دفتر 5 حکایت 114: اس شخص کی کہانی جس نے خوف کے مارے اپنے آپ کو ایک گھر میں ڈالا تھا۔ اس کا منہ زرد اور بدن کانپتا تھا۔ گھر کے مالک نے پوچھا۔ تیرے خوف کا سبب کیا ہے۔ کہا: گدھوں کو پکڑ رہے ہیں۔ کہا: تو گدھا نہیں ہے۔ کہا: (گدھے اور آدمی کی) تمیز اٹھ گئی ہے

دفتر پنجم: حکایت: 114


حکایت آں شخص کہ از ترسِ خویش بخانہ افگند روئے زرد و تنِ لرزاں۔ خداوندِ خانہ پرسید چیست ترسِ تو۔ گفت خر مے گیرند۔ گفت تو خر نیستی۔ گفت تمیز برخاستہ است

اس شخص کی کہانی جس نے خوف کے مارے اپنے آپ کو ایک گھر میں ڈالا تھا۔ اس کا منہ زرد اور بدن کانپتا تھا۔ گھر کے مالک نے پوچھا۔ تیرے خوف کا سبب کیا ہے۔ کہا: گدھوں کو پکڑ رہے ہیں۔ کہا: تو گدھا نہیں ہے۔ کہا: (گدھے اور آدمی کی) تمیز اٹھ گئی ہے

-1-

آں یکے در خانہ ناگہ گریخت زرد رُو و لب کبود و رنگ ریخت

ترجمہ: ایک شخص اچانک دوڑتا ہوا ایک گھر میں آ گھسا۔ چہرہ زرد تھا۔ ہونٹ نیلے اور رنگ اڑا ہوا۔

-2-

صاحبِ خانہ بگفتش خیر ہست کہ ہمے لرزد ترا چوں پیر دست

ترجمہ: گھر والے نے اس سے کہا (میاں) خیر تو ہے؟ کہ تمہارے ہاتھ بڈھے کی طرح کانپ رہے ہیں۔

-3-

واقعہ چونست چوں بگریختی؟ رنگِ رخسارہ بگو چُوں ریختی؟

ترجمہ: بات کیا ہے؟ تم بھاگے کیوں؟ بتاؤ چہرے کا رنگ کیوں اُڑا بیٹھے؟

-4-

گفت بہرِ سخرۂ شاہِ حروں خر ہمے گیرند مردم از بروں

ترجمہ: اس نے بتایا کہ باہر (سرکاری) آدمی ظالم بادشاہ کی بے گار کے لیے گدھوں کو پکڑ رہے ہیں۔

-5-

گفت می گیرند خر اے جانِ عم چوں نہ خر، رَو تُرا ازیں چیست غم

ترجمہ: (گھر والے نے) کہا اے چچا کی جان! وہ لوگ گدھوں کو پکڑتے ہیں۔ جب تم گدھے نہیں ہو۔ تو چلو تم کو اس سے کیا غم۔

-6-

گفت بس جِدّند و گرم اندر گرفت گر خرم گیرند ہم نبود شگفت

ترجمہ: اس نے کہا وہ لوگ (اس) پکڑ دھکڑ میں نہایت سخت اور سرگرم ہے۔ (اس اندھیر گردی میں) اگر مجھ کو بھی گدھا سمجھ لیں تو تعجب نہیں۔

-7-

بہرِ خر گیری برآوردند دست جدّ جدّ تمییز ہم برخاستہ است

ترجمہ: گدھے پکڑنے کے لیے انہوں نے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں۔ کوشش کوشش میں تمیز بھی اٹھ گئی ہے۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں)

-8-

چونکہ بے تمییزیاں ماں سرْوَرَند صاحبِ خر را بجائے خر برند

ترجمہ: (بے شک) جب بے تمیز لوگ ہمارے حاکم ہوں تو گدھے کے بجائے گدھے کے مالک کو پکڑ لے جائیں گے۔

-9-

نیست شاہِ شہرِ ما بیہودہ گیر ہست تمییزش سمیعست و بصیر

ترجمہ: (مگر) ہماری ہستی کا فرمانروا (تعالیٰ شانہ اس طرح) بے قاعدہ پکڑنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ وہ (اعلیٰ) تمیز رکھتا ہے۔ وہ خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔

-10-

آدمی باش، وزِ خر گیراں مترس خر نہ اے عیسیٰ دوراں! مترس

ترجمہ: تم آدمی بنو اور گدھے پکڑنے والوں سے نہ ڈرو۔ اے عیسیٰ زمانہ! تم گدھے نہیں ہو۔ ڈرو نہیں۔

-11-

چرخِ چارُم ہم زِ نورِ تو پُرست حاش للہ کہ مقامِ آخُرست

ترجمہ: چوتھا آسمان بھی تمہارے نور سے پُر ہے۔ اللہ سے یہ بعید ہے کہ تمام مقام آخور ہوں۔ (جو گدھوں گھوڑوں کی جگہ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فلک چہارم میں ہونا مشہور ہے۔ اس بناء پر یہاں چرخ چارم فرمایا۔)

-12-

تو زِ چرخ و اختراں ہم برتری گرچہ بہرِ مصلحت در آخُری

ترجمہ: آسمان اور ستاروں سے بھی بلند تر ہو۔ اگرچہ مصلحتاً آخور میں (پڑے) ہو۔

مطلب: انسان کی منزلت بہت اعلیٰ ہے۔ وہ دنیا کے سفلی مقام میں محض کسبِ اعمال کی مصلحت سے بھیجا گیا ہے۔ ورنہ اس کی شان اس سے بہت بلند ہے۔ بقول نظامیؒ : ؎

تو آں نوری کہ چرخت طشتِ شمعست نمودار دو عالم در تو جمعست

-13-

میرِ آخُر دیگر، و خر دیگرست نے ہر آنکو اندر آخُر شُد خرست

ترجمہ: داروغۂ اصطبل اور ہے اور گدھا اور ہے۔ یہ نہیں کہ جو کوئی بھی اصطبل میں جائے وہ گدھا ہے۔ (انسان کو اگر مصلحتاً دنیا میں بھیجا گیا ہے تو اس سے اس کی شان میں فرق نہیں آ سکتا۔)

-14-

میرِ آخُر گرچہ در آخُر بود ہر کہ اُورا خر بگوید خر بود

ترجمہ: داروغہ اصطبل اگر اصطبل میں جائے (تو وہ گدھا نہیں ہو سکتا) جو شخص اس کو گدھا کہے۔ (وہ خود) گدھا ہے۔ (اب مولاناؒ اپنے پیرایہ بیان کے متعلق متنبہ ہو کر فرماتے ہیں۔)

-15-

چہ در افتادیم در دُنبالِ خر از گلستان گوئے وز گلہائے تر

ترجمہ: ہم کیا گدھے کے پیچھے پڑ گئے۔ (معارفِ عالیہ کے) باغوں اور تر و تازہ پھولوں کی کہو۔

-16-

از انار و از ترنج و شاخِ سیب وز شراب و شاہدانِ بے حسیب

ترجمہ: انار اور ترنج اور سیب کی شاخ اور شراب اور بے حساب (حسن والے) معشوقوں کی (کہو)۔

-17-

یا ازاں بازاں کہ کبکاں پرورند ہم نگوں اِشکم ہم اِستاں می پرند

ترجمہ: یا (اوجِ ولایت کے) ان شہبازوں کی (کہو) جو چکوروں (کے سے کمزور ناتواں مریدوں) کی تربیت کرتے ہیں (اور) وہ الٹے اور سیدھے (دونوں طرح) اُڑتے ہیں۔

مطلب: باز کا شیوہ ہے کہ کبوتر، فاختہ، کبک، کنجشک وغیرہ کمزور پرندوں کو مار ڈالتا ہے۔ مگر یہ ایسے شہباز ہیں کہ کمزور لوگوں کو کوئی اذیت نہیں پہنچاتے۔ بلکہ ان کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیتے ہیں۔ اُلٹا اڑنے سے باطنی پرواز یعنی مقامات معرفت کو طے کرنا مراد ہے اور سیدھا اڑنے سے ظاہری پرواز یعنی احکامِ شرع پر عمل کرنا مقصود ہے۔ غرض وہ جامع طریقت و شریعت ہیں۔ مبتدعہ کی طرح شریعت سے بیگانہ اور صرف طریقت کے مدعی ہیں اور نہ وہابیہ کی طرح طریقت کے منکر اور محض شریعت کا ادعا رکھتے ہیں۔

-18-

یا ازاں دریا کہ موجش گوہرست گوہرش گویندہ و بینش درست

ترجمہ: یا اس دریائے حدیث کی (کہو) جس کی موج گوہر (خیز) ہے اور اس کا (ایک ایک) موتی بولنے اور دیکھنے والا ہے (یعنی انسانِ عارف)

-19-

یا ازاں مرغاں کہ گل چیں مے کنند بیضہ ہا زرّیں و سیمیں مے کنند

ترجمہ: یا اُن (فضائے عرفان کے) پرندوں کی (کہو) جو (علوم و معارف کے) پھول چنتے ہیں اور (اعمالِ حسنہ) کے سنہری ورُو پہلی انڈے دیتے ہیں۔

مطلب: مولانا نے دنبالِ خر کو چھوڑ کر جو چند عوالَمِ عجبیہ کا ذکر کیا تو اس سے سامع کو تعجب آیا کہ قدرتِ حق کی قلمرو میں کیسے کیسے عجیب عالم موجود ہیں۔ جن کی ہم کو خبر تک نہیں۔ آگے اس کے متعلق فرماتے ہیں:

-20-

نردبانہائے ست پنہاں در جہاں پایہ پایہ تا عنانِ آسماں

ترجمہ: جہاں میں (بہت سی) مخفی سیڑھیاں ہیں (جو) زینہ بزینہ فضائے آسمانی تک (پہنچی ہیں)

-21-

ہر گِرُہ را نردبانے دیگرست ہر روشِ را آسمانے دیگرست

ترجمہ: ہر جماعت کی سیڑھی الگ ہے۔ ہر راستے کا آسمان جداگانہ ہے۔

-22-

ہر یکے از حالِ دیگر بے خبر مُلک با پہنائے بے پایان و سر

ترجمہ: ہر ایک دوسرے کے حال سے بے خبر ہے۔ (اس لمبی) چوڑی سلطنت کا کوئی سرا اور خاتمہ نہیں۔

-23-

ایں دراں حیراں کہ اُو از چیست خوش واں دریں خیرہ کہ حیرت چیستش

ترجمہ: یہ اس (کے بارے) میں حیران ہے وہ کس بات سے خوش ہے اور وہ اس میں ہکا بکا ہے کہ اس کو حیرت کس بات کی ہے۔ ﴿کُلُّ حِزبِ بِماَ لَدَیھِم فَرِحُونَ (الروم: 23)

-24-

صحن ارض اللہ واسع آمدہ ہر درختے از زمینے سرزدہ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی زمین کا صحن فراخ ہے۔ ہر درخت ایک (جداگانہ) خطے سے اُگا ہے۔

-25-

ہر درختاں شکر گویاں برگ و شاخ کہ زہے ملک و زہے عرصہ فراخ

ترجمہ: درختوں پر (ہر) پتا اور ٹہنی شکر گزار ہے کہ (یہ خدا کا) ملک اور فراخ میدان خوب ہے۔

-26-

ایں سخن پایاں ندارد کن رجوع سوئے آں روباہ و شیر و سقم و جوع

ترجمہ: یہ بحث ختم ہونے والی نہیں (اب) اس لومڑی اور شیر اور (اس کی) بیماری اور بھوک (کے ذکر) کی طرف رجوع کرو۔