دفتر پنجم: حکایت: 113
غالب شدنِ مکرِ رُوباہ بر خَر و بُردنِ اُورا
لومڑی کے مکر کا گدھے پر غالب آنا اور اس کو لے جانا
-1-
روبہ اندر چارہ پائے خود فشردریشِ خر بگرفت و پیشِ شیر بُرد
ترجمہ: لومڑی نے حیلہ گری میں اپنے پاؤں جما دیے (حتیٰ کہ) گدھے کی داڑھی پکڑ لی اور اسے شیر کے پاس لے گئی (داڑھی پکڑنے سے مراد ہے مغلوب کرنا۔ ورنہ گدھے کی داڑھی اور مونچھ کہاں)
-2-
مُطربِ آں خانقہ کو، تاکہ تفتدف زند کہ خر برفت و خر برفت
ترجمہ: اس خانقاہ کا مطرب کہاں ہے (جس کے صوفیوں نے ایک مسافر صوفی کا گدھا بیچ کھایا تھا) تاکہ وہ سرگرمی کے ساتھ دف بجا (بجا کر گائے) کہ گدھا گیا گدھا گیا۔
مطلب: یہ ایک قصے کی طرف اشارہ ہے۔ جو دفتر دوم کے اوائل میں گزر چکا ہے۔ اور وہ بھی اندھی تقلید کے متعلق ارشاد ہوا تھا۔ چنانچہ اس کا آغاز یوں تھا۔
بشنو ایں قصہ پئے تہدید راتا بدانی آفتِ تقلید راصوفیے در خانقاہ از رہ رسیدمرکبِ خود بُرد و در آخور کشید
اس قصّہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسافر صوفی نے اپنا گدھا خانقاہ کے آخُر میں باندھا اور نوکر کو اس کی حفاظت پر متعین کیا۔ خانقاہ کے بھوکے درویشوں کو کیا عیاری سوجھی کہ نوکر سے آنکھ بچا کر گدھا کھول کر لے گئے اور منڈی میں فروخت کر کے اس کے دام سے خانقاہ میں جشن منایا۔ عمدہ عمدہ کھانے پکوائے اور محفل سماع کے لیے اچھے اچھے قوال بلائے۔ مسافر صوفی بھی یہ رنگ دیکھ کر خوش تھا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ خود اسی کا لہو نچوڑ کر یہ رنگ جمایا گیا ہے۔ غرض ضیافت سے فراغت پا کر سب مجلس سماع میں آ بیٹھے۔ قوال بھی کوئی ستم ظریف تھا۔ اس نے سارنگی کے ساتھ گدھے ہی کا گیت گانا شروع کیا۔
چوں سماع آمد ز اوّل تا کراںمُطرب آغاز ید یک ضربِ گراںخر برفت و خر برفت آغاز کردزیں حرارت جملہ را انباز کرد
حریفانِ بزم اس سُر کے ساتھ خوب ناچتے تھرکتے اور دہرے ہو ہو جاتے تھے۔ خود مسافر صوفی بھی اس تان کو معرفت کی الحان سمجھ کر آواز میں آواز ملا رہا تھا۔ ادھر خادم نے آخور کو گدھے سے خالی پایا تو دوڑا دوڑا مجلسِ سماع میں اپنے آقا کو اس چوری کی اطلاع دینے گیا۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ یہاں بھی گدھے کی گمشدگی کا ہنگامہ برپا ہے اور خود آقا ”خر برفت و خر برفت“ کا راگ الاپ رہا ہے تو اس نے اپنی اس رپورٹ کی کچھ ضرورت نہ سمجھی اور خاموش ہو رہا غرض رات گزر گئی۔ صبح کے وقت صوفی کو گدھے کے چرائے جانے کا علم ہوا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ یارانِ مجلس کھا پی کر اپنی اپنی راہ لگے۔ صوفی کی تقلید سے سارا کام خراب کیا نہ وہ تقلید میں خر برفت کا راگ گاتا۔ نہ خادم غلط فہمی میں پڑتا اور نہ موقع ہاتھ سے جانے دیتا۔ حتیٰ کہ عین وقت پر اس شرارت کا انسداد ہو جاتا۔ یہاں جو گدھا لومڑی کی باتوں سے دھوکا کھا کر اب شیر کی طرف جا رہا ہے۔ تو اس مناسبت سے مولانا نے اس قصّے کی طرف اشارہ فرمایا۔ جس میں خر برفت کا راگ گایا گیا تھا۔
-3-
چونکہ خرگوشے برد شیرے بچاہچوں نیارد رو بہے خر تا گیاہ
ترجمہ: جب ایک خرگوش شیر کو کنوئیں میں لے جا سکتا ہے تو لومڑی گدھے کو (بہلا پھسلا کر) گھاس تک کیوں نہ لے جائے۔
مطلب: یہ بھی ایک قصے کی طرف اشارہ ہے۔ جو دفتر اول کے وسط میں گزر چکا ہے۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ ایک خرگوش نے فریب کے ساتھ شیر کو ایک کنوئیں میں غرق کر دیا اور تمام وحوشِ صحرا کو اس شیر کی اذیت رسانی سے نجات دلائی تھی۔ فرماتے ہیں کہ جب خرگوش کا سا نحیف و ضعیف جانور شیر کی سی طاقتور ہستی کو کنوئیں میں گرا سکتا ہے تو لومڑی جو خرگوش سے قوی ہے گدھے کو جو شیر سے بمدارجِ کثیرہ کمزور ہے۔ چراگاہ کی طرف کیوں نہ لے جائے۔ جو کنوئیں میں لے جانے سے کم اندیشہ ناک ہے۔ شاید اس میں یہ اشارہ مرکوز ہو کہ جب نفسِ خسیس سالکانِ قوی دل کو بہکا سکتا ہے تو شیطان کے لیے جو نفس سے زیادہ طاقتور ہے کسی مقلد ظاہر پرست کو گمراہ کرنا کیا مشکل ہے۔ آگے خرگوش و روباہ کے مکر و فریب کے ذکر سے مولانا ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں۔
-4-
گوش را بر بند و افسون ہاں مخورجُز فسونِ آں ولیِّ دادگر
ترجمہ: (اپنے) کانوں کو بند کرو۔ اور (نفس و شیطان کے) فریب آمیز اقوال نہ سنو۔ سوائے اس عادل کے اقوال کے (جو باعثِ ہدایت ہیں)
-5-
آں فسونِ خوش تر از حلوائے اُوزانکہ صد حلوَاست خاکِ پائے اُو
ترکیب: حلوائے او مضاف و مضاف الیہ نہیں ہیں۔ کَمَا یَتَبَادَر بلکہ ترکیب یوں ہے۔ فسوں موصوف خوشتراز حلوا (صفت موصوف و صفت مل کر مضاف اور مضاف الیہ)
ترجمہ: اس کی وہ باتیں (سنو) جو حلوے سے زیادہ خوش گوار ہیں۔ کیونکہ سینکڑوں حلوے اس کی خاک پا ہیں۔
-6-
خُم ہائے خسروانی پُر زِ مےمایہ بُردہ از مے لب ہائے وَے
ترجمہ: شراب سے بھرے ہوئے شاہی مٹکوں نے اس عادل کے لبوں کی شراب سے (کیف کا) سرمایہ حاصل کیا ہے۔
مطلب: شاہی مٹکوں سے عامہ اولیا مراد ہیں جو شرابِ معرفت سے لبریز ہیں۔ فرماتے ہیں کہ عامہ اولیاء اسی ولیِ عادل اور قطبِ ارشاد کے ارشادات و ملفوظات سے بہرہ اندوز ہوئے ہیں۔ مَے لب سے اس کے اقوال مراد ہیں۔ جن میں سکر و مستی کی کیفیت ہے۔ آگے اس مَے لب کی فوقیت مے ظاہر پر بیان فرماتے ہیں۔
-7-
عاشقِ مے باشد آں جانِ بعیدکو مَے لب ہائے لعلش را ندید
ترجمہ: (ظاہری شراب ان لبوں کی شرابِ اقوال کے آگے کیا حقیقت رکھتی ہے ہاں) وہی روح جو (مراتبِ قرب سے) بعید ہے (ظاہری) شراب کی مشتاق ہو سکتی ہے۔ جس نے اس کے لب ہائے لعل (گوں) کی شراب نہیں چکھی۔
-8-
آبِ شیریں چوں نہ بیند مرغِ کورچوں نگردد گردِ چشمہ آب شور
ترجمہ: (اس کی مثال یہ ہے کہ) جب اندھا پرندہ آبِ شیریں نہ دیکھے تو وہ کھاری پانی کے چشمے پر کیوں نہ منڈلائے۔
-9-
موسٰیِ جاں سینہ را سینا کندطوطیانِ جان را بینا کند
ترجمہ: وہ (ولی عادل جو گویا) روح کا موسےٰ (ہے سالکوں کے) سینے کو (طورِ) سینا بنا دیتا ہے۔ روح کے طوطیوں کو صاحبِ بصیرت کر دیتا ہے۔
مطلب: اس کے اقوال کے فیض سے سالکوں کے سینے اس طرح روشن ہو جاتے ہیں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدولت کوہِ طور پر تجلیاتِ الہیٰہ وارد ہو گئی تھیں۔ طوطی کی بینائی کا ذکر ”چوں نہ بیند مرغ کور“ کی مناسبت سے ہوا ہے جو اوپر کے شعر میں گزرا ہے۔
-10-
خسر و شیرینِ جاں نوبت زدہ استلا جرم در شہر قند ارزاں شدہ است
ترجمہ: شیریں روح کے خسرو نے (اپنے اقبال کی) نوبت بجائی ہے۔ اس لیے شہر میں (علوم و معارف کا) قند ارزاں ہو گیا ہے۔
مطلب: اس شعر میں بہت سی مناسبتیں ملحوظ ہیں۔ حلوا اور آبِ شیرین کی مناسبت سے یہاں شیریں کا لفظ واقع ہوا ہے جو خسرو پرویز شاہِ ایران کی ملکہ محبوبہ تھی اور فرہاد کی معشوقہ تھی اور روح کو اس سے تشبیہ دی ہے۔ ولی عادل کو شیریں کے شوہر یعنی خسرو پرویز سے تشبیہ دی ہے اور لفظ شیریں کی مناسبت سے معارف کو قند کا مشبہ قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ولی عادل کا فیض آج کل عالمگیر ہو رہا ہے۔ اس لیے علوم و معارف عام ہیں۔ آگے بھی اسی مناسبت سے قند، مصری شکر نیشکر وغیرہ میٹھی چیزوں کے استعارات استعمال ہوں گے۔
-11-
یوسفانِ غیب لشکر مے کشندتنگ ہائے قند و مصری مے رسند
ترجمہ: (اس ولی عادل کی برکت سے واردات) غیب کے (معشوق جو خوبصورتی میں بمنزلہ) یوسف (ہیں) پرے کے پرے باندھے چلے آرہے ہیں۔ (اور حظوظ و کیفیات کے) قند و مصری کی (بوریوں کی) بوریاں (سالکوں کے پاس) پہنچ رہی ہیں۔ (یوسف کے ساتھ مصری کی مناسبت ملحوظ رہے)
-12-
اشترانِ مصر را رُو سوئے ماستبشنوید اے طوطیاں بانگِ دراست
ترجمہ: (وارداتِ غیب کے) مصری اونٹوں کا رخ ہماری طرف ہے۔ اے (مصری کھانے والی) طوطیو (یعنی سالکو سنو یہ قافلہ کے) گھڑیال کی آواز آرہی ہے۔ (اب مصری کھانے یعنی وارداتِ غیب سے متمتع ہونے کے لیے تیار رہو)
-13-
شہرِ ما فردا پُر از شکر شودشکر ارزان ست ارزاں تر شود
ترجمہ: ہمارا شہر کل شکر سے بھر جائے گا۔ شکر (اب) ارزاں ہے تو۔ (کل اور) زیادہ ارزاں ہو جائے گی۔ (گو اب بھی ان ولی عادل کی بدولت علوم و معارف عام ہیں۔ مگر چونکہ ان کا چشمہ فیض بیش از بیش فیض رسانی پر آمادہ ہے۔ اس لیے ان کے فیوض اور زیادہ عام ہو جائیں گے۔)
-14-
در شکر غلطید اَے حلوائیاںہمچو طوطی کوریِ صفرائیاں
ترجمہ: اےحلوا(ئے معرفت )کے طالبو (اب تم) شکر (فیوض) میں طوطی کی طرح لوٹ پوٹ ہو جاؤ۔ صفراوی المزاج لوگوں (یعنی منکروں) کی بد نصیبی (صفراوی المزاج) کو قند، شکر، مصری وغیرہ تمام شیریں اشیا مضر ہوتی ہیں۔ (کیونکہ وہ مستحیل بصفرا ہو کر زیادتیِ مرض کا باعث ہو جاتی ہیں)
-15-
نیشکر کوبید کار این ست و بسجاں بر افشانید یار این ست و بس
ترجمہ: (اب) تم (ریاضت کے) نیشکر کو کوٹو (اور معرفت کا رس نکالو) بس یہی کام (اچھا) ہے۔ (اپنی) جان (اس ولی عادل پر) نثار کر دو۔ بس یہی محبوب (بہترین) ہے۔
-16-
یک تُرش در شہر ما اکنوں نماندچونکہ شیریں خسرواں را بر فشاند
ترجمہ: جب سے (اس ولی عادل نے میٹھے میٹھے فیض پہنچانے والے) بادشاہوں (یعنی اپنے کامل خلفا) کو متعین فرمایا ہے (اس وقت سے) ہمارے شہر میں کوئی ترش (طبع منکر باقی) نہیں رہا۔
-17-
نُقل بر نُقل ست و مَے بر مَے ہلابر منارہ رَو، بزن بانگِ صلا
ترجمہ: ہاں ہاں! نُقل بر نُقل اور شراب پر شراب (حاضر) ہے۔ منارہ پر چڑھ جاؤ۔ اور بُلاوے کی صدا دے دو۔ (کہ سب لوگ آ کر مستفید ہوں۔ مگر اپنی عدم صلاحیت کے خیال سے مایوس نہ ہونا کیونکہ)
-18-
سِرکہِ نُہ سالہ شیریں مے شودسنگِ مرمر لعلِ زرّیں می شود
ترجمہ: نو سال کا (پرانا) سرکہ (بس آخر) میٹھا ہو جاتا ہے۔ سنگِ مرمر سنہری لعل بن جاتا ہے۔ (پھر تمہاری حالت کیوں نہ رو بہ اصلاح ہوگی۔)
-19-
آفتاب اندر فلک دستک زناںذرّہا چوں عاشقاں بازی کناں
ترجمہ: (یہ ولی عادل جو معرفت کا) آفتاب (ہے اپنے مراتب عالیہ کے) آسمان میں دستک دے (کر اشارہ کر) رہا ہے (کہ مجھ سے اقتباس انوار کرو اور طالب گویا ذرّے (ہیں جو) عاشقوں کی طرح (اس کے اشتیاق میں) بازی کر رہے ہیں۔
-20-
چشم ہا مخمور شد از سبزہ زارگل شکوفہ مے کند بر شاخسار
ترجمہ: طالبوں کی آنکھیں (شیخِ کامل کی صحبت کے) سبزہ زار سے مست ہو گئیں۔ (معارف کے) پھول (قلوب کی) شاخوں پر کھلنے لگے۔
-21-
چشمِ دولت سحرِ مطلق مے کندروح شد منصور ”"اَناَ اَلحَق“ مے زند
ترجمہ: اقبال کی آنکھ (من موہنے میں) پورے جادو کا کام کر رہی ہے۔ روح (شوائب جسمانیہ سے پاک ہو کر) منصور (کی طرح فنا فی اللہ کے مقام پر فائز) ہو گئی۔ اور انا الحق پکار رہی ہے۔
-22-
شد ز یوسفؑ آں زلیخا نوجواںعشرت از سرگیر خوش خوش شادماں
ترجمہ: (کہتے ہیں کہ) زلیخا (بڑھاپے میں) حضرت یوسفؑ (کی دعا) سے نوجوان ہو گئی تھی۔ (اسی طرح تم اس پیرِ کامل کی برکت سے سلوک کے مردِ میدان بن جاؤ گے پھر) از سرِ نو خوشی خوشی عیش مناؤ۔
-23-
آتشے اندر دلِ خود بر فروزدفعِ چشمِ بد سپندانے بسوز
ترجمہ: اپنے قلب کے اندر (عشق کی) آگ روشن کرو۔ نظرِ بد کو دفع کرنے کے لیے حرمل جلاؤ۔
مطلب: حرمل ایک بوٹی ہے۔ جس کو عوام الناس بدیں خیال جلاتے ہیں کہ اس سے نظرِ بد کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ مولانا نے یہ بات بناء علی المشہور فرما دی۔ جس سے قابلِ رشک احوال کا اظہار مقصود ہے۔ سپند سوزی کی تاکید مراد نہیں۔
-24-
تو بحالِ خویشتن می باش شادتا بیابی در جہاں اے جاں مراد
ترجمہ: اے جان (کے برابر عزیز دوست) تم اپنے حال میں خوش رہو تاکہ جہاں میں مراد پاؤ۔
-25-
گر خرے را مے بُرد روبہ زِ سرگو ببر، تو خر مباش و غم مخور
ترجمہ: اگر لومڑی (ایک گدھے کو سر سے محروم کرنے یعنی ہلاک کرنے کے لیے) لیے جاتی ہے تو پڑی لے جائے۔ تم گدھے نہ بنو اور غم نہ کرو۔
مطلب: تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ تم اپنے مبارک احوال میں شاداں و فرحاں رہو۔ غیروں کے پھٹے میں پاؤں نہ ڈالو۔ قصے کی مناسبت سے گدھے اور لومڑی کے استعارے میں اس بات کو ادا فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر شیطان کسی بد قسمت کو گمراہ کر رہا ہے تو تم غم نہ کرو۔ تم پر اس لعین کا وار نہیں چلے گا۔ آگے اس معنی میں ایک کہانی ارشاد ہے۔