دفتر 5 حکایت 108: ایک بات کی مثال کہ جب تم اقبال مندی کی خبر سنانے والے پر شان اور اثر نہ دیکھو یہ اس پر دروغ گوئی کا الزام لگانے کا مقام ہے۔ کیونکہ وہ نقال ہے اس کو سن کر اپنے اوپر چسپاں کر رہا ہے

دفتر پنجم: حکایت: 108

مثل در آنکہ در مخبر دولتے چوں فرّ و اثر نہ بینی جائے متہم داشتن باشد کہ او مقلد ست و آں را شنیدہ اوست بر خود مے بندد

ایک بات کی مثال کہ جب تم اقبال مندی کی خبر سنانے والے پر شان اور اثر نہ دیکھو یہ اس پر دروغ گوئی کا الزام لگانے کا مقام ہے۔ کیونکہ وہ نقال ہے اس کو سن کر اپنے اوپر چسپاں کر رہا ہے

-1-

آں یکے میگفت اُشتر را کہ ہَے از کجا مے آئی اے اقبال پَے

ترجمہ: ایک شخص نے اونٹ کو کہا اوہو۔ اے مبارک قدم تم کہاں سے آئے ہو۔

-2-

گفت از حمّامِ گرمِ کوئے تو گفت ایں پیداست از زانوئے تو

ترجمہ: (اونٹ نے) کہا کہ تمہارے محلّہ کے گرم حمام سے (نہا دھو کر آرہا ہوں) اس شخص نے (ازراہ تمسخر) کہا (کیوں نہیں) یہ تو تمہارے (گندگی بھرے) گھٹنے سے ظاہر ہے (کہ خوب پاک و صاف ہو کر آ رہے ہو)

-3-

مارِ موسیؑ دید فرعونِ عَنُود! مہلتے می خواست نرمی می نمود

ترجمہ: سرکش فرعون نے حضرت موسیؑ کا اژدھا دیکھا تو وہ (اسلام قبول کرنے کی تجویز پر غور کرنے کی) مہلت مانگنے لگا اور نرم ہوا جاتا تھا۔

-4-

زیرکاں گفتند بایستے کہ ایں تُند تر گشتے چو ہست او ربِّ دیں

ترجمہ: (دربار کے) عقلمند (لوگوں کو اس کے دعویٰ خدائی میں شبہ پیدا ہو گیا اور وہ) کہنے لگے کہ جب وہ (لوگوں کا) دینی خدا ہے۔ تو اس کو (موسیؑ کے معارضہ سے) غضبناک ہونا چاہیے تھا (چہ جائیکہ وہ الٹا نرم ہو جاتا ہے)

مطلب: عنوان کو دیکھ کر سوچو کہ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ مگر وہ خدائی طاقت اور وہ قہاریت و جباریت کہاں۔ اژدھے کو دیکھ کر سہم گیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے خدائی کا صرف نام سن رکھا تھا جس کو خواہ مخواہ اپنے اوپر چسپاں کرنا چاہا۔

-5-

معجزہ گر اژدہا گر مار بُد نخوت و خشم و خدائیش چہ شد؟

ترجمہ: معجزہ اگر اژدھا تھا یا سانپ تھا (تو کیا بات تھی۔ اس کے مقابلہ میں بھی فرعون کی خدائی ہے۔ پس) اس کا خدائی غرور و غضب کیا ہوا؟

-6-

ربِّ اعلیٰ گروے ست اندر جلوس بہر یک کِرمے چہ است ایں چاپلوس

ترجمہ: اگر (تختِ خدائی پر) جلوس (فرما ہونے) میں رب اعلیٰ ہے تو ایک کیڑے (کے خوف) سے یہ چاپلوسی کیوں (کر رہا) ہے۔

مطلب: فرعون کہتا تھا اَناَ رَبُّکُمُ الاَعلی (النازعات:24)یعنی میں تمہارا پروردگار بزرگ ہوں۔ کرم سے مراد اژدہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سانپ کو استخفافاً کیڑا کہہ دیتے ہیں۔ چنانچہ پنجاب میں سانپ ڈس گیا کے بجائے کہتے ہیں کیڑا چھو گیا۔

-7-

نفس تو تا مستِ نُقل ست و نبید دانکہ روحت خوشہ غیبی نچید

ترجمہ: تیرا نفس جب تک (دنیاوی جاہ و دولت کے) نُقل و شراب سے مست ہے۔ یاد رکھ کہ (تیری) روح نے (قربِ حق کا) غیبی خوشہ نہیں چنا۔

-8-

کہ علامات ست زاں دیدارِ نور اَلتَّجَافِی مِنْکَ عَنْ دَارِ الغُرُور

ترجمہ: کیونکہ (اس قربِ حق) کے نور کا دیدار کرنے کی نشانیاں (یہ) ہیں (کہ) تجھ سے دھوکے کے گھر (یعنی دنیا) سے کنارہ کشی (عمل میں آئے)

-9-

مرغ چوں بر آب شورے می تَنَد آبِ شیریں را ندید ست او مدد

ترجمہ: پرندہ جب کسی کھاری پانی کا طالب ہو تو (ظاہر ہے کہ) اس نے آبِ شیریں کی مدد نہیں دیکھی۔

-10-

بلکہ تقلید ست آں ایمانِ او روئے ایماں را ندیدہ جانِ اُو

ترجمہ: بلکہ اس کا وہ ایمان (محض) نقل ہے۔ اس کی روح نے ایمان کی شکل تک نہیں دیکھی۔

-11-

بس خطر باشد مقلّد را عظیم از رہ و رہزن ز شیطانِ رجیم

ترجمہ: (بے تحقیق) دیکھا دیکھی کام کرنے والے کو راستے سے اور شیطانِ رجیم کے رہزن سے بڑا خطرہ ہے۔

انتباہ: بعض غیر مقلدین وہابیہ مثنوی شریف کے اس قسم کے اشعار کو تقلیدِ مُصْطَلَح اور مقلدینِ امام کی مذمت میں پیش کیا کرتے ہیں۔ یہ محض ان کی ابلہ فریبی ہے جس کی تصریح ہم پچھلی جلدوں میں بمراّت کثیرہ کر چکے ہیں۔

مولانا خود مقلدِ امام اعظم رحمتۃ اللہ علیہ تھے۔ پھر وہ تقلیدِ امام کی تردید کیوں کرنے لگے تھے۔ بلکہ یہاں تقلید سے ان کی مراد ظاہر پرستی ہے اور مقلد سے وہ لوگ مراد ہیں جو صرف ظاہر پر مرتے ہوں۔ کمالاتِ باطن کے منکر اور انوار معرفت سے بیگانہ ہوں۔ صرف اعمال کی لکیر پیٹنے پر اکتفا کرتے ہوں اور وہ بصیرتِ باطن حاصل نہ کی ہو جس سے حقائقِ نفس الامری کا مشاہدہ کر کے حق الیقین کے درجہ پر فائز ہوں۔ انصاف سے کہو کہ ایسے مقلدین خود وہابیہ میں ملیں گے۔ یا حنفیہ و مالکیہ میں؟

ع۔ ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

-12-

چوں بہ بہ بیند نور حق ایمن شود ز اضطراباتِ شک او ساکن شود

ترجمہ: جب وہ حقیقت کا نور دیکھ لیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے۔ وہ شک کی بےچینیوں سے سکون پاتا ہے۔

مطلب: جو لوگ صرف ظاہری اعمال کی بجا آوری پر متوقف رہتے ہیں ان کو شکوک و شبہات ستاتے رہتے ہیں اور نفس و شیطان کے وساوس سے ان کا ایمان محلِ خطر میں رہتا ہے۔ لیکن جب مشاہدہ حقیقت کا درجہ حاصل ہو جائے تو پھر ان کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں۔ نہ پھر شکوک عارض ہوتے ہیں۔

-14-

تا کفِ دریا نیاید سوئے خاک کاصل او آمد بود در اصطکاک

ترجمہ: (اس کی مثال یہ ہے کہ) جب تک دریا کی جھاگ زمین کی طرف نہ آئے جو اس کی اصل ہے (اس وقت تک وہ) ٹکراتی رہتی ہے۔

-15-

خاکے است آں کف غریب ست اندر آب در غریبی چارہ نبود ز اضطراب

ترجمہ: وہ جھاگ مٹی ہے اور پانی میں بے وطن ہے بے وطنی میں بے قراری سے چارہ نہیں۔

مطلب: جھاگ پانی کے اندر اچھلتی کودتی سمٹتی، پھیلتی تڑپتی تھرکتی ناچتی رہتی ہے۔ کیونکہ وہ پانی کی جنس سے نہیں ہے۔ مگر جب پانی سے نکل کر ساحلِ دریا پر آپڑی تو چپ چاپ رہتی ہے۔ کیونکہ اپنی جنس یعنی خاک کے ساتھ آملی۔ اِسی طرح انسان جب تک اپنے اصل سے دور ہے وساوس سے مضطرب اور خطرات سے بے چین رہتا ہے۔ جب اس کی آنکھوں سے پردہ اُٹھ گیا اور اس کو مشاہدہ حقیقت حاصل، ہوا تو اُسے حقیقی طمانیت حاصل ہو جاتی ہے۔

-16-

چونکہ چشمش باز شد واں نقش خواند دیو را برْ وے دگر دستے نماند

ترجمہ: جب اس کی (دل کی) آنکھ کھل گئی۔ اور اس نے وہ نقش پڑھ لیا۔ تو شیطان کو دوبارہ اس پر قابو نہ رہا۔

-17-

گرچہ با رُوباہ خر اسرار گفت سرسری گفت و مقلّد وار گفت

ترجمہ: اگرچہ گدھے نے (اپنے زعم میں) لومڑی سے (طریقت کے) اسرار بیان کئے۔ مگر (آخر گدھا ہی تو تھا۔ اس لیے) وہ سرسری کہہ گیا اور (جو کہا) نقل و حکایت کے طور پر کہا۔

مطلب: گدھے نے جو کچھ کہا اگرچہ سچ تھا۔ لیکن مجمل ہونے کی وجہ سے تسکین بخش نہیں ہوا۔ خلجان پیدا کرنے والا تھا۔ اگر اس کو تحقیق ہوتی تو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا۔ یعنی کسبِ ممنوع سے کسبِ مع التوکل کو مستثنیٰ کرتا اور توکلِ مشروع کو اختیارِ اسباب سے مشروط کرتا۔ اس نے محض سنی سنائی باتیں ہانک دیں۔ کسب کو کلیۃً ممنوع کہہ گیا۔ جو تعطیل قویٰ اور ابطالِ اسباب کا مترادف ہے اور ابطالِ اسباب کو جو سنۃ اللہ کے خلاف ہے توکل سے موسوم کر گیا۔ غرض وہ ایسی باتیں کہہ گیا جن کی اس کو تحقیق نہ تھی۔ اور وہ خود ان سے موصوف نہ تھا۔

-18-

آب را بستود و او تَائِقْ نبود رخ درید، و جامہ او عاشق نبود

ترجمہ: اس نے پانی کی تعریف تو کی مگر خود پانی کا شائق نہ تھا۔ اس نے عاشقانہ رسم سے منہ (نوچا) اور کپڑے پھاڑے۔ مگر سچا عاشق نہ تھا۔

-19-

از منافق عذر رد آمد نہ خوب زانکہ در لب بود آں نے در قلوب

ترجمہ: منافق کا عذر پسندیدہ نہیں (بلکہ) مردود ہے۔ کیونکہ وہ لبوں ہی لبوں پر ہے۔ دلوں میں نہیں۔

مطلب: جو شخص صاحبِ حال نہیں ہے اس کا اہل حال کی سی باتوں کا نقل و حکایت کرنا اور ان کا مدعی ہونا منافقانہ عمل ہے۔ منافق بھی اپنے آپ کو مومن کہتا ہے۔ حالانکہ اس کا یہ دعویٰ زبان ہی زبان تک محدود ہے۔ دل میں اس کا اثر نہیں ہوتا۔ منافق حقیقی مومن نہ ہونے کی وجہ سے ضرور ایسے اعمال کا مرتکب ہوتا ہے جو منشائے ایمان کے خلاف ہوتے ہیں۔ پھر اس کو عذر کرنا پڑتا ہے پس ایسے شخص کا عذر مسموع نہیں بلکہ مردود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان منافقین کے بارے میں جو سفرِ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شرفِ معیت حاصل کرنے سے عمداً الگ ہو گئے تھے۔ فرماتا ہے: سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ (الفتح:11)”دیہاتی لوگ جو پیچھے رہ گئے اب تمہارے سامنے یہ عذر پیش کریں گے کہ ہم اپنے مال و عیال کی پرداخت میں لگے رہے۔ تو آپ ہمارے لیے خدا سے مغفرت طلب کریں۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں۔ جو ان کے دلوں میں نہیں“


-20-

بوئے سیبش ہست و جزوِ سیب نے بُو دَرو جز از پئے آسیب نے

ترجمہ: اس میں سیب کی سی بو ہے اور سیب کا کوئی حصہ نہیں (اور) اس میں (سیب ایمان کی) بو (بھی) محض (اپنے مومن ہونے کے ادعا پر) بحث کرنے کے لیے ہے۔ (مگر منافق نا مرد بحث کرنے اور غلبہ پانے کا کیا بل بوتا رکھتا ہے۔ چنانچہ)

-21-

حملَۂ زن درمیانِ کار زار نشکند صف بلکہ گردد کار زار

ترجمہ: عورت کا میدانِ جنگ میں حملہ کرنا (دشمن کی) صف کو توڑ نہیں سکتا۔ بلکہ (اس سے دشمن کا حوصلہ بڑھ جانے سے اور بھی) کام خراب ہو جاتا ہے۔ (یہی مثال نا مرد منافق کے معرکہ کی ہے)

-22-

گرچہ مے بینی چو شیر اندر صفش تیغ بگرفتہ ہمے لرزد کفش

ترجمہ: اگرچہ صف (قتال) میں تم اس کو شیر کی طرح (گرجتی) دیکھو (مگر اس کی بہادری کا یہ حال ہوگا کہ) ہاتھ تلوار کو تھامے ہوئے کانپ رہا ہوگا۔

-23-

وائے آنکہ عقلِ او مادہ بود نفس زِشتش نرّ و آمادہ بود

ترجمہ: افسوس ہے اس شخص پر جس کی عقل مادہ ہو اور اس کا نفس شریر اور مستعد ہو۔

-24-

لا جرم مغلوب باشد عقلِ اُو جز سوئے خسراں نباشد نقلِ اُو

ترجمہ: اس لیے اس کی عقل مغلوب ہو گئی اور اس کا رجوع سوائے خسارہ کے اور کسی طرف نہ ہوگا۔

-25-

جملہ مادہ بصورت ہم جری ست آفتِ اُو ہمچو آں خر از خری ست

ترجمہ: ہر عورت (اپنی تیغِ نگاہ) اور تیر غمزہ کے ساتھ قتل کرنے سے صورت ہی صورت میں دلیر (نظر آتی) ہے مگر حقیقت میں دلیر نہیں ہوتی اس کی (مغلوبیت کی) آفت بے وقوفی کی وجہ سے ہے۔ جیسے وہ گدھا (بےوقوفی سے اب لومڑی کے آگے مغلوب ہو جائے گا)

-26-

وصفِ حیوانی بود بر زن فزوں زانکہ سوئے رنگ و بو دارد رکوں

ترجمہ: عورت کی (بےوقوفی کی وجہ یہ ہے کہ اس) پر حیوانیت کا وصف غالب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ رنگ و بو پر بھروسہ رکھتی ہے (جس طرح حیوان کا شعور حسیات تک محدود ہے۔ عقلیات سے اس کو تعلق نہیں۔ اسی طرح عورت ناقص العقل ہے۔

-27-

اے خنک آنکس کہ عقلش نر بود نفسِ زشتش مادہ و مضطر بود

ترجمہ: کیا مبارک ہے وہ شخص جس کی عقل نر (یعنی وجود پر حاکم ہو) اور اس کا نفسِ شریر مادہ (یعنی مغلوب) اور محکوم ہو۔

-28-

عقل جزویشِ نر و غالب بود نفس انثیٰ را خرد سالب بود

ترجمہ: اس کی جزوی عقل (بھی اگر) نر اور غالب ہو جائے تو (وہ) عقل نفسِ مادہ (کی شرارت) کو سلب کر دے (اور عقلِ کلی کا تو کیا ہی کہنا)

-29-

رنگ و بوئے سبزہ زار آں خر شنید جملہ حجت ہا ز طمعِ او رمید

ترجمہ: (دیکھو حیوانیت کا تقاضا کہ) اس گدھے نے سبزہ زار کے رنگ و بو کا ذکر سنا تو اس کی طمع سے ساری حجتیں اُڑ گئیں (یہی عورتوں کا حال ہے)

-30-

تشنہ محتاجِ مطر شد و ابر نے نفس را جوع البقر بُد صبر نے

ترجمہ: (اس گدھے کی مثال یہ تھی کہ) پیاسا بارش کا طلبگار ہو گیا۔ حالانکہ بادل (کا کوئی نشان) نہیں نفس کو انتہا کی بھوک (عارض) تھی۔ صبر نہ رہا۔

مطلب: پیاسے کو بارش کا پانی سمیٹنے کی کوشش جب ہی کرنی چاہیے۔ جب بادل چھایا ہوا ہو اور برسنے کے قریب ہو۔ مگر جب بادل کا نشان تک نہ ہو تو پھر اس کا طشت اٹھا کر رو بفلک ہونا فضول ہے۔ اسی طرح گدھے کے نفسِ حریص نے اس کو سبزہ زار کی طلب کی لو لگا دی۔ حالانکہ وہاں سو سو کوس تک سبزہ زار نہ تھا۔ خِر بے صبر کے ذکر کی مناسبت سے صبر کی تعریف فرماتے ہیں۔

-31-

اسپرِ آہن بود صبر آئے پدر حق نوشتہ بر سپر جَآء الظَّفَر

ترجمہ: بڑے میاں! صبر لوہے کی ڈھال ہے (جس پر طمع کی آفت اثر نہیں کر سکتی) حق تعالیٰ نے اس ڈھال پر فتح کی آمد لکھ دی ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ نے صابرانہ جہاد کرنے والوں کے لیے فتح کی بشارت یوں دی ہے: إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْن (الانفال:65) ”اگر تم (مسلمانوں) میں سے ثابت قدم رہنے والے بیس بھی ہوں گے تو وہ دو سو کافروں پر غالب رہیں گے“ممکن ہے ”حق نوشتہ“ سے مولانا کی مراد یہی ارشادِ قرآنی ہو یا بطور اشارہ یہ مراد ہو کہ اللہ تعالیٰ صبر کے نتیجے میں ظفر بخشتا ہے اور اس کو نوشتہ سے تعبیر کیا ہو۔ اب پھر علوم کے نقال محروم التحقیق کا ذکر فرماتے ہیں جس کو مقلد سے تعبیر کیا ہے۔

-32-

صد دلیل آرد مقلد در بیاں از قیاس گوید او را نز عیاں

ترجمہ: (علوم و معارف کا) نقال (اپنے) بیان (و تقریر) میں سینکڑوں دلیلیں لاتا ہے۔ (مگر) سب قیاس سے کہتا ہے نہ کہ مشاہدہ سے۔

-33-

مشک آلودہ است اما مشک نے بوئے مشک استش ولے جز پُشک نے

ترجمہ: وہ (بیانِ تحقیقات کی) مشک کا کچھ شائبہ رکھتا ہے۔ لیکن (فی الحقیقت) وہ مشک نہیں ہے اس میں مشک کی (قدرے قلیل) خوشبو ہے لیکن (اسی کی ساری تقریر سوائے) مینگنی کے اور کچھ نہیں۔

-34-

تاکہ پُشکے مشک گردد اے مرید سالہا باید در آں روضہ چرید

ترجمہ: اے مرید مینگنی کے کستوری بننے کے لیے برسوں اس باغ میں چرنا چاہیے۔ (جہاں چر کر ہرن کے اندر مشک پیدا ہوتی ہے)

-35-

کہ نباید خورد و جَو ہمچوں خراں آہوانہ در خُتن چر ارغواں

ترجمہ: کہ گدھوں کی طرح کھانا اور جو (چرنا) نہیں چاہیے۔ خُتن (کے خوش فضا خطہ) میں ہرنوں کی طرح ارغوان چرو۔

-36-

رَو بصحرائے خُتن با آں نفر جُز قرنفل یاسمَن یا گل مخور

ترجمہ: اس جماعت (اہلِ حقیقت) کے ہمراہ حق الیقین کے) صحرائے ختن میں جاؤ (اور کشفِ حقائق و مشاہدات کے) قرنفل یا چمپا یا گلاب کے سوا (اور کچھ) نہ چرو۔

-37-

معدہ را خو کن بداں ریحان و گل تا بیابی حکمت و قُوتِ رُسُل

ترجمہ: (اپنے معدہ کو اس ریحان و گل کا خوگر بناؤ تاکہ تم پیغمبروں کی (سی روحانی) غذا اور حکمت حاصل کرو۔

-38-

خوئے معدہ زیں کَہ و جَو باز کن خوردنِ ریحان و گل آغاز کن

ترجمہ: اس (جسمانی لذت کے) گھاس اور جو سے (اپنے) معدہ کی عادت ترک کرو۔ اور (روحانی) ریحان و گل کا کھانا شروع کر دو۔

-39-

معدۂ تن سوئے کَہداں می کشد معدۂ دِل سوئے ریحاں می کشد

ترجمہ: جسم کا معدہ گھاس کی جگہ کی طرف کھینچتا ہے (اور) قلب کا معدہ (روحانی) ریحان کی طرف لے جاتا ہے۔

-40-

ہر کہ کاہ و جو خورد قرباں شود ہر کہ نورِ حق خورد قرآں شود

ترجمہ: جو کوئی (جسمانی لذت کی) گھاس اور جو چرتا ہے۔ وہ (بھیڑ بکری کی طرح) قربانی ہو جاتا ہے۔ جو کوئی حق کے نور کو اپنے اندر جذب کرتا ہے وہ قرآن (کی طرح با برکت) بن جاتا ہے۔

-41-

نیم تو مشک ست و نیمے پشک ہیں ہیں میفزا پشک، افزا مشکِ چیں

ترجمہ: تیرا وجود آدھا مشک ہے۔ اور آدھا مینگنی۔ خبردار مینگنی کو ترقی نہ دے۔ (بلکہ) مشکِ چین کو ترقی دے۔

مطلب: انسان کا وجود جسم و روح پر مشتمل ہے۔ روح کو اس کی نزاکت و نفاست کے لحاظ سے مشک کے ساتھ اور جسم کو اس کی ظلمت و کدورت کے اعتبار سے پشک کے ساتھ تشبیہ دے کر فرماتے ہیں کہ لذاتِ جسمانیہ اختیار نہ کرو جس سے جسم کی ترقی اور روح کا تنزل ہوتا ہے، بلکہ کمالاتِ روحانیہ کے حصول کی کوشش کرو۔ جس سے روح عروج کرتی ہے۔ اگر جسم کو اس سے اضمحلال پہنچے تو کوئی پرواہ نہیں صائبؒ۔

پرداختن ز پرورشِ تن بجانِ پاک از کارِ گل بآب خضر دست شستن است

مقلّد کے بیان کو بےنور و بے برکت ہونے کے لحاظ سے پشک سے تشبیہ دی تھی اور پشک و مشک کی تمثیل سے روحانیت و جسمانیت کا ذکر فرمایا۔ اب پھر مقلد کے بیان کی طرف توجہ فرماتے ہیں۔

-42-

آں مقلد صد دلیل و صد بیاں بر زباں آرد ندارد ہیچ جاں

ترجمہ: وہ مقلد سینکڑوں دلائل اور بیان زبان پر لاتا ہے (مگر) اس میں کچھ بھی جان نہیں ہوتی۔

-43-

چونکہ گویندہ ندارد جان و فر گفت اورا کے بود برگ و ثمر

ترجمہ: جب خود کہنے والا (کمالات کی) روح اور شان و شکوہ نہیں رکھتا تو اس کے قول کا ثمرہ اور نتیجہ کیا ہو۔

-44-

می کند گستاخ مردم را براہ او بجاں لرزاں ترَست از برگِ کاہ

ترجمہ: (اگرچہ وہ) لوگوں کو دلیری سے راہ (ہدایت) پر چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ (مگر) وہ (خود اس راستے پر چلنے میں) گھاس کے پتے سے بھی زیادہ (دل و) جان سے کانپنے والا ہے۔

-45-

گو حدیثش نیز ہم با فر بود در حدیثش لرزہ ہم مُضمر بود

ترجمہ: اگرچہ اس کی تقریر بھی (بظاہر) لچھے دار ہوتی ہے (لیکن اگر غور کرو تو) اس کی تقریر میں بھی (ایک طرح کا) تذبذب (و اضطراب) پنہاں ہوتا ہے۔