دفتر 5 حکایت 112: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی مثال ہو۔“ (یعنی لوگوں کو ان کے اس انکار پر عار دلاتے ہیں کہ )اللہ نے اس مثال سے کیا ارادہ فرمایا (اور یہ کہ وہ جواب فرماتا ہے کہ میری مراد یہ تھی کہ )اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔ کیونکہ ہر آزمائش ترازو کی مانند ہے۔ بہت لوگ اس سے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ اور بہت سے نامراد ہو جاتے ہیں۔ اور اگر تم اس میں کسی قدر غور کرو تو اس میں بہت سے اعلیٰ نتائج پاؤ گے

دفتر پنجم: حکایت: 112


قولہ تعالیٰ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا (اَی فَماَ فَوقَھَا فِی تَعیِیرِ النُّفُوسِ بالاِنکَار اَنَّ) مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا۔ و آنکہ جواب می فرماید کہ خواستم يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا کہ بر فتنہ ہمچو میزانَست بسیاراں بدو سرخرو شوند و بسیاراں بے مراد شوند۔ وَلَو تَامَّلتَ فِیہِ قَلیِلاً وَّ جَدتُّ فِیہِ مِن نَتَآئِجہِ الشَّرِیفَۃِ کَثِیراً

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی مثال ہو۔“ (یعنی لوگوں کو ان کے اس انکار پر عار دلاتے ہیں کہ )اللہ نے اس مثال سے کیا ارادہ فرمایا (اور یہ کہ وہ جواب فرماتا ہے کہ میری مراد یہ تھی کہ )اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔ کیونکہ ہر آزمائش ترازو کی مانند ہے۔ بہت لوگ اس سے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ اور بہت سے نامراد ہو جاتے ہیں۔ اور اگر تم اس میں کسی قدر غور کرو تو اس میں بہت سے اعلیٰ نتائج پاؤ گے۔

توضیحات: حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زادہ اور ایک پیغمبر تھے ان کی قوم میں فعلِ خلافِ وضعِ فطری عام طور پر رائج تھا اور یہ قوم اس جرم کی سزا میں ہلاک ہوئی۔ اسی بنا پر ہر ایسے شخص کو جو اس فعل کا مرتکب ہو لوطی کہنے لگے۔ اگرچہ وہ کسی ملک اور کسی قوم سے ہو اور اس کا وہ فعلِ بد لواطت کہلاتا ہے۔ چونکہ اس قسم کی کہانیاں بیان کرنا مولانا کی شان سے بظاہر نازیبا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے آگے عذر فرماتے ہیں کہ ان مذاق کی باتوں سے مذاق نہیں بلکہ تعلیم مقصود ہے بیت کا لفظ دو معنوں میں مستعمل ہے ایک شعر اور دوسرا گھر۔ پہلا لفظ بیت بمعنی شعر ہے۔ دوسرا بمعنی خانہ۔ یعنی ان ہزلیہ اشعار کو ایک گھر کی طرح تنگ و محدود نہ سمجھو۔ بلکہ وہ اپنے معانی کی وسعت اور مطالب کی بے پایانی کے لحاظ سے ایک ملک و ولایت کی مانند ہیں۔ آگے ارشاد ہے کہ جس طرح کفار اللہ تعالیٰ کے حق میں طنز کرتے تھے کہ وہ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ تو ان کے جواب میں فرمایا کہ اللہ کو مچھر کے پر بلکہ مچھر سے زیادہ حقیر چیز کی مثال پیش کرنے میں بھی کوئی جھینپ نہیں اور ایسی مثالوں کا نتیجہ بہت سے بدعقیدہ لوگوں کی گمراہی اور بہت سے راسخ الاعتقاد لوگوں کی ہدایت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمارے یہ ہزلیہ اشعار پست نظر و ظاہر بین لوگوں کو استفادۂ معانی سے محروم رکھیں گے۔ اور اہلِ بصیرت و رمز شناس لوگوں کو ان سے پورا نفع ہوگا۔

-1-

گندہ را لوطئیے در خانہ برد سر نگوں افگندش و دروے فشرد

ترجمہ:

-2-

درمیانش خنجرے دید آں لعیں پس بگفت اندر میانت چیست ایں

ترجمہ: اس ملعون اغلام باز نے اس (ہیجڑے) کی کمر میں خنجر (بندھا) دیکھا تو پوچھا یہ تیری کمر میں کیا ہے۔

-3-

گفت آنکہ بامن از یک بد منش بد بیندیشد بدرّم اِشْکَمش

ترجمہ: (ہیجڑے نے کہا) یہ (خنجر ہے اس لیے) کہ اگر کوئی بد طینت آدمی میرے ساتھ بُرے کام کا ارادہ کرے تو میں اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں۔

-4-

گفت لُوطی حمد للہ را کہ من بدنَیَنْدِیشیدہ ام با تو بہ فن

ترجمہ: لوطی (ازراہِ تمسخر) بولا اللہ کا شکر ہے کہ میں نے کسی حیلہ سے تیرے ساتھ بُرا ارادہ نہیں کیا (اس لیے زخمِ خنجر کا مستوجب بھی نہیں ہوا)

مطلب: نابکار لوطی برا کام بھی کر رہا ہے اور پھر کہتا ہے کہ شکر ہے میں نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ یہ ایک طرح سے اس خبیث ہیجڑے پر طنز ہے کہ یہ تو برا کام نہیں ہے۔ یا اگر بُرا کام ہے تو تیرا خنجر زنی کا صرف دعوٰی ہی دعوٰی ہے۔ تجھے اتنی جرات نہیں کہ بُرا کام ہوتا دیکھے اور اپنے دعوٰی کو عمل میں لائے۔ یہی مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ گدھے نے توکل کے جس قدر دعوے کئے سب محض زبانی و لسانی تھے۔ وہ ان کو عمل میں لانے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ اور گدھے کے ان دَعَاوِی کی وہی حیثیت تھی جو اس ہیجڑے کے خنجر کی ہے۔ بر مخنث صلاحِ جنگ چہ سُود تمام نسخوں میں ”حمد للہ را کہ من“ یعنی ”للہ“ بلامِ استحقاق درج ہے اور تمام نسخوں کا یہ اتفاق نقل بلا تغیر کا متقاضی ہوا۔ ورنہ قیاس یہ چاہتا ہے کہ اصل میں یا تو ”حمداً للہ را کہ من “ ہوگا یا ”حمدُللہ زانکہ من“۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:

-5-

چونکہ مردی نیست، خنجرہا چہ سُود؟ چوں نباشد دل ندارد سُود خود

ترجمہ: جب مردمی نہیں تو خنجروں سے کیا فائدہ۔ جب دِل نہ ہو تو خود۔ (پہننا) مفید نہیں۔ (جب گدھے میں حکیمانہ دل نہیں تھا تو حکیمانہ دلائل سے کیا حاصل)

-6-

از علیؓ میراث داری ذوالفقار بازوئے شیرِ خدا ہستت بیار

ترجمہ: تم کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ذوالفقار ورثہ میں ملی ہے۔ (تو اگر) شیرِ خدا کا سا بازو بھی رکھتے ہو۔ تو لاؤ (ذوالفقار سے وار کرو۔ مگر وہ بازو کہاں۔ اس لیے ذوالفقار بھی بے کار ہے)

-7-

گر فسونے یاد داری از مسیحؑ کو لب و دندانِ عیسیٰؑ اے وَقیح

ترجمہ: اگر تجھے مسیح علیہ السلام کا کلام یاد ہے۔ (جس کو وہ پڑھ کر پھونکتے تھے تو مردہ زندہ ہو جاتا تھا) تو اے بے حیا! تجھ میں حضرت عیسیٰؑ کے سے (وہ) لب اور دانت کہاں ہیں۔ (جن سے وہ کلام ادا ہوا کرتا تھا)

-8-

کشتیے سازی زِ تو زیغ و فتوح کو یکے ملاحِ کشتی ہمچو نوح

ترجمہ: تو چندہ وصول کر کے اور بلا طلب آمدنی سے کشتی بنا لے گا تو (اس) کشتی کو چلانے کے لیے حضرت نوح علیہ السلام جیسا ملاح کہاں (سے لائے گا)۔

-9-

بت شکستی گیرم ابراہیمؑ وار کو بُتِ تن را فدا کردن بنار

ترجمہ: مانا کہ تو نے حضرت ابراہیمؑ کی طرح بُت توڑ ڈالے۔ (مگر اپنے) جسم کے بت کو آگ میں فدا کر دینے کا کارنامہ کہاں ہے (جو حضرت ابراہیمؑ نے کر دکھایا تھا)

-10-

گر دلیلت ہست اندر فعل آر تیغ چوبیں را بداں کن ذوالفقار

ترجمہ: اگر تیرے پاس دلیل ہے تو اس کو عمل میں لا (اور) اس سے تو لکڑی کی تلوار کو (بھی) ذوالفقار بنا (سکتا ہے)

مطلب: انسان میں قوتِ عمل اور صدقِ قول ہو تو وہ بے سامانی میں بھی اعلیٰ سر و سامان والوں پر فتح یاب ہو سکتا ہے اور اس کی بے سر و سامانی بمنزلہ سامان بن جاتی ہے۔ جس طرح غزوہ بدر میں صرف تین سو تیرہ مسلمانوں نے جن میں صرف چند ایک کے پاس تلوار تھی، مکہ کے ایک ہزار مسلح جوانوں پر فتح پائی تھی۔

-11-

آں دلیلے کو ترا مانع شود از عمل آں نقمتِ صانع شود

ترجمہ: وہ دلیل جو تجھ کو عمل سے مانع ہو وہ خدا کے غضب کا باعث ہو جاتی ہے۔

مطلب: چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ۳ (الصف:2 - 3) ”اے مسلمانوں! ایسی بات کیوں کہا کرتے ہو۔ جو تم کر کے نہیں دکھاتے۔ (یہ بات) اللہ کو سخت نا پسند ہے۔ کہ کہو (سب کچھ) اور کرو (کچھ) نہیں“۔

12--

خائفانِ راہ را کردی دلیر از ہمہ لرزاں تری تو زیر زیر

ترجمہ: تو نے (اپنے زبانی وعظ و نصیحت سے) طریق (سلوک) کے ڈرنے والوں کو (سلوک طے کرنے پر) دلیر بنا دیا (مگر خود) تو (پردہ خفا کے) نیچے ہی نیچے سے سب سے زیادہ ڈرپوک ہے۔

-13-

برہمہ درسِ توکل مے کنی در ہوا تو پشّہ را رگ میزنی

ترجمہ: تو سب کو توکل کا سبق پڑھاتا ہے (اور خود) ہوا میں (اڑنے والے) مچھر کی رگ (میں نشتر مار دینے کی کوشش) کرتا ہے۔

مطلب: لوگوں کو سعی و کوشش کے ساتھ رزق کمانے سے روکتا ہے اور محض توکل پر ہاتھ پاؤں توڑ کے بیٹھ رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ مگر خود حال یہ ہے کہ مچھر جیسی حقیر و بے حقیقت چیز کا لہو پی جانے کی بھی یہاں تک کوشش کرتا ہے کہ اس کے پیچھے نشتر لیے بھاگا بھاگا پھرتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو اللہ فرماتا ہے: ﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ (البقرۃ:44) 'کیا تم لوگوں کو نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو“

-14-

اے مخنث پیش رفتہ از سپاہ بر دروغِ ریش تو کیرت گواہ

ترجمہ: اے ہیجڑے! جو (اپنی بہادری دکھانے کے لیے) فوج کے آگے بڑھا چلا جاتا ہے تیری داڑھی کے جھوٹ پر تیرا (ناقص) آلہ تناسل گواہ ہے (یعنی وہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جوانمرد کی داڑھی نہیں بلکہ مخنث کی ہے (اس لیے اس کی پیش قدمی صرف نمائشی ہے)

-15-

چوں زِ نامردی دلِ آگندہ بود ریش و سُبلت موجبِ خندہ بود

ترجمہ: جب نامردی سے دل لبریز ہو توداڑھی مونچھیں ہنسی کا باعث ہوتی ہیں۔

-16-

توبہ کن اشک باراں چوں مطر ریش و سُبلت را زِ خندۂ باز خر

ترجمہ: (پس) مینہ کی طرح آنسو بہاتا ہوا۔ (قولِ بے عمل اور دعویٰ دروغ سے) توبہ کر (اور اپنی) داڑھی اور مونچھ کو (عام لوگوں) کی ہنسی سے بچا۔

-17-

دارُوے مردی بخود اندر عمل تا شوی خورشید گرم اندر حمل

ترجمہ: عمل (اختیار کرنے) میں مردمی کی دوا استعمال کر۔ تاکہ تو (مراد مندی کے آسمان پر) گرم آفتاب بن جائے۔ (جبکہ وہ برج) حمل میں (ہوتا ہے)

-18-

معدہ بگذار و سوئے دِل خرام تاکہ بےپردہ ز حق آید سلام

ترجمہ: معدہ کو (گونا گوں کھانوں سے بھرنا) چھوڑ دے اور دل کی طرف چل۔ تاکہ علانیہ حق تعالیٰ کی جانب سے (تجھ پر) سلام آئے۔

-19-

رستمی گر بایدت خنجر بگیر وَر بحیزی مائلی چادر بگیر

ترجمہ: اگر تجھ کو رستم بننے کی آرزو ہے تو خنجر پکڑ لے اور اگر تو ہیجڑے پن کی طرف مائل ہے۔ تو چادر لے (کر اوڑھ لے)

-20-

رستمی گر مائلی جوشن بپوش وَر بحیزی راغبی رَو کُوں فروش

ترجمہ: اگر تو رستم بننے پر مائل ہے تو جوشن پہن لے اور اگر ہیجڑے پن کی رغبت رکھتا ہے۔ تو جا بد فعلی کرایا کر۔

-21-

یک دو گامے رَو تکلف ساز خوش تا ترا عِشقش کشد اندر برش

ترجمہ: (راہِ سلوک کی مردمی پر) ایک دو قدم چل (اگر بآسانی نہیں چل سکتا تو) خوب تکلف سے کام لو تاکہ رفتہ رفتہ بخوبی چلنے لگو۔ اور اس کا عشق تم کو اپنی گود میں لے لے۔

-22-

برسرِ میداں چو مرداں پائیدار تا نگردی مبتلا در پائے دار

ترجمہ: (مردمی کے) میدان میں مردوں کی طرح ثابت قدم رہو۔ تاکہ (نامردی و فرار کے جرم میں) دار کے نیچے (لائے جانے میں) مبتلا نہ ہو جاؤ۔

-23-

تا کے از جامہ و زناں ہمچوں زناں در صفِ مرداں در آں ہمچوں سناں

ترجمہ: کب تک عورتوں کی طرح پہننے اور کھانے سے (تعلق رکھو گے) نیزہ کی طرح (اب) مردوں کی صف میں (بھی) آؤ۔