دفتر پنجم: حکایت: 115
بردن رُوباہ خر را پیشِ شیر و جہیدنِ خر از شیر و عتابِ روباہ با شیر کہ شتاب کردی ولابہ کردنِ شیر کہ دگر بارہ بیارش
لومڑی کا گدھے کو شیر کے سامنے لے جانا اور گدھے کا شیر (کے حملے) سے بھاگ نکلنا اور لومڑی کا شیر کو ملامت کرنا کہ تو نے (حملہ کرنے میں) جلدی کی اور شیر کا خوشامد کرنا کہ اس کو دوبارہ لائے۔
-1-
چونکہ روباہش بسوئے مَرج بُردتا کند شیرش بجملہ خُرد مُرد
ترجمہ: جب لومڑی اس کو چراگاہ کی طرف لے گئی۔ تاکہ شیر (ایک ہی) حملے سے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔
-2-
دور بود از شیر و آں شیر نبردتا بنزدیک آمدن صبرے نکرد
ترجمہ: وہ (گدھا) ابھی شیر سے دور ہی تھا اور اس جنگی شیر نے قریب آنے تک صبر نہ کیا۔
-3-
گنبدے کرد از بلندی شیر ہولخود نبودش قوت و امکانِ حُول
ترجمہ: (چنانچہ) خوفناک شیر بلندی سے چاروں پیر اٹھا کر حملہ آور ہوا۔ (مگر) اس میں (شکار مارنے کی) قوت اور طاقت کا امکان ہی نہ تھا۔
-4-
خر زِ دورش دید و برگشت و گریختتا بپائے کوہِ تازاں نعل ریخت
ترجمہ: گدھے نے اس کو دور سے دیکھا اور پیٹ پھیر کر بھاگ نکلا۔ دامنِ کوہ تک بھاگتا چلا گیا۔
-5-
گفت رُوبہ شیر را کائے شاہِ ماچوں نکردی صبر در وقتِ وغا
ترجمہ: لومڑی نے شیر کو کہا۔ اے ہمارے بادشاہ! تو نے (شکار مارنے کے) معرکہ کے وقت صبر کیوں نہ کیا۔
-6-
تا بنزدیکِ تو آمد آں غویپس باندک حملہ غالب شوی
ترجمہ: حتی کہ وہ گمراہ تیرے قریب آ جاتا۔ تو پھر ذرا سے حملے کے ساتھ (اس پر) غالب ہو جاتا۔
-7-
مکرِ شیطانست تعجیل و شتابلطفِ رحمانست صبر و احتساب
ترجمہ: جلدی اور شتابی کرنا شیطان کا مکر ہے۔ صبر اور خود داری رحمٰن کی مہربانی ہے۔ (حدیث: اَلتَّاَنِّی مِنَ اللہِ والعُجلَۃُ مِنَ الشَیطَانِ)
-8-
دُور بُود و حملہ را دید و گریختضعفِ تو ظاہر شد و آبِ تو ریخت
ترجمہ: وہ (ابھی) دور تھا اور (دور ہی سے) اس نے (تیرے) حملہ کو دیکھ لیا۔ اور وہ بھاگ گیا۔ (جس سے) تیری کمزوری ظاہر ہوگئی اور تیری آبرو جاتی رہی۔
-9-
گفت من پنداشتم بر جاست زورخود بدم از ضعفِ خود نادان و کور
ترجمہ: (شیر) بولا میں نے گمان کیا کہ (میرا) زور قائم ہے۔ میں خود اپنی کمزوری سے بے خبر و بے بصر تھا۔
-10-
نیز جوع و حاجتم از حد گذشتصبر و عقل از تَجَوُّع یاوہ گشت
ترجمہ: نیز میری بھوک اور محتاجی حد سے گزر گئی۔ بھوک سہنے سے میرا صبر اور عقل بے کار ہو گئے۔
-11-
گر توانی باز دیگر از خردباز آوردن مر او را مے سزد
ترجمہ: اگر تو (اپنی) عقل (کے زور) سے اس کو دوبارہ (یہاں) لا سکے تو اچھی بات ہے۔
-12-
منتِ بسیار دارم از تو منجہد کن باشد بیارِیش بفن
ترجمہ: تیرے مجھ پر بڑے احسان ہیں۔ کوشش کر شاید (کسی) حیلے سے اس کو لے آئے۔
-13-
گر خدا روزی کند آں خر مرابعد ازاں بس صیدہا بخشم ترا
ترجمہ: اگر خدا مجھ کو وہ گدھا نصیب کرے تو اس کے بعد میں تجھ کو بڑے شکار دیا کروں گا۔
-14-
گفت آرے گر خدا یاری دہدبر دلِ او از عِمیٰ مہرے نہد
ترجمہ: (لومڑی نے) کہا ہاں اگر خدا مدد کرے (اور) اس کے دل پر نا بینائی کی مہر لگا دے۔
-15-
بس فراموشش شد ہولے کہ دیداز خریِّ او نباشد ایں بعید
ترجمہ: تو اسے وہ خوف بھول جائے جو وہ دیکھ چکا ہے۔ (اور) یہ بات اس کے گدھے پن سے بعید نہیں۔
-16-
لیک چوں آرم مرورا تو متازتا ببادش ندہی از تعجیل باز
ترجمہ: لیکن جب میں اس کو لے آؤں تو تم اس پر حملہ آور نہ ہونا تاکہ جلدی میں اس کو پھر رائیگاں نہ کر بیٹھو۔
-17-
گفت آرے تجربہ کردم کہ منسخت رنجورم مخلخل گشتہ تن
ترجمہ: (شیر نے) کہا۔ ہاں! میں نے تجربہ کرلیا ہے کہ میں سخت بیمار ہوں۔ (میرے) بدن (کا بند بند) ڈھیلا ہو چکا ہے۔
-18-
تا بنزدیکم نیازی خر تماممن نہ جنبم خفتہ باشم بر دوام
ترجمہ: جب تک تو گدھے کو پوری طرح میرے قریب نہ لائے۔ میں ہلنے کا نہیں۔ برابر سوتا رہوں گا۔
-19-
رفت روبہ گفت اے شہ ہمتے!تا بپوشد عقل او را غفلتے
ترجمہ: لومڑی روانہ ہوئی (اور روانگی کے وقت) کہنے لگی۔ اے بادشاہ دعا کیجئے کہ غفلت اس کی عقل پر پردہ ڈال دے (اور اس دعا کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ اس وقت بہت ہوشیار ہو چکا ہے۔ چنانچہ)
-20-
توبہ ہا کردہ است خر با کِردگارکو نگردد غرّہ ہر نابکار
ترجمہ: گدھے نے خدا کی بارگاہ میں بار بار توبہ کی ہے کہ وہ (آیندہ) کسی نالائق (ٹھگ) سے دھوکا نہیں کھائے گا۔ (لومڑی کو یہ بات قیاساً معلوم ہوئی)
-21-
توبہ او را بفن برہم زَنیمما عدوئے عقل و عہدِ روشنیم
ترجمہ: (مگر حضور کی دعا ہو تو) ہم کسی نہ کسی حیلے سے اس کی توبہ کو تھوڑ پھوڑ کر رکھ دیں گے۔ ہم عقل اور روشن عہد کے دشمن ہیں۔
-22-
کلّۂ خر گوئے فرزندانِ ماستفکرتش بازیچۂ دستانِ ماست
ترجمہ: (پھر دیکھنا کہ) گدھے کی کھوپڑی ہمارے بچوں (کے کھیلنے) کی گیند ہے۔ اس کی دور اندیشی ہمارے فریب کا کھلونا ہے۔
انتباہ: لومڑی فخر کر رہی ہے کہ میرا مکر و فریب اور میری عقل و تدبیر گدھے کو مغلوب کر کے چھوڑے گی۔ اس سے مولانا کا ذہن اہل اللہ کاملین کی عقلِ کامل کی طرف منتقل ہو گیا۔ آگے لومڑی کی زبان سے ان ہی حضرات کی عقلِ عالی کی توصیف ہے۔
-23-
عقلِ کاں باشد زِ دورانِ زُحلپیشِ عقلِ ما ندارد آں محل
ترجمہ: عقل (معاش) جو دنیاوی امور کے جوڑ توڑ سے آگے نہیں جاتی۔ اگرچہ وہ سب سے بلند ستارہ یعنی زحل کی گردش سے (دامن باندھے ہوئے) ہو (تاہم) ہماری عقلِ (معاد) کے سامنے وہ منزلت نہیں رکھتی۔
-24-
از عُطارد وز زحل دانا شد اُوما زِ دادِ کِردگارِ لطف خُو
ترجمہ: وہ (عقلِ معاش) عطارد اور زحل کی بدولت دانا ہوئی ہے۔ ہم خداوند تعالیٰ کی بخشش سے (دانا ہوئے ہیں) جو مہربانی کی عادت والا ہے۔
-25-
عَلَّمَ الِانسَاں خمِ طغرائے ماستعِلمُ عِندَ اللّٰہِ مقصد ہائے ماست
ترجمہ: حق تعالیٰ کا قول ﴿علم الانسان﴾ہمارے طغرا کا خم ہے۔ اللہ کے پاس جو علم ہے وہ ہمارا (مجموعہ) مقاصد ہے۔
مطلب: یہاں انسان کا نون بضرورتِ شعری غنّہ پڑھنا چاہیے۔ طغرا بادشاہوں کے نام کا ایک خاص نشان ہوتا ہے جو فرمانِ شاہی کی پیشانی پر ثبت کیا جاتا ہے اس میں خمدار ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعہ میں اس آیت سے اقتباس ہے﴿۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ﴾ (العلق:5) اس نے انسان کو وہ باتیں سکھا دی جو اسے معلوم نہ تھیں۔ دوسرے مصرعہ میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّـهِ﴾ (الملک:27) ”کہو کہ علم خدا ہی کو ہے“۔
-26-
تربیہ آں آفتابِ روشنیمرَبّی الاَعلیٰ ازاں بر می زنیم
ترجمہ: ہم اس آفتاب (حقیقت) کے تربیت (یافتہ) ہیں (جو سب سے برتر و اعلیٰ ہے اس لیے میرا پروردگار (میرا پروردگار) کا گیت گاتے ہیں۔ (آگے لومڑی اپنے متعلق کہتی ہے۔)
-27-
تجربہ گر دارد او با ایں ہمہبشکند صد تجربہ زیں دمدمہ
ترجمہ: اگر وہ (کافی) تجربہ (بھی) رکھتا ہے تو اس کے باوجود (میرے) اس حیلے کے آگے (اس کے سے) سینکڑوں تجربے بے کار ہو جائیں گے۔
-28-
بُو کہ توبہ بشکند آں سُست خُودر رسد شومی اشکستن درو
ترجمہ: (شاید کہ میرے مکر و فریب سے) وہ سُست طبع توبہ توڑ ڈالے اور اس کی توبہ شکنی کا شامت اس پر پڑے (آگے مولاناؒ توبہ شکنی و بدعہدی کی مذمت کرتے ہیں)