دفتر پنجم: حکایت: 120
پاسخ دادنِ روباہ مر آں خر را بارِ دیگر
لومڑی کا دوبارہ اس گدھے کو جواب دینا
-1-
گفت روبہ صافِ ما را دُرْد نیستلیک تخئیلاتِ وہمی خُرد نیست
ترجمہ: لومڑی نے کہا ہماری صاف شراب میں میل نہیں۔ لیکن وہمی تخیلات بھی کچھ کم نہیں۔
-2-
ایں ہمہ وہمِ تو است اے سادہ دلورنہ باتو نہ غشے دارم نہ غِل
ترجمہ: اے بھولے بھالے! یہ سب تمہارا وہم ہے۔ ورنہ میں تم سے نہ کدورت رکھتی ہوں نہ کینہ۔
-3-
از خیالِ زشتِ خود منگر بمنبر محبان از چہ داری سُوءِ ظن
ترجمہ: تم اپنے بُرے خیال (کی عینک) سے مجھے نہ دیکھو۔ تم دوستوں سے کیوں بد گمانی رکھتے ہو۔
-4-
ظنِّ نیکو ہر بر اخواں صفاگرچہ آید ظاہر از ایشاں جفا
ترجمہ: صاف دل دوستوں سے نیک گمان رکھو۔ اگرچہ بظاہر ان سے ظلم (کا سلوک نظر) آئے۔
-5-
آں خیال و وہمِ بد چوں شد پدیدصد ہزاراں یار را از ہم بُرید
ترجمہ: وہ خیال اور برا وہم جب ظاہر ہوا تو اس نے لاکھوں دوستوں میں تفرقہ ڈال دیا۔
-6-
خاصہ من بدرگ نبودم زشت قِسمآنچہ دیدی بد نبود، آں بُد طلسم
ترجمہ: خصوصاً میں کوئی بد سرشت اور کوئی بُری قِسم (کی مخلوق) نہ تھی (کہ تم سے ایسا فریب کرتی اور) وہ جو تم نے دیکھا (کچھ) بُرا نہ تھا (بلکہ) وہ طلسم تھا۔
-7-
ور بدیدے آں سگالش قدر راعفو فرمایند از یاراں خطا
ترجمہ: اور اگر بفرض و تقدیر وہ خیال (فی الواقع) خطرناک تھا۔ تو دوستوں کی خطا معاف فرمائیں۔
-8-
مشفقے گر کرد جور و امتحاںعقل باید کو نباشد بدگماں
ترجمہ: ایک مشفق (دوست) نے اگر زیادتی اور (وہ بھی بطور) آزمایش کی تو عقل کو چاہیے کہ بد گمان نہ ہو۔ (آگے مولاناؒ وہم و خیال کے مستحسن ہونے پر ایک تقریر فرماتے ہیں۔)
-9-
عالمِ وہم و خیال و طبع و بِیمہست رہرو را یک سدّے عظیم
ترجمہ: وہم اور خیال اور (اقتضائے) طبع اور خوف کا عالم سالک کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
-10-
نقشہ ہائے ایں خیالِ نقشبندچوں خلیلے را کہ کہُ، بُد شد گزند
ترجمہ: (دیکھو) اس (بے بنیاد) نقش بنانے والے خیال کے نقوش حضرت خلیل علیہ السلام جیسے (عالی پایہ انسان) کے لیے جو (ثابت قدمی میں) پہاڑ (کی مانند) تھے (باعث) گزند ہو گئے۔
-11-
گفت ھٰذَا رَبِّی ابراہیم رادچونکہ اندر عالمِ وہم اوفتاد
ترجمہ: (چنانچہ) حضرت ابراہیم علیہ السلام (کے سے) عاقل (بھی) جب عالمِ وہم میں پڑ گئے تو (ستارے کو دیکھ کر) ھٰذا رَبِّی (یعنی یہ میرا پروردگار ہے) کہنے لگے۔
-12-
ذکرِ کوکب را چنیں تاویل گفتآں کسے کو گوہرِ تنزیل سُفت
ترجمہ: جب اس (عالی پایہ) انسان نے جو کلام الہیٰ کے موتی پروتا تھا، ستارے کے خیال کا یہ مطلب نکالا۔ (تو عام لوگوں کا کیا حال!)
مطلب: ان اشعار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ مختصر یہ کہ ان کے عہد کے کافر بادشاہ نمرود نے خواب میں دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے اس قدر روشن ہو گیا کہ آفتاب بھی اس کے آگے ماند پڑ گیا۔ اس نے اپنے جوتشیوں سے اس کی تعبیر پوچھی۔ وہ بولے کہ اس ملک میں تھوڑے عرصے کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کی بزرگی اور عظمت کے آگے تیری شان و شوکت بالکل جاتی رہے گی۔ اور تیرا دین اور تیری بادشاہی برباد ہو جائے گی۔ یہ سن کر نمرود نے حکم دیا کہ اس سال میری عملداری میں جو لڑکا پیدا ہو اس کو فوراً قتل کر دیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اسی سال ہوئی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو نمرود کے شر سے محفوظ رکھا۔ جب وہ پیدا ہوئے تو ان کی ماں انہیں چھپا کر ایک غار میں لے گئیں اور غار کا دہانہ ایک پتھر سے بند کر دیا۔ روزانہ خبر گیری کے لیے جاتیں اور ان کو دودھ پلا دیتیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تنِ تنہا خوش و خرم غار میں پڑے انگوٹھا چوستے رہتے۔ کتب تفاسیر و سیر میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام غار کے اندر ایک مہینہ میں اس قدر بڑھ رہے تھے۔ جس قدر ایک بچہ ایک سال میں نشوونما پاتا ہے۔ چنانچہ غار میں پندرہ مہینے رہے اور اب وہ پندرہ سال کے نوجوان تھے۔ جب وہ غار سے باہر نکلے تو ایک ستارے کو دیکھا اور کہا یہ میرا پروردگار ہے مگر جب وہ چھپ گیا تو کہا میں ایسی چیزوں سے محبت نہیں رکھتا۔ جو ایک حال سے دوسرے حال میں بدل جائیں۔ پھر چاند اور سورج کو بھی باری باری دیکھ کر ان کے معبود ہونے سے انکار کر دیا آخر میں کہا میں سب چیزوں سے رجوع کر کے اس ذاتِ پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ ستاروں کا قصّہ یوں بیان فرمایا ہے: وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ ﴿٧٦﴾ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَبِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿٧٨﴾ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٧٩﴾(سورۃ الانعام: 75 – 79) (ترجمہ اوپر کے بیان سے ظاہر ہے) مفتاح العلوم کی جلد اول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس ھٰذَا رَبِّی۔ کہنے کے متعلق ایک عجیب نکتہ بیان ہوا ہے۔ فہرست مضامین کے بہرۂ تصوف میں دیکھو۔
-13-
عالمِ وہمِ خیال و چشم بندآنچناں کُہ را ز جائے خویش کند
-14-
تاکہ ھٰذَا رَبِّی آمد قالِ اوخربط و خر را چہ باشد حالِ او
ترجمہ: وہم اور خیال اور نظربندی کے عالم نے ایسے کوہ (استقامت) کو اس کی جگہ سے ہلا دیا حتٰی کہ انہوں نے ھٰذَا رَبِّی کہہ دیا تو سادہ لوح و بیوقوف لوگوں کا کیا حال؟
انتباہ: ان ایبات میں بظاہر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول ہذا ربّی کو مبنی بروہم قرار دیا گیا ہے۔ اور وہم کو اس تقریر میں غیر مستحسن ٹھہرایا ہے۔ جس کا مطلب بظاہر یہ نکلا کہ ایک نبی سے فعل غیر مستحسن سرزد ہوا۔ وھٰذا لایَلیِق بِشَانِ النِبی اس کے متعلق مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ستارہ کو ھٰذَا رَبّیِ کہنا بدیں وجہ تھا کہ انہوں نے ستارہ میں پروردگار کا مشاہدہ کیا تھا۔ پس ہذاٰ کے لفظ سے مشار الیہ وہ ظاہر تھا جو اس مظہر میں ظہور فرما تھا نہ کہ خود مظہر۔ اس لیے ستارے کے غروب ہونے کے وقت فرمایا۔ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (الانعام:76) جس میں ربوبیت کی نفی نہیں کی جو ان کی مشہود تھی۔ یعنی ان کا مطلب یہ تھا۔ کہ میں پروردگار کا شہود (اس مظہر میں پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ مظہر غروب ہونے والا ہے۔ بلکہ مجھے اس کا وہ مظہر پسند ہے جو کسی مظہر کا مقیّد نہ ہو اور اس بات میں کسی وہم و خیال کا دخل نہیں۔ بلکہ آپ نے جو کچھ فرمایا برحق تھا۔ شاید مولانا رومؒ کا اس کو مبنی بر وہم ٹھہرانے کا مطلب یہ ہوا کہ اس قسم کے الفاظ زبان پر لانا اصحاب مقامات کا کام نہیں بلکہ عرفاء مغلوب الحال کا طریقہ ہے۔ مثلاً حسین بن منصور وغیرہ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ الفاظ اگرچہ نبوت سے پہلے کے ہیں۔ لیکن نبی کی ولایت بھی ولی کی ولایت سے اقوٰی ہوتی ہے۔ اور انبیا صاحبِ مقامات اور صاحبِ ادب ہوتے ہیں نہ کہ مغلوب الحال پس ایسی بات کا صدور ان کے مقام اور ادب سے بعید تھا۔ (انتہیٰ)۔
-15-
غرق گشتہ عقل ہائے چوں جبالدر بحارِ وہم و گردابِ خیال
ترجمہ: وہ عقلیں جو (اپنی عظمت و بلندی میں (پہاڑوں کی مانند ہیں۔ وہم کے سمندروں اور خیال کے گرداب میں غرق ہوگئیں۔)
-16-
کوہ باراں ہست زیں طوفاں فضوحکو امانے جُز کہ در کشتیِ نوحؑ
ترجمہ: پہاڑوں (تک) کو اس طوفان سے رسوائی (پیش آتی ہے) سوائے نوح علیہ السلام کی کشتی کے کہاں پناہ ہے۔
مطلب: وہم و خیال کا طوفان عقل کو بھی جو پہاڑ کی طرح پائیدار اور اٹل ہے متزلزل کر دیتا ہے۔ پس مرشدِ کامل ہی کی پناہ میں جو بمنزلہ کشتیِ نوح علیہ السلام ہے۔ اس سے نجات مل سکتی ہے۔
-17-
زیں خیالِ رہزنِ راہِ یقیںگشت ہفتاد و دو ملّت ز اہلِ دیں
ترجمہ: اسی خیال (کی کجروی) سے جو راہ یقیں کا راہزن ہے اہلِ دین کے بہتر فرقے بن گئے۔
-18-
مردِ ایقاں رُست از وہم و خیالموئے ابرو را نمی گوید ہلال
ترجمہ: (ہاں) صاحب یقین وہم و خیال سے بچتا ہے۔ وہ ابرو کے بال کو ہلال نہیں کہتا۔
-19-
وانکہ را نُورِ عمر نبود سندموئے ابروئے کجے راہش زند
ترجمہ: اور جس شخص کے لیے حضرت عمرؓ کا نور (بصیرت) پشت پناہ نہ ہو اس کو ابرو کا ایک ٹیڑھا بال گمراہ کر دیتا ہے۔
مطلب: یہ ایک قصہ کی طرف اشارہ ہے جو مثنوی شریف کے دفتر دوم کے اوائل میں بیان ہو چکا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں لوگ ہلال دیکھ رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا مجھے ہلال نظر آرہا ہے۔ حالانکہ ہلال طلوع نہیں ہوا تھا اور ہزاروں لوگوں میں سے اور کسی کو نظر نہیں آیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس شخص کو حکم دیا کہ پانی میں ہاتھ تر کر کے منہ پر پھیرو پھر ہلال کو دیکھو نظر آتا ہے یا نہیں۔ اس نے حکم کی تعمیل کی تو پھر ہلال نظر نہ آیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو بتایا کہ اس کے ابرو کا خمدار ہلال آنکھ کے سامنے آ گیا تھا۔ اس نے ہلال کا نقشہ آنکھوں میں جما دیا تھا۔
-20-
صد ہزاراں کشتیِ باہول و سہمتختہ تختہ گشتہ در دریائے وہم
ترجمہ: لاکھوں کشتیاں (جو) دہشت و خوف کے ساتھ (ڈگمگا گئیں) وہم کے دریا میں (ٹوٹ کر) تختہ تختہ ہو گئیں۔ انسان کو پہلے خوف عارض ہوتا ہے۔ پھر اس کا وہم مختلف خوفناک تصورات پیدا کرنے لگتا ہے۔
-21-
کمتریں فرعون چست و فیلسوفماہِ او در بُرج وہمے در خسوف
ترجمہ: (دور نہ جاؤ) کم از کم فرعون (کو دیکھو جو بڑا) چالاک اور (بزعمِ خود) دانا (تھا) اس کا (فیلسوف کا) چاند وہم کے گرہن میں (بے نور) ہے۔
مطلب: فرعون کو یا تو اپنی بزرگی و عظمت کا یہاں تک زعم تھا۔ کہ خدائی کا دعوی کرنے لگا یا وہ اس قدر پست ہمت نکلا۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے ڈر گیا۔ جو اژدہے کی شکل میں نمودار ہوا تھا۔ اور اس خوف کے زیرِ اثر اس کو گونا گوں وہم عارض ہوئے۔ کبھی کہتا موسیٰ جادوگر ہے۔ کبھی کہتا موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے نکالنے اور خود اس سلطنت پر قابض ہونے کی نیت سےآیا ہے۔ حالانکہ ان باتوں کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام جادوگر تھے اور نہ ان کو سلطنت کی ہوس تھی۔ یہ محض فرعون کے توہمّات تھے جو اس کو خوف کی وجہ سے عارض ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام تو ایک پیغمبر اولوالعزم تھے۔ جن کے کمالات کا اندازہ فرعون سیاہ باطن کیا کر سکتا تھا۔ ہم کہتے ہیں ایک بدکار عورت کے باطن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس کے متعلق بھی جو قیاس ہوگا وہ محض وہم پر مبنی ہوگا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
-22-
کس نداند روسپی زن کیست آںو آنکہ داند نبودش بر خود گماں
ترجمہ: بدکار عورت (جو شریف خاتون کی طرح برقع پہنے ہو) اس کو کوئی نہیں جانتا کہ کون ہے اور جو شخص (اس کے کرتوت کو) جانتا ہے۔ اس کو اپنے اوپر (اس کے کرتوت کا) گمان نہیں ہوتا۔
مطلب: کثیر الوہم آدمی جاہل بجہلِ مرکب ہوتا ہے۔ عام لوگ تو کسی کو لباسِ پارسائی میں دیکھ کر پارسا سمجھتے ہیں مگر توہم پرست کو اس کے متعلق گونا گوں شکوک و شبہات ہو جاتے ہیں۔ اور اپنے متعلق اس کو کچھ خیال نہیں آتا کہ میں نے بد اعمالیوں کے کیا کیا بیج بوئے ہیں۔ ایک شخص چوری، غبن، زنا وغیرہ مختلف کبائر میں ملوث تھا۔ بلکہ وہ محض معاصی پر فخر کا اظہار بھی کر چکا تھا۔ بدقسمتی سے سِل کے مرض میں مبتلا ہو گیا۔ ایک دن وہ شدّتِ مایوسی میں اپنے دوستوں سے کہتا ہے۔ میں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ پھر معلوم نہیں مجھ پر یہ مصیبت کیوں پڑی۔ جہل مرکب کی ایسی مثالیں اور بھی بہت دیکھنے میں آئی ہیں۔
یہ ترجمہ ”روسپی“ صفت مقدم اور ”زن“ موصوف موخّر کی تقدیر پر کیا ہے۔ اور اگر ”روسپی زن“ کا کلمہ مرکب صفت ہو موصوف مقدر کی یعنی وہ شخص جس کی عورت بدکار ہو تو ترجمہ یوں ہوگا کہ کوئی آدمی کسی دیّوث کے گھر کا حال نہیں جانتا۔ اور جو شخص جانتا ہے۔ اس کو اپنے گھر کے متعلق یہ خیال نہیں آتا کہ خود اس کی عورت کیا گل کھلا رہی ہے آگے اسی متوہم اور جابل کو فرماتے ہیں:
-23-
چوں ترا وہمِ تو دارد خیرہ سَراز چہ کردی گردِ وہمِ آں دِگر
ترجمہ: جب تیرا (خود اپنا) وہم تجھے جاہل بنائے رکھتا ہے تو کسی دوسرے آدمی کے وہم (کا علاج کرنے) کے درپے کیوں ہے۔ (دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت، اسی طرح جو ناقص مشائخ آپ خودی میں مبتلا ہیں وہ دوسروں کو ترک خودی کا سبق کیا دیں گے۔ اب مولانا اس بات کو بطور افتراض خود اپنے ساتھ منسوب کر کے فرماتے ہیں)
-24-
عاجزم من از منیِ خویشتنچہ نشینی پُر منی تو پیشِ من
ترجمہ: میں (خود) اپنی خودی (کو فنا کرنے) سے عاجز ہوں تو پھر تو جو خودی سے لبریز ہے میرے سامنے کیا بیٹھا ہے (میں تیری خودی کو کیا مٹا سکتا ہوں، خفتہ را خفتہ کے کند بیدار)
-25-
از من و ما ہر کہ ایں در مے زندعاشق خویشست و بر لَا مے تند
ترجمہ: جو شخص خودی و انانیت کے ساتھ اس دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے (وہ اس راستہ کو کیا خاک طے کرے گا) جو وہ خود اپنی خودی کا عاشق ہے۔ اور (خواہ مخواہ) فنا کے مقام کا مدعی ہے۔ (بقائے خودی میں فنا کہاں؟)
-26-
بے من و مائے ہمے جویم بجاںتا شوم من گوئے آں خوش صولجاں
ترجمہ: میں (دل و جان) سے کسی (ایسے بزرگ) کو تلاش کر رہا ہوں جو خودی و انانیت سے پاک ہو۔ تاکہ میں اس اچھی چوگان والے (محبوب) کی گیند بن جاؤں (کَالَمَّتِ فِی یَدِ الغَسَّالِ)
-27-
ہرکہ بے من شد ہمہ منہا دروستیارِ جملہ شد چو خود را نیست دوست
ترجمہ: جو شخص خودی سے پاک ہو گیا۔ وہ تمام موجودات کا آئینہ بن گیا۔ جب وہ اپنے آپ کا دوست نہیں تو سب کا دوست بن گیا۔
-28-
آئینہ بے نقش شد یابد بہازانکہ شد حَاکی ز جملہ نقشہا
ترجمہ: (دیکھو) جو آئینہ بےنقش ہو وہ (اچھی) قیمت پاتا ہے کیونکہ وہ تمام نقوش کا عکس دکھا سکتا ہے۔
مطلب: عارف جب اپنی ہستی سے مجرّد اور اپنے احساسِ خودی سے پاک اور اپنے وجود سے خالی ہو جاتا ہے تو وہ ان تمام حقائق کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ جن سے صفاتِ الہٰیہ کا ظہور ہوتا ہے۔ کما قال نظامی گنجویؒ
تو آں نوری کہ چرخت طشت شمع ستنمودارِ دو عالم در تو جمع استدلِ عالم توئی خود را مبیں خردبایں ہمّت تواں گو کے از فلک بُرد
یہ مسئلہ مفتاح العلوم کی جلد سوم میں ایک جگہ بضمن پیر چنگی بوضاحت بیان کیا گیا ہے۔ جیسے کہ جب آئینہ صاف صیقل ہو تو تمام اشیاء کا عکس اس میں نظر آتا ہے۔ بخلاف اس کے جس آئینہ پر کوئی خاص نقش قائم ہو اس میں ہر چیز منعکس نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جس شخص میں اس کی خودی کا نقش متمکن ہو اس کا قلب آئینہ حقائق نہیں ہو سکتا۔ آگے ایک بزرگ کا قصہ ارشاد فرماتے ہیں۔ جس نے اپنی خودی کو مٹا کر کمال حاصل کیا۔