دفتر 5 حکایت 116: اس بات کے بیان میں کہ عہد توڑ ڈالنا موجب بلا بلکہ باعث مسخ ہے۔ جیسے کہ روزِ شنبہ والوں اور خوانِ عیسیٰ علیہ السلام والوں کے حق میں (ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ ہم نے ان میں سے بندر اور سور بنا دیے

دفتر پنجم: حکایت: 116


در بیانِ آنکہ نقضِ عہدِ توبہ موجبِ بلا بلکہ باعثِ مسخ است چنانکہ در حق اصحابِ سبت و در حقِ اصحابِ مائدہ عیسیٰ (علیہ السلام) کہ وَجَعَلَ مِنھُمُ القِرَدَۃَ وَالخَناَزِیرَ

اس بات کے بیان میں کہ عہد توڑ ڈالنا موجب بلا بلکہ باعث مسخ ہے۔ جیسے کہ روزِ شنبہ والوں اور خوانِ عیسیٰ علیہ السلام والوں کے حق میں (ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ ہم نے ان میں سے بندر اور سور بنا دیے۔

-1-

نقضِ میثاق و شکست تَوبہا موجبِ لعنت بود در انتہا

ترجمہ: عہد شکنی اور شکستِ توبہ انجام کار لعنت کا موجب ہوتی ہے۔

-2-

نقضِ عہد و توبۂ اصحابِ سبت موجبِ مسخ آمد و اہلاکِ کبت

ترجمہ: (جیسے) اصحابِ سبت کا عہد و توبہ کو توڑنا۔ (ان کے) مسخ و ہلاکت اور خواری کا باعث ہوا۔

مطلب: یہود کو حکم تھا کہ شنبہ (ہفتہ) کے دن مچھلیوں کا شکار نہ کریں۔ چار و ناچار ان کو یہ حکم ماننا پڑا۔ مگر قدرتِ حق نے ان کی اس اطاعت کی خامی و پختگی کا امتحان لیا۔ چنانچہ مچھلیاں شنبہ کے سوا اور کسی دن نہیں آتی تھی اور شنبہ کے روز کثرت کے ساتھ آنے لگیں۔ اب یہ لوگ شدتِ حرص سے عہد الہیٰ کے پابند نہ رہ سکے۔ شنبہ کے روز پانی میں بند لگا کر تمام مچھلیوں کو روک لیتے۔ اگلے روز ان کو پکڑتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ لَا تَأْتِيهِمْ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (الاعراف:163) ”یہودیوں سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جو سمندر کے کنارے پر آباد تھا۔ جب (ان کے باپ دادا) ہفتہ کے دن (خدا کی) نافرمانی کرتے تھے۔ جب ان کا ہفتہ کا دن ہوتا تو مچھلیاں ان کے سامنے آ جاتیں اور جس دن ہفتہ نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ ان کے گناہوں کے سبب سے ہم ان کو اس طرح آزمانے لگے“۔آگے انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا: ﴿فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (الاعراف:166) ”پھر جب وہ منع کئے ہوئے کام میں حد سے بڑھ گئے ہم نے حکم دیا کہ دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ“۔ خوانِ عیسیٰ کا قصہ مثنوی شریف کے دفتر اول میں گزر چکا ہے۔ وہ لوگ اپنی نافرمانی کی پاداش میں سؤروں کی شکل میں مسخ کئے گئے۔ چنانچہ آیہ: ﴿وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ (المائدۃ:160) قردۃ سے اہلِ سبت اور خنازیر سے مائدہ والے مراد ہیں۔

-3-

پس خدا آں قوم را بوزینہ کرد چونکہ عہدِ خود شکستہ از نبرد

ترجمہ: خدا نے اس قوم کو بندر بنا دیا۔ جب انہوں نے ضد کے ساتھ اپنا عہد توڑ ڈالا۔

-4-

اندریں امت نہ بُد مسخِ بدن لیک مسخِ دل بود اے ذوالفطن

ترجمہ: اس امت (محمدیہ) میں بدن مسخ نہیں ہوا۔ لیکن اے دانا! آدمی کا قلب مسخ ہوتا ہے۔

مطلب: امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا السلام والتحیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص کرم ہے کہ ان پر وہ شدید عذاب اکثر نہیں آئے جو اممِ سابقہ پر آتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسخ کا عذاب اس امت پر کبھی نازل نہیں ہوا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس امت پر اگر مسخ کا عذاب آتا ہے تو وہ قلب کا مسخ ہو جانا ہے۔ جس میں فاجر و فاسق لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے دل سے نیکی کی صلاحیت و استعداد سلب ہو جاتی ہے۔ پھر وہ کسی گناہ کو گناہ نہیں سمجھتے۔ نہ اس سے کوئی قلبی کدورت محسوس کرتے ہیں۔ غرض اگر اس امت کے بدکاروں کے جسم بندر کے سے نہیں ہوتے تو دل بندروں کے قلوب سے مشابہ ہو جاتے ہیں اور مسخِ قلب مسخِ بدن سے بھی بُرا ہے۔ پس:

-5-

چوں دِل بوزینہ گردد آں دلش از دِل بوزینہ شُد خوار آں گِلَش

ترجمہ: جب اس کا دل بندر کے دل کا سا ہو جائے۔ تو اس (کے وجود) کی وہ مٹی بندر کے دِل سے بھی (زیادہ) ذلیل ہوگی۔ (یعنی یہ نہ سمجھو کہ مسخِ قلب کی حالت میں جب صورت) مسخ نہیں ہوتی تو یہ کوئی معمولی بات ہے۔ کیونکہ ممسوخ القلب کا جسم اگرچہ غیر ممسوخ ہو وہ قلبِ بوزنہ سے بھی بدتر ہے)

-6-

گر ہُنر بودے دِلش را زِ اختیار خوار کے بودے زِ صورت آں حمار

ترجمہ: (اور اس کی دلیل یہ ہے کہ) اگر گدھے کے دل میں بالارادہ کوئی خوبی ہوتی تو وہ اپنی صورت سے ذلیل کیوں ہوتا۔ (پس جب قلبی حماقت کی وجہ سے اس کی صورت بھی قابلِ نفرت سمجھی جاتی ہے تو معلوم ہوا کہ قلب کا اثر جسم پر بھی ہوتا ہے۔)

-7-

آں سگِ اصحاب خوش بُد سیرتش ہیچ بودے منقصت راں صورتش

ترجمہ: (برعکس اس کے) اصحاب (کہف) کے اس کتے کی سیرت (جو ان کے ساتھ غار میں داخل ہوا تھا) اچھی تھی تو کیا اس کی (کتوں کی سی) صورت سے کچھ سبکی ہو سکتی ہے (ہر گز نہیں پس معلوم ہوا کہ قلبی خوبی بدتر سے بدتر صورت کو بھی مقبول بنا دیتی ہے۔)

-8-

مسخِ صورت بود اہلِ سبت را تا بہ بیند خلق ظاہر کَبت را

ترجمہ: شنبہ والوں کی صورت (جو) مسخ ہوئی تھی (تو) اس لیے کہ مخلوق علانیہ ان کی بربادی کو دیکھ لے اور اس سے عبرت حاصل کرے۔ ورنہ بد اعمالی کی سزا کے لیے مسخ قلب بھی کچھ کم نہ تھا۔ مگر اس سے دوسرے لوگوں کی عبرت نہیں ہو سکتی۔)

-9-

از رہِ سر صد ہزارانِ دِگر گشتہ از توبہ شکستن خوک و خر

ترجمہ: (اور) دوسرے لاکھوں (آدمی جن کی سزا سے عبرتِ عامہ مقصود نہیں) توبہ شکنی کی پاداش میں باطنی طور سے (مسخ قلب کے ساتھ) سؤر اور گدھے بن گئے۔

مطلب: اگر ان کے عذاب سے پاداشِ اعمال اور عبرتِ عوام دونوں مقصود ہوتیں تو ان کو انسان سے سچ مچ کے گدھے اور سؤر بنا دیا جاتا۔ مگر چونکہ صرف ان کے اعمال کی سزا دینا مقصود تھا۔ اس لیے ان کے دلوں کو ہی مسخ کیا گیا۔ یعنی ان کو باطناً گدھے اور سؤر بنایا گیا۔ ظاہراً نہیں۔ ظاہر میں لوگ ان کو اچھے بھلے انسان دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقتاً ﴿أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (الاعراف:179) کا معاملہ ہے۔ ایک بزرگ کا ذکر سنا۔ (اب نام یاد نہیں کہ اُن پر کشف کی حالت یہاں تک غالب تھی کہ جب نماز کے لیے مسجد میں جاتے تو نمازیوں میں سے بہت سے لوگ ان کو گدھے، کتے اور سؤر کی شکل میں نظر آتے۔ نَعُوذُ بِاللہِ مِن شَرُورِ اَنفُسِنَا۔