دفتر پنجم: حکایت: 123
در معنی ”لَو لَا کَ لَمَاَ خَلَقتُ الاَفلَاکَ“
(اس حدیث قدسی) کے معنی میں کہ (اے پیغمبرﷺ) اگر تم نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا۔
انتباہ: صنعانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے۔ لیکن اس کے معنی صحیح ہیں۔ دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا۔ یا مُحَمَّدُ لَو لاکَ لَمَا خَلَقتُ الجَنَّۃَ وَلَولَاکَ لَمَا خَلَقتُ النَّارُ۔ یعنی اے محمد ﷺ اگر تم نہ ہوتے تو میں بہشت کو پیدا نہ کرتا۔ اور اگر تم نہ ہوتے تو میں دوزخ کو پیدا نہ کرتا۔ اور ابن عساکر کی ایک روایت میں ہے لَولَاکَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا۔یعنی اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا۔ (موضوعات کبیر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ)
-1-
شد چنیں شیخے گدائے کُو بہ کوعشق آمد لَا اُبَالِی، اِتَّقُوا
ترجمہ: (غرض) ایسے شیخ (کامل) گلی گلی کے بھکاری بن گئے۔ عشق بےپروا ہے (اس سے) بچو۔
-2-
عشق جو شد بحر را مانندِ دیگعشق ساید کوہ را مانند ریگ
ترجمہ: عشق سمندر کو دیگ کی طرح جوشا دیتا ہے۔ عشق پہاڑ کو (رگڑ کر) باریک ریت کی مانند بنا دیتا ہے۔
-3-
عشق بشگافد فلک را صد شگافعشق لرزاند زمیں را از گزاف
ترجمہ: عشق آسمان میں سینکڑوں شگاف ڈال دے۔ عشق زمین کو بآسانی ہلا ڈالے۔
-4-
با مُحمد بود عشقِ پاک خفتبہرِ عشقِ اورا خدا لَولاک گفت
ترجمہ: عشقِ پاک (کی عظمت دیکھو کہ چونکہ وہ) حضرت محمد ﷺ کے ساتھ شامل تھا (اس لیے) عشق کی بدولت خداوند تعالیٰ نے آپ ﷺ کو لولاک کے ساتھ خطاب فرمایا۔
مطلب: مولانا بحرالعلوم فرماتے ہیں کہ حدیث ﴿کُنْتُ نَبِیًّا وَّ اٰدَمَ بَیْنَ الرَّوْحِ وَ الْجَسَد﴾ اس بات پر بھی نصِّ قاطع ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت سے پہلے تھی۔ اور نبوت بدون ولایت کے نہیں ہوتی۔ کیونکہ نبی اس ولی کو کہتے ہیں جو صاحبِ وحی ہو۔ پس آنحضرت ﷺ اس عالمِ عناصر میں تشریف لانے سے پہلے ہی نبی و ولی تھے۔ یعنی اپنے وجود مبارک کے ہر مرتبہ میں نبوت و ولایت کے ساتھ موصوف تھے۔ اور ولایت کے لوازم میں سے ایک عشق بھی ہے پس آپ عوالم اسماء و اعیان و ارواح و شہادت کے اندر اپنے وجود مبارک کے ہر مرتبہ میں عاشقِ حق تھے۔ مولانا نے اس بیت میں صرف لازم یعنی عشق کا ذکر فرمایا ہے حالانکہ مقصود ملزوم مع لازم یعنی نبوت و ولایت مع عشق ہے (انتہیٰ) اس بیان کا ربط شیخ زمانہ حال کے ساتھ بایں وجہ ہے کہ پہلے شیخ جیسے متوکل و مستغنی بزرگ کے در بدر بھیک مانگنے کا ذکر تھا۔ پھر فرمایا کہ یہ عشق کا کرشمہ ہے۔ ساتھ ہی عشق کی بےانتہا طاقتوں کا ذکر فرمایا کہ وہ دریا جوش و فلک شگاف اور کوہ فرسا ہے۔ جس سے عشق کی عظمت کا اظہار مقصود ہے۔ اب اسی عظمتِ عشق کے ثبوت میں یہ بیان آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو باعثِ آفرینشِ عالم تھے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ کا عشق سب عاشقانِ حق کے عشق سے کامل تر اور قدیم تر تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
-5-
منتہی در عشقِ او چوں بود فردپس مرو را ز انبیا تخصیص کرد
ترجمہ: چونکہ آپ عشق (حق) میں کامل (اور) یکتا تھے۔ اس لیے (حق تعالیٰ نے) آپ کو (اس فضیلت کے لیے) انبیا سے مخصوص فرمایا۔ (آگے حدیث قدسی مندرجہ بالا کا ترجمہ فرماتے ہیں)
-6-
گر نبودی بہرِ عشقِ پاک راکے وجودے دادمے افلاک را
ترجمہ: چنانچہ حق تعالیٰ نے فرمایا اے میرے محبوب پاک اگر تم عشقِ پاک کے لیے (مخلوق) نہ ہوتے تو میں افلاک کو کب موجود کرتا۔
مطلب: آسمان، زمین، کوہ، دریا، سبزہ زار وغیرہ مخلوقات کو حق تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے وجود گرامی کی بدولت پیدا کیا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی ذات پاک کامل ترین عشق کے ساتھ موصوف تھی۔ اور آپ ﷺ کی دلچسپی کے لیے ان اشیاء کو گونا گوں کیفیات عشق کا مظہر بنانا داخلِ حکمت تھا۔ چنانچہ فرمایا:
-7-
من بداں افراشتم چرخِ سنیتا علوِّ عشق را فہمے کنی
ترجمہ: میں نے آسمان بلند کو اس لیے اونچا بنایا ہے تاکہ تم عشق کی بلندی کو معلوم کرو۔
نظامی: گر از عشق آسماں آزاد بودےکجا ہرگز زمین آزاد بودے
-8-
منفعت ہائے دگر آید ز چرخآں چو بیضہ تابع آید، ایں چو فرخ
ترجمہ: (اس کے علاوہ آسمان سے) اور بھی فوائد ملتے ہیں۔ (مثلاً کواکب کی گردش اور مہر و ماہ کی روشنی وغیرہ۔ مگر وہ (دیگر فوائد) انڈوں کی مانند (ہیں جو غیر مکمل وجود کے ساتھ مرغی کے) تابع ہے (اور) یہ (علو عشق کو سمجھنے کا فائدہ چوزہ کی طرح (ہے جو مکمل وجود رکھتا ہے۔)
-9-
خاک را من خوار کردم یکسریتا زِ ذُلّ عاشقاں بوئے بری
ترجمہ: خاک کو میں نے بالکل ناچیز بنایا ہے۔ تاکہ تم عاشقوں کی خواری کا سراغ لگاؤ۔
صائبؒ: مرکز خاک ست گردوں آسمان عشق رالامکاں یک پلہ باشد آستان عشق را
-10-
خاک را دادیم سبزی و نویتا زِ تبدیلِ فقیر آگہ شوی
ترجمہ: خاک کو ہم نے (خشکی و بے رونقی کے بعد) سبزی و تازگی بخشی۔ تاکہ تم فقیر (عاشق) کی تبدیلی سے واقف ہو جاؤ۔ (کہ وہ عامیانہ حالت سے نکل کر کس طرح فضائل معرفت کے ساتھ موصوف ہو جاتا ہے۔)
-11-
باتو گویند ایں جبالِ راسیاتوصفِ حالِ عاشقاں اندر ثبات
ترجمہ: یہ محکم پہاڑ تم کو عاشقوں کے حال کا وصف (ان کی) ثابت قدمی کے متعلق بتاتے ہیں۔
مطلب: غرض یہ تمام کائنات کیفیاتِ عشق کی مظہر ہے۔ یہاں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے کہ اس کائنات سے کیفیات عشق کا ظہور تو محض فرضی و اعتباری امر ہے۔ اور عاشقانِ حق کا حال یقینی و ضروری ہے۔ پس ان میں مشابہت کیونکر صحیح ہو سکتی ہے۔ آگے مولانا اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں۔
-12-
گرچہ آں معنی ست ویں نقش اے پسرتا بفہمِ تو شود نزدیک تر
ترجمہ: اے فرزند اگرچہ وہ (عاشقِ حق کا عشق) ایک امرِ معنوی ہے اور یہ (آسمان کی بلندی زمین کی پستی اور پہاڑ کی استقامت وغیرہ) ظاہری امر ہے۔ (جن میں چنداں مناسبت نہیں۔ تاہم اس امرِ معنوی کو امرِ ظاہری کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ تو اس لیے کہ یہ بات) تمہاری سمجھ میں اچھی طرح آ جائے۔
-13-
غصہ را با خار تشبیہے کنندآں نباشد لیک تنبیہے کنند
ترجمہ: (دیکھو تشبیہ میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ مشبہ اور مشبہ بہ دونوں من کل الوجوہ مساوی ہوں چنانچہ غصہ کو کانٹے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں (حالانکہ غصہ) وہ (کانٹا) نہیں ہوتا (جو درختوں پر ہوتا ہے) لیکن (اس تشبیہ اس سے بات کے متعلق ایک تنبیہ کر دیتے ہیں (کہ غصہ اس طرح تکلیف دینے والا ہے۔ جس طرح کانٹے کی خلش)
انتباہ: غصہ کو عموماً شعرا اور علمائے اخلاق آگ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
صائبؒ: کسے کہ آتشِ خشم و غضب فرد خور دستمیان شعلہ حضور خلیل می داند خشم عالم سوز را کوتہ زباں کردن بحلمآتش سوزندہ را برخود گلستان کردن ست
مگر کانٹے کے ساتھ اس کی تشبیہ کہیں نظر سے نہیں گذری۔ اس لیے ممکن ہے کہ پہلے مصرعہ میں خار کے بجائے نار کا لفظ ہو۔ ناقلین کے تصرف سے خار بن گیا ہو۔ واللہ اعلم
-14-
آں دلِ قاسی کہ سنگیں خواندندتا مناسب بد مثالے را ند ند
ترجمہ: (اسی طرح مثلاً سخت دل کو جو سنگین کہہ دیتے ہیں۔ تو (چونکہ ایسا دل پتھر کے ساتھ) مناسبت رکھتا ہے۔ (اس لیے اس کی) ایک مثال بیان کر دی۔
-15-
ور تصور در نیاید عینِ آںعیب بر تصویر نہ نَفْیَشْ مداں
ترجمہ: اور اگر اس مثال سے اس (قلب) کا عین تصویر میں نہ آئے تو تصور دلانے (کے طریقہ) کو ناقص کہو اس (مشبّہ) کی نفی نہ سمجھو۔
مطلب: اگر کسی سخت دل کو پتھر کے ساتھ تشبیہ دی جائے تو اس سے دل کی صرف ایک حالت کا علم ہو سکتا ہے اگر کہو کہ اس سے قلب کا پورا نقشہ ذہن میں آجائے تو یہ ناممکن ہے۔ ایسی صورت میں اس تشبیہ و استعارہ کا نقص اور نارسائی سمجھنی چاہیے۔ نہ یہ کہ مشبہ ہی غلط ہے۔ یعنی وہ قلب قاسی نہیں۔ اسی طرح اگر آسمان و زمین و پہاڑ کی مذکورہ تمثیلات سے عشق کے بعض احوال کا اظہار ہو جاتا ہے۔ عشق کی پوری ماہیت ادا نہیں ہو سکتی۔ تو یہ ان تمثیلات کی تنگ دامنی کے باعث ہے۔ ورنہ عشق کے علو منزلت میں کوئی شبہ نہیں۔
نظامیؒ: اگر اندیشہ کنی از راہ بینشبعشق ست ایستادہ آفرینش