دفتر پنجم: حکایت: 105
حکایت آں زاہد کہ توکل را امتحان مے کرد و از اسباب منقطع شد و از شہر بیروں آمد و از شوارع دور۔ در بُنِ کوہے مہجور سر بر سنگے نہاد و گفت توکل کردم
اس زاہد کی کہانی جو تو کل کو آزماتا تھا اور اسباب سے منقطع ہو گیا اور شہر سے نکلا۔ گزر گاہوں سے دور ایک پہاڑ کی جڑ میں سب سے علیحدہ ہو کر پتھر پر سر رکھا اور کہا میں نے توکل کیا
-1-
آں یکے زاہد شنید از مصطفےٰکہ یقین آمد بجاں رزقِ خدا
ترجمہ: ایک زاہد نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیا کہ یقیناً خدا کا (بھیجا ہوا) رزق ہر جاندار کو ملتا ہے۔
-2-
گر تو خواہی ور نخواہی رزقِ توپیشِ تو آید دواں از عشقِ تو
ترجمہ: اگر تم طلب کرو یا نہ کرو۔ (بہر حال) تمہارا رزق تمہارے عشق کی وجہ سے دوڑتا ہوا تمہاری طرف آئے گا۔
-3-
از برائے امتحاں ایں مرد رفتدر بیاباں نزد کوہے خُفت و تفت
ترجمہ: یہ شخص آزمایش کے لیے جنگل میں ایک پہاڑ کے پاس گیا (اور) سرگرمی سے سو گیا۔
-4-
کہ بہ بینم رزق چوں آید بہ منتا قوی گردد مرا در رزق ظن
ترجمہ: کہ دیکھوں مجھے رزق کیونکر ملتا ہے تاکہ رزق کے متعلق میرا گمان مضبوط ہو جائے۔
-5-
کاروانے راہ گم کردہ کشیدسوئے کوہ آں ممتحن را خفتہ دید
ترجمہ: ایک قافلہ راستہ بھول کر (اس) پہاڑ کی طرف آ پہنچا۔ (اور) اس (رزق کی) آزمایش کرنے والے کو سوتے دیکھا۔
-6-
گفت ایں مرد آں طرف چون ست عوردر بیاباں از رہ و از شہر دور
ترجمہ: (اہل قافلہ نے) کہا یہ شخص ادھر جنگل میں راستے اور شہر سے دور بے سامان کیسے (پڑا) ہے۔
-7-
اے عجب مردہ ست یا زندہ ست اومے نترسید ہیچ از گرگ وعدو
ترجمہ: ارے تعجب ہے۔ وہ مردہ ہے یا زندہ ہے (اگر زندہ ہے تو) بھیڑئیے اور (چور ڈاکو وغیرہ) دشمن سے نہیں ڈرتا۔
-8-
آمدند و دست بروے میزدندقاصداً چیزے نگفت آں ارجمند
ترجمہ: (وہ لوگ پاس) آئے اور اس کو ہاتھ سے چھوا (مگر) وہ نیک بخت عمداً کچھ نہ بولا۔
-9-
ہم نجنبید و نجنبانید سَروا نکرد از امتحاں ہیچ اُو نظر
ترجمہ: وہ ہلا تک نہیں اور نہ سر ہلایا۔ (رزق کی) آزمایش (کرنے) کی وجہ سے آنکھ بھی بالکل نہیں کھولی۔
-10-
پس بگفتند ایں ضَعیفِ بے مراداز مجاعت سکتہ اندر او فتاد
ترجمہ: پھر کہنے لگے یہ بد نصیب کمزور آدمی بھوک سے سکتے میں مبتلا ہو گیا ہے۔
-11-
ناں بیاوردند و در دیگے طعامتا بریزندش بحلقوم و بکام
ترجمہ: (یہ سوچ کر) وہ روٹی اور ایک دیگچی میں (اور کسی قسم کا پتلا) کھانا لائے۔ تاکہ اس کے حلق اور تالو میں ٹپکائیں۔
-12-
پس بقاصد مُرد دنداں سخت کردتا بداند صدق آں میعاد مرد
ترجمہ: پھر وہ شخص قصداً مردہ بن گیا۔ (اور) دانت بھینچ لیے۔ تاکہ وہ (رزق کے) اس (خدائی) وعدے کی سچائی معلوم کرے۔ (سخت بے ہوشی اور غشی میں دانت بھینچ جاتے ہیں۔)
-13-
رحم شاں آمد کہ او بس بےنواستوز مجاعت ہالکِ مرگ و فنا ست
ترجمہ: ان کو رحم آیا کہ وہ نہایت بے سر و سامان ہے اور بھوک سے مرگ و فنا کا شکار ہو رہا ہے۔
-14-
کارد آوردند و قوم اشتافتندبستہ دندانہانش را بشگافتند
ترجمہ: چھری لائے اور لوگ دوڑے (اور) اس کے بھنچے ہوئے دانتوں کو کھول ڈالا۔
-15-
ریختند اندر دہانش شوربامے فشردند اندراں ناں پارہا
ترجمہ: (اور) اس کے منہ میں شوربا ڈالنے لگے اور اس کے اندر روٹی کے ٹکڑے ملتے (اور ڈالتے) جاتے تھے۔
-16-
گفت اے دل گرچہ خود تن می زنیراز میدانی و نازے مے کنی
ترجمہ: (اب زاہد نے اپنے دل سے مخاطب ہو کر) کہا (کہ) اے دل! اگرچہ تو (امتحانِ رزق کے لیے) خود ہی خاموش ہے۔ (بےہوش نہیں ہوا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ رزق رسانی کے) راز کو تو (بخوبی) جان چکا ہے۔ (اب خاموشی فضول ہے) اور تو (محض) ناز کر رہا ہے۔
-17-
گفت دل دانم بقاصد می کنمرازق است اللہ بر جان و تنم
ترجمہ: دل نے کہا میں سب کچھ جانتا ہوں (یہ خاموشی و بے ہوشی کی حرکات) میں قصداً کر رہا ہوں۔ اللہ میری روح اور جسم کو رزق دینے والا ہے۔
-18-
امتحاں زیں بیشتر خود چوں بودرزق سوئے صابراں خود می رود
ترجمہ: اس سے زیادہ اور آزمایش کیا ہوگی۔ (اب بخوبی ثابت ہو گیا کہ) رزق خود صابروں کی طرف جاتا ہے۔
-19-
تا بدانی و ز توکل نگذریحرص آوردن چہ باشد؟ از خری
ترجمہ: تاکہ تم آگاہ رہو اور توکل (کی حد) سے (آگے) نہ بڑھو۔ (کہ) حرص کرنا۔ کیسا (کام) ہے؟ گدھے پن (کی قبیل) سے ہے۔
-20-
بعد ازاں بکشاد آں مسکیں دہنگفت کردم امتحانِ رزقِ من
ترجمہ: پھر اس مسکین نے (اپنا) منہ کھول دیا (اور) کہا میں رزق کی آزمایش کرتا تھا۔
-21-
ہرچہ گفت ست آں رسولِ پاک جیبہست حق و نیست دروے ہیچ ریب
ترجمہ: جو کچھ اس پاک دل رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ حق ہے اس میں کچھ شک نہیں۔