے کہ وہ درویش اپنے باطن میں کوئی بڑے پایہ کا ولی اللہ ہو۔ جس کے حق میں بدگمانی رکھنا اور اس کی توہین و تحقیر کرنا باعثِ شامت ہو۔ آگے فرماتے ہیں کہ علوم حکمیہ میں خوض کرنے والے دوسری ہزاروں باتوں کو دریافت کرتے ہیں۔ مگر ان کا علمِ تحقیق اہل اللہ کے کمالات کی حدود تک نہیں پہنچ سکتا۔
-15-
زیرکاں کہ موئے را بشگافتندعلم ہئیت را بجاں دریافتند
ترجمہ: اہل حکمت نے جو (علوم حکمیہ میں) موشگافی کرتے ہیں علم ہئیت کو جان و دل سے دریافت کر لیا۔
-16-
علم نِیرَنجات و سحر و فلسفہگرچہ نشناسند حقُّ المعرفہ
-17-
لیک کوشیدند تا امکانِ خودبر گذشتند از ہمہ اقرانِ خود
ترجمہ: (چنانچہ) شعبدات اور جادو اور سائنس کا علم اگرچہ جیسا کہ چاہیے پوری طرح حاصل نہیں کیا۔ لیکن اپنے مقدور بھر کوشش کی (حتیٰ کہ) اپنے تمام حریفوں سے سبقت لے گئے۔
-18-
عشق غیرت کرد و خود را در کشیدشد چنیں خورشید ز ایشاں ناپَدید
ترجمہ: تو عشق نے غیرت کی اور اپنے آپ کو (ان سائنسدانوں سے) الگ رکھا۔ حتیٰ کہ ایسا (نمایاں) آفتاب ان سے مخفی رہا۔
-19-
نور چشمے کہ بروز استارہ دیدآفتابے چوں ازو رُو در کشید
ترجمہ: (عبرت کا مقام ہے کہ) جس آنکھ کا نور (بصارت) دن میں ستارے کو دیکھتا ہے (ایسا روشن) آفتاب ان سے مخفی رہا۔
مطلب: یہ فلسفہ و حکمت اور سائنس کی نارسائی و شکستہ پائی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جو فلسفہ کائناتِ عالم کی گہری سے گہری مشکلات کی عقدہ کشائی کرنے کا مدعی ہے تعجب ہے کہ وہ کمالاتِ باطن، عجائباتِ قلب اور مقاماتِ قرب سے بالکل کور چشم ہے۔ بعض حواشی میں لکھا ہے کہ اس میں شیخ بو علی سینا کی طرف تعریض ہے جو دن میں باریک سے باریک ستارے کو دیکھ لیتا تھا۔ مگر آفتابِ عرفان اس کی آنکھ سے مستور رہا۔ الہٰیات کے مسائل میں اس نے ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ اطفالِ مکتب بھی اس پر خندہ زن ہیں۔ اسی لیے امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو کافر ٹھہرایا ہے کمانقلہ الحضرۃ المجدد رحمۃ اللہ علیہ فی المکتوبات الشریفہ۔ غرض شیخ صاحب امیر کو کہتے ہیں:
-20-
زیں گذر کن پند من بپذیر ہیںعاشقاں را تو بچشمِ عشق بیں
ترجمہ: (اے امیر!) اس (بدگمانی) کو چھوڑ دے۔ خبردار! میری نصیحت مان لے۔ اور عاشقوں کو عشق و محبت کی آنکھ سے دیکھ (نہ کہ حقارت اور نفرت کی آنکھ سے)
-21-
وقت نازک گشتہ و جاں در رصدبا تو نتواں گفت ایں دم عُذرِ خود
ترجمہ: وقت (تنگ اور) نازک ہے اور جان وصلِ محبوب کے انتظار میں ہے۔ اس (عدمِ فرصت کے) وقت (میں) اپنا عذر (پوری طرح) تم سے کہا نہیں جا سکتا۔
-22-
فہم کن موقوف ایں گفتن مباشسینہ ہائے عاشقاں کمتر خراش
ترجمہ: (میرے عذر کو) تم (خود) سمجھ لو (اور میرے) اس قول پر موقوف نہ رکھو۔ عاشقوں کے سینوں کو مجروح نہ کرو۔
-23-
نے گمانے بُردہ تو زیں نشاطحزم را مگذار و مےکُن احتیاط
ترجمہ: نہیں نہیں تم نے (اپنی) اس (امیری کے) سرور سے مجھ پر بدگمانی کی ہے۔ (چلو خیر اگر بدگمانی سے احتیاط مقصود ہے تو ہم بھی اجازت دیتے ہیں۔ کہ) ہوشیاری کو نہ چھوڑ، اور احتیاط کرتے رہو۔
مطلب: شیخ امیر کو کہتے ہیں کہ تم نے اپنے تمّول و امارت کی مستی میں ہم پر بدگمانی کی ہے۔ کسی حزم و احتیاط کی بنا پر نہیں کی۔ ورنہ ہم خود بفحوائے اَلحَزمُ سُوءِ الظنِ اس کی اجازت دے دیتے ہیں مگر یاد رکھو کہ بطورِ احتیاط بدگمانی کرنے میں بھی اعتدال شرط ہے۔ چنانچہ:
-24-
واجب ست و جائز ست و مستحیلتو وسط را گیر در حزم اے دخیل
ترجمہ: (احتیاط عمل میں لانے کی ایک قسم واجب ہے اور دوسری قسم جائز ہے۔ اور تیسری قسم حرام ہے اے خاص دوست تم حزم و احتیاط میں اعتدال اختیار کرو۔
مطلب: اگر کوئی فاسق و کاذب کوئی خبر دے تو اس پر عمل کرنے میں احتیاط سے کام لینا واجب ہے۔ صالح و عادل کی خبر میں احتیاط جائز ہے۔ اور خدا اور رسول کی خبر میں احتیاط عمل میں لانا حرام ہے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ اے امیر! تم کو احتیاط کے معاملہ میں اعتدال پر چلنا چاہیے۔ چنانچہ اگر تم ہمارے معاملہ میں بطور احتیاط بدگمانی کرتے ہو۔ تو بدرجہ جواز کر سکتے ہو نہ کہ بدرجہ وجوب۔