دفتر 5 حکایت 121: شیخ محمد سررزی کی کہانی اور ان کی ریاضت کہ وہ اپنے نفس کی خواری کے لیے ہر شام کو انگور کے پتے سے افطار کرتے

دفتر پنجم: حکایت: 121


حکایت شیخ محمد سررَزی و ریاضتِ اوکہ ہر شب افطار برگِ رز میکرد جہت ذلِ نفسِ خود

شیخ محمد سررزی کی کہانی اور ان کی ریاضت کہ وہ اپنے نفس کی خواری کے لیے ہر شام کو انگور کے پتے سے افطار کرتے

-1-

زاہدے در غزنی از دانش مزی بُد محمد، نام و کنیت سررَزی

ترجمہ: ایک زاہد صاحب غزنی میں (تھے) جو عقل (کے دودھ) سے پرورش یافتہ (یا عقل میں فائق تھے محمد نام اور لقب سررزی۔)

کنّیت: وہ نام جس میں مسمّٰی کی نسبتِ پدری ملحوظ ہو۔ جیسے ابوالحسن، ابو تراب۔ مگر یہاں کنیت سے لقب مراد ہے سررَزی زاہد کا لقب ہے۔ سر رَز کے معنی انگور کی کونپل۔ اور ”یا“ نسبت کے لیے ہے۔ یعنی انگور کی کونپل کھانے والا۔ یہ لقب اس بناء پر مشہور ہوا کہ وہ برگ انگور کے پتے سے روزہ افطار کرتے تھے۔

-2-

بودِ افطارش سرِ رَز ہر شبے ہفت سال او دائم اندر مطلبے

ترجمہ: ہر شام کو ان کی افطار انگور کی کونپل تھی۔ سات سال برابر وہ ایک ہی دھن میں (محور ہے)۔

-3-

بس عجائب دید از شاہِ وجود لیک مقصودش جمالِ شاہ بُود

ترجمہ: انہوں نے (اس عرصہ میں) شہنشاہِ موجودات تعالیٰ شانہ سے بےشمار عجائبات دیکھے۔ لیکن ان کا مقصود شہنشاہِ حقیقی کا جمال (دیکھنا) تھا۔

-4-

بَر سرِ کُہ رفت آں از خویش سیر گفت بنما یا فتادم من بزیر

ترجمہ: وہ پہاڑ پر چڑھ گئے (بحالیکہ) اپنی زندگی سے سیر (تھے اور خداوند تعالیٰ سے مخاطب ہو کر) کہا اپنا جمال دکھا دے ورنہ میں (پہاڑ سے) نیچے گِر پڑوں گا (تاکہ موت کے بعد تیرا دیدار کر سکوں)

-5-

گفت نامد نوبتِ آں مکرمت وَر فرو اُفتی نمیری نکشمت

ترجمہ: (حق تعالیٰ کی جانب سے) ارشاد ہوا کہ اس انعام کا موقع ابھی نہیں آیا۔ (کیونکہ رویتِ باری تعالیٰ موعود بآخرت ہے) اور اگر تم نیچے گرو گے۔ (تاکہ مر کر محظوظ برویت ہو جاؤ) تو تم مروگے نہیں (اور) میں تم کو مرنے نہیں دوں گا۔

-6-

اوفرو افگند خود را از وِداد درمیانِ عمق آبے اوفتاد

ترجمہ: (غرض اسی تکرار میں) انہوں نے (غلبہ) محبت سے اپنے آپ کو (پہاڑ سے) نیچے گرا دیا۔ (مگر تقدیرِ الہیٰ سے) وہ ایک چشمے کی گہرائی میں جا گرے۔ (جو دامنِ کوہ میں بہتا تھا۔ اور مرنے سے بچ گئے۔)

-7-

چوں نمردُ از نکس آں جاں سیر مرد از فراقِ مرگ بر خود نوحہ کرد

ترجمہ: جب وہ بزرگ جو زندگی سے سیر تھے۔ سر کے بل گر کر (بھی) نہ مرے تو اپنی موت کی جدائی میں رونے لگے۔ کما قیل: ؎

موت مانگوں تو رہے آرزوئے خواب مجھے ڈوبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے

-8-

کایں حیات اورا چو مرگے می نمود کار پیشش باز گونہ گشتہ بود

ترجمہ: کیونکہ یہ زندگی ان کو موت کی طرح (تلخ) دکھائی دیتی تھی۔ (اور موت زندگی کی طرح خوشگوار تھی کہ اس سے رویتِ حق متوقع تھی اور یوں معاملہ ان کے الٹ ہو گیا تھا۔

-9-

موت را از غیب میکرد او گدے اِنَّ فِی مَوتِی حَیَاتِی می زدے

ترجمہ: وہ غیب سے موت کی بھیک مانگتے تھے۔ اور یہ (ترانہ) گاتے تھے کہ میری موت میں میری زندگی ہے۔

-10-

موت راچوں زندگی قابل شدہ با ہلاکِ جان خود یَکدِل شدہ

ترجمہ: وہ موت کو زندگی کی طرح (بخوشی) قبول کرتے تھے۔ اپنی جان گنوانے پر متفق ہو چکے تھے۔

-11-

سیف و خنجر چوں علیؓ ریحانِ اُو نرگس و نسرین عدوِ جانِ او

ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح تلوار اور خنجر ان کا ریحان تھا۔ نرگس اور نسرین ان کے دشمنِ جان تھے۔

مطلب: اس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس رجز کی طرف اشارہ ہے۔ جو انہوں نے جوشِ شجاعت میں کہا ہے۔

اَلسَّیْفُ وَ الْخَنْجَرُ رَیْحَانُنَا اُفِّ عَلَی النَّرْجِسِ وَالْاٰس وَ خَمْرُنَا مِنْ دَمِ اَعْدَائِنَا وَ کَاسِنَامِنْ جَمْجَتِہِ الرَّاس

تلوار اور خنجر ہمارے ریحان ہیں

نرگس و آس پراف ہے۔

اور ہماری شراب ہمارے دشمنوں کا خون ہے

اور ہمارا پیالہ دشمن کے سر کی کھوپڑی ہے۔

-12-

بانگ آمد روز صحرا سوئے شہر طرفہ بانگے از ورائے سِرّ و جہر

ترجمہ: (غیب سے) آواز آئی کہ جنگل سے شہر کی طرف جاؤ۔ عجیب آواز (تھی) چھپی اور ظاہر آواز سے نرالی۔

-13-

گفت اے دانائی رازم مُو بمو چہ کنم در شہر خدمت؟ گوئے تو

ترجمہ: (وہ بزرگ) بولے، اے میرے راز کو بال بال جاننے والے۔ بتا میں شہر میں کیا خدمت بجا لاؤں۔

-14-

گفت خدمت آنکہ بہرِ ذُلّ نفس خویشتن سازی تو چوں عّباسِ دَبس

ترجمہ: فرمایا خدمت یہ (ہے) کہ (اپنے) نفس کی خواری کے لیے (بھیک مانگنے میں) تم اپنے آپ کو عباس دبس کی مانند بنا لو۔ (یعنی خوب بھیک مانگو۔)

مطلب: چونکہ گدائی و دریوزہ گرہ پرلے درجہ کی ذلت کا کام ہے اس لیے بعض بزرگوں نے تذلیلِ نفس کے لیے اس کو اختیار کیا ہے۔ اور دوسرے درویشوں کو بھی جمع زر کے لیے نہیں بلکہ کسرِ نفس کے لیے اس کی اجازت دی ہے۔ شاید اسی بنا پر پنجاب میں فقیر دریوزہ گر کو غازی کہتے ہیں۔ اور اس کے بھیک مانگنے کے لیے غزا کی اصطلاح مقرر ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس کا یہ فعل گویا غزائے نفس ہے۔ جس کو جہادِ اکبر کہتے ہیں اگرچہ اس بیکاری و حرام خوری کے زمانہ میں اکثر بھیک مانگنے والے نفس کے ساتھ جہاد کرنے والے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ الٹا اس کافر کے حلقہ بگوش اور اس کے غلام بےدام ہیں جو ان کو محنت کے ساتھ کما کر کھانے کے بجائے لوگوں کی کمائی سے پیٹ پالنے کا سبق پڑھاتا ہے۔ اور حرص و آز کی اس ناپاک ترین صورت کا خوگر بناتا ہے۔

-15-

مُدّ تے از اغنیا زر مےستاں پس بدرویشانِ مسکیں مےفشاں

ترجمہ: مدّت تک مالدار لوگوں سے روپیہ وصول کرتے رہو۔ پھر محتاج فقیروں کو دے ڈالا کرو۔

-16-

خدمتت این ست تا یک چند گاہ گفت سَمعاً طَاعَۃً اے جاں پناہ

ترجمہ: ایک خاص مدّت تک تمہارے ذمہ یہی خدمت ہے۔ انہوں نے عرض کیا اے جان پناہ! میں نے (یہ حکم) سنا اور قبول کیا۔

-17-

بس سوال و بس جواب و ماجرا بُد میانِ زاھد و ربّ الوریٰ

ترجمہ: (غرض اُن) زاہد اور پروردگارِ عالم کے درمیان بڑے سوال جواب اور گفتگو ہوئی۔

-18-

کہ زمین و آسمان پُرنور شد در مقالات آں ہمہ مذکور شد

ترجمہ: (حتیٰ کہ) (اس گفتگو کی برکت سے) زمین اور آسمان پُر نور ہو گئے۔ مقالات میں وہ سب (گفتگو) مذکور ہے۔ (مقالات مولانا کی ایک تالیف کا نام ہے۔ کذافی بعض الحواشی)

-19-

لیک کوتہ کردم آں گفتار را تا ننوشد ہر خسے اسرار را

ترجمہ: لیکن (یہاں) میں نے اس تقریر کو مختصر کر دیا۔ کہ ہر کمینہ آدمی (ان) اسرار کو نہ سُنے۔

انتباہ: یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا ان اسرار کو مقالات میں ہر کمینہ نہیں پڑھ لے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید مقالات فنِ تصوّف میں دقیق عبارت اور گہرے مطالب کی کتاب ہو کہ عوام الناس اس کو پڑھ کر سمجھ نہ سکیں اس لیے عوام الناس اس میں دلچسپی نہیں لے سکتے ہوں گے۔ اور وہ ان میں متداول نہ ہوگی۔ اسی طرح وہ اسرار ان لوگوں کی نظر سے مخفی رہ سکتے ہیں۔ بخلاف اس کے مثنوی شریف قصص و حکایات کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے عوام کے بھی زیر مطالعہ رہتی ہے۔ اس لیے مثنوی میں وہ اسراری باتیں نااہل لوگوں سے چھپ نہیں سکتیں۔ اور عوام الناس سے اسرار طریقت کو مخفی رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ باتیں ان کی رسم و عادت اور مہم و ادراک سے برتر ہوتی ہیں اس لیے یا تو ان باتوں سے عوام کے دل میں مختلف شکوک وشبہات پیدا ہو کر فقر و درویشی سے بد گمانی کا باعث ہوں گے یا ان باتوں سے غلط فہمی میں پڑ کر فسادِ عقائد میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ پہلی صورت مستلزم خسران و حرمان اور دوسری صورت موجبِ کفر و زوالِ ایمان ہے۔ بقول عراقی :

میخو استم از اسرار اظہار کنم حرفے ز اغیار بہ تر سیدم گفتم نسخے سر بست رموزِ عشق عراقی مگو چنیں روشن کہ سِرّ عشق چنیں آشکار نتواں گفت

و بقول امیر خسرو:

از جان خویشتن ہم رازِ نہفتہ دارم زیرا کہ مے نشاید بیگانہ محرمی را

و بقول حافظ:

پیر میخانہ چہ خوش گفت بد ردی کش خویش کہ مگو حالِ دل سوختہ با خامے چند

گفت آں یار کز و گشت سرِ دار بلند جرمش آں بود کہ اسرار ہویدا میکرد

و بقول جامیؒ:

تاکے میانِ انجمن افشائے سِرّ عشق ایں گفتگو بگو کاشانہ خوشتر است

و بقول صائبؒ:

سخت از عشق چو افتد بمیاں خامش باش لب کشودن بتکلم لبِ بام است اینجا