دفتر 5 حکایت 117: گدھے کا لومڑی کو ملامت کرنا

دفتر پنجم: حکایت: 117


عتاب کردنِ خر با رُوباہ

گدھے کا لومڑی کو ملامت کرنا

-1-

پس بیامد زود روباہ نزدِ خر گفت خر از چوں تو یاری الخدر

ترجمہ: (غرض) پھر لومڑی فوراً گدھے کے پاس آئی۔ گدھے نے کہا تجھ ایسے دوست (کی صحبت) سے پرہیز ہی اچھا ہے۔

-2-

ناجوانمرد! چہ کردم من تُرا کہ بہ پیشِ شیر نر بُردی مرا

ترجمہ: اری نالائق! میں نے تیرا کیا (بُرا) کیا تھا۔ جو تو مجھے شیر کے سامنے لے گئی۔

-3-

ہمچو کژدم کو گزد پائے فتے نا رسیدہ از وے اورا آفتے

ترجمہ: بچھو کی طرح جو کسی جوان سے کوئی آفت پہنچے بدون اس کے پاؤں پر ڈنک مارتا ہے۔

مطلب: بچھو کا ڈنک مارنا کسی عداوت و خصومت پر مبنی نہیں بلکہ یہ اس کا تقاضائے طبعی ہے۔ ایک بچھو دریا کے کنارے پر بیٹھا پار جانے کا آرزومند تھا۔ کچھوے نے ازراہِ ترحم اُسے اپنی پشت پر بٹھا لیا۔ اور پار لے چلا۔ دریا کے وسط میں پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ بچھو اس کی سنگین کھوپڑی پر کچھ کھٹ کھٹ کر رہا ہے۔ پوچھا۔ بھائی بچھو! یہ کیا حرکت ہے۔ وہ بولا بھائی کچھوے میں ڈنگ مارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ پوچھا۔ کیا میری نیکی کا یہی عوض ہے وہ بولا! یہاں نیکی بدی کا سوال نہیں ہے۔ ڈنک مارنا میری طبیعت کا خاصہ ہے۔ میں اس سے باز نہیں رہ سکتا اتنا سنتے ہی کچھوے صاحب نے پانی میں ایک ڈبکی لگائی۔ تو بچھو غوطے کھانے لگا۔ اور بولا بھائی کچھوے یہ کیا اس نے کہا تمہاری طرح مجھے بھی اپنی طبیعت کا خاصہ یاد آ گیا۔ میں بھی اس سے مجبور ہوں باز نہیں رہ سکتا۔ سچ کہا ہے۔

نیشِ عقرب نہ از پئے کین ست مقتضائے طبیعتش این ست

-4-

یا چو دیوی کو عدوّے جانِ ماست نا رسیدہ زحمتش از ما و کاست

ترجمہ: یا تو شیطان کی مانند ہے جو ہماری جان کا دشمن ہے۔ بحالیکہ ہماری طرف سے اس کو کوئی تکلیف اور نقصان نہیں پہنچا۔

-5-

بلکہ طبعاً خصمِ جانِ آدمی ست از ہلاکِ آدمی در خُّرمی ست

ترجمہ: بلکہ وہ طبعاً آدمی کی جان کا دشمن ہے۔ آدمی کی بربادی سے خوش ہے۔

-6-

از پئے ہر آدمیِ نگسلد خو و طبعی زشت خود را کے ہلدَ

ترجمہ: وہ کسی آدمی کا پیچھا کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنی بُری خصلت اور طبیعت کو کب چھوڑتا ہے۔

-7-

زانکہ خُبثِ ذاتِ او بے مُوجبے ہست سوئےِ ظلم وعُدواں جاذبے

ترجمہ: کیونکہ اس کی سرشت کی پلیدی بلا وجہ (اس کو) ظلم و سرکشی کی طرف کھینچنے والی ہے۔

-8-

ہر زماں خواند ترا تا خرگہے کاندر اندازد ترا اندر چہے

ترجمہ: وہ ہر وقت تم کو (لذّاتِ نفسانیہ کے) خیمے کی طرف بلاتا ہے۔ (اور عیش کی ترغیب دیتا ہے) تاکہ تم اس کے بُرے نتائج کے) کنوئیں میں گرا دے۔

-9-

کہ فلاں جا حوضِ آبست و عُیون تا در اندازد بحَوضت سرنگوں

ترجمہ: (اس کی ترغیبات کا انداز یہ ہے) کہ (مثلاً وہ تم سے کہتا ہے کہ) فلاں جگہ (خوشگوار) پانی کا حوض ہے اور فلاں جگہ چشمے (بہہ رہے ہیں۔ چلو وہاں مجلسِ مے نوشی منعقد کرو) تاکہ تم کو (بحالتِ بد مستی) حوض میں سر کے بل گرا دے۔

مطلب: یہ ترجمہ معنی حقیقی کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ اگر الفاظِ شعر کو محمول بمجاز کیا جائے تو پھر حوض و عیون سے لذاتِ نفسانیہ اور سرنگوں گرانے سے نتائجِ بد میں مبتلا کرنا مقصود ہوگا۔ یعنی شیطان تم کو بہکا کر معاصی و منکرات کے گرداب میں ڈال دیتا ہے۔ جس سے وہ تم کو دنیا میں خوار و رسوا کر دیتا ہے اور آخرت میں عذابِ جہنم کا مستوجب بنا دیتا ہے۔

-10-

آدمی را با ہزاراں کروفر اندر افگند آں لعیں در شور و شر

ترجمہ: اس لعین نے انسان کو اس کے ہزاروں کروفر کے باوجود شور و شر میں ڈال دیا ہے۔

-11-

بے گناہے بے گزندِ سابقے کے رسید او را ز آدم ناحقے

ترجمہ: کسی قصور کے بغیر اور کسی سابقہ ضرر کے بغیر (جو انسان سے اس کو پہنچا ہو۔) بھلا اس کو حضرت آدم علیہ السلام (یا حضرتِ آدم کی اولاد) سے کب کوئی ناحق (ضرر) پہنچا ہے۔

-12-

کے رسید اورا زمردم زشتئے کو دمادم آر و از غم پشتئے

ترجمہ: اس کو حضرت آدم علیہ السلام سے کب کوئی برائی پہنچی ہے۔ جو وہ دمبدم (ان کی اولاد پر) غم پر غم کی تہ چڑھا رہا ہے۔